مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں تعلیمی سال کا آغاز ۱۸ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ کو ہوا اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے بخاری شریف کے سبق کی ابتدا کر کے نئے تعلیمی سال کا افتتاح فرمایا۔ اس تقریب میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے اساتذہ و طلبہ کے علاوہ معززینِ شہر، مختلف دینی مدارس کے اساتذہ اور جماعتی احباب کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اللہ تعالیٰ کا بے پناہ احسان اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں انسان اور اشرف المخلوقات بنایا، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا کیا، اور ایمان اور دین کی دولت عطا فرمائی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مسند احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
ان اللہ یعطی الدنیا من یحب و من لا یحب ولا یعطی الدین الا من یحب۔
’’اللہ تعالیٰ دنیا اس کو بھی دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اس کو بھی دیتا ہے جس سے اس کو محبت نہیں ہوتی، مگر دین صرف اس کو دیتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔‘‘
حضرت یوسف علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت اور نبوت دونوں عطا فرمائیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو خلافت عطا فرمائی اور نبوت بھی دی۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ ساتھ جِنّوں اور انسانوں پر اقتدار بھی دیا۔ جبکہ دولت قارون جیسے نافرمان کو بھی دی جس کے بارے میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ اس کے خزانہ، یا ایک تفسیر کے مطابق خزانہ کی چابیوں کو نوجوانوں کا مضبوط گروہ (عصبہ) اٹھاتے ہوئے تھک جاتا تھا۔ عصبہ عربی زبان میں دس سے ستر تک کی جماعت پر بولا جاتا ہے، یعنی قارون کے پاس اتنے خزانے تھے کہ دس نوجوانوں کا مضبوط گروہ بھی ان خزانوں کو یا ان کی چابیوں کو نہیں اٹھا سکتا تھا۔ تفسیر ابن کثیرؒ میں ہے کہ قارون کا نام منور تھا اور وہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا رشتہ میں پڑپوتا تھا۔ جبکہ امام رازیؒ نے لکھا ہے کہ قارون حضرت موسٰی علیہ السلام کا چچازاد بھائی تھا مگر سرکشی کی وجہ سے اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق دنیا کی دولت اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور نافرمانوں سب کو مل سکتی ہے مگر دین اور ایمان کی دولت اللہ تعالیٰ صرف اپنے پیاروں کو عطا فرماتے ہیں۔ اور ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں دین پڑھنے اور پڑھانے کی توفیق سے نوازا اور ایمان کی دولت نصیب فرمائی۔
دین کی بنیاد قرآن کریم پر ہے اور حدیثِ رسولؐ اس کی تشریح ہے۔ جبکہ فقہ اسلامی قرآن و سنت سے مستنبط کیے جانے والے احکام کا نام ہے۔ منکرینِ حدیث کہتے ہیں کہ حدیث کی کوئی حیثیت نہیں، مگر یہ بات غلط ہے کیونکہ حدیث کے بغیر قرآن کریم سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اس وقت اس کی تفصیل کا موقع نہیں، البتہ دو تین باتیں ضروری طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں:
- قرآن کریم میں حکم ہے ’’اقیموا الصلوٰۃ‘‘ نماز قائم کرو۔ مگر نماز کی کیفیت، نمازوں کے اوقات، رکعات کی تعداد اور دیگر تفصیلات قرآن کریم میں مذکور نہیں ہیں، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل سے ہی ہم یہ تفصیلات معلوم کر سکتے ہیں۔ اس کے بغیر نماز کی ترتیب اور کیفیت کا تعین نہیں ہو سکتا۔
- اسی طرح قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ ’’واٰتوا الزکوٰۃ‘‘ زکوٰۃ ادا کرو۔ مگر اس میں نصاب کی تفصیل کہ کتنے مال پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، اور زکوٰۃ کی مقدار کہ کتنی رقم زکوٰۃ کے طور پر ادا کرنی ہے، قرآن کریم میں ان کا ذکر نہیں ہے، اور یہ تفصیل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اور عمل سے ہی معلوم ہو سکتی ہے۔
- قرآن کریم میں حج کا حکم ہے اور یہ ارشاد ہے کہ ’’وللہ علی الناس حج البیت‘‘ صاحبِ استطاعت مسلمان پر حج فرض ہے۔ مگر حج کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے اعمال کیا ہیں اور ان میں کیا ترتیب ہے؟ قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائے، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و حدیث سے ہی ان کا علم حاصل ہو سکتا ہے۔
- ابوداؤد شریف میں روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمران بن حصینؓ سے مسئلہ پوچھا اور کہا کہ مسئلہ قرآن کریم سے بتانا۔ اس پر حضرت عمران بن حصینؓ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ قرآن کریم نے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا ہے، اب تم یہ بتاؤ کہ ہاتھ کہاں سے کاٹنا ہے اور قرآن کریم میں اس کی تفصیل کہاں ہے؟ اس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے معافی مانگی۔ چنانچہ مستدرک حاکمؒ کی روایت میں ہے کہ ’’فصار من فقہاء المسلمین‘‘ وہ بعد میں مسلمانوں کے فقہاء میں شمار ہونے لگا۔
منکرینِ حدیث کا کہنا ہے کہ حدیث کو حجت ماننے سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن وہ مغالطہ دیتے ہیں، اس لیے کہ حدیث کو ماننے والے مسلمان سب کے سب نمازوں کی تعداد اور رکعات وغیرہ کی اصولی باتوں پر متفق ہیں، اور ان میں سے زیادہ سے زیادہ جزوی کیفیات پر اختلاف ہے کہ رفع یدین کرنا ہے یا نہیں، آمین آہستہ کہنی ہے یا بلند آواز سے۔ جبکہ حدیث کا انکار کرنے والے گروہ تو نمازوں کی تعداد اور ان کے اوقات پر بھی متفق نہیں ہیں۔ کوئی ایک نماز کہتا ہے، کوئی دو کہتا ہے، اور کوئی چھ نمازیں فرض مانتا ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ ’’فر عن المطر وقام تحت المیزاب‘‘ بارش سے بھاگا پرنالے کے نیچے کھڑا ہو گیا۔
منکرینِ حدیث کے ان اختلافات کی کچھ تفصیل ہم نے اپنی کتاب ’’انکارِ حدیث کے نتائج‘‘ میں بیان کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دیں محدثین اور فقہاء کو کہ محدثینؒ نے احادیث کو مستند طریقہ سے جمع کر دیا، اور فقہاء کرامؒ نے ان کے معانی امت کو سمجھائے۔ حدیث میں متن اور سند بھی ضروری ہے اور معنی اور مفہوم کا سمجھنا بھی ضروری ہے۔ پہلے کام کا اہتمام محدثینؒ نے کیا ہے اور دوسری ضرورت فقہاءؒ نے پوری کر دی ہے۔ امام ترمذیؒ نے ایک مقام پر ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’وکذلک قال الفقہاء و ھم اعلم بمعانی الحدیث‘‘ اور فقہاء نے (اس حدیث کے بارے میں) یہ کہا ہے کہ وہ حدیث کے معانی کو زیادہ جاننے والے ہیں۔
حدیث کی کتابوں میں سب سے اہم بخاری شریف ہے جو امام محمد بن اسماعیل بخاریؒ نے جمع کی ہے۔ امام بخاریؒ کے پردادا مغیرہؒ حضرت یمان جعفیؓ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ امام بخاریؒ کی ولادت ۱۹۴ھ اور وفات ۲۵۶ھ میں ہوئی اور انہوں نے ۶۲ سال سے کچھ زیادہ عمر پائی۔ امام بخاریؒ نے چھ لاکھ احادیث میں سے صحیح بخاریؒ کا انتخاب کیا اور بخاری شریف کا پورا نام یہ ہے: ’’الجامع المسند الصحیح من حدیث رسول اللہ و سنتہ و احکامہ‘‘۔ بخاری شریف کی ترتیب و تدوین ۱۶ سال میں مکمل ہوئی اور احادیث کے اندراج میں امام بخاریؒ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ خود فرماتے ہیں کہ ہر حدیث کے لکھنے سے پہلے میں نے غسل کیا اور دو رکعت نماز ادا کی، پھر حدیث لکھی۔
امام بخاریؒ امت کے عظیم محدث اور باوقار اور غیور عالم تھے جنہوں نے علم کے احترام اور وقار کو اس حد تک ملحوظ رکھا کہ بخارا کے حاکم خالد بن احمد نے امام بخاریؒ سے کہا کہ وہ گورنر ہاؤس آ کر اس کے بچوں کو الجامع الصحیح اور تاریخ پڑھا دیا کریں۔ امام بخاریؒ نے انکار کر دیا۔ آج کا زمانہ ہوتا تو اس پر فخر کیا جاتا کہ گورنر کے گھر جا کر اس کے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ مگر امام بخاریؒ نے اسے علم اور دین کے وقار کے خلاف سمجھا اور انکار کر دیا۔ اس کے بعد گورنر نے کہا کہ چلیں ہمارے گھر آ کر نہ پڑھائیں بلکہ ہمارے بچے خود آپ کے پاس آ کر پڑھیں گے مگر ان کے لیے الگ مجلس کا اہتمام کر دیں۔ حضرت امام بخاریؒ نے اس سے بھی انکار کر دیا اور فرمایا کہ وہ دین پڑھانے میں تفریق نہیں کر سکتے۔ اس پر گورنر بخارا امام بخاریؒ سے ناراض ہو گیا اور اس حد تک تنگ کیا کہ جلاوطن ہو گئے اور سمرقند کے قریب خرتنگ کے مقام پر مسافرت کے عالم میں امام بخاریؒ کا انتقال ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں، آمین۔