مولانا محمد اعظم طارقؒ کی شہادت

ملت اسلامیہ پاکستان کے راہنما اور قومی اسمبلی کے رکن مولانا محمد اعظم طارقؒ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح جامِ شہادت نوش کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے قتل کا سانحہ نہ صرف ان کے خاندان اور ان کی جماعت کے کارکنوں کے لیے ایک عظیم صدمے کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ملک کے وہ تمام سنجیدہ وفہمیدہ عناصر بھی اس حادثے پر غم زدہ ہیں جو وطن عزیز میں شیعہ سنی کشیدگی، فرقہ وارانہ قتل وغارت اور امن وامان کی صورت حال پر پہلے ہی خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ 

اس سانحے نے شیعہ سنی تعلقات کے حوالے سے مولانا حق نواز جھنگوی شہید اور ان کے جانشینان کی اختیار کردہ پالیسی کے متعلق ان سوالات کی اہمیت کو ایک دفعہ پھر اجاگر کر دیا ہے جن پر غوروفکر کی دعوت خود سنجیدہ دیوبندی حلقے سراً وعلانیۃً آغاز ہی سے دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اہل تشیع کی جانب سے امہات المومنین اور اکابر صحابہ کرام کے خلاف نازیبا اور اخلاق سے گری ہوئی زبان کا استعمال ایک حقیقت واقعہ ہے، چنانچہ کالعدم سپاہ صحابہ یا اس کی جانشین ملت اسلامیہ پاکستان نے صحابہ کرام کی عظمت وناموس کے تحفظ کے جس مشن کا علم اٹھایا ہے، اس کے جائز اور مبنی بر حق میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کے تدارک کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی گئی، کیا اس کو وضع کرتے وقت ان آثار ونتائج کا پیشگی جائز ہ لے لیا گیا تھا جو، بہرحال، سامنے آنے تھے؟ اور اگر پیشگی ایسا نہیں کیا جا سکا تو کیا پیش آمدہ حالات وواقعات یہ بتانے کے لیے کافی نہیں کہ یہ حکمت عملی حصول مقصد کے لیے کسی بھی طرح سے مفید نہیں بلکہ الٹا غیر مطلوب نتائج پیدا کرنے کا باعث بن رہی ہے؟

اگرچہ قرائن وشواہد یہ بتاتے ہیں کہ مولانا جھنگوی شہید اور ان کے جانشینوں کو اس متشددانہ حکمت عملی کے منفی اثرات نے اس پر نظر ثانی کرنے اور ایک زیادہ قابل عمل، پرامن اور نتیجہ خیز طریقہ کار اپنانے کے لیے ذہنی طور پر بڑی حد تک آمادہ کر دیا تھا، لیکن تشدد اور نفرت کی آگ ایسی ہے کہ اس کو ایک دفعہ بھڑکا دیا جائے تو پھر یہ آگ لگانے والوں کے بس میں نہیں رہتی بلکہ خود انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا اعظم طارق شہید کے جانشینوں میں اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت کا احساس کس حد تک پایا جاتا ہے، لیکن اس بات میں کسی شک وشبہے کی گنجائش نہیں کہ اس سوال کا سامنا کرنے ہی میں ان کے مشن کی کامیابی اور قومی وملی مفادات کے تحفظ کا راز پوشیدہ ہے۔ 


اخبار و آثار

(نومبر ۲۰۰۳ء)

مطبوعات

شماریات

Flag Counter