پاکستانی معیشت پر غلبہ کے لیے عالمی بینک کا پروگرام

علی محمد رضوی

پاکستانی معیشت کی کارکردگی کے بارے میں عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ اس لحاظ سے ایک اہم دستاویز ہے کہ اس کے ذریعے ہمیں پاکستان کے بارے میں استعمار کی پالیسی کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

(۱) عالمی بینک کی حکمتِ عملی

معیشت کے ان پہلوؤں پر ورلڈ بینک نے سفارش کی ہے:

  • ۱۹۸۶ء/۱۹۸۷ء سے لے کر ۱۹۹۷ء/۱۹۹۸ء کے درمیان دفاعی اخراجات میں جی ڈی پی کے تناسب سے ۳۳ فیصد کمی۔
  • اسی عرصہ کے دوران حکومتی سطح پر چلنے والے کاروباری اور پیداواری اداروں میں کمی آئی اور ان کی تعداد ۲۰۰ سے گھٹ کر ۱۱۰ ہو گئی ہے۔

یہ بات انتہائی اہم ہے کہ اس رپورٹ میں اس بات کا قطعاً کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ پرائیویٹائز کیے گئے ان اداروں میں ۹۰ فیصد یا تو بھاری خسارے میں جا رہے ہیں یا بند ہو چکے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ ایک طرف تو ورلڈ بینک اخراجات میں کمی بات کرتا ہے، لیکن دوسری طرف قرضوں کی مد میں سود کی ادائیگی، جو کہ اخراجات کے اعتبار سے اہم ترین مد ہے، کے بارے میں ورلڈ بینک بالکل خاموش ہے۔ ۱۹۸۵ء سے لے کر ۱۹۸۹ء تک قرضوں پر سود کی ادائیگی کا مجموعی بجٹ کے اعتبار سے تناسب ۱۴ فیصد سے بڑھ کر ۳۳ فیصد ہو گیا ہے، لیکن قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ورلڈ بینک ہمدردی کے دو لفظ بولنے پر بھی تیار نہیں ہے۔

رپورٹ میں ورلڈ بینک نے پاکستانی معیشت کے جن اصلاح طلب پہلوؤں کی جانب متوجہ کیا ہے وہ یہ ہیں:

  • مجموعی قومی معیشت کے توازن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بجٹ کا غیر متوازن خسارہ ہے (یہ اور بات ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی معاشی دلیل نہیں پیش کی گئی ہے اور اس قسم کی دلیل پیش بھی کیونکر کی جا سکتی تھی کہ ایسی کوئی دلیل موجود ہی نہیں)
  • حکومتی اخراجات کی کمی کے نتیجے میں سوشل ایکشن پروگرام کی مد میں اہم منصوبوں پر عمل متاثر ہوا ہے۔
  • حکومتی اخرجات کی بہتر تنظیم کی راہ میں ادارتی کمزوریاں حائل ہیں۔
  • ورلڈ بینک کے خیال میں وفاقی حکومت صوبوں کے معاملات میں، اور صوبائی حکومتیں بلدیاتی امور میں مداخلت کی مرتکب ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے اخراجات کی مناسب تقسیم اور استعمال نہیں ہو پاتا ہے۔

معیشت کی ان خرابیوں کو درست کرنے کے لیے ورلڈ بینک کے خیال میں مندرجہ ذیل اصلاحات روبہ عمل لائی جانی چاہئیں:

  • بجٹ کے خسارے کو کم کرنا
  • حکومتی سطح پر کیے گئے اخراجات کا بڑا حصہ سوشل سیکٹر اور سود کی ادائیگی کے لیے مختص کرنا۔
  • حکومتی اخراجات کو بہتر طور پر منظم کرنا۔

مندرجہ بالا اصلاحات کو روبہ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ

  • ہر سطح پر حکومت کے معاشی کردار کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔
  • درمیانی مدت کے بجٹ کو سالانہ بجٹ کی ترجیحات کے مطابق بنایا جائے۔
  • حکومتی سطح پر اخراجات کے بارے میں سختی سے ترجیحات مرتب کی جائیں اور اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ترجیح سوشل سیکٹر کو دی جائے۔
  • اخراجات کے سلسلہ میں غیر حکومتی اداروں کو زیادہ اختیارات اور ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔
  • عوامی خدمات کی فراہمی اور انفراسٹرکچر کی تنظیم کا کام زیادہ سے زیادہ صوبائی اور بلدیاتی سطح پر منتقل کیا جائے۔
  • سول سروس کی تنظیمِ نو اور اس کے ڈھانچے کی تشکیلِ نو کی جائے، اور سول سروسز کے حجم کو کم کیا جائے اور اس کو غیر سیاسی ادارہ بنایا جائے۔

مرکزی حکومت کو کمزور کرنا ورلڈ بینک کی پالیسی کا ایک اہم ہدف ہے اور رپورٹ میں اس کا تذکرہ بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کیا گیا ہے۔ حکومت کے کردار کی تعمیرِ نو میں صوبائی حکومتیں اہم کردار ادا کریں گی۔ حکومت ان ذمہ داریوں سے دست کش ہو جائے گی جو پرائیویٹ سیکٹر بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔ رپورٹ میں اس بات پر تاسف کا اظہار کیا گیا ہے کہ ۱۹۹۶ء میں نگران حکومت کی قائم کردہ ڈاؤن سائزنگ کمیٹی نے ۱۵ ہزار حکومتی ملازمین کو فارغ کرنے کی جو تجویز دی تھی اسے پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت چھوٹی ہو، اختیارات کا ارتکاز نہ ہو، اور اس کی ذہنیت کاروباری ہونی چاہیے۔ حکومت کو اشیاء اور خدمات کی فراہمی کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جانا چاہیے اور یہ ذمہ داری پرائیویٹ سیکٹر اور این جی اوز کو سونپ دینی چاہئیں۔ مواصلات اور توانائی کے شعبے نجی شعبہ کو دے دینے چاہئیں، اور اس نجی شعبہ (جو بالعموم بڑی بڑی غیر ملکی کمپنیوں پر مشتمل ہو گا) پر حکومت کو کوئی قابو نہیں ہونا چاہیے، بلکہ انہیں ایسی ’’خودمختار‘‘ ایجنسیوں کے ذریعے ریگولیٹ کیا جانا چاہیے جو کہ مارکیٹ کے اصولوں پر چلتی ہوں۔

رپورٹ میں جو لفظ سب سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے وہ ’’خودمختاری‘‘ ہے:

  • صوبوں کو قومی حکومت کے مقابلے میں خودمختاری دے دی جائے۔
  • بلدیاتی اداروں کو صوبائی حکومت کے مقابلے میں خودمختاری عطا کر دی جائے۔
  • اور سب سے بڑھ کر این جی اوز اس ملک کی ہر حکومت اور ادارے کے مقابلے میں خودمختار ہوں تاکہ وہ یکسوئی سے اس ملک میں اپنے استعماری آقاؤں کی پالیسیوں کو نافذ العمل کر سکیں۔

اس ’’خودمختاری‘‘ میں اضافے کے لیے جو لائحہ عمل ہے اس کے اہم اجزاء یہ ہیں:

  • نج کاری۔
  • عوامی خدمات کی قیمتوں میں مرکزی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر اضافہ۔
  • خدمات کی ادائیگی اور تنظیم کے نظام کو غیر مرتکز کرنا۔

ورلڈ بینک نے مالیاتی سطح پر حکومتی پالیسیوں کو مندرجہ بالا مقاصد کے تحت رکھنے کے لیے درمیانی مدت کے اخراجات کا فریم ورک دیا ہوا ہے، جس کا مقصد حکومتی پالیسی کو ان اہداف کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ موثر طریقہ سے استعمال کرنا ہے۔ معاشرتی سطح پر اس کا ذریعہ سوشل ایکشن پروگرام (ایس اے پی) جس کے تحت فیملی پلاننگ کا کام موثر طریقے سے چل رہا ہے۔ ایس اے پی (سیپ) کا مجموعی مقصد یہ ہے کہ پانی، شہری سہولتیں، تعلیم اور صحت کے حوالے سے فیصلہ سازی کلیتاً استعماری اداروں کے ہاتھ میں چلی جائے۔

(۲) عالمی بینک کی حکمتِ عملی کے اثرات

ورلڈ بینک کی حکمتِ عملی کے تین اجزاء ہیں:

  • حکومتی اخراجات میں زبردست کمی اور اس کی ترتیبِ نو۔
  • مالیاتی نظام پر استعماری اداروں کا غلبہ قائم کرنا، بالکل اسی طرح جس طرح سیپ کے ذریعے سوشل سیکٹر میں استعماری اداروں کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے۔
  • حکومتی عمل پر مارکیٹ کی اجارہ داری قائم کرنا۔

موجودہ حکومتیں ورلڈ بینک کی اس پالیسی کو نافذ کرنا چاہتی ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ پاکستانی ریاست کمزور ہو۔ لیکن جیسا کہ ہم ثابت کریں گے کہ یہ بات ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے کہ مندرجہ بالا حکمتِ عملی پر عمل کیا جائے اور پاکستانی ریاست کمزور نہ ہو۔ حکومتی اخراجات میں کمی حکومتی طاقت، قوتِ نافذہ اور کنٹرول کو ختم کرنے کا مجرب نسخہ ہے۔ حکومتی اخراجات میں کمی کے نتیجہ میں اختیارات حکومت سے ان اداروں یا ایجنسیوں کو منتقل ہو جاتے ہیں جن کو اخراجات استعمال کرنے کی یہ قوت منتقل ہوتی ہے۔

مغربی ممالک میں ریگن اور تھیچر کے دور کے بعد حکومتی اخراجات میں کمی کے نتیجہ میں حکومت کی اتھارٹی ختم ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک اپنے وسائل کے ضیاع میں سب سے آگے ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں او ای سی ڈی ممالک میں ۲۰ ملین سے زائد افراد مستقل طور پر بے روزگار ہیں۔ کئی اہم صنعتوں میں استطاعت کا ناکافی استعمال ایک اہم مسئلہ ہے۔ طلب میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں زرعی اور دوسری مصنوعات بڑی تعداد میں تلف کرنا پڑتی ہیں۔ مغربی حکومتیں روز افزوں معاشی اور تکنیکی عدم کارکردگی کے آگے بے بس اور خاموش تناظر ہیں۔ مغربی ممالک میں بھی حکومتیں فینانشل مارکیٹوں کے مصنوعی پھیلاؤ، مجموعی پیداوار میں جمود، ماحول کی روز افزوں برتری، نسلی نفرت کی روز افزوں افزائش، اور مستضعفین کے نظامِ امداد میں کمی جیسے مسائل کے آگے بے بس ہیں۔ جو بھی ’’نظریہ‘‘ معاشی کارکردگی میں اضافہ کا نسخہ حکومتی اخراجات میں تخفیف کو قرار دیتا ہے وہ بدیہی طور پر غلط ہے۔

پاکستان میں حکومتی اخراجات میں کمی کے اثرات تباہ کن ہوں گے، اس کی دو وجوہات ہیں:

  • اولاً تو حکومت کے علاوہ کوئی اور دوسرا ادارہ موجود ہی نہیں ہے جو انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے مطلوب پیسہ اور وسائل فراہم کر سکے۔
  • پاکستان میں حکومتی اخراجات کے بارے میں مختلف مطالعہ جات یہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومتی سرمایہ کاری نجی سرمایہ کاری کو ’’کھینچتی‘‘ ہے۔ اس لیے حکومتی اخراجات میں کمی نجی سرمایہ کاری میں کمی کا باعث بنے گی۔

اس بات پر زور دینا بھی ضروری ہے کہ بجٹ میں خسارہ یا اس کی شرح میں اضافہ فی نفسہ مجموعی قومی معیشت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس اگر بجٹ کا خسارہ بالیدگی میں اضافے کا باعث بنے تو ایسا خسارہ مجموعی قومی معیشیتی کارکردگی کے لیے سودمند ہے۔ کئی او ای سی ڈی ممالک کا تجزیہ بتاتا ہے کہ بجٹ کا خسارہ پیداوار، روزگار اور مناع میں اضافہ کا باعث بن کر مجموعی معیشت کو بہتری کی طرف گامزن کرتا ہے۔ اس لیے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ خسارہ کو کس طرح ختم کیا جائے بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے نظام کو کس طرح تسلی بخش بنایا جائے۔ قرضوں کی ادائیگی کے ضمن میں اور بجٹ کے خسارہ کے حوالے سے اگر کوئی چیز معیشت کے لیے خطرناک ہے تو وہ صرف قومی اور بین الاقوامی قرضوں پر سود کی ادائیگی ہے۔ اس بارے میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۸۰ء کی رپورٹ پر عملدرآمد کیا جائے تو قرضوں کی ادائیگی کا نظام بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

حکومتی اخراجات میں کمی کا سب سے برا اثر دفاعی شعبہ پر پڑے گا۔ پہلے ہی اضافی اعتبار سے دفاعی اخراجات پر رقم آدھی رہ گئی ہے۔ استعماری ادارے پاکستان کو نیوکلیئر پروگرام ختم کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے مختلف قسم کی چالیں چل رہے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اپنی قومی خودمختاری کا تحفظ کیا جائے اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہ کیے جائیں۔ ایک مکمل نیوکلیئر پاور کی استطاعت کشمیر میں ہندوستان کے ظلم و ستم کے خلاف واحد ہتھیار ہے، اس کا تحفظ ضروری ہے۔

عام خیال کے  برعکس پاکستانی معیشت چھوٹی اور کھلی معیشت نہیں ہے جو بیرونی تجارت یا بیرونی سرمایہ کی مرہونِ منت ہے۔ پاکستان کی تجارت جی این پی کا صرف تیس فیصد ہے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ محض دو فیصد ہے، اور امریکہ سے تجارت مجموعی قومی پیداوار کا صرف ۲۴ فیصد ہے، جبکہ مجموعی بیرونی سرمایہ کاری صرف ۱۲ فیصد ہے۔

آئی ایم ایف کو چاہیے کہ ان اعداد و شمار کا بغور مطالعہ کرے۔ مغرب کی پاکستان کو سزا دینے کی استطاعت نہایت محدود ہے۔ قرضوں کی ری شیڈولنگ کے پروگرام جو آئی ایم ایف مرتب کرتا ہے، پاکستان کی ضرورت نہیں ہیں بلکہ استعماری طاقتوں کی ضرورت ہیں۔

حکومتی اخراجات میں کمی کے ذریعے عالمی استعماری ادارے پاکستانی ریاست کے اثر و نفوذ کو ختم کر کے اختیارات استعماری ایجنسیوں، استعماری اداروں اور استعمار کے گماشتوں کے حوالے کر دینا چاہتے ہیں۔ عالمی بینک کی معاشی پالیسیوں کے لیے کوئی معاشی دلیل نہیں ہے۔ جیسا کہ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ممالک میں ان پالیسیوں کے نتیجہ میں معاشی طور پر تباہی و بربادی اور ریاستوں کی قوت و اختیارات میں کمی اور استعماری گرفت میں مضبوطی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ

  • ریاست کے اخراجاتی معیشت کو ختم کرنے
  • ریاست کو کمزور کرنے
  • ریاست کے اختیارات کو صوبوں، بلدیاتی اداروں اور این جی اوز کو منتقل کرنے

کی بھرپور مخالفت کریں کیونکہ یہ ریاست کو تباہ کرنے، معاشرہ اور فرد کو قربانی اور جہاد کے لیے نا اہل بنا کر اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔

(بہ شکریہ: ماہنامہ ساحل، کراچی)

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(فروری ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter