(۱)
دینی مدارس کی سند ۔چند توجہ طلب مسائل
(مولانا مشتاق احمد)
برصغیر میں دینی مدارس کی تاریخ، نصاب اورنتائج پر برسوں سے اہل علم گفتگو کرتے چلے آرہے ہیں۔ دینی مدارس کے متعلق تین قسم کے نقطہ ہائے نظرپائے جاتے ہیں:
ایک گروہ درس نظامی کے چار سو سال پرانے نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی کا روادار نہیں ہے۔ ان پر اتنا سخت جمود طاری ہے کہ باید وشاید۔ احقر نے بعض اہل علم کو یہ کہتے سنا کہ الحمدللہ میں نے تین دفعہ شرح جامی پڑھی ہے ۔اس گروہ کا ایک طرز یہ بھی ہے کہ طلبہ کو بعض کتب مثلاًشرح ماءۃ عامل ،کافیہ وغیرہ حفظ کراتے ہیں۔ راقم کو بعض ایسے حافظ طلبہ سے طالب علمی کے دور میں ملنے کااتفاق ہوا ہے۔ تیسیر المنطق ابتدائی طلبہ کے لیے ایک مشکل کتاب ہے اور اس مشکل کے ازالہ کے لیے بہت سی شروح تو لکھ دی گئی ہیں لیکن تیسیر المنطق کی جگہ تسہیل المنطق وغیر ہ کو داخل نصاب کرنا گوارا نہیں کیا گیا۔ اس طبقہ کے جمود کی مثالوں کا احاطہ کرنے لیے ایک الگ مقالہ درکار ہوگا ۔
دوسراگروہ اس قدیم نصا ب میں مناسب تبد یلیاں کر نے کا خو ا ہا ں ہے۔ مخد و م العلما ء محد ث العصر حضر ت مولانا سید محمد یوسف بنو ر ی قد س سرہ تبدیلی نصا ب کے ایک دور میں پر جو ش داعی تھے۔ لیکن وفا ق المد ا رس کے سربراہ ہو نے کے با و جو د ہ وہ یہ تبد یلیا ں نہ لا سکے۔ معلو م نہیں بعد میں ان کی رائے بدل گئی تھی یا وفا ق المد ارس کو اسم با مسمیٰ بنانے کا تقا ضا غا لب آیا اور دینی مد ارس کو انتشار سے بچا نے کے لیے وہ یہ قد م نہ اٹھا سکے۔
تیسرا گروہ سیکو لر ذہن رکھتا ہے اور ان کے پاس دینی مد ا رس کا نا طقہ بند کر نے کے لیے بے شما ر اعتر ا ضا ت ہیں، مثلاً:
۱۔ دینی مدا رس ’’ بنیا د پر ستی ‘‘ اور ’’دہشت گردی ‘‘ کی تعلیم دیتے ہیں ۔
۲۔ مدارس میں عصر ی تعلیم کا ا نتظا م نہیں ہے۔ وہا ں ڈا کٹر ی ، انجینئرنگ وغیرہ کے کو رس نہیں کر ائے جاتے۔
۳۔ مد ارس کا نصا ب یکسر بد ل دینا چا ہیے۔ دنیا چاند پر پہنچ گئی اور مو لو ی صاحبان ہنو ز صد یاں پیچھے ہیں۔
۴۔ یہ مدارس فرقہ و ا ریت پھیلا نے کے مر ا کز ہیں۔ وغیرہ
اس وقت پہلا گروہ بھی ہما را مخا طب نہیں ہے کہ ہم ان کو جمود تو ڑ نے پر قا ئل کر نے لیے د لا ئل دیں۔ تیسر ے گروہ کے دینی مد ارس پر اعترا ضا ت ہما رے نز د یک خلو ص پر مبنی نہیں ہیں۔ زیا دہ تر بیو رو کریٹ اور حکمرا ن اپنی آ ز ا دی کے لیے دینی مد ا رس کو خطرہ سمجھتے ہیں اور ان کے اعترا ضا ت دینی مدارس کو دبا نے کے لیے ہو تے ہیں۔خلو ص رکھنے والے ان معتر ضین میں بہت کم ہیں۔ تا ہم اس بات کا جا ئزہ لینے کی واقعتا ضرورت ہے کہ ان کے اعتراضات کس حد تک جائز ہیں اور ان کا تد ارک کیسے کیا جا سکتا ہے۔
احقر دوسر ے گروہ سے تعلق رکھنے وا لے ا کا بر کی خد مت میں چند گزا رشات پیش کر نا چا ہتا ہے۔ ان سے التماس ہے کہ و ہ ’’ما قا ل ‘‘ پر نظر فر ما ئیں اور ’’ من قال ‘‘ کو نظر اندا ز فر ما دیں۔ الحکمۃ ضا لۃ المو من کا تقا ضا یہی ہے۔
جدید چیلنج کا مقا بلہ اور عصر ی تقا ضو ں کی رعا یت دین اسلام کی بنیادی خصو صیت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا خا نہ کعبہ کے طر ز تعمیر کو تبدیل نہ کرنا اس با ت کی وا ضح مثا ل ہے۔ فقہ حنفی میں، جس کے ما ننے والے دنیا میں کر وڑوں کی تعداد میں ہیں، عصری تقا ضو ں کی ر عا یت پر مبنی قوا عد و ضو ابط مو جو د ہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا ’’انا نستعد للبلاء قبل نزولھا فاذا ما وقع عرفنا الد خول فیہ والخر وج منہ۔‘‘ ہم مصیبت آنے سے پہلے اس کے مقابلہ کے لیے تیاری کر لیتے ہیں تاکہ جب وہ پیش آئے تو ہمیں معلو م ہو کہ اب کیا کر نا ہے ۔اور مزید فر ما یا ’’ لولا ھذا لیقی النا س فی الضلا لۃ‘‘ اگر یہ پیشگی تیا ری نہ ہو تو لو گ گم کر دہ راہ ہو جا ئیں۔
دینی مدارس میں عصر ی تقا ضو ں کی رعا یت کر نے کے متعلق مو لانا ر ضو ا ن القا سمی لکھتے ہیں :
’’جد ید چیلنج کے مقا بلہ اور عصری تقاضوں کی رعا یت سے میر ی مراد یہ ہے کہ طا لبانِ مدارس درس گاہو ں کے مضبو ط حصا ر سے باہر کے بعد جن حالا ت سے دو چار ہو ں، وہ ان کے لیے ناما نو س اور اجنبی نہ ہوں اور وہ یہ سوچنے پر مجبو ر نہ ہو جا ئیں کہ انہو ں نے اپنی عمر کا ایک معتد بہ حصّہ ایک ایسے قلعہ میں بند رہ کر گز ارا ہے جس کا باہر کی دنیا سے کو ئی رشتہ نہ تھا بلکہ وہ اس پوزیشن میں ہوں کہ موجودہ تمدن کو، جس کے رگ و پے میں الحاد ودہریت کا خون دوڑ رہا ہے ،جس میں علو م ومعارف کے ذریعہ خالق کائنات سے تعلق جڑنے کے بجائے ٹوٹنے اور قرار کے بجائے فرار کی تعلیم دی جاتی ہے، اسلام اور اخلاقی سانچہ میں ڈھال کر مسلمان بناسکیں۔ اسلام کے پیش کردہ نظام حیات اور اس کے تمام شعبوں پر ان کو گہری بصیر ت حاصل ہو۔ اسلام کے خلاف ہونے والے فکری اور نظریاتی اعتراضات سے بھی وہ نابلد نہ ہوں۔ اس کا مسکت جواب دینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہوں اور اس کاجذبہ بھی اور اس پر کامل وقوف بھی۔‘‘ (دینی مدارس اور عصر حاضر صفحہ ۲۱ ،۲۲ بحوالہ برصغیر کے دینی مدارس از مولانا محمد عیسیٰ منصوری ص ۲۳،۲۴)
دینی مدارس کا آٹھ سا لہ نصا ب پڑ ھنے کے با و جو د ایک فا ضل در س نظا می جو مشکلا ت اپنے لیے محسو س کر تا ہے، اس کی چند مثا لیں درج ذیل ہیں :
۱۔ آٹھ سال دینی تعلیم پا نے کے با و جو د وہ فا ضل اتنی استعد اد نہیں ر کھتا کہ ا سلا م کی حقا نیت پر کسی نجی یا عو ا می مجلس میں آدھ پون گھنٹہ سنجیدہ گفتگو کر سکے۔
۲۔ تحر یر کا ملکہ نہ ہو نے کے برابر ہو تا ہے۔ بیشتر د ینی رسا ئل کے متعلق ہما ر ی سو چی سمجھی را ئے یہ ہے کہ ان کو شائع کر نا اور قارئین کا ان کو پڑ ھنا وقت اور و سا ئل کے ضیاع کے سو ا کچھ نہیں ۔اکثر فضلا شستہ اند از تحر یر سے محر و م ہیں۔
۳۔ فضلا تا ر یخ سے بالکل بے خبر ہوتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ خود مسلما نو ں کی چو دہ سو سالہ تا ر یخ کے متعلق کوئی مستند کتا ب نصا ب میں شا مل نہیں ہے۔
۴۔ ہما رے فضلا انگریزی تو ایک طر ف، عر بی بو لنے اور لکھنے سے بھی قا صر ہیں حا لا نکہ دور جد ید میں دعوت دین کے تقا ضو ں کو پو را کرنے کے لیے انگریزی اور عربی میں مافی الضمیرکے اظہار پر قد رت ضروری ہے۔ اس کے بغیر دین کی وسیع خد مت کا حق ادا نہیں ہو سکتا ۔
اس کے علاوہ دینی مدارس کے نظام کی ایک بڑی خامی یہ ہے کہ اسا تذہ کر ام کو طر یقہ تد ر یس کی تر بیت دینے کا کو ئی منظم طر یقہ کا ر مو جو د نہیں ہے جس کے نتیجہ میں تعلیمی زوال جنم لے رہا ہے۔
آمد م بر سر مطلب! اما م ابو حنیفہ کے فر ما ن کو ایک مر تبہ پھر دہرا لیجیے کہ ’’ مصیبت آنے سے پہلے ہم اس کے مقابلہ کی تیاری کر لیتے ہیں تا کہ جب وہ پیش آئے تو ہمیں معلو م رہے کہ اب کیا کر نا ہے۔‘‘ اس دائرے میں تو ہما رے دینی مدارس کی خدمات کا کوئی انکار نہیں کہ ان کی بد ولت مسا جد کے لیے مؤ ذن ، اما م اور خطیب وا فر بلکہ زائد از ضرورت مقد ار میں میسر ہیں۔ ان عہدوں کے لیے کبھی اشتہار بازی نہیں کر نی پڑی۔ کبھی کسی مسجد میں ایسا و ا قعہ پیش نہیں آیا کہ اما م میسّر نہ ہونے کی وجہ سے دو چا ر وقت نما ز با جما عت نہ ہو سکی ہو۔ لیکن عصر حا ضر کے تقا ضو ں کو پو را کرنے کے لیے کو ئی اجتما عی منصوبہ بندی نہیں ہے۔اس کی واضح مثا ل دینی مدارس کی اسنا د کا بحرا ن ہے۔ ہما ری نا قص رائے کے مطا بق یہ درست ہے کہ یہ بحران حکو متی ا شا روں پر پیدا ہوا او ر اس کا مقصد مجلس عمل کو بلیک میل کرنا ہے۔ یہ بھی در ست ہے کہ ان ا سنا د کے متعلق حکو متی پا لیسیو ں میں و ا ضح تضا د ہے۔ یہ سب درست ہے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا کبھی دینی مدا رس کے اربا ب بست و کشاد نے یہ سو چا کہ جہا ں ہم خا لص دینی علوم کے علما تیا ر کر رہے ہیں، وہا ں ہم تخصص کے درجہ میں ہر سا ل دو چا ر علما ایسے بھی تیا ر کریں جو قد یم درسی تعلیم کے ساتھ جد ید تعلیم کی مر وجہ اسنا د کے بھی حامل ہوں؟ ایسے لوگ بوقت ضر ورت کام آتے،حکو متی جبر کا بآ سا نی مقا بلہ کر لیتے اور دینی مدارس کی اسنا د کی اہمیت کو جتلانے کے لیے عجیب و غریب قسم کے استدلالات پیش کرنے کی ضر ورت پیش نہ آتی ۔ہر سال جد ید و قد یم تعلیم کا امتزاج ر کھنے والے دو چا ر علماء کرام تیا ر کرنا ، ہما رے دینی مدارس کی بالعموم اور جمعیت علماء اسلا م اور دیگر دینی و سیا سی جما عتو ں کی بالخصو ص ذمہ داری ہے۔
اگر ہما ری دینی سیا سی جماعتیں وا قعتاً قو م ، ملک اور اسلا م کا درد رکھتی ہیں تو ان جما عتو ں کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطا بق قیادت تیا ر کر نا ہو گی۔ اس کے لیے اپنی انا نیت اور جاہ پرستی کو قر با ن کر نا ہو گا ۔حکو متی دباؤ کے مؤ ثر مقا بلہ کے لیے یہ اقدام ضر وری ہے۔ ورنہ آئے دن اس طرح کے بحر انو ں کا سامنا کر نا ہو گا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ منا سب تیا ری نہ ہو نے کے باعث لبنان، ترکی یا الجزائر جیسے حالا ت پیدا ہو جائیں۔ اگر ایسا ہو ا تو ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستا نو ں میں‘‘ ۔
(۲)
۴۔ اگست ۲۰۰۳ء
جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم
میں روزنامہ اسلام میں آپ کا کالم ’’نوائے حق‘‘ نہایت دلچسپی اور غور سے پڑھتی ہوں۔ ۴/ اگست کے کالم بعنوان ’’دینی خدمات انجام دنے والے عضو بیکار نہیں‘‘ میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں، وہ نہایت غور طلب ہیں۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک امر کی طرف آپ کی توجہ معذرت کے ساتھ مبذول کرانا چاہوں گی۔ وہ ہے دینی مدارس کے وفاقوں کی اسناد کا معاملہ جن کے بارے میں پورے ملک میں شک وشبہے کا طوفان کھڑا ہو گیا ہے۔
میں اس سلسلے میں اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گی۔ محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میرے سب سے چھوٹے لڑکے نے کراچی کے ایک بہترین اسکول سے او لیول اور پھر انٹر کرنے کے بعد جامعۃ الرشید میں پورے خاندان کی مخالفت کے باوجود داخلہ لیا ہے اور اب تیسرے سال میں ہے حالانکہ اس کا انٹر کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاوئنٹنٹ میں داخلہ ہو گیا تھا۔ اس کے بڑے دونوں بھائی کمپیوٹر سسٹم انجینئر ہیں اور ان کے والد بھی مکینکل انجینئر ہیں اور دونوں بہنیں کانونٹ کی پڑھی ہوئی ہیں مگر صرف اس بچے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے گھرانے پر اپنا خصوصی فضل کیا اور ہم کچھ ٹوٹے پھوٹے ہی سہی، دین کی طرف مائل ہو گئے اور ہمارے دلوں میں دین کے لیے درد پیدا ہو گیا۔ اگرچہ عمل میں ہم کورے ہی ہیں، مگر بزرگوں اور اکابر سے ہمارا خصوصی تعلق ہو گیا ہے۔
باوجود اس کے کہ میرا یہ بچہ مدرسے میں پڑھ رہا ہے، خاندان اور برادری کے لوگ اور ملنے والے مدارس کے عام بچوں کی طرح اس کو جاہل نہیں سمجھتے کیونکہ ایک تو اس نے او لیول کیا ہے، دوسرے انگلش آتی ہے۔ اس لیے اگر آپ بزرگوں کی رائے اس بات کے حق میں ہو اور دینی تعلیم اور تربیت پر کوئی فرق نہ پڑے تو جدید تعلیم یافتہ علما تیار کرنے کے لیے دو نکاتی پروگرام پر عمل کیا جائے:
۱۔ پورے پاکستان کے مدارس کے ذہین بچوں کو پرائیویٹ طور پر میٹرک، انٹر، بی اے اور بی کام وغیرہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اس طرح دو سے چھ سال کے عرصے میں ہزاروں گریجویٹ علما تیار ہو سکتے ہیں۔ ہماری قومی عادت صرف باتیں کرنے اور شور مچانے کی ہو گئی ہے اور سستی اور غفلت ہمارے اندر سرایت کر گئی ہے۔ اگر ہمیں مغرب اور خود اپنے ملک کے مغرب زدہ ذہنوں کا مقابلہ کرنا ہے تو خاموشی سے اس تعلیمی منصوبے پر عمل کرنا ہوگا۔
۲۔ علما حضرات کے خاندان، برادری اور ملنے والوں میں جو بچے او لیول کر رہے ہیں، وہ چونکہ میٹرک کرنے والے بچوں سے زیادہ ذہین اور مضامین کو جلد جذب کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، ا س لیے ایسے بچوں کو خصوصی طور پر ترغیب دے کر مدارس میں علم دین کے حصول کے لیے آمادہ کرنے کی کوئی خصوصی پالیسی بنائی جائے ۔ چونکہ ان بچوں کی انگلش خاص طور پر معیاری ہوتی ہے، اس لیے یہ مغربی میڈیا کا بہتر مقابلہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں میٹرک، انٹر اور بی اے کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ لاکھوں کی تعداد میں گائیڈز، حل شدہ پرچے، نوٹس، امکانی پرچے ہر شہر کے گلی کوچے میں بک رہے ہیں۔ یہ بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں طلبہ کی اکثریت، چاہے وہ میٹرک کی ہو یا انٹر اور بی اے کی، امتحان سے صرف ایک یا ڈیڑھ ماہ پہلے کتابیں کھولتی ہے اور کسی نہ کسی طرح رٹ رٹا کر پاس ہو جاتی ہے۔ دینی مدارس کے طلبہ کم از کم اس معیار کی ’’جدید تعلیم‘‘ تو حاصل کر ہی سکتے ہیں۔ تاہم اگر ان اسناد کو حاصل کرنے میں مدارس کے طلبہ کے اصل مقصد یعنی علوم دین کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی ہو تو یقیناًان کا جدید تعلیم سے جاہل رہنا بہتر ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
اگر کوئی بات ناگوار گزری ہو تو معذرت چاہتی ہوں۔
دعاؤں کی طالب
والدۂ عماد
کراچی