مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ اور جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم

ہارون الرشید

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے توسط سے اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عہد باندھا تھا ۔۔۔ وقت آ گیا ہے کہ یہ راز بیان کر دیا جائے، جنرل پرویز مشرف کو اس وعدے سے آگاہ کر دیا جائے اور یہ عہد ان کی طرف منتقل کر دیا جائے۔ ایک صادق اور امین گواہ موجود ہے جو پوری ذمہ داری اور تفصیل کے ساتھ اس تحریر پر شہادت دے سکتا ہے اور جنرل پرویز مشرف اس گواہ سے ذاتی طور پر واقف ہیں۔ یہ ان کے سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود غازی ہیں، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر اور سپریم کورٹ کے سابق جج۔

بہت دن پہلے ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ اس عاجز کو سنایا تھا، انہوں نے اشاعت کی اجازت مرحمت نہ کی تھی۔ جمعہ کی شب جب کسی اور موضوع پر گفتگو کے لیے اس صاحبِ علم کو زحمت دی گئی تو ازراہِ کرم انہوں نے رونگٹے کھڑے کر دینے والا یہ واقعہ میرے لیے دہرایا اور اشاعت کی اجازت عطا کی۔ پورے چوبیس گھنٹے میں نے معاملے کے سیاق و سباق پر غور کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ پیغام منتقل کرنے کا وقت ہے اور اب اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔

یہ آٹھویں عشرے کا ذکر ہے (تاریخ اخبارات کی فائل سے متعین کی جا سکتی ہے) جب مدینہ منورہ سے جنرل محمد ضیاء الحق کے رفیق کار جناب اے کے بروہی نے ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ جدہ سے بھارت جاتے ہوئے نصف دن کے لیے کراچی میں قیام کریں گے۔ وہ ایک انتہائی اہم پیغام لے کر آ رہے ہیں لہٰذا صدر راولپنڈی سے کراچی پہنچ کر ان سے مل لیں۔ معلوم نہیں عظیم قانون دان نے سرکار ﷺ کا حوالہ دیا یا نہیں، تاہم جنرل محمد ضیاء الحق نے فورًا ہی آمادگی ظاہر کی۔ حجاز سے اے کے بروہی بھی ان کے ساتھ آئے۔

جیسا کہ بعد میں جناب بروہی نے ڈاکٹر محمود غازی کو بتایا کہ یکایک انہیں الجھنوں نے آ لیا تھا اور وہ قرار کی تلاش میں حجازِ مقدس گئے تھے۔ مدینہ منورہ میں مولانا ابوالحسن علی ندویؒ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ وہ شخص کہ عالم کی حیثیت سے تاریخ جس کا تذکرہ ابوالکلام آزادؒ، علامہ اقبالؒ، مولانا اشرف علی تھانویؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ کرے گی، اور جہاں تک ان کے خاص ہنر یعنی عربی زبان میں نثرنگاری کا تعلق ہے، ساری دنیا جانتی ہے، عرب و عجم میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ اس آدمی کی ذاتی زندگی اجلی، پاکیزہ اور قابلِ تقلید تھی۔ مدینہ منورہ میں اے کے بروہی نے مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کو یکایک اس حال میں دیکھا کہ اضطراب ان کے پورے پیکر سے پھوٹ رہا تھا۔ سرکار ﷺ کا پاک باز امتی گنبدِ خضرٰی کے سائے میں حیران اور ہراساں تھا، یہ کس قدر تعجب خیز بات تھی!

ابوالحسن علی ندویؒ ایسے لوگ اپنے اضطراب کا راز بیان نہیں کیا کرتے لیکن اے کے بروہی غالباً اسی لیے مدینہ منورہ بلائے گئے تھے کہ پیغام سنیں اور پہنچا دیں۔ ابوالحسن علی ندویؒ نے، جنہیں پیار سے علی میاں کہا جاتا تھا، خواب میں سرکار ﷺ کو دیکھا تھا اور عالی مرتبت ﷺ نے ان سے خواب میں یہ پوچھا کہ انہوں نے آپؐ کی حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟ جیسا کہ بعد میں علی میاں نے بیان کیا، وہ مضطرب ہو کر اٹھ بیٹھے لیکن کچھ دیر میں دوبارہ سوئے تو پھر سے سرکار ﷺ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے دوسری بار سوال کیا، تم نے میری حفاظت کا کیا انتظام کیا ہے؟

رسول اللہ ﷺ کے دونوں امتی اضطراب، حیرت، رنج، خوف اور تعمیل کی آرزو کے ساتھ بہت دیر تک اس سوال پر غور کرتے رہے کہ سرکارؐ کے ارشاد کا مفہوم کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ نور الدین زندگی کا سا معاملہ نہ تھا جب وہ دو بدبخت یہودیوں نے مرقد مبارک میں نقد لگانے کی جسارت کی تھی۔ نو سو برس سے سیسے کی دیواریں جسمِ اطہر کی حفاظت کرتی ہیں، اب اس اشارے کا مفہوم شاید کچھ اور تھا۔

آخر کار وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس معاملے کو عالمِ اسلام کی سب سے بڑی سپاہ کے سردار جنرل محمد ضیاء الحق کے سپرد کر دیا جائے۔ ان کے نزدیک اس پیغام کا مطلب یہ تھا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرزمین بالخصوص اور عالمِ اسلام بالعموم خطرات سے دوچار ہے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات تھی کیونکہ سرکارؐ کو اپنی امت سے بڑھ کر کبھی کسی چیز کی فکر لاحق نہ ہوئی تھی۔ بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ جزا و سزا کے دن جب عظیم الشان انبیاءؑ سمیت ہر شخص اپنی جان کے روگ میں مبتلا ہو گا، سرکارؐ اس روز بھی امت کے غم خوار ہوں گے۔

خیرمقدم ہو چکا، عظیم استقبالیہ تقریب برپا کی جا چکی اور تنہائی کا لمحہ وارد ہوا، یہ وقت ان سب پر بہت بھاری تھا۔ سادہ، سچے اور کھرے آدمی نے، سارا عرب جس کے حسنِ بیاں کا مداح تھا، صاف اور آسان الفاظ میں اپنا خواب دہرایا۔ پھر شائستہ آدمی نے اپنا ہاتھ شائستہ جنرل کے گریبان پر رکھا اور کہا، میں نے سرکار ﷺ کا پیغام آپ کو پہنچا دیا، قیامت کے دن حضورؐ کے سامنے مجھ سے سوال کیا گیا تو اسی گریبان کو تھام کر آپ کو سامنے لے جاؤں گا اور عرض کروں گا کہ میں نے فرض چکا دیا تھا۔ یہ کہتے ہوئے ۷۳ سالہ عالمِ دین رو دیا۔ گداز اور درد کی شدت سے شاید اس کا پورا پیکر کانپ رہا ہو گا۔ بروہی روئے اور محمد ضیاء الحق بھی روئے کہ دونوں گریہ کرنے والے آدمی تھے۔ لیکن جنرل کے لیے یہ فیصلے کی ساعت تھی اور وہ زیادہ دیر تک نہ رو سکا لہٰذا اس نے جلد ہی خود کو تھام لیا۔ پانچ لاکھ فوج اور ایٹمی پاکستان کے سربراہ نے اپنے آنسو پونچھے، پھر انکساری اور عاجزی لیکن محکم لہجے میں انہوں نے کہا، اگر آنجناب کو پھر سے حضور ﷺ کی زیارت نصیب ہو تو نہایت ادب سے عرض گزاریں کہ پاکستانی فوج کا آخری سپاہی تک کٹ مرے گا لیکن مدینہ منورہ اور حرمین شریفین پر آنچ نہ آنے دے گا۔

کون جانتا ہے کہ اس وقت جنرل کی آنکھوں میں کیسی چمک ہو گی اور وہ کن رفعتوں کو چھو رہا ہو گا۔ جنرل نے اپنا وعدہ کس طرح پورا کیا؟ میرا خیال ہے کہ ایٹمی پروگرام کی تکمیل اور حفاظت سے۔ پھر وہ قتل کر دیے گئے اور ظاہر ہے کہ انہیں ان لوگوں نے قتل کیا جو عالمِ اسلام کے دشمن تھے۔ ان کے جانشین صدر غلام اسحاق خان ایک نوکری پیشہ آدمی تھے اور ان سے کسی کو امید نہ تھی، لیکن تاریخ شہادت دے گی انہوں نے امانت داری کے تمام تقاضے پورے کر دکھائے۔ وہ امریکی سازشوں کے سامنے ڈٹے رہے حتٰی کہ اقتدار سے الگ کر دیے گئے۔ بے نظیر کو ایٹمی پروگرام میں مداخلت کی اجازت ہی نہ تھی، وہ ایسی بدقسمت پاکستانی حکمران تھیں جنہیں کہوٹہ میں داخل ہونے کی توفیق تک نہ ہو سکی۔

جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے، جلد ہی کھل جائے گا کہ انہوں نے صرف کارگل پر بہنے والے پاک لہو کا سودا نہ کیا تھا بلکہ وہ افغانستان، اسامہ بن لادن، ایٹم بم اور میزائل پروگرام کا قضیہ چکانے کا وعدہ بھی کر چکے تھے۔ لیکن پھر ایک ذرا سی غلطی انہیں اسی طرح اڑا لے گئی جیسے تنکے کو آندھی اڑا لے جاتی ہے۔ اب یہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے بلند عزم رفقاء کی ذمہ داری ہے جن میں سے بعض کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ شاید گردنیں کٹوا دیں مگر پاکستان اور اسلام سے بے وفائی نہ کریں۔

اس عاجز کا فرض صرف یہ تھا کہ ۱۹۸۰ء کی پاک فوج کے سربراہ نے سید ابوالحسن علی ندویؒ کے توسط سے سرکارؐ کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ ۲۰۰۰ء کی سپاہ اور اس کے سرداروں تک پہنچا دیا جائے۔ اس سوال پر غور کرنا ان کا کام ہے کہ کیا ایٹمی پروگرام کے بغیر یہ وعدہ پورا کیا جا سکتا ہے، اور یہ کہ کیا سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے بعد یہ پروگرام محفوظ ہو جائے گا؟ رہ گیا وہ شخص جو سی ٹی بی ٹی پر دستخطوں کے لیے بہت بے چین ہے تو تحقیق کر لی جائے کہ اس شخص اور اس کی اولاد کے مفادات پاکستان سے وابستہ ہیں یا امریکہ سے؟ ۔۔۔ اس عاجز کے پاس کچھ شواہد موجود ہیں، وقت آیا تو وہ قوم کے سامنے پیش کر دے گا۔ اگر وہ زندہ رہا، اگر اس کا سر اس کے کندھوں پر سلامت رہا۔

’’اور اللہ کی رحمت سے صرف گمراہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔‘‘ (القرآن)

(بہ شکریہ روزنامہ جنگ، کوئٹہ ۔ ۳ جنوری ۲۰۰۰ء)


شخصیات

(فروری ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter