(۱)
کیا عیسائی مسلم اتحاد ممکن ہے؟
(خورشید احمد ندیم، روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور، ۵۔ اپریل ۲۰۰۳ء)
جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہونا ہے، یہ سب نوشتہ دیوار تھا۔ طاقت کے عدم توازن کے بعد، بالخصوص اس وقت جب طاقت اخلاقیات سے بھی عاری ہو، وہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔ معجزے اب نہیں ہوتے۔ دیکھنا صرف یہ تھاکہ عراق کتنے دن مزاحمت کرتا ہے۔ اس کے سوا اس سارے معاملے میں کوئی بات غیر متوقع نہیں تھی۔ یہ حادثہ بلاشبہ معمولی نہیں۔ معلوم نہیں کتنے سال ہمارے ملی وجود سے اس درد کی ٹیسیں اٹھتی رہیں۔ اقبال کا کہنا ہے
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اب دیکھنا ہے کہ یہ سحر کیسے اور کب پیدا ہوتی ہے۔
ہر بڑا حادثہ اپنے اندر امکانات بھی بڑے رکھتا ہے۔ بغداد پر صدیاں پہلے بھی ایک بڑا حادثہ گزرا تھا جس کے نتیجے میں کعبے کو صنم خانے سے پاسباں مل گئے تھے۔ آج پھر اسی بغداد کو تاراج کیا جا رہا ہے۔ اس حادثے کی شدت میں کسے کلام ہو سکتاہے، سوال یہ ہے کہ آج ہمارے لیے اس حادثے میں کیا امکان پوشیدہ ہے؟ اس سوال کا جواب تو وہی دے سکتا ہے جو قوموں کے عروج و زوال پر نظر رکھتا اور واقعات کی ترتیب میں سنت الٰہی کو کار فرما دیکھ سکتا ہے۔ علامہ اقبال ہوتے تو ہمارے لیے آسانی تھی کہ وہ یہ فرض کفایہ ادا کرتے ۔ وہ نہیں ہیں تو آدمی سوچتا ہے کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کہاں جائے۔ ممکن ہے کوئی کہیں اپنی تنہائی کو آباد کیے بیٹھا ہو جس کے پاس اس سوال کا جواب ہو، لیکن جب تک اس کی غیبت ایک حجاب ہے، ہمیں خود ہی دیکھنا ہو گا کہ اس حادثے میں ہمارے لیے کیا امکان پوشیدہ ہے۔
چند روز پہلے ایک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ واقعات جس تناظر میں آگے بڑھ رہے ہیں، یہ خبر بھی بظاہر اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی لیکن مجھے خیال ہو ا کہ اس میں اس امکان کی جھلک ہے، جسے آج ہم نے تلاش کرنا ہے۔ وہ امکان جو قبرستان میں زندگی کی رمق ہے، وہ امکان جو راکھ میں چنگاری ہے۔ خبر یہ ہے کہ بیت اللحم میں عیسائی دنیا کے سب سے متبرک مقام، چرچ آف نیٹیویٹی (Church of Nativity)کے ذمہ داران نے صدر بش، ٹونی بلیئر، رمزفیلڈ اور جیک سٹرا پر اس کلیسا کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عراقی بچوں کے قاتل ہیں اور اس کلیسا میں اپنے ناپاک قدم نہیں رکھ سکتے۔ چرچ آف ٹیٹیویٹی کوئی عام کلیسا نہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جو عیسائی عقیدے میں سیدنا میسح ؑ کی جائے پیدائش ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ چرچ شہنشاہ قسطنطین اور اس کی والدہ ھیلینا نے چوتھی صدی میں تعمیر کرایا تھا، چھٹی صدی میں یو سطنیان نے یہاں ایک عظیم الشان عمارت کھڑی کی۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں کبھی سید نا داؤد بکریاں چرایا کرتے تھے۔ یہیں وہ غار ہے، جہاں بعض لوگوں کے نزدیک سیدنا مسیح ؑ کی پیدا ئش ہوئی ۔انسانی تاریخ کی وہ عظیم الشان شخصیت جو تمام عمر انسانی دکھوں کا مداوا کرتی رہی ہو، جس کی پیدائش ہی ایک معجزہ ہو اور جسے جوانی میں وقت کے ظالم اپنے تئیں مصلوب کر ڈالیں، اس کی جائے پیدائش یقیناًیہ تقدس رکھتی ہے کہ وہاں ایسے وجود داخل نہ ہوں جو گردن گردن انسانی لہو میں ڈوبے ہوں۔ عالم عیسائیت کا یہ اظہار نفرت، میرے نزدیک اپنے اندر وہ امکانات رکھتا ہے ، جس میں یہ جوھر (potential) ہے کہ وہ آنے والے تاریخ کا رخ یکسر بدل دے۔
آج دنیا میں عیسائیوں اور یہودیوں کی جو قربت ہے ،واقعہ یہ ہے کہ کبھی میری سمجھ میں نہیں آسکی۔ آج جسے یہودی عیسائی تہذیب (Juda Christian Civilization ) کا نام دیا جا تا ہے، اس کی منطق بھی ناقابل فہم ہے۔ اہل کلیسا کی یہ سادگی میرے لیے ہمیشہ سوالیہ نشان بن رہی کہ یہودی ان کے وسائل اور سیاسی حیثیت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے اور وہ بڑی سادگی کے ساتھ فریب کھاتے رہے۔ اسلامی دنیا کے حوالے سے امریکہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں دو نقطہ ہائے نظر موجود رہے ہیں، ایک وہ جو تصادم پسند (Confrontation-alists) ہیں اور دوسرے وہ جو مفاہمت پسند (accommodationists) ہیں۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، صرف یہ تذکرہ کفایت کرتا ہے کہ انڈیک (Indyk)، کرک پیٹررک (Kirkpatrick)، ملر (Miller)، ڈینیل پائیپس اور برنارڈلیوس جیسے لوگ جو مسلمان دنیا کے ساتھ تصادم کے علمبردار ہیں، ان کی اکثریت یہودی ہے۔ آج جو پالیسی کا رفر ما ہے، وہ ان جیسے لوگوں کی فکری اور عملی جد وجہد کا نتیجہ ہے، جس نے امریکہ کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا ہے، جس میں اس کی کامیابی ، دراصل اس کی ایک بڑی ناکامی کا پیش خیمہ بننے والی ہے۔ آج امریکہ کی عالمی حیثیت مسلمہ تھی، اسے کہیں سے کوئی چیلنج درپیش نہیں تھا۔ اشتراکی دنیا اس کے زیر اثر تھی اور مسلم دنیا بھی۔ عراق دس مرتبہ بھی کو شش کرتا تو وہ امریکہ کے لیے کوئی چیلنج نہیں بن سکتا تھا۔ آج تو یہ وقت تھا کہ امریکہ اپنے اس غلبے کو تادیر قائم رکھنے کی جد و جہد کرتا، لیکن اسے ایک ایسے راستے پر ڈال دیا گیا ہے، جو اس کے وسائل اور اخلاقی ساکھ دونوں کی تباہی پر منتج ہو گا۔ اخلاقی ساکھ تو ختم ہو چکی۔ اس سے پہلے اگر اس کا تھوڑا بہت لحاظ تھا تو اب آنکھوں کی شرم بھی باقی نہیں رہی۔ یہ بات طے ہے کہ کوئی قوت جب اخلاقی اقدار کو اس بے دردی سے پامال کر تی ہے تو پھر اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ یہ امریکہ کی بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے مرحلے پر جب اسے ایک صاحب بصیرت قیادت کی ضرورت تھی، ایک انتہائی غبی شخص ان کا راہنما ہے۔ اس کے اثرات تو نکلیں گے ۔ممکن ہے کہ اس مرحلے میں امریکی قوم اور مغرب کی غالب عیسائی آبادی میں یہ تاثر بھی ابھرے کہ بش اور بلیئر جیسے لوگ اس تہذیب اور مذہب کے لیے بھی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں، جو سیدنا میسح ؑ کے نام سے منسوب ہے جن کا وجود امن اور محبت کی علامت ہے۔
چرچ آف نیٹیویٹی کا فیصلہ، میرا خیال ہے کہ اسی تاثر کا اظہار ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ چند سو سال میں یہودیوں اور عیسائیوں کا جو اتحاد وجود میں آیا ہے، اس میں عیسائی سرا سر خسارے میں رہے ہیں۔یہی بات میرے لیے ناقابل فہم ہے کہ عیسائی کیوں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کے لیے آمادہ نہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے تو اس معاملے میں دونوں کا اختلاف بہت گہرا ہے۔ یہودی حضرت میسح ؑ اور حضرت مریم کے بارے میں جو خیالات رکھتے ہیں، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور مزید یہ کہ یہودیوں کے برخلاف مسلمانوں میں حضرت مریم اور حضرت عیسی ؑ کو جو تکریم حاصل ہے ، اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جس نے کبھی قرآن مجید پڑھا ہو۔ جس محبت اور عزت کے ساتھ قرآن مجید ان پاکیزہ ہستیوں کا ذکر کرتا ہے، اس کی نظیر تلاش کرنا محال ہے۔ پھر قرآن جس طرح یہودیوں کے الزامات کا جواب دیتا ہے، شاید عیسائی علم کلام میں بھی اس کی مثال نہ مل سکے۔ اس لیے میرے نزدیک اگر کوئی فطری اتحاد ہو سکتا ہے تو وہ عیسائیوں اور مسلمانوں کا ہے۔ یہی وہ سچائی تھی جس نے نجاشی کو رسالت ماٰب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے وفد کی تکریم پر آمادہ کیا۔ اور شاید یہی وہ بات ہے کہ قرآن نے روم میں عیسائیوں کی فتح کی بشارت دی جس پر مسلمانوں نے خوشی منائی۔ میں نہیں جان سکا کہ آج کس چیز نے عیسائیوں کو یہودیوں سے قریب اور مسلمانوں سے دور کیا۔
بغداد پر امریکی یلغار نے اب یہ امکانات پیدا کر دیے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان دنیا اپنے تعلقات پر نظر ثانی کریں اور اس نفسیات سے نکلیں جو صلیبی جنگوں سے منسوب ہیں۔ چرچ آف نیٹیویٹی نے جو پیش قدمی کی ہے، ضرورت ہے کہ اس کا خیر مقدم کیا جائے۔ مسلمانوں کو آگے بڑھ کر عیسائیوں کو،قرآن مجید کے الفاظ میں، اس ’’کلمے‘‘ کی طرف بلانا چاہیے جو آج ہمارے اور ان کے درمیان مشترک ہے۔بغداد کے حادثے نے تہذیبوں کے تصادم، گلوبلائزیشن اور اختتام تاریخ جیسے تصورات کو ڈھا دیا ہے۔ اب ایک نئی دنیا عالم تشکیل میں ہے۔ ہر نئی دنیا ظاہر ہے کہ کسی تصور کے تحت وجود میں آتی ہے۔ اس تصورکی تشکیل ہی وہ امکان ہے جو اس حادثے میں پوشید ہ ہے۔ مسلمان صاحبان فکر آگے بڑھیں اور اس فکری خلا کو پر کریں۔ یہ کام ان سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تمام قدیم صحیفوں پر ایمان رکھنے والے اور اللہ کے آخری غیر محرف کلام کے وارث ہیں۔ کیا مسلمانوں میں کوئی صاحب فکر ایسا ہے جو ان خطوط پر سوچتا ہو؟ نئی دنیا کے لیے اگر ہم فکر ی بنیادیں فراہم کر سکیں تو یہ بات کل سیاست، تہذیب، معیشت ہر چیز کو بدل دے گی۔یہ ایک نئی دنیا کا خواب ہے۔ بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ ایک تصوراتی بات ہو سکتی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ کوئی غور کرنے پر آمادہ ہو تو یہ ناممکنات کی دنیا کا معاملہ نہیں۔ نئی دنیا کے خواب بھی کسی بڑے حادثے کے بعد ہی دیکھے جا سکتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ کے آثار میں ایک نیا خواب دیکھا تھا۔
آب روان کبیر ! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
(۲)
جرمنی کی کاتھولک کلیسا اور مسلمانوں کے حقوق
جرمنی کی کونسل آف کاتھولک بشپس نے ۲۴۔ ستمبر ۲۰۰۳ء کو منعقد ہونے والے ایک اجلاس کے موقع پر جرمنی کے متعلقہ حکومتی حلقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جرمنی میں تقریباً تیس لاکھ کی تعداد میں مقیم مسلمانوں کے جائز مطالبات کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ مثبت تعامل کا مظاہرہ کریں۔ کونسل نے اس موقع پر ’’جرمنی میں مسلمان اور مسیحی‘‘ کے عنوان سے دو سو صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی ہے جس میں کاتھولک چرچ کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ان کے مکمل قانونی اور آئینی حقوق دلوانے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں صرف کرے گی۔ دستاویز میں متعلقہ اہل حل وعقد سے حسب ذیل مطالبات کیے گئے ہیں:
- جرمنی کے سرکاری سکولوں میں مسلمان طلبہ کے نصاب میں اسلامی تعلیمات کا مضمون شامل کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ مسلمان اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔
- ملازمت کے مقامات، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ان کے لیے ایسے کھانے کا انتظام کیا جائے جو اسلامی شریعت کے اصولوں سے متصادم نہ ہو۔
- مسلمانوں کو مساجد کی تعمیر، نمازوں کے اوقات میں اذان دینے اور اپنے تمام دینی شعائر کی آزادانہ ادائیگی کی اجازت دی جائے۔
- مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسوم کے مطابق فوت شدگان کی تدفین اور ان کے لیے الگ قبرستان بنانے کی سہولتیں مہیا کی جائیں۔
کونسل نے مسلمان معلمات کے حجاب پہننے پر عائد پابندی پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا، تاہم انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کاتھولک کلیسا اس معاملے میں ان کی مدد کے لیے کوئی مداخلت نہیں کر سکی۔
دستاویز میں ذمہ دار حلقوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے جائز مطالبات کا کھلے دل سے جائزہ لیں اور مسلمانوں کو اپنے پورے حقوق سے بہرہ ور ہونے دیں تاکہ جرمنی میں مذہبی رواداری کی اقدار اجاگر ہوں جس کے نتیجے میں مسلمان ممالک میں مسیحی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ملے گی۔ دستاویز میں عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مسیحی اقلیت پر عائد کردہ پابندیوں کو نرم کریں، تاہم دستاویز میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مسلم ممالک کے رد عمل میں جرمنی کی مسلم آبادی کے ساتھ اس قسم کے طرز عمل کو روا نہیں رکھا جانا چاہیے۔
کونسل آف بشپس کے صدر کارڈینل کارل لیمان نے کہا کہ مسلم مسیحی مکالمہ کو کئی سال گزرنے کے باوجود اسلام کے صحیح تعارف کی کوششیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائیں کیونکہ ذرائع ابلاغ کے منفی اور اسلام دشمن کردار کی بدولت جرمن عوام کے ذہنوں میں اسلام کی منفی تصویر راسخ ہو چکی ہے۔ لیمان نے کہا کہ مسلمانوں پوری طرح سے جرمن معاشرے کا حصہ نہیں بن سکے جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض انتہا پسند عناصر مذہبی رواداری کے فقدان کی وجہ سے انہیں جرمن معاشرے کا فطری جزو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں مسلمانوں نے متعدد مثبت اقدامات کرنے میں پہل کی ہے لیکن دوسرے فریق کی جانب سے ان کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
لیمان نے بتایا کہ ان کے ادارے نے مذہبی راہنماؤں، میڈیا کے ماہرین اور ماہرین نفسیات پر مشتمل مختلف کمیٹیاں تشکیل دے رکھی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں خوف کی فضا کو زائل کیا جائے، اسلام کی زندہ اور حقیقی تصویر پیش کی جائے اور مسلم مسیحی مکالمہ کو فروغ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم مسیحی مکالمہ کا فروغ جرمن کیتھولک چرچ کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور مذکورہ دستاویز اسی ضمن میں شائع کی جانے والی مطبوعات کے اس سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز جرمن کیتھولک چرچ نے ۱۹۸۲ء میں مسلم مسیحی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے کیا تھا۔
(www.IslamOnline.net۔ ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ ۶۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء)
(۳)
ہم آہنگی کا ایک خوشگوار تجربہ
(جناکی کریمر،’’کرسچین سائنس مانیٹر‘‘، ۹ ستمبر، ۲۰۰۳ء)
انہیں نہ اردو آتی ہے اور نہ وہ روز مرہ دعاؤں کا مطلب سمجھ سکتے ہیں لیکن ایان پیٹرسن (Ian Paterson) کا یہ کمال ہے کہ انہوں نے کنگ عبد العزیز اسلامک سکول کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔ ڈاکٹر پیٹرسن، جو تیس سال تک اعلیٰ طبقے کے ایک مسیحی سکول کے سربراہ رہے، چھ ماہ سے ایک ایسے وقت میں اس مذہبی سکول کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جبکہ آسٹریلیا کے لوگ اسلامی سکولوں کے بارے میں بہت محتاط اور اپنے درمیان بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں بد اعتمادی کا شکار ہیں۔
آسٹریلیا کی مسلم آبادی، جو اگرچہ اب تک امریکہ یا فرانس کی بہ نسبت تعداد میں بہت تھوڑی ہے، آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے ۔ اسی کے ساتھ ساتھ مزید مسجدیں اور مذہبی سکول بنانے کی خواہش میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ان منصوبوں کو غیر مسلم آبادی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے جن کے ذہنوں میں نیو یارک کے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعات اور گزشتہ سال بالی کے بم دھماکے تازہ ہیں۔
ڈاکٹر پیٹرسن نے کہا کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں اپنے آپ کو ایک پل یعنی دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے مابین بہتر مفاہمت کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھتا ہوں، ‘‘ تاہم ناکس گریمر سکول (Knox Grammar School) میں انہوں نے جو دولت اور اعزاز دیکھا، اس میں اور کنگ عبد العزیز سکول، جو سڈنی کے غریب ترین علاقے میں واقع ہے، کی ناگفتہ بہ صورت حال کے مابین تفاوت بہت زیادہ ہے۔
سکول بورڈ کے ڈائریکٹر اکبر خان نے بتایا کہ’ ’جب وہ شروع شروع میں یہاں آئے تو سکول کی حالت دیکھ کر سخت حیرت زدہ رہ گئے۔ باتھ روم کی ٹائلیں ٹوٹی ہوئی تھیں، ٹائلٹ بالکل ناکارہ تھے، بچوں کے لیے سہولتیں نہ ہونے کے برابر تھیں جبکہ گرد وغبار بہت زیادہ تھا، لیکن میں نے ان سے وعدہ کیا کہ ان میں سے زیادہ تر چیزیں چھ ماہ کے اندر اندر ٹھیک کر دی جائیں گی۔ اور ایسا کیا جا چکا ہے۔‘‘
پیٹرسن ۱۹۹۸ء میں، قانون کے مطابق ۶۵ سال کی عمر کو پہنچنے پر، ناکس سے ریٹائر ہوئے تو انہوں نے یشیوا کالج (Yeshiva College)، یعنی ایک قدامت پسند یہودی سکول سے رابطہ کیا جہاں وہ دو سال اس منصب پر فائز رہے۔ جب کنگ عبد العزیز سکول بورڈ نے پیٹرسن سے رابطہ کیا تو اس سے قبل وہ چار سال کے عرصے میں میں چار پرنسپل تبدیل کر چکا تھا، سٹاف کی بار بار تبدیلی کا مسئلہ بھی اسے درپیش تھا اور نظم وضبط بالکل برباد ہو چکا تھا۔
پیٹرسن نے کہا کہ ’’ثقافتی اور مذہبی طور پر میں میری یہاں تعیناتی ناموزوں تھی، لیکن وقت سازگار تھا اور انہیں میری اشد ضرورت تھی‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ جب سے انہوں نے ذمہ داریاں سنبھالی ہیں، سٹاف، طلبہ اور والدین کی طرف سے انہیں خیر سگالی کا پیغام ہی ملا ہے۔ ’’جب میں نے یہاں کام کا آغاز کیا، تو مجھے سب سے زیادہ اچھی بات جو سننے کو ملی، وہ یہ تھی کہ سکول کی کونسل کے ایک رکن نے کہا کہ مسٹر پیٹرسن نے گزشتہ دو سال ایک یہودی سکول میں گزارے ہیں اور اب ان کا خیال ہے کہ اب انہیں ان کے چچا زاد بھائیوں (یعنی مسلمانوں) کے پاس بھی کام کرنا چاہیے۔‘‘ پیٹرسن نے کہا کہ ’’یہ بات مسلمانوں کے حد سے زیادہ تحمل اور رواداری کی دلیل ہے۔‘‘
تاہم کچھ دوسرے لوگوں نے زیادہ رواداری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جس رات آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نے پیٹرسن کے اس سکول کی ملازمت اختیار کرنے پر ایک ٹی وی پروگرام نشر کیا، تو ٹیرا مرا کے اپر مڈل کلاس کے پڑوس میں ان کے گھر کی کھڑکی پر ایک پتھر پھینکا گیا۔ اس کے بعد دھمکی آمیز فون کالیں آئیں جن کے بارے میں انہیں یقین ہے کہ وہ قدامت پرست مسیحیوں کی طرف سے تھیں۔
’’میں بے تکلف کہتا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ مثبت رد عمل جو ملا، وہ سکول، مسلم آبادی اور میرے دوستوں کی جانب سے ہے‘‘۔ حتیٰ کہ جناب مفتی شیخ تاج الدین ہلالی نے بھی، جو آسٹریلیا کے اندازاً تین لاکھ مسلمانوں کے روحانی رہنما ہیں، پیٹرسن کی تقرری کی منظوری دے دی۔ مفتی صاحب کے ترجمان قیصر تراد نے کہا، ’’آئیڈیل صورت حال میں تو ہم ہیڈماسٹر کے طور پر کسی مسلمان ہی کو ترجیح دیتے، لیکن یہ ایک میرٹ پر مبنی نظام ہے اور پیٹرسن اس منصب کے لیے سب سے زیادہ موزوں شخص ثابت ہوئے ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں اچھی باتیں ہی سننے کو ملی ہیں۔‘‘
مسٹر خان نے کہا، ’’ہمارے ساتھ کام کے آغاز سے قبل ہم نے اس قسم کی باتیں باہم طے کر لی تھیں کہ لڑکیوں کو سکارف ضرور پہننا ہو گا اور لڑکے نماز لازماً ادا کریں گے اور پیٹرسن نے اس کے جواب میں نہایت اخلاص سے کہا کہ ’’ہم سب اپنے اپنے طریقے پر خدا کی تعظیم ہی کرتے ہیں۔‘‘
پیٹرسن نے خان سے کہا کہ مذہبی تعلیم کی نگرانی کے لیے ایک الگ کمیٹی تشکیل دے دی جائے۔ اس سے ان پر سکول بورڈ کے اعتماد میں اضافہ ہوا جو، پیٹرسن کے اعتراف کے مطابق، ملازمت اختیار کرنے کے بعد پہلے دو ماہ تک ان کی کڑی نگرانی کرتا رہا۔ ’’جب انہیں ایک دفعہ احساس ہو گیا کہ میں سکول کے کلچر کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تو ان کے انداز میں نرمی آ گئی۔‘‘
ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے پیٹرسن نے کنگ عبد العزیز سکول میں استحکام پیدا کیا اور اس کے نظم وضبط میں اضافہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’مجھے یہاں بڑی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ کچھ والدین میرے طریقوں کی مخالفت کریں گے لیکن انہوں نے مجھے ہر قسم کی آزادی دے رکھی ہے۔‘‘
خان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں فجی، مصر، پاکستان، بنگلہ دیش اور انڈیا جیسے ملکوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے والدین جو اس سے پہلے بہت پریشان تھے، زیادہ تر پیٹرسن سے بہت خوش ہیں۔
ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے پیٹرسن نماز کے اوقات میں سکول کی مسجد میں بھی جاتے ہیں، عام طور پر ایک کونے میں کھڑے رہتے ہیں تاکہ بچے نظم وضبط قائم رکھیں۔ اس سے کچھ نو عمر طلبہ میں تجسس پیدا ہوا۔ ’’ایک دن پرائمری سکول کے طلبہ میں سے دو میرے پاس آئے اور مجھ سے پوچھا کہ میں مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا اور نماز کیوں نہیں پڑھتا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم سب اپنا اپنا مذہب رکھتے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کا لازماً احترام کرنا چاہیے۔ یہ وضاحت کارگر ثابت ہوئی‘‘ پیٹرسن نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ان کا مسیحی ہونا ایک منتظم کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دینے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
صرف ایک فرق کے علاوہ، کہ دوسرے سکولوں میں ہفتہ وار ایک گھنٹے کے مقابلے میں اس سکول میں ہفتہ وار چھ گھنٹے مذہبی تعلیم ضروری ہے، باقی نصاب ملک کے غیر مسلم پرائیویٹ سکولوں جیسا ہی ہے۔ پیٹرسن نے بتایا کہ ’’آسٹریلیا اور باقی مغربی ممالک میں ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ تمام اسلامی سکول دہشت گردی کے اڈے ہیں اور ان سے مذہبی جنونی پیدا ہوتے ہیں، لیکن میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ یہ محض ایک مفروضہ ہے۔‘‘
مسلمان یہ بھی دیکھتے ہیں کہ دوسرے لوگ اتنے کھلے ذہن کے مالک نہیں۔ مصعب لیغا نے، جو وائس آف اسلام ریڈیو کے سربراہ ہیں، بتایا کہ حال ہی میں سڈنی میں دو اسلامی سکولوں کی منظوری کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ ایسا کیوں ہے؟ انہیں یقین ہے کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ حکومت بچوں کو تعلیم کے لیے عام سکولوں میں بھیجنا پسند کرتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے کمیونٹی ہال جو عارضی مسجد کا کام دیتے ہیں، انہیں مقامی حکومتی کونسلوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ مسٹر لیغا نے کہا، ’’وہ ہم سے کہتے ہیں، تم لوگ جمعے کے دن بہت شور کرتے ہو، بہت سی گاڑیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں، اس سے ہمسایے پریشان ہوتے ہیں‘‘ ۔ حکومت کو شبہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام بڑے اجتماع اور اسلامی سکول نفرت اور عدم برداشت کو فروغ دیتے ہیں۔
پیٹرسن اس تعصب کے مقابلے کے لیے دوسرے سکولوں کے بچوں کو اپنے سکول میں آنے اور مسلمان بچوں کے ساتھ ملنے کی دعوت دیتا ہے، جس کے عام طور پر مثبت نتائج نکلتے ہیں۔ ’’مسیحی لڑکے اور لڑکیاں یہ جان کر حیران ہوتے ہیں کہ نصاب زیادہ تر ایک جیسا ہے اور بچے بھی فی الحقیقت ایک ہی جیسے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ جس بات سے الجھن ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں آزادانہ ملاقاتیں نہیں کر سکتے اور لڑکیوں کی شادیاں ان کے ماں باپ کی مرضی سے ہوتی ہیں۔‘‘
وہ بدھ بھکشوؤں اور یہودی ربیوں کو بھی سکول میں دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے مذہب کے بارے میں طلبہ کو آگاہ کریں، اور سکول بورڈ اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ مسٹر تراد، مسیحی اور دیگر مذہبی رہنماؤں کے ساتھ، گزشتہ دو سال سے ملاقاتوں، خطابات اور سیمیناز کے ذریعے سے مختلف مذہبی گروہوں کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے مشن میں مصروف ہیں۔
مسلمانوں کے رابطہ پروگرام گیارہ ستمبر کے بعد سے ۵۰ فی صد بڑھ گئے ہیں لیکن سکول کی سطح پر مسلمان اور غیر مسلم طلبہ کے مابین تعامل اور ابلاغ کے فروغ کے لیے زیادہ کوشش نہیں کی گئی۔ تراد نے، جو لبنانی اسلامک اسوسی ایشن کے ڈائریکٹر بھی ہیں، بتایا کہ ’’ہم مختلف مسجدوں میں ’’کھلے دنوں‘‘ (Open days) کا اہتمام کرتے ہیں جس میں بعض دفعہ ۱۰۰ کے قریب مسیحی آتے ہیں اور ہمارے ساتھ رمضان کے روزے کی افطاری کرتے ہیں، لیکن ان لوگوں میں بچے شامل نہیں ہوتے‘‘ ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’اگر ایان پیٹرسن اس صورت حال کو کسی طرح سے تبدیل کرنے میں مددگار ہو سکتے ہیں، تو یہ ایک بڑی کام یابی ہوگی۔‘‘
تو کیا پیٹرسن یہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی ہم آہنگی کے مستقبل کا دارومدار ان کی کوششوں پر ہے؟
’’زیادہ تر تو مجھے اساتذہ، والدین، اور ضدی قسم کے بچوں کے مسائل کو سنبھالنا ہوتا ہے‘‘ پیٹرسن نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ان کی اس بات سے طلبہ بھی متفق ہیں۔ ایک طالب علم عبد اللہ حکیم نے کہا، ’’اب برا رویہ اختیار کرنے پر بچوں کو سکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ اب ہمارے لیے معاملات ذرا سخت ہو گئے ہیں۔‘‘