اسلام آباد میں چیچنیا کے سابق صدر کی گرفتاری

حامد میر

چیچنیا کے سابق صدر اور موجودہ چیچن حکومت کے مشیر سلیم خان کو اسلام آباد میں گرفتار کیے جانے کے افسوسناک واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ منگل کی صبح یہ واقعہ میرے علم میں آیا تو دل و دماغ کو ایک جھٹکا لگا۔ دوپہر کو پتہ چلا کہ سلیم خان کو رہا کر دیا گیا ہے۔ اس دوران عالمی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بھی نشر کر دی کہ چیچن مجاہدین نے گروزنی خالی کر دیا ہے۔ لہٰذا سلیم خان سے ملاقات ضروری ہو گئی۔

شام کو میں دھڑکتے دل کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے رویے میں وہ گرمجوشی نظر نہ آئی جس کا مظاہرہ عام طور پر چیچن مجاہدین پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ میں نے جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ ندامت بھرے لہجے میں ان سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ آپ کے ساتھ جو ہوا اس کی تلافی تو حکومت ہی کر سکتی ہے لیکن پاکستانی عوام کا ایک حقیر نمائندہ بن کر آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے دل میں کسی غلط فہمی کو پیدا نہ ہونے دیجئے گا۔ سلیم خان نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا کہ مجھے آپ کی عوام سے کوئی شکوہ نہیں لیکن جو سلوک میرے ساتھ یہاں ہوا وہ کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوا۔ میں نے دوبارہ ہمت جمع کی اور پھر کہا کہ شاید یہ واقعہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ سلیم خان نے فوری طور پر کاٹ دار لہجے میں کہا کہ یہ سازش ہے اور حکومتِ پاکستان نے اس سازش کے ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی نہ کی تو کل کو کوئی اور ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آ سکتا ہے۔

میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا کہ گروزنی سے مجاہدین کی پسپائی میں کہاں تک صداقت ہے؟ سلیم خان کے باریش چہرے پر سرخی چھا گئی اور انہوں نے پُر اعتماد لہجے میں کہا کہ یہ پسپائی نہیں بلکہ جنگی حکمتِ عملی کے تحت پیچھے ہٹنا ہے۔ اگر روسی فوج میں ہمت ہے تو گروزنی میں داخل کیوں نہیں ہوتی؟ سلیم خان نے بلند آواز میں کہا کہ ہم آخری گولی اور خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے لیکن آپ سے درخواست ہے کہ ہماری کامیابی کے لیے دعا کریں۔ یہ درخواست سن کر میں نے دوبارہ نظریں جھکا لیں۔ سلیم خان میرے اندرونی احساسات کو بھانپ گئے اور انہوں نے ہمدردانہ لہجے میں کہا کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ بھول جاؤ اور کچھ مت لکھنا ورنہ خفیہ ادارے تمہیں بھی نقصان پہنچائیں گے۔ یہ سن کر میں بھڑک اٹھا اور گستاخی کرتے ہوئے بزرگ مجاہد سے کہا کہ ہمیں اتنا بھی بزدل مت سمجھیں کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر اف بھی نہ کریں۔

سلیم خان نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ میں پاکستان کے جس حصے میں گیا وہاں مسلمانوں نے ہمارے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ ہم اپنی ملاقاتوں کو منظر عام پر نہ لائیں اور لب و لہجہ بھی دھیما رکھیں۔ سلیم خان پوچھ رہے تھے کہ چیچنیا میں روسی جارحیت کے خلاف امریکی ذرائع ابلاغ اور امریکی حکومت بھی مذمت پر مجبور ہیں، پھر پاکستانی حکومت ہمارے معاملے میں اتنی محتاط کیوں ہے؟ سوال سن کر میں خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا کہ روس دھڑا دھڑ بھارت کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے، طالبان مخالف شمالی اتحاد کی مدد بھی کر رہا ہے، اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات میں کہیں گرمجوشی نظر نہیں آتی، پھر ہماری حکومت چیچن مجاہدین کی کھل کر حمایت کیوں نہیں کرتی؟ بہت سوچنے کے باوجود مجھے سلیم خان کے سوال کا جواب نہیں سوجھا تو میں نے رخصت لی۔ واپسی پر سلیم خان نے دوبارہ مشورہ دیا کہ میں ان کے ساتھ زیادتی کے خلاف لکھ کر کوئی خطرہ مول نہ لوں۔

بوجھل دل کے ساتھ دفتر واپسی پر میں نے وزیر داخلہ جناب معین الدین حیدر سے فون پر بات کی اور سلیم خان کی گرفتاری کی وجہ پوچھی۔ وزیر داخلہ کا جواب مزید پریشان کن تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تھوڑی دیر پہلے غیر سرکاری ذریعے سے اس واقعے کا علم ہوا ہے اور نہیں معلوم کہ واقعے کا ذمہ دار کون ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ آپ قومی مفاد میں اس واقعے پر کچھ نہ لکھیں۔ میں نے جواب میں کہا کہ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ان عناصر کا احتساب کیا جائے جنہوں نے ایک مظلوم اسلامی ملک کے نمائندے کی توہین کی ہے۔

وزیر داخلہ معین الدین حیدر ایک سچے اور محبِ وطن پاکستانی ہیں، ان کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن نیت پر شک ممکن نہیں۔ سلیم خان کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ یقیناً کسی خفیہ ادارے کے اہلکاروں کی بے وقوفی ہے کیونکہ جس دن یہ واقعہ ہوا اسی دن افغان وزارتی کونسل کے صدر ملا ربانی نے جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی۔ سلیم خان کے دورہ پاکستان کے بارے میں وزارتِ خارجہ کے ’’بابو حضرات‘‘ کے تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف ان کے لیے وہی جذبات رکھتے ہیں جن کا اظہار ملا ربانی کے ساتھ کیا گیا۔

ہمیں امید ہے کہ حکومت سلیم خان کی غلط فہمی دور کرے گی اور ان کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے گی کیونکہ سلیم خان اعلیٰ حکام کی اجازت سے ویزا لے کر پاکستان آئے تھے اور کئی دن سے پاکستان میں موجود تھے۔ وزیر داخلہ چاہتے تھے کہ ہم اس واقعے پر کچھ نہ لکھیں۔ میں نے ان کی ہدایت نظر انداز کی ہے کیونکہ میرے خیال میں ملکی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ اس افسوسناک واقعے کو سامنے لایا جائے تاکہ آئندہ اس قسم کی ۔۔۔۔


حالات و واقعات

(فروری ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter