عالمی معیشت، یہودی ساہوکار اور مسلم ممالک

عبد الرشید ارشد

یہود کے بڑوں نے ۹۲۹ ق م میں عالمی حکمرانی کے لیے جو منصوبہ بندی کی اور جسے ہر دور کے بڑے یہودی سینے سے لگائے ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اس منصوبہ بندی کی نوک پلک سنوارتے، اس کی حفاظت کرتے آئے، سود کے حوالے سے اس کے انکشافات چونکا دینے والے ہی نہیں، با شعور مسلمانوں کی نیندیں حرام کرنے والے ہیں۔

نزولِ قرآن سے کم و بیش ساڑھے سولہ سو سال قبل جس خباثت کی بنیاد پر دنیا مسخر کرنے کا یہود نے منصوبہ بنایا تھا، خالق نے قرآن حکیم میں اس خباثت کا توڑ اہلِ ایمان کے سامنے سود کو حرام قرار دے کر، اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلانِ جنگ قرار دے کر فرمایا کہ مجھ پر ایمان کا دعوٰی کرنے والے اس زہر سے محفوظ رہیں۔

یہود کی مذکورہ منصوبہ بندی (Protocols) ’’وثائقِ یہودیت‘‘ کے نام سے مصدقہ دستاویز کی صورت میں آج بھی محفوظ ہے۔ آئیے پروٹوکولز میں سود کے کرشمے دیکھتے ہیں:

’’یہودیت کے خفیہ ریکارڈ کی رو سے ۹۲۹ ق م سلیمان اور یہودیوں کے سربراہوں نے پُراَمن عالمی تسخیر کا عملی منصوبہ بنایا۔ تاریخ جوں جوں آگے بڑھتی گئی اس کام میں ملوث افراد نے اس منصوبہ کی جزیات طے کیں جس سے بڑی خاموشی اور امن کے ساتھ یہود کے لیے تسخیرِ عالم کا یہ منصوبہ شرمندہ تعبیر ہو سکے۔‘‘ (وثائقِ یہودیت ۔ اصلاحات، صفحہ ۲۵)

راز کی بات

’’آج ہم اپنے مالیاتی پروگرام کو زیربحث لائیں گے جسے انتہائی مشکل ہونے کے ناتے ہم نے مؤخر کر رکھا تھا کہ دراصل یہی امر ہمارے تمام منصوبوں کی جان ہے۔ بات شروع کرنے سے پہلے یہ بتا دوں کہ میں نے آغاز میں اشارتاً اس پروگرام کا ذکر کیا تھا جب میں نے کہا تھا کہ ہماری تمام سرگرمیوں کا محور اعداد و شمار ہیں۔‘‘ (پروٹوکولز، ۲۰۔۱)

’’غیر یہود کے مالیاتی اداروں اور ان کے زعماء کے لیے ہم جو اصلاحات کریں گے وہ ایسی شوگر کوٹڈ ہوں گی کہ نہ تو انہیں چونکائیں گی اور نہ ہی انہیں نتائج کا احساس ہو گا۔ غیر یہود نے اپنی حماقتوں سے اپنے مالیاتی امور کو جس طرح الجھا لیا اور بند گلی میں کھڑے ہو گئے، ہم انہیں اصلاحات کے نام پر یہ راہ سجھائیں گے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۲۷)

شکاری کا جال

’’غیر یہود کو، بلا ان کی حقیقی ضرورت کے، قرضوں کی چاٹ لگا کر، ان کی افسر شاہی میں رشوت خوری عام کر کے، انہیں کاہلی اور نا اہلی کے غار میں دھکیل کر ہم ان سے دو گنا، تین اور چار گنا بلکہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ مال سمیٹا ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۱۔۲)

’’ہمارے مزاحیہ ڈرامے کا پردہ ہٹتے ہی یہ حقیقت سب کے سامنے آجائے گی کہ ہمارے قرض سے بوجھ کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی رہتا ہے۔ یہ سودی بوجھ کم کرنے کے لیے مزید قرضے لینے پڑتے ہیں جن سے نئے قرضے اور نئے سود کا بوجھ بڑھتا ہے۔ اور یوں اصل زر کی ادائیگی تو رہی ایک طرف، صرف سود کی ادائیگی کے لیے عوام کے گاڑھے (پسینے) کی کمائی ٹیکسوں کی زد میں آجاتی ہے۔ یہ عوامی ٹیکس، قرض اور سود سے بڑھ کر قوم کے لیے اذیت ناک ثابت ہوتے ہیں۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۱۔۴)

’’غیر یہود نے یہ سوچنے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ وہ جو قرض ہم سے لیتے ہیں، اس کی ادائیگی، یا اس پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی وہ ہم ہی سے قرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ہماری منظم سوچ کا عروج ہے جس سے ہم نے غیر یہود حیوانوں کو مسخر کر رکھا ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۶)

سود کا کرشمہ

’’غیر یہود کے ہاں جب تک معاملہ مقامی داخلی قرضوں تک محدود تھا تو بات یوں تھی کہ مال غریب کی جیب سے امراء کی جیبوں میں منتقل ہوتا تھا۔ مگر جب ہم نے اپنے زر خرید ایجنٹوں کے ذریعے غیر ملکی قرضوں کی چاٹ لگائی تو غیر یہود کے تمام تر سرمایہ نے ہماری تجوریوں کی راہ دیکھ لی۔ یوں کہئیے کہ یہ خارجی قرضوں پر سود کی صورت میں غیر یہود کا خراج ہے جو وہ ہمیں باقاعدگی سے ادا کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۲)

’’غیر یہود حکمرانوں کے بناوٹی معیار، معاملات، اور نا اہل بے تدبیر وزراء، شعور و احساسِ ذمہ داری سے عاری افسر شاہی، اور ان سب کا اقتصادیات کی ابجد سے ناشناس ہونا، سب پہلو مل کر ان ممالک کو ہمارا مقروض بناتے ہیں۔ اور جب ایک بار سودی جال میں پھنس جاتے ہیں تو پھر نکلنا ان کے لیے ناممکن بن جاتا ہے۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۳)

’’کوئی حکومت اپنے ہی ہاتھوں دم توڑ جائے، یا اس کی اندرونی خلفشار اس پر کسی دوسرے کو مسلط کر دے، معاملہ جیسا بھی ہو، یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ اور اب یہ ہماری (حقیقی) قوت ہے۔ سرمایہ پر بلاشرکتِ غیرے ہمارا کنٹرول ہے، جو جس قدر ہم چاہیں کسی حکومت کو (اپنی شرائط پر) دیں۔ وہ خوشدلی سے اسے قبول کر لے یا مالی بحران اپنا مقدر بنا لے۔‘‘ (پروٹوکولز ۱۔۸)

’’غیر یہود حکومتوں (گوئم) کی سیاسی موت اور غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے ہلاکت کی خاطر ہم بہت جلد مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی اجارہ داریاں قائم کریں گے، خصوصاً زر و دولت کے ذخائر پر۔ جو غیر یہود کو لے ڈوبیں گے کہ ان کی قسمتوں کا فیصلہ یہی سونا کرے گا۔‘‘ (پروٹوکولز ۶۔۱)

مالیات پر یہود کی یہ اجارہ داری ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، لندن کلب، اور پیرس کلب جیسے بہت سے اداروں کے ذریعے ہے، جنہوں نے آکٹوپس کی طرح ہر حکومت کے مالیاتی نظام کو بے بس کر رکھا ہے۔ سیاسی اجارہ داری کے لیے اقوامِ متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل ہے، تو صحت پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اجارہ داری ہے۔ تجارت اور مزدور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن سے کنٹرول ہوتے ہیں۔ تعلیم و صحت کے لیے یونیسف ہے، تو زراعت کے لیے ایف اے او کا دستِ قدر کارفرما ہے۔ سماجی معاشرتی میدان میں لائنز اور روٹری انٹرنیشنل طرز کے سماجی ادارے ہیں۔

قرض کی ری شیڈیولنگ

’’قرض، بالخصوص غیر ملکی قرض کی حقیقت کیا ہے؟ قرض فی الاصل ایسی گارنٹی کا نام ہے جو رقم کے ساتھ سود کی ادائیگی کے لیے لکھی جاتی ہے۔ مثلاً اگر ۵ فیصد شرح سود طے ہو تو قرض لینے والا حکمران ۲۰ سال بعد قرض کی اصل رقم کے برابر سود ادا کرے گا۔ (بروقت ادا نہ کر کے ری شیڈیول کرائے تو) ۴۰ سال بعد اسے دوگنا کر لیجئے اور ۶۰ سال ہوں تو تین گنا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اصل زر پھر بھی ادا نہیں ہوتا۔‘‘ (پروٹوکولز ۲۰۔۳۰)

مذکورہ مختصر بحث کے بعد عقل کی قلیل مقدار ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کے خالق کا علم اور اس علم کی روشنی میں راہنمائی کس قدر کامل، اعلیٰ و ارفع ہے۔ جو چیز آج مسلمان حکمرانوں کو یہود کا باجگزار بنا رہی ہے، جس غلاظت نے معیشت تباہ کی ہے، جس تباہی پر ہر کوئی شاہد ہے، جس قباحت نے افراد کا، خاندان اور اداروں کا سکھ چھین لیا ہے، اس کے نقصانات پر ساڑھے چودہ سو سال قبل ہمہ جہت مکمل راہنمائی دے دی گئی تھی۔ مگر کس قدر عقل کا اندھاپن ہے کہ خالق پر ایمان کے دعوے دار ہی خالق کے فرامین سے بغاوت کے مرتکب ہوئے اور خالق کے باغی ہونے کے ناتے ناک تک دلدل میں دھنس گئے کہ اب سانس لینا مشکل ہے۔

عالم اسلام اور مغرب

(فروری ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter