امریکہ، اسلام اور دہشت گردی

ولیم بی مائیلم

(اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفیر جناب ولیم بی مائیلم نے ۲ دسمبر ۱۹۹۹ء کو انگلش اسپیکنگ یونین لاہور کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسلام اور دہشت گردی کے حوالہ سے امریکی حکومت کے موقف اور پالیسیوں کی وضاحت کی ہے، ان کا یہ خطاب روزنامہ نوائے وقت لاہور کے شکریہ کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس پر مدیر ’’الشریعہ‘‘ مولانا زاہد الراشدی کا تبصرہ آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ادارہ)



امریکہ کے سفیر ولیم بی مائیلم کا خطاب

آج میں وہ کچھ کرنا چاہتا ہوں جو کسی بھی مقرر کے لیے ایک انتہائی مشکل کام ہو سکتا ہے یعنی ایک ایسے تصور کی بیخ کنی کرنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا جو ذہنوں کی گہرائی میں جاگزیں ہو چکا ہو۔ یہ تصور نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ امکانی طور پر خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اور وہ تصور یہ ہے کہ امریکہ اسلام کو اپنا دشمن گردانتا ہے اس لیے مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ امریکہ سے دشمنوں جیسا سلوک کریں۔ اس تصور کے شواہد بہت نمایاں ہیں اور اس کے لیے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ یہاں پاکستان میں یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں بعض سیاسی یا مذہبی انتہاپسند، غیر ذمہ دارانہ بیانات میں اپنے دینی بھائیوں سے کہتے رہتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی امریکی نظر آئیں انہیں نشانہ بنایا جائے۔ جبکہ امریکہ میں اس قسم کے عاقبت نا اندیش تصورات اتنے نمایاں نظر نہیں آتے لیکن بدقسمتی سے وہاں بھی کچھ ایسے ناسمجھ لوگ موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اگر امریکہ کا دشمن نہیں تو کم از کم ان کے ملک کے لیے خطرہ ضرور ہے۔ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ سوچ نہ صرف قابلِ مذمت بلکہ انتہائی خطرناک ہے۔

اگر آپ اخبارات پڑھتے ہیں تو آپ کے علم میں ہو گا کہ میں نے گزشتہ سال کئی تقاریر میں اس قسم کے غلط اور کم فہم رویوں کی مخالفت کی ہے۔ اکثر اوقات میں ان تصورات کو نظریاتی اور تاریخی حوالوں کی روشنی میں دیکھتا ہوں تاکہ اس عظیم فلسفیانہ باہمی مطابقت کو اجاگر کیا جا سکے جو دونوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میں حقائق کے برعکس ان تاریخی اور واقعاتی حوالوں پر بھی نظر رکھتا ہوں جو ایسے نتائج اخذ کرنے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں کہ امریکہ اور اسلام ایک دوسرے کے دشمن ہیں یا فطری حریف ہیں۔

آج میں تصورات و نظریات کی بلندیوں کے تذکرے کے بجائے ایک ایسے موضوع پر اظہارِ خیال کروں گا جس کا تعلق عملی سیاست کے نشیب سے ہے۔ یہ مسئلہ اسلام سے خوفزدہ امریکیوں اور امریکہ کو دشمن سمجھنے والے مسلمانوں کے ان اندیشوں کا نتیجہ ہے جو اسلام اور دہشت گردی کو گڈمڈ کر دینے سے پیدا ہوئے۔ میں بلا خوفِ تردید یہ کہتا ہوں کہ امریکی حکومت اور بیشتر امریکی عوام اس الجھن کا شکار نہیں ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ یا بیشتر مسلمان بھی اس الجھن میں مبتلا نہیں ہیں، لیکن ہم میں سے ایک بہت چھوٹی سی اقلیت کا بھی اس مخمصے کا شکار ہونا انتہائی مہلک اور تباہ کن ہے۔

امریکہ کی جنگ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے۔ دہشت گردی انسانی تاریخ کے لیے نئی نہیں ہے۔ البتہ حالیہ عشروں میں یہ ان لوگوں کا پسندیدہ ہتھیار بن گئی ہے جنہیں عوامی اور اخلاقی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے نہ تو سیاسی جدوجہد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے نظریات رائے عامہ کے لیے کوئی کشش رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کسی ایک مذہب، علاقے یا سیاسی گروہ تک محدود نہیں ہے۔ بدقسمتی سے آپ کا وطن اور میرا وطن دونوں ہی نہ صرف داخلی دہشت گردی بلکہ بیرونی شہہ پر کی جانے والی دہشت گردی کا شکار ہیں۔

امریکی کانگریس نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت انتظامیہ ہر دو سال میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست مرتب کرنے کی پابند ہے۔ اس سلسلے کی دوسری فہرست گزشتہ ماہ سامنے آئی ہے، اس فہرست میں اٹھائیس تنظیموں کے نام شامل ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں یعنی اس سے قطع نظر کہ یہ چھوٹی سی اقلیت کیا سمجھتی ہے، یہ فہرست نہ تو صرف اسلامی گروپوں پر مبنی ہے اور نہ ہی اس میں شامل ناموں میں غالب اکثریت مسلمان گروپوں کی ہے۔ بلاشبہ اس فہرست میں اسامہ بن لادن کی تنظیم القائدہ (Al-Qaida) شامل ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس میں جنوبی امریکن، جاپانی، یورپی اور ایشیائی دہشت گرد گروپ بھی شامل ہیں۔

دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ کا نشانہ کوئی مذہب یا نظریہ نہیں بلکہ ہماری جنگ ان مجرموں کے خلاف ہے جو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قتل اور تشدد کی راہ اپناتے ہیں۔ یہ دستاویز محض ان تنظیموں کے ناموں پر مشتمل فہرست نہیں ہے جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں، بلکہ یہ ایک ایسا مؤثر ہتھیار ہے جسے حقیقی دہشت گردوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں آپ کے سامنے کچھ ایسے ٹھوس نتائج بیان کر سکتا ہوں جو اس ہتھیار کے استعمال سے حاصل ہوئے ہیں:

  • دس سال قبل پین امریکن کی پرواز ۱۰۳ کی بم دھماکے سے تباہی کے دو مشتبہ ملزمان اب حراست میں ہیں اور اسکاٹ لینڈ کی عدالتیں ان کے خلاف مقدمے کی سماعت کی تیاری کر رہی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کے ضمن میں ہمارا حافظہ بہت ہی قوی ہے۔
  • الخبر (Khobar) سعودی عرب میں بم دھماکے کے ایک مشتبہ ملزم کو مقدمہ چلانے کی غرض سے گزشتہ ماہ سعودی عرب بھیج دیا گیا۔
  • ہم نے حال ہی میں افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشتبہ ملزم کو متعلقہ ملک کے حوالے کیا ہے جو ہمارے خیال میں دارالسلام میں امریکی سفارتخانے میں بم دھماکے میں ملوث ہے۔

امریکہ کے ساتھ ساتھ بہت سے مسلمان ممالک بھی دہشت گردی کا شکار ہیں، دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ میں ہم ان حکومتوں سے بھی تعاون کرتے ہیں جو دہشت گردی کا نشانہ اور شکار ہیں۔ ہم نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ساتھی ممالک بلکہ کئی ایسے دوسرے ملکوں سے بھی قریبی تعاون کر رہے ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کا عزم کر رکھا ہے۔ ہم ان ملکوں کو صرف اپنی فہرستوں سے استفادہ کرنے یا محض یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتے کہ وہ اپنے حفاظتی انتظامات بہتر بنائیں، بلکہ انسدادِ دہشت گردی کے پروگرام کے تحت بھی ان سے تعاون کرتے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت فنڈ مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی امریکی سفیر مثال کے طور پر یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے خیال میں ہوائی اڈے پر آپ کے حفاظتی انتظامات کمزور اور ناقص ہیں اور ہم انہیں بہتر بنانے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس طرح نہ صرف متعلقہ ملک کو تربیتی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں بلکہ ہمارے سفارت خانوں اور متعلقہ ممالک کے سکیورٹی کے اداروں کے تعلقات مستحکم ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تعلقات نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں اور ہمیں دنیا بھر میں ہوائی اڈوں کے ذریعے نقل و حرکت کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کا موقع ملتا ہے اور خاطرخواہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔

امریکہ روادار، جامع، اور جمہوری معاشروں کا حامی ہے

اب تک میں نے ان باتوں پر اظہارِ خیال کیا ہے جن کا امریکہ مخالف ہے یعنی دہشت گردی اور جبر و ظلم۔ لیکن اب کچھ ذکر ان باتوں کا جن کا امریکہ حامی ہے اور یہ کہ مسلمان ملکوں سے ہمارے تعلقات پر وہ کس طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کو اپنے آئین اور ان مخصوص سیاسی اداروں پر فخر ہے جو اس نے پروان چڑھائے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ انہیں مثالی اداروں کی حیثیت سے دوسرے ملکوں کو براہ راست برآمد نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کے بجائے ہم ایسے معاشروں کے فروغ کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتے ہیں جو روادار، جامع اور جمہوری ہوں۔

مغرب اور عالمِ اسلام دونوں میں کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں: آیا اسلام جمہوریت سے ہم آہنگی اور مطابقت رکھتا ہے؟ ایران اور افغانستان میں سیاسی اسلامی تحریکوں کے بعض مغربی ناقدین کی رائے ہے کہ مذہب کے زیراثر اسلامی حکومتیں روادار اور جمہوری نہیں ہو سکتیں۔ عالمی سیاست میں مغرب کی بالادستی کے مخالف بعض مسلمان ناقدین سمجھتے ہیں چونکہ جمہوری ادارے مغربی سامراجیت کی دین ہیں اس لیے اگر امریکہ روادار، جامع اور جمہوری معاشروں کی حمایت کرتا ہے تو گویا وہ عالمِ اسلام سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے۔

اسلامی نظام کے بعض حامیوں نے اسلام کے اصولوں اور دلائل کی آمیزش سے پارلیمانی جمہوریت کو اسلام کا لبادہ پہنایا ہے۔ مصر کی اخوان المسلمین اور یہاں پاکستان میں جماعتِ اسلامی جیسی پارٹیاں جمہوری نظام کی حامی ہیں اور جمہوری انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں، ترکی کی اسلامی رفاہ پارٹی تو برسرِ اقتدار بھی رہ چکی ہے۔

اسلام کے ایک امریکی اسکالر ڈاکٹر جان اسپوزیٹو نے اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے اور وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جمہوریت جدید اسلامی سیاسی فکر و عمل کا ناگزیر حصہ بن چکی ہے۔ بہت سے مسلمان ملکوں میں اسے ایک ایسی کسوٹی کے طور پر قبول کیا گیا ہے جس کے ذریعے حکومتوں کی فراخدلانہ پالیسیوں اور اسلامی جماعتوں کی موزونیت کی پرکھ ہوتی ہے۔ اور یہ جواز مباح اور غیر مباح قرار دینے کی ایک مضبوط و توانا علامت بن چکا ہے کیونکہ اسے ایک آفاقی خوبی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

اسلامی تحریکوں کو ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد وہ تنوع کو برداشت کرنے کے سلسلے میں صلاحیت ثابت کریں۔ اسلامی نظام کے زیر اثر بعض حکومتوں کو اقلیتوں کی حیثیت، خواتین کے حقوق، اور اظہارِ رائے کی آزادی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ میں بلا جھجھک یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ خود میرے ملک میں رواداری، جامعیت اور جمہوریت کے مقاصد پوری طرح حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری کانگریس نے ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ہم دنیا بھر کے ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ایک سالانہ رپورٹ شائع کرنے کے پابند ہیں۔ ہم خود بھی اس رپورٹ پر سو فیصد پورا نہیں اترتے، لہٰذا میں کہوں گا کہ امریکہ، مغربی دنیا اور عالمِ اسلام ہم سب ہی ان مقاصد کے حصول کے لیے یکساں خواہشمند ہیں۔ بڑے پیمانے پر سیاسی آزادی اور سیاسی عمل میں شرکت تبدیلی کے اس عمل کا حصہ ہیں جس کے ذریعے نئی سیاسی روایات اور ادارے وجود میں آتے ہیں لیکن اس کے لیے وقت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔

گزشتہ عشروں میں جمہوری تحریکوں اور حکومتِ وقت سے مزید آزادیوں کے حصول کے لیے دباؤ میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ دس سال پہلے جب سوویت یونین اور مشرقی یورپ جمہوریت کی رو میں بہے تو

  • سوویت یونین میں زیادہ خودمختاری کے لیے مسلمان قومیتوں کے مطالبے،
  • اور مشرقِ وسطٰی میں قیامِ امن کے عمل کے لیے فلسطینیوں،
  • اور آزادی کے لیے کشمیریوں کے مطالبات

نے دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔

سیکولرازم اور اسلامی نظام کے علمبردار اپنی حکومتوں پر سیاسی آزادی اور جمہوریت کے حوالے سے نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اردن، مصر، کویت، تیونس اور پاکستان جیسے ملکوں میں سیاسی تبدیلیوں کے محرکین میں بڑے پیمانے پر دوسروں سے ہم آہنگی کا احساس جمہوری اداروں، اقلیتوں اور اپوزیشن کے نقطہ نظر سے رواداری کے لیے قبولیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

امریکہ بذاتِ خود ایک بڑا مُسلم معاشرہ ہے

امریکہ کے اسلام مخالف نہ ہونے کا ایک اور واضح سبب یہ ہے کہ امریکہ بذاتِ خود ایک بڑا مسلمان معاشرہ ہے۔ آپ اس دعوے کو حیرت انگیز کہہ سکتے ہیں یا اسے غلط سمجھ سکتے ہیں مگر حقیقت ہے کہ ساٹھ سے ستر لاکھ کے درمیان امریکی شہری مسلمان ہیں۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ امریکہ میں مسلمانوں کی آبادی اردن سے زیادہ ہے بلکہ کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور اومان کی کل مسلم آبادی کے مقابلے میں امریکی مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مسلمان امریکہ کی ہر ریاست اور علاقے میں موجود ہیں۔ امریکی معیشت کے ہر شعبے میں ان کا عمل دخل ہے۔ وہ عام مزدور سے لے کر کمپنی ایگزیکٹوز تک ہر حیثیت میں کام کر رہے ہیں۔ وہ امریکی مسلح افواج میں شامل ہیں اور وزارتِ خارجہ سمیت تمام سرکاری محکموں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

بیشتر امریکی مسلمان یا ان کے والدین پاکستان، لبنان، مصر یا دوسرے مسلمان ملکوں سے امریکہ منتقل ہوئے ہیں۔ دیگر تارک وطن گروپوں کی طرح وہ بھی امریکی معاشرہ اپنانے کے لیے تندہی سے کوشاں ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے دین اور ثقافت سے بھی رشتہ برقرار رکھا ہے۔ یہ تسلیم ہے کہ انہیں دوسرے تارک وطن گروپوں کی طرح غلط فہمیوں اور مسائل کا سامنا ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ سماجی دباؤ، سیاسی قوت اور اپنے قانونی حقوق منظم کر کے مسلسل مؤثر حیثیت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر بعض مذہبی انتہا پسندوں کا مسلمانوں سے یہ کہنا کہ وہ امریکیوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیں، ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ یہ ساٹھ لاکھ افراد مسلمان اور امریکی ہیں، وہ اس وقت امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والے دین کی نمائندگی کرتے ہیں۔

امریکی معاشرے کے اندر موجود اس بہت بڑے طبقے کے ہم پر مثبت تعمیری اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلمان کنبوں کے مضبوط و مستحکم خاندانی رشتے اور ان کے برتاؤ اور سلوک کے اعلیٰ معیار ہمارے معاشرے کی تعمیر کے عوامل میں استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی سے لاس انجلس اور کیلیفورنیا تک امریکہ کے طول و عرض میں قائم ہزاروں مساجد ہمارے شہروں کے تعمیراتی تنوع میں ایک دلکش اضافہ ہیں۔ روز مرہ اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے درکار وقت کے لیے آجر ہفتے کے اوقات کار میں ردوبدل کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں۔ بہت سے مسلمان خاندان جو دینی احکامات کے مطابق لباس کو ترجیح دیتے ہیں، سکولوں حتٰی کہ مسلح افواج کو لباس کے بارے میں پابندیاں نرم کرنے پر مصر ہیں۔ ان میں سے کوئی بات اختلافِ رائے اور مزاحمت کے بغیر عمل میں نہیں آتی، لیکن اپنی ضروریات کے مطابق ردوبدل اور تبدیلی کے لیے امریکی مسلمانوں کی جدوجہد امریکہ کو ہمیشہ سے کہیں زیادہ جامع، کثیر الثقافتی اور روادار معاشرہ بنانے کے لیے ایک صحت مندانہ چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔

ثقافتوں کے درمیان مکالمے اور گفتگو کی ضرورت

ہم میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ اپنے معاشرے کے اندر تضادات اور ثقافتوں کے درمیان تصادم پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ اتفاقِ رائے کو اخبارات اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی کہ وہ اختلافِ رائے کو اچھالتے ہیں۔ ویسے بھی اختلافِ رائے مکالمے سے زیادہ ڈرامائی لگتا ہے۔ لیکن مجھے اجازت دیجئے کہ میں ثقافتوں کے بارے میں ڈائیلاگ کی ضرورت کے بارے میں کچھ فکر انگیز باتیں دہرا سکوں جو حال ہی میں ایک پاکستانی تجزیہ نگار ڈاکٹر رفعت حسین نے، جن کا میں احترام کرتا ہوں، لکھی ہیں۔ ڈاکٹر رفعت حسین روزنامہ ’’دی نیشن‘‘ میں رقم طراز ہیں:

  1. ’’گفتگو اور مکالمے سے لوگوں، اقوام اور ملکوں کے درمیان اختلافات کے پُراَمن تصفیے کو فروغ ملتا ہے۔ اور چونکہ ثقافت اور ثقافتی تشخص کے نمایاں پہلو محاذ آرائی کا سبب ہوتے ہیں اس لیے ثقافتوں کے درمیان ڈائیلاگ ناگزیر ہے۔
  2. مکالمے کے متبادل خصوصاً جنگ یکسر ناقابلِ قبول ہے۔ آج کے ایٹمی دور میں کوئی قوم جنگ کی راہ نہیں اپنانا چاہتی۔
  3. گفتگو سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کے بارے میں بہتر مفاہمت فروغ پاتی ہے، اور ارسطو کے بقول مکالمے اور بات چیت سے ایسے اعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے جن سے ذاتی منفعت اور خودغرضی کی بجائے دوسروں کی بھلائی کی سوچ پروان چڑھتی ہے۔
  4. مکالمے سے انسانی مساوات اور برابری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو انسانی تہذیب کا جوہر ہے۔
  5. بات چیت تعاون اور مشترکہ سلامتی کے لیے عملی اقدام کی حیثیت رکھتی ہے۔
  6. مکالمے سے تعاون کے امکانات و فوائد کے علاوہ مسلسل محاذ آرائی، دشمنی اور تصادم کے نقصانات واضح ہو جاتے ہیں، جس سے محاذ آرائی کے محرکات بدلنے میں مدد ملتی ہے۔
  7. مکالمہ اور گفتگو، مذاکرات اور سمجھوتے کے لیے شرطِ اول اور تمہید کی حیثیت رکھتے ہیں‘‘

میرے نزدیک ان باتوں میں بڑی معنویت ہے۔ لہٰذا آج میری اپیل یہ ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کو اپنا دشمن تصور کرنے کے آسان مگر گمراہ کن راستے کو ترک کرنے کا چیلنج قبول کرنے کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور بعض مسلمان ملکوں کے درمیان حقیقی اختلافات ہیں، لیکن جیسا کہ آج میں نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اختلاف کے مقابلے میں ہمیں متحد کرنے والی باتیں کہیں زیادہ ہیں۔ اگر ہم سب

  • باہم مفاہمت بڑھانے،
  • زیادہ جمہوریت،
  • اقلیتوں کے ساتھ زیادہ برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرنے،
  • انسانی حقوق کے احترام کا معیار بلند کرنے،
  • اور اپنے سیاسی نظاموں میں تمام سماجی گروپوں کو وسیع تر بنیاد پر شامل کرنے

کے لیے اپنی کوششوں کو مزید موثر و مستحکم بنا لیں، تو ہم امریکہ اور مسلمان ملکوں کے درمیان نہ صرف شکوک و شبہات کم کر سکیں گے بلکہ ہم اپنے اپنے ملکوں کو زیادہ مستحکم اور منصفانہ معاشرہ بنا سکیں گے۔


مشاہدات و تاثرات

(فروری ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter