حیدر آباد، انڈیا۔ گزشتہ ماہ یہاں ایک خاتون نے ایک پریشان کن معاملے پر اسلامی قانون سے راہ نمائی کے لیے مذہبی سکالروں کے ایک پینل سے رجوع کیا۔ بیوٹی ایڈز مثلاً رنگ دار کنٹیکٹ لینز، کاسمیٹکس، نیل پالش، پاؤں پر موم کا لیپ کرنے اور چہرے کے بالوں کو کم کرنے کے لیے کریموں کے استعمال کے بارے میں پیغمبر اسلام کی راہ نمائی کیا ہے؟ سکالرز نے اپنے مذہبی مآخذ سے رجوع کیا اور کچھ دن کے بعد سائلہ کو جواب دیا: بلش اور آئی لائنر کے محدود استعمال کی اجازت ہے، باقی کسی چیز کی نہیں۔ یہ جواب ایک فتویٰ کی صورت میں دیا گیا جس کا مطلب ہے، ایسا مذہبی فیصلہ جو عام مردوں پر مشتمل مسلمان مفتیوں کا کوئی پینل صادر کر تا ہے۔ تاہم مذکورہ فتویٰ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کو صادر کرنے والی خواتین تھیں۔
’’چند حدود کے اندر میک اپ کرنا درست ہے‘‘ ان میں سے ایک مفتیہ ناظمہ عزیز نے کہا، جو سیاہ حجاب کے پیچھے روپوش تھی جس نے اس کی بڑی بڑی اور بظاہر میک اپ سے خالی آنکھوں کے سوا اس کے سارے چہرے کو چھپا رکھا تھا۔ ’’لیکن جب آپ کوئی رنگ دار لینز استعمال کرتے ہیں تو گویا آپ اپنے خدوخال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ نے جو شکل وصورت آپ کو دی ہے، اس کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘
۲۲ سالہ ناظمہ عزیز ایک مفتیہ ہے اور تین خاتون ارکان پر مشتمل ایک نئے قائم کیے جانے والے فتویٰ پینل (دار الافتاء) کی رکن ہے جو نئی دہلی کے جنوب میں ۷۵۰ میل کے فاصلے پر واقع اس شہر میں، جو کبھی ریاست کی راج دھانی تھا، خواتین کے ایک مذہبی مدرسہ میں کام کر رہا ہے ۔ سکول کی انتظامیہ، بھارت کی اخباری رپورٹوں اور بعض اکیڈمک ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں، اور غالباً پوری سنی دنیا میں، یہ اپنی نوعیت کا پہلا پینل ہے ۔ بہرصورت اس میں سابقہ روایت سے بے حد نمایاں انحراف ہے۔ کئی صدیوں سے مسلم خواتین کو اپنے بہت سے مخصوص جنسی امور مثلاً میک اپ اور حیض ونفاس پر مذہبی راہ نمائی حاصل کرنے کے لیے مردوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اب وہ خط یا ای میل کے ذریعے سے ایک سطر لکھ کر اس مدرسے کی مفتیہ کو بھیج سکتی ہیں جو ’’جامعۃ المومنات‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
اب تک موصول ہونے والے سوالات میں دوسری چیزوں کے علاوہ گھر سے باہر اونچی ایڑی والے جوتے پہننے، طلاق کے بعد بچے کا خرچ فراہم کرنے کی پدری ذمہ داری اور شادی سے قبل چوڑیاں پہننے جیسے امور کے متعلق پوچھا گیا ہے۔
’’اس سے قبل طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے خاوندوں یا گھر کے کسی آدمی کو اپنا سوال بتاتی تھیں جو ان کے سوال کو مفتی کے پاس لے کر جائے اور وہاں سے جواب لائے۔‘‘ محمد حسن الدین نے کہا جو میں سکول کے دار الافتاء کے رئیس ہیں۔’’لیکن اپنے دل میں وہ مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتی تھی۔ یا تو اس لیے کہ پیغام رسانی کے عمل میں سوال کی اصل صورت باقی نہیں رہتی اور یا ممکناً اس لیے کہ کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو وہ پوچھنا چاہتی ہے لیکن نہیں پوچھ سکتی کیونکہ وہ خالصتاً نسوانی مسائل ہیں۔‘‘
ان خواتین مفتیوں نے سماج میں ایک نئی طرح ڈالنے کا آغاز کیا ہے۔ وہ اسلام کی قدامت پسندانہ تعبیر پر یقین رکھتی ہیں، پردے کے قانون کی اس شدت سے پابند ہیں کہ دم گھٹتی گرمی میں بھی کاٹن کے کالے دستانے پہنتی ہیں۔ انہوں نے مذہبی وجوہ سے تصویر کھنچوانے سے انکار کر دیا (اگرچہ حسن الدین نے خوش دلی سے ان کی جگہ تصویر بنوائی) وہ اس پر زور دیتی ہیں کہ ان کا اولین مقصد اسلام کی تبلیغ ہے نہ کہ خواتین کی یک جہتی۔
ناظمہ عزیز نے، جو دوسری مفتیات کی طرح حال ہی میں دو سالہ تربیتی کورس مکمل کر چکی ہے جس کے بعد آدمی اس منصب کی ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے، کہا کہ ’’ہمارے فتاویٰ میں اس بات کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ اس سے خواتین خوش ہوں گی یا ناخوش۔ اصل بات یہ ہے کہ مذہبی مآخذ میں کیا ہدایات درج ہیں۔‘‘
خواتین کے اس کردار کی چند مثالیں ماضی میں ملتی ہیں۔ پیغمبر اسلام کی ازواج میں سے عائشہؓ نے چودہ صدیاں قبل خواتین کے لیے کئی فتاویٰ صادر کیے۔ خواتین مسلم سکالرز غیر رسمی طریقے پر خواتین کو مذہبی راہ نمائی فراہم کرتی چلی آ رہی ہیں اگرچہ ان کی آرا کو اسلامی قانون کا درجہ حاصل نہیں ہو سکا اور مردانہ تفوق کا تصور رکھنے والے مذہبی طبقات نے ان کے اس مقام پر فائز ہونے کی مزاحمت کی ہے۔ مثال کے طور پر مصر میں قاہرہ کے جامعۃ الازہر کی، جو سنی مسلمانوں کی ایک ممتاز درس گاہ ہے، ایک ممتاز خاتون سکالر ۱۹۹۹ء سے ملک کی پہلی خاتون مفتیہ بننے کے لیے مہم چلا رہی ہے۔
یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ بھارت نے، محدود پیمانے پر ہی سہی، دینی مسائل پر خواتین کو تعبیروتشریح کا حق دینے میں مثال قائم کر دی ہے۔ انڈیا کی مسلم اقلیت، جس کی تعداد اندازاً تیرہ سے پندرہ کروڑ تک ہے، اپنی اعتدال پسندی کے لیے مشہور ہے۔ ان خدشات کے باوجود کہ بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی مسلمانوں کے مابین بھی انتہا پسند گروہوں میں اشتعال پیدا کر رہی ہے، مسلمانوں نے بالعموم بھارت کی سیکولر جمہوریت سے ہی وابستگی قائم رکھی ہوئی ہے، یا تو اس وجہ سے کہ وہ اس تصور پر فی الواقع یقین رکھتے ہیں اور یا اس لیے کہ اقلیت میں ہونے کے باعث ان کے لیے اور کوئی راستہ ہی موجود نہیں۔
انور معظم، جو عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ کے ریٹائرڈ سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’’آپ کو بھارتی مسلمانوں کا باقی تمام دنیا سے بالکل الگ طریقے سے مطالعہ کرنا ہوگا‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’فتویٰ پینل امکانی طور پر ایک بڑے واقعے کا چھوٹا سا آغاز ہے۔انہوں نے عورتوں کو اپنے مسائل کے حوالے سے قانونی آرا خود قائم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ ایک بڑا حساس اور نازک مسئلہ ہے۔‘‘
جامعۃ المومنات، جو حیدرآباد کے چند بڑے دینی مدارس میں سے ایک ہے، ۲۰۰۰ طالبات اورنوجوان خواتین کو شہر کے ایک گنجان آباد اور خستہ حال مسلم علاقے کی ایک چار منزلہ غیر معروف عمارت میں روایتی مذہبی تعلیم مہیا کرتا ہے۔اس کی طالبات میں سے ایک ۱۲ سالہ زرینہ بیگم ہے جو دل گرفتہ اور عینک لگائے ہوئے ہے اور پورے قرآن مجید کو زبانی تلاوت کرنے کی صلاحیت نے اسے ’’حافظہ‘‘ کا پرکشش لقب دلوا دیا ہے۔
فخر سے تمتماتے منتظمین اور ایک بیرونی مہمان کے سامنے بے خطا عربی میں قرآن مجید کا ایک حصہ سنانے کے بعد اس نے کہا، ’’یہ بہت اہم ہے کیونکہ اللہ نے قرآن کے ذریعے ہمیں اپنا پیغام بھیجا ہے‘‘ تاہم مدرسے میں بعض جدتیں بھی اختیار کی گئی ہیں۔ مثلاً ایک کمپیوٹر لیب موجود ہے جس میں انٹرنیٹ کے استعمال کی سہولت موجود ہے۔ اسی طرح انگریزی اور ریاضی کی تعلیم بھی مہیا کی جاتی ہے۔ حال ہی میں ایک ویب سائٹ قائم کی گئی ہے اور ۲۱ ستمبر کو خواتین کے دار الافتاء نے اپنا پہلا فتویٰ جاری کیا۔ دار الافتا کے رئیس حسن الدین کو خواتین کے جاری کردہ فتوے کو مسترد کر دینے کا حق حاصل ہے تاہم سکول کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد صرف غلط تعبیر وتشریح کی روک تھام ہے۔
۲۳ سالہ سیدہ عتیقہ طیبہ نے، جو فی الحال چار دوسری خواتین کے ساتھ مفتی کی ذمہ داریاں انجام دینے کے لیے تربیت حاصل کر رہی ہے، کہا کہ ’’لوگوں نے اس بات کو بالکل نظر انداز کیے رکھا کہ خواتین کو متعدد ایسے مسائل درپیش ہوتے ہیں جن کا انہیں حل درکار ہوتا ہے لیکن وہ مردوں کے پاس جانے سے جھجھکتی ہیں۔ یقیناًمیں اپنی والدہ سے بھی وہ سوال پوچھ سکتی ہوں لیکن کیا وہ مجھے ایک عالم دین کی طرح صحیح جواب دے سکتی ہیں؟ ہماری ضرورت تو یہ ہے کہ دین اس معاملے میں کیا کہتا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے ہمیں خاتون مفتیوں کی ضرورت ہے۔‘‘
مفتی خواتین دن میں دو گھنٹے کے لیے اکٹھی ہوتی ہیں اور شہر کی وسیع مسلم آبادی کی طرف سے اب تک انہیں دس سوالات موصو ل ہوئے ہیں، تاہم مدرسے کی انتظامیہ ان تک رسائی کا دائرہ ای میل اور ایک نئی ویب سائٹ کے ذریعے سے، جہاں ان کے جاری کردہ فتاویٰ دیکھے جا سکیں گے، وسیع تر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ بیوٹی ایڈز کے علاوہ مفتی خواتین نے متعدد دیگر مسئلوں پر بھی فتوے جاری کیے ہیں۔ مثلاً عورت اگر اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے والدین سے ملنے کے لیے جائے تو شوہر سے سفر خرچ وصول کرنے کی حق دار نہیں۔ اسی طرح ماہواری کے ایام میں ناخن تراشنا بہتر نہیں۔ کچھ اور سوالات ابھی ان کے زیر غور ہیں۔ مثلاً اونچی ایڑی والے جوتوں کے مسئلے پر ان کا ذہن واضح نہیں۔ ۲۷ سالہ رضوانہ زرین کہتی ہیں کہ ’’یہ ممنوع تو نہیں ہیں لیکن ہمارے مذہب میں مردوں اور خواتین دونوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ عاجزی کے ساتھ چلیں اور چلنے میں تکبر ونخوت کا اظہار نہ کریں۔ اونچی ایڑی والے جوتے پہن کر چلنے میں کچھ نہ کچھ نخوت کا احساس ہوتا ہے۔‘‘ اس سلسلے میں باقاعدہ فتویٰ عنقریب جاری کر دیا جائے گا۔
(واشنگٹن پوسٹ، ۵۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء)