’الشریعہ‘ کے جنوری ۲۰۰۵ کے شمارے میں علامہ سید فخر الحسن کراروی کے مضمون بعنوان ’’شیعو اور سنیو! تاریخ سے سبق سیکھو!‘‘ کے حوالے سے ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں:
کراروی صاحب! آپ نے مضمون کے آغاز میں شیعوں اور سنیوں کو ایک اللہ کو ماننے والے اور مومن ومسلم کہا ہے۔ جہاں تک اہل سنت کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ سے نہ صرف عقیدۂ توحید پر قائم ہیں بلکہ ختم نبوت بھی ان کے ایمان کا لازمی جزو ہے، لیکن آپ حضرات نے کلمہ توحید میں تبرا اور جھوٹ کو شامل کر لیا ہے اور اس کے ساتھ نظریہ امامت کو بھی اپنا رکھا ہے جو ختم نبوت کے منافی ہے۔ آپ تو اپنی عبادت گاہ کو بھی مسجد کہہ کر پکارنا نہیں چاہتے، بلکہ اسے ’امام بارگاہ‘ کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ’اشداء علی الکفار رحماء بینہم‘ کہہ کر صحابہ کرام کی مدح وتوصیف کی گئی ہے، لیکن آپ ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور ساتھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ ان اصحاب قدسی پر تبرا کرتے ہیں۔
آپ حضرات نے ہمیشہ اہل سنت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اور خلافت راشدہ کے زمانے سے طالبان کی امارت اسلامیہ تک ہمیشہ ان کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتے چلے آئے ہیں۔ خلفاے راشدینؓ کے زمانے میں مشہور یہودی عبد اللہ بن سبا نے شیعیت کو پروان چڑھایا اور حضرت علیؓ کے زمانے میں مسلمانوں میں بغض وعناد پیدا کر کے انھیں آپس میں لڑایا۔ سانحہ کربلا میں کوفہ کے شیعوں نے حضرت حسین کو بلا کر شہید کروا دیا جس پر آپ آج تک ماتم کرتے ہیں۔ مصر میں جب فاطمیوں کی حکومت قائم ہوئی تو صحابہ کرامؓ پر سرعام تبرا کیا گیا۔ عراق میں بنو عباس کی خلافت اسلامیہ کو ختم کرنے میں اہل تشیع کا کردار سب سے نمایاں تھا۔ بنو عباس کے آخری خلیفہ کے وزیر ابن علقمی شیعہ نے جس طرح ہلاکو خان کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ اور خلیفۃ المسلمین کو شہید کروایا، تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے۔ سلطان ٹیپوؒ کے دور میں سلطنت خداداد کے شیعہ وزیروں میر جعفر اور میر غلام علی نے انگریز کے ساتھ ساز باز کر کے سلطان کو شہیدا کروا دیا اور خود بڑی بڑی جاگیریں حاصل کر لیں۔
حالیہ تاریخ میں افغانستان میں ایران نے امارت اسلامیہ کے خلاف جنگ کی ابتدا کرنا چاہی، لیکن منہ کی کھانی پڑی۔ بامیان کے پہاڑ ایرانی اسلحہ کے گواہ ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ وہاں ایران کی طرف سے اسلام مخالف تدریسی نصاب تقسیم کیا گیا۔ اب عراق میں مقتدیٰ الصدر کہاں غائب ہو گیا ہے؟ لوگوں کو مروا کر اس نے خود ہتھیار کیوں ڈال دیے ہیں؟ اب بھی عراق کے سنی علاقوں میں مزاحمت جاری ہے، جبکہ آیت اللہ سیستانی امریکی فوجوں اور امریکی بندوقوں کے سائے تلے انتخابات کے حق میں دھڑا دھڑ شرعی فتوے جاری کرتے رہے۔
آپ نے کشمیر کے معاملے میں ایران کی حمایت کا ذکر کیا ہے، لیکن یہ بھول گئے کہ شام، عراق اور اردن پر بھی شیعہ ہی حکمران ہیں اور لیبیا کا کرنل قذافی بھی نصیری شیعہ ہے۔ ان سب ملکوں نے کبھی پاکستان کی کشمیر پالیسی کی حمایت نہیں کی۔ ایران کی حمایت بھی جھوٹی اور منہ دکھاوے کی ہے، ورنہ ساتھ ہی ساتھ بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں کیوں بڑھائی جاتی رہیں؟
اگر لاشوں کے تحفے ایران پہنچے ہیں تو آپ کو کیوں دکھ ہے؟ کیا آپ ایرانی ہیں یا ایران کی مدد سے پھل پھول رہے ہیں؟ یہ لاشیں ان کی اپنی کرتوتوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے ایران گئی ہیں۔ پاکستان میں جہاں بھی خانہ فرہنگ ایران ہے، وہ دہشت گردی کی پناہ گاہ ہے اور وہاں سے تبرا پر مبنی کتب چھاپی جاتی ہیں۔ شیعوں اور خصوصاً ایرانی حکومت کے مسلح غنڈوں نے ۸۴ء اور ۸۶ء میں کوئٹہ میں مسلمانوں کا جو قتل عام کیا اور پاک باز خواتین کی آبرو ریزی کی، اسی طرح کراچی میں جو ظلم ہوئے، وہ آپ کو نظر نہیں آئے؟
شیعوں خصوصاً ایرانی حکومت کی ذہنیت کا اندازہ پاکستان کے سابق کمانڈر انچیف مرزا اسلم بیگ کے ایک بیان سے کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ہفت روزہ ’زندگی‘ لاہور کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
’’اپنا انقلاب (یعنی تشیعی حکومت) دوسرے ممالک میں برآمد کرنے کے ایرانی جذبے نے متعدد مسلم ممالک میں ایران کے متعلق ایک طرح کے مزاحمتی رویے کو جنم دیا ہے۔ میرے خیال میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ آج کے ایرانیوں میں بھی قبل از مسیح کی ایرانی سلطنت (پرشین ایمپائر) کا تصور موجود ہے۔ میرے دور میں ایران کے کمانڈر انچیف محسن رجائی پاکستان آئے تو ان کے پاس اس پرشین ایمپائر کے نقشے موجود تھے۔ وہ مجھے بتاتے رہے کہ ماضی میں پاکستان، کشمیر، افغانستان اور وسط ایشیا کے کون کون سے علاقے ایرانی سلطنت کا حصہ رہے ہیں۔ ایرانیوں کی یہ سوچ علاقائی تعاون کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ ایرانی دعوے تو بہت کرتے ہیں، لیکن عمل کا وقت آتا ہے تو وہ آگے نہیں بڑھتے۔ ہم نے دفاعی میدان میں پیش قدمی کی کوشش کی، لیکن خاص حد پر جا کر وہ رک گئے۔‘‘ (ہفت روزہ زندگی، ۲۳ تا ۲۹ مئی ۱۹۹۲)
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایران کے شیعہ حکمرانوں نے ابھی تک پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور ان کی طرف سے اس کو کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ مرزا اسلم بیگ صاحب کی یہ بات ۱۰ سال کے بعد بالکل سچ ثابت ہو گئی جب ایران نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی کمیشن کے دباؤ پر پاکستان سے لی گئی ایٹمی امداد کے بارے میں تمام راز اگل دیے او ر محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبد القدیر زیر عتاب آ گئے۔
حافظ محمد قاسم
دار العلوم ختم نبوت۔ بلاک ۱۲۔ چیچہ وطنی