ایک فعال سیاسی زندگی گزارنے کے بعد نواب زادہ نصر اللہ خان بھی چل بسے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ برصغیر کی کلاسیکل سیاست کے آخری چراغ تھے۔ اس اعتبار سے ان کا سانحہ ارتحال سیاست کے روایتی اسلوب کی بھی موت ہے۔ نواب زادہ نصر اللہ مرحوم نے مروج انداز سیاست کے برعکس جی ایچ کیو کو کعبہ وقبلہ نہیں بنایا بلکہ سیاسی اختلاف رکھنے والوں کو ’’غدار اور ایجنٹ‘‘ قرار دینے سے بھی ہمیشہ گریز کیا۔ ہماری رائے میں یہ ایسا طرز عمل ہے جس کے فروغ کی اشد ضرورت ہے۔
وطن عزیز کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ نواب زادہ مرحوم نے سیاسی فضا کی آشفتہ سری کے باوجود سیاست کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ان کے کردار کا قابل تعریف پہلو یہ ہے کہ انہوں نے کاروباری سیاست نہیں کی، یعنی سیاست میں کاروباری انداز میں ’’سرمایہ کاری‘‘ نہیں کی، بلکہ انہوں نے ہمیشہ ’’خرچ‘‘ کرنے کی پالیسی ہی اپنائے رکھی۔
جہاں تک جمہوریت کے لیے نواب زادہ مرحوم کی خدمات کا تعلق ہے، ان کا احاطہ کرنے کے لیے وطن عزیز کی پچپن سالہ تاریخ کا تذکرہ کرنا پڑے گا جس کے لیے سینکڑوں صفحات درکار ہیں۔ یہاں اتنا عرض کرنا کافی ہوگا کہ اگر پاکستان کی جمہوری جدوجہد میں سے نواب زادہ مرحوم کا کردار نکال دیا جائے اور اس مفروضے کے تحت تاریخ پاکستان کی جمہوری جہت کا مطالعہ کیا جائے کہ نواب زادہ موجود نہیں ہیں تو صاف عیاں ہو جائے گا کہ اس شخصیت کی عدم موجودگی میں آمریت کو چیلنج کرنے کی روایت قائم ہی نہ ہوتی اور آج یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا کہ ملک میں اقتدار اعلیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے یا جی ایچ کیو کو۔
نواب زادہ مرحوم کے بعد اب ہم پھر ایک ’’تاریخی موڑ‘‘ پر کھڑے ہیں۔ آنے والے چند سال بتائیں گے کہ آیا ہماری جمہوری جدوجہد کا مرکز ومحور ایک ہی شخصیت تھی۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک المیہ ہوگا۔ یہ بات ہم اس لیے عرض کر رہے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر کام، خواہ اس کی نوعیت کوئی بھی ہو، شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔ نواب زادہ مرحوم کی قد آور شخصیت کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ ان کی جاری کردہ جدوجہد کی نوعیت اداراتی ہے یا شخصی؟ ہمیں بجا طور پر توقع رکھنی چاہیے کہ نواب زادہ مرحوم کے تربیت یافتگان ان کے وسیع آدرش کو پیش نظر رکھیں گے۔
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے رہے ہیں اور شاید آئندہ بھی کرتے رہیں گے کہ نواب زادہ مرحوم نے ہر حکومت کو ’’گرانے‘‘ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ حکومت کے خاتمے پر نئی حکومت بننے کے بعد وہ پھر ’’پرانا عمل‘‘ شروع کر دیتے تھے اور نئی حکومت کو بھی ’’گرا‘‘ کر ہی دم لیتے تھے۔ اس طرح سیاست میں ان کے کردار پر منفی چھاپ غالب نظر آتی ہے۔ بظاہر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ جمہوریت کا وجود ہی اپوزیشن کی مرہون منت ہے لہٰذا جمہوری حکومت کی مخالفت کرنے سے خرابی نہیں پیدا ہوتی بلکہ ذمہ داری کا عنصر جنم لیتا ہے۔ ویسے بھی کسی بھی جمہوری حکومت کے تمام اقدامات سے ہر شخص کلی اتفاق نہیں کر سکتا اور یہ اپوزیشن کا ہی پلیٹ فارم ہوتا ہے جہاں سے اختلاف کا باقاعدہ اور مسلسل اظہار کیا جاتا ہے۔ باقی رہی بات آمریت کی مخالفت کی تو اس سلسلے میں نواب زادہ کے کردار پر کوئی معذرت خواہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں کیونکہ جمہوریت کا بوریا بستر گول کرنے والوں کا اپنا بوریا بستر بھی ہر صورت میں گول ہی ہونا چاہیے۔
بہرحال نواب زادہ مرحوم کے سیاسی قد کاٹھ اور ان کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے برملا کہا جا سکتا ہے کہ ان کی وفات نے ایک عظیم خلا پیدا کر دیا ہے۔ اب بھلا
’’وقت سے کون کہے، یار، ذرا آہستہ
گر نہیں وصل تو یہ خواب رفاقت ہی ذرا دیر رہے،
وقفہ خواب کے پابند ہیں
جب تک ہم ہیں !!
یہ جو ٹوٹا تو بکھر جائیں گے سارے منظر
(تیرگی زاد کو سورج سے فنا کی تعلیم)
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب پل نہ رہے
کچھ نہ رہے!
وقت سے کون کہے،
یار، ذرا آہستہ!‘‘
جی ہاں، ہم نواب زادہ مرحوم کو ’’وقفہ خواب‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں، خوابِ رفاقتِ جمہوریت۔
اگرچہ وطن عزیز میں جمہوریت صحیح معنوں میں کبھی مستحکم نہیں ہو سکی کہ ہر بار اس کلی کو کھلنے سے پہلے ہی مسل دیا گیا اور پھر کہا گیا کہ اس کے تو ’’تخم‘‘ میں ہی خامی ہے، لیکن نواب زادہ مرحوم نے جمہوریت کے تخم پر بے اعتباری کو کبھی پھلنے پھولنے نہ دیا۔ ان کی رحلت کے بعد بھی ہم دوست ملک چین کے اردو شاعر جناب چانگ شیوآن کے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں،
خزاں گزیدہ چمن میں بہار باقی ہے
کہ تخمِ گل پہ مرا اعتبار باقی ہے