معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرات کا تنازع ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گا۔ چونکہ یہ فرقے بنیادی طور پر اختلاف رکھتے ہیں، اس لیے ان کا مذہبی اعتبار سے یکجا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ ملکی اور ملی اعتبار سے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ایک مرکز پر آجائیں اور مطلب برآری کے لیے یکجا ہو کر حصول مقصد کو اولین حیثیت دیں اور شیر وشکر ہو کر اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے رہیں، لیکن مذہبی اعتبار سے ان کا ایک ہونا ناممکن نظر آتا ہے۔ اگر دونوں فریق باہم یہ طے کر لیں کہ ہمیں بہرصورت اتفاق رائے سے ایک ہو جانا ہے تو کوئی نظریہ، کوئی خیال اور کوئی عقیدہ مانع نہیں رہتا کہ درمیان میں کسی قسم کی رسہ کشی کی گنجایش باقی رہے، مگر بنیاد سے ہٹ کر ایک مرکز پر آنا نہ صرف دشوار ترین مرحلہ ہے بلکہ بادی النظر میں ناممکن نظر آتا ہے۔ بنظر غائر مطالعہ کے بعد یہ بات انتہائی واضح نظر آتی ہے کہ بنیاد سے ہٹ کر معاملہ فہمی ممکن نہیں ہے، کیونکہ بنیاد ہی میں جب فرق ہوگا تو دونوں فریق اپنی بنیادی حیثیت کو کبھی ختم کرنے پر تیار نہ ہوں گے۔ بنیادی طور پر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کون سی شے ہے جو ہمیں اسلام میں داخل کر کے مسلمان بناتی ہے۔ یہ چیز ’’کلمہ طیبہ‘‘ ہے۔ اس پہلے کلمہ میں ہی فرق ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
سنی کلمہ یہ ہے : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء ورسل کا کلمہ دو باتوں یعنی توحید ورسالت پر مشتمل تھا۔ صحابہ کرام واہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پوری امت مسلمہ کا بھی یہی کلمہ ہے۔ الحمد للہ آج بھی مسلمانوں کی مساجد، کتابوں اور زبانوں پر اسی مبارک کلمہ کی گونج ہے اور پاکستان بھی اسی کلمے کے نعرے پر حاصل کیا گیا تھا۔ شیعہ حضرات نے کلمہ طیبہ میں توحید ورسالت کے ساتھ تیسرا جزو، ولایت شامل کر کے اپنے لیے الگ کلمہ بنا لیا ہے۔ اس طرح انھوں نے خود کو امت مسلمہ سے جدا بھی کر لیا ہے، کیونکہ وحدت ملت کا سب سے بڑا ذریعہ یہی مبارک کلمہ ہے۔ شیعہ حضرات نے بھٹو دور میں لڑ جھگڑ کر اپنے لیے علیحدہ نصاب دینیات منظور کرایا تھا جس کے لیے مستقل کتاب طبع کروائی گئی۔ اس میں جو کلمہ درج ہے، وہ مندرجہ ذیل ہے:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ وصی رسول اللہ وخلیفتہ بلا فصل (رہنمائے اساتذہ، اسلامیات برائے نہم ودہم، اسلام آباد، ۱۹۷۵ء)
ایرانی انقلاب نے شہنشاہ ایران سے عنان حکومت لے کر حضرت خمینی کے دست مبارک میں دی تو کلمہ اس طرح بنایا گیا:
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ علی ولی اللہ خمینی حجۃ اللہ
بات صرف یہاں تک نہیں رہی ، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کلمہ شہادت میں بھی اضافہ کر لیا گیا۔ ملاحظہ فرمائیے:
اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمدا رسول اللہ وعلی ولی اللہ واشہد ان خمینی روح اللہ حجۃ اللہ علی خلقہ (ماہنامہ وحدت اسلامی، جون ۱۹۸۴ء)
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات کہ اہل سنت اور اہل تشیع حضرات ایک ہو جائیں گے، بظاہر ناممکن نظر آتی ہے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ دونوں گروہ با اختیار ہو کر ایک جگہ بیٹھیں اور خلوص دل اور خلوص نیت کے ساتھ کھلے دل سے طے کر لیں کہ کیا غلط ہے اور کیا درست۔ پھر دونوں حضرات غلط بات کو نہ صرف تسلیم کریں بلکہ بیک وقت ترک کر دیں اور باہم ایک ہو جائیں۔ پھر یہ ممکن ہے، کہ کسی کو کسی پر اعتراض کرنے کا موقع میسر آئے گا اور نہ کوئی اعتراض کی جرات کرے گا۔
ڈاکٹر سید منظر تمنائی
15-A/I، بفر زون، نارتھ کراچی