مارچ ۲۰۰۵ء
عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ہمارے ہاں یہ خوف عام طور پر پایا جاتا ہے جو دن بدن بڑھتا جا رہا ہے کہ مغرب نے عالم اسلام کے وسائل پر قبضہ کرنے، اس کی سیاست کو کنٹرول میں لینے اور اس کی معیشت کو اپنے مفادات میں جکڑنے کے بعد اب اس کی تہذیب وثقافت کو فتح کرنے کے لیے یلغار کر دی ہے۔ یہ یلغار سب کو دکھائی دے رہی ہے اور اس کے وجود اور شدت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کر سکتا، لیکن سوال یہ ہے کہ اس یلغار کا راستہ روکنے یا اس کی زد سے اپنی تہذیب وثقافت کو بچانے کے لیے عالم اسلام میں کیا ہو رہا ہے؟ ہمارے دینی وعلمی حلقوں میں اس یلغار کا جو رد عمل سامنے آ رہا ہے، اس کا وہ رخ تویقیناًخطرناک...
امریکی تعلیمی اداروں میں آزادی فکر کی صورتحال
― بشارہ دومانی
آپ کو کوئی کتاب خریدنی یا لائبریری سے جاری کروانی ہے تو ذرا سوچ سمجھ کر کروائیے۔ ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی، آرویلین نیمڈ پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت آپ کی نگرانی کر سکتا ہے۔ اس قانون کی ایک اور شق کے مطابق اس بات کا بھی خطرہ موجود ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو خبردار کرے کہ حکومت آپ کے کتابوں کے انتخاب کی نگرانی کر رہی ہے تو اس پر فوجداری مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ کلاس روم میں مطالعے کے لیے مواد تجویز کرتے وقت بھی احتیاط کیجیے۔ چیپل ہل کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا پر امریکن فیملی اسوسی ایشن سنٹر فار لا اینڈ پالیسی نے اس بنیاد پر مقدمہ دائر کر دیا تھا...
مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں
― ڈاکٹر محمود احمد غازی
برادران محترم! اس وقت دنیاے اسلام جس دور سے گزر رہی ہے، یہ دور اسلام کی تاریخ کا انتہائی مشکل دور ہے۔ امت مسلمہ کو جو مشکلات آج درپیش ہیں، شاید ماضی میں اتنی مشکلات کبھی درپیش نہیں ہوئیں۔ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کی پوری تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور نبوت کے آغاز سے لے کر، جب آپ دار ارقم میں قیام فرما تھے، آج تک کوئی صدی، اور صدی کا کوئی حصہ یا کوئی عشرہ ایسا نہیں گزرا جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اس میں مسلمانوں کو کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ لیکن ان ساری مشکلات میں اور آج کی مشکل میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ ماضی...
ندوۃ العلماء کا مسلک اعتدال
― ڈاکٹر ہارون رشید صدیقی
شعور کی آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ والد صاحب میلاد خواں اور فاتحہ خواں ہیں، تعزیہ دار ہیں، شب براء ت، محرم، گیارہویں، بارہویں کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ کسی کی موت پر تیجا یا چہارم، چالیسواں اور برسی کرتے ہیں۔ بس یہی دین ہے۔ دہریت تو خواب میں نہ تھی، مگر مذہبیت یہی تھی۔ برٹش دور تھا، سرکاری اسکول کی تعلیم ہوئی جہاں اردو ثقافت کا غلبہ تھا۔ جب میلاد کی کتابیں پڑھ لینے لگا اور والد صاحب کو محسوس ہوا کہ میں ان سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو مجھے اپنا نائب بنا دیا۔ ابھی تک میری ملاقات کسی عالم دین سے نہ ہوئی تھی۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ مذہب کا کام عقلی طور...
اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت
― مولانا سید سلمان الحسینی الندوی
شادی خانہ آبادی کے لیے کی جاتی ہے، خانہ خرابی یا محض عیاشی اور لذت کوشی کے لیے نہیں، اس لیے بغیر کسی وجہ شرعی کے طلاق دینا فعل حرام ہے۔ طلاق صرف اس وقت دینا چاہیے جب ساتھ رہنا دوبھر ہو جائے اور طلاق نہ دینے میں خطرات اور فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس صورت حال کے لیے طلاق جیسی ناپسندیدہ چیز کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ لیکن پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دے دینا چاہیے اور پھر عدت گزر جانے دینا چاہیے۔ طلاق غصہ میں، اشتعال میں اور جذبات میں نہیں دینا چاہیے، غصہ پر قابو پانا چاہیے اور ہر حال میں تعلقات کو خوش گوار رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ تین طلاقیں ایک وقت...
کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟
― سید منظر تمنائی
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرات کا تنازع ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ چونکہ یہ فرقے بنیادی طور پر اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے ان کا مذہبی اعتبار سے یکجا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ ملکی اور ملی اعتبار سے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک مرکز پر آجائیں اور مطلب برآری کے لیے یکجا ہو کر حصول مقصد کو اولین حیثیت دیں اور شیر وشکر ہو کر اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں، لیکن مذہبی اعتبار سے ان کا ایک ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ اگر دونوں فریق باہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں بہرصورت اتفاق رائے سے ایک ہو جانا ہے تو کوئی نظریہ، کوئی خیال...
’’شیعو اور سنیو!‘‘ کے بارے میں گزارشات
― حافظ محمد قاسم
’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۵ کے شمارے میں علامہ سید فخر الحسن کراروی کے مضمون بعنوان ’’شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو!‘‘ کے حوالے سے ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: کراروی صاحب! آپ نے مضمون کے آغاز میں شیعوں اور سنیوں کو ایک اللہ کو ماننے والے اور مومن ومسلم کہا ہے۔ جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ سے نہ صرف عقیدۂ توحید پر قائم ہیں بلکہ ختم نبوت بھی ان کے ایمان کا لازمی جزو ہے، لیکن آپ حضرات نے کلمہ توحید میں تبرا اور جھوٹ کو شامل کر لیا ہے اور اس کے ساتھ نظریہ امامت کو بھی اپنا رکھا ہے جو ختم نبوت کے منافی ہے۔ آپ تو اپنی عبادت گاہ کو بھی مسجد...
مکاتیب
― ادارہ
(۱) (فروری ۲۰۰۵ کے ’الشریعہ‘ میں ’’پیر محمد کرم شاہ الازہری اور فتنہ انکار سنت‘‘ کے زیر عنوان پروفیسر محمد اکرم ورک کے مضمون میں علامہ تمنا عمادی مرحوم کا شمار منکرین حدیث کے ضمن میں کیا گیا تھا۔ اس پر کراچی سے جناب سید عماد الدین قادری نے بھارت سے شائع ہونے والے جریدہ ’’اردو بک ریویو‘‘ کے نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۴ کے شمارے میں مطبوعہ ایک خط کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں تمنا مرحوم کے ایک قریبی رفیق یوسف ریاض صاحب نے اس امر کی تردید کی ہے۔ یہ خط قارئین کی دلچسپی کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔ مدیر)۔ برادرم محمود عالم کی بدولت اردو بک ریویو دیکھنے...
قربِ گریزاں کی ایک غزل
― پروفیسر میاں انعام الرحمن
چناب کی سر زمین گجرات سے تعلق رکھنے والا منیر الحق کعبی بہل پوری بطور کہنہ مشق شاعر و ادیب اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے ۔ حمدیہ کلام میں تغزل کی آمیزش سے: ’’گنگ حرفوں کو زباں دی تو نے، مجھ کو توفیقِ بیاں دی تو نے‘‘۔ کہنے والا شاعر قومی کینوس پر شاید اس لئے نہیں آسکا کیونکہ اس کا تعلق نہ تو لاہور ، کراچی جیسے بڑے شہروں سے ہے اور نہ ہی اسے ’’ پی آر ‘‘ کے لوازمات کے’’ سلسلوں ‘‘پر قدرت حاصل ہے: ’’عذاب ٹھہرا ہر اک سے یہ سلسلہ رکھنا، خدا کے ساتھ بتوں سے معاملہ رکھنا‘‘۔ کعبی کا یہ شعرمومن کے اس شعر کی یاد دلا تا ہے جس کے عوض مرزا غالب اپنا...
مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی کا انتقال
― ادارہ
علمائے لدھیانہ کے معروف خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت محترم بزرگ مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی جمعرات ۷ محرم ۱۴۲۶ کو ضلع جھنگ کے نواحی گاؤں چک ۱۵۱ ماہوں میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ مولانا ابو احمد محمد عبد اللہ لدھیانوی ؒ کے فرزند اور علامہ محمد احمد لدھیانوی کے بڑے بھائی تھے۔
ان کی پیدایش قصبہ دیوبند میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گرامی مولانا محمد عبد اللہ لدھیانوی، جو قبل ازاں علامہ انور شاہ صاحب کشمیری سے دورۂ حدیث میں تلمذ حاصل کر چکے تھے، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے مالٹا سے رہا ہونے کے بعد ان سے دورۂ حدیث...
الشریعہ اکادمی میں یوم کشمیر کے موقع پر تقریب
― ادارہ
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ۵ فروری ۲۰۰۵ بروز ہفتہ یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب کا آغاز جناب غلام اللہ کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض ابوبکر محمود نے انجام دیے۔ مہمان خصوصی اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی تھے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب رمضان خالد آف وہاڑی نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ راجہ گلاب سنگھ نے ۱۵۵ روپے فی مربع میل کے حساب سے پچھتر لاکھ روپے میں انگریزوں سے پورے کشمیر کا سودا کر لیا تھا جس سے کشمیری مسلمانوں کی اصل غلامی شروع ہوئی۔ جناب توقیر...
’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘
― پروفیسر محمد فاروق حیدر
سماجی بہبود عصر حاضر کا ایک اہم موضوع ہے جس پر تصنیف وتالیف کے علاوہ عملی طور پر کی جانے والی کوششیں نمایاں ہیں۔ خاص طور پر مغرب اور اس کے زیر سایہ تنظیمیں (NGOs) جو ظاہری طور پر انسانیت کی فوز وفلاح، ترقی اور خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں، گزشتہ چند سالوں سے ان کے انسانیت سوز مظالم سے ان کا چھپا ہوا گھناؤنا روپ اب کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا، کیونکہ سماجی بہبود کا جو جذبہ ان میں کارفرما ہے، اس کی بنیاد نام ونمود اور دوسروں کے وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے ملکی وقومی مفادات جیسے عزائم ہیں۔ لیکن خدمت انسانیت، سماجی بہبود، رفاہ عامہ...
مارچ ۲۰۰۵ء
جلد ۱۶ ۔ شمارہ ۳
عالم اسلام اور مغرب: متوازن رویے کی ضرورت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
امریکی تعلیمی اداروں میں آزادی فکر کی صورتحال
بشارہ دومانی
مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں
ڈاکٹر محمود احمد غازی
ندوۃ العلماء کا مسلک اعتدال
ڈاکٹر ہارون رشید صدیقی
اجتہادی اختلافات میں معاشرتی مصالح کی رعایت
مولانا سید سلمان الحسینی الندوی
کیا شیعہ سنی اتحاد ممکن ہے؟
سید منظر تمنائی
’’شیعو اور سنیو!‘‘ کے بارے میں گزارشات
حافظ محمد قاسم
مکاتیب
ادارہ
قربِ گریزاں کی ایک غزل
پروفیسر میاں انعام الرحمن
مولانا حافظ محمد طاہر لدھیانوی کا انتقال
ادارہ
الشریعہ اکادمی میں یوم کشمیر کے موقع پر تقریب
ادارہ
’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘
پروفیسر محمد فاروق حیدر