فرمایا ’’واعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ‘‘ جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اگر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں سستی دکھاؤ گے تو ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہارے دل کے درمیان آڑے آ جائے اور تم سے تعمیلِ حکم کی توفیق ہی سلب کر لے اور پھر تم نیکی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤ۔ ظاہر ہے کہ انسان کا دل تو اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس کے حکم پر آمادۂ تعمیل نہیں ہوتا تو وہ اس دل کو پلٹ بھی سکتا ہے۔
دل کا معاملہ بڑا نازک ہے۔ انسان کے ارادے کا مرکز یہی دل ہے اور اس کے ذریعے انسان نیکی یا برائی کی طرف جاتا ہے۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا میں سکھایا کرتے تھے ’’یا مقلب القلوب ثبت قلبی علیٰ دینک‘‘ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم فرما۔ آپ نے یہ دعا بھی سکھلائی ’’یا مقلب القلوب صرف قلوبنا الیٰ طاعتک‘‘ اے دلوں کے پھیرنے والے مولا کریمأ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔ کہیں یہ الٹ ہی نہ جائیں، جس طرح اہلِ کتاب کے دل نافرمانیوں کی وجہ سے معکوس ہو گئے، اس طرح ہمارے دلوں سے بھی نیکی کی توفیق سلب نہ ہو جائے۔ اسی لیے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی تعمیل میں غفلت نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دل کے درمیان حائل ہو کر اس کی کیفیت ہی بدل دے اور پھر تم ہمیشہ کے لیے تعمیلِ حکم سے محروم ہو جاؤ۔
فتنوں سے بچو
ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایک اور تنبیہ بھی کی ہے ’’واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ‘‘ اس فتنے سے بچ جاؤ جو خاص طور پر صرف ظالموں کو ہی نہیں پہنچے گا بلکہ اس میں پوری کی پوری قوم ملوث ہو جائے گی۔ امام شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ دین میں خرابی پیدا نہ کرو۔ شرکیہ رسوم اور بدعات کو رواج نہ دو کیونکہ اس کا وبال صرف بدعت کرنے والوں پر ہی نہیں بلکہ پوری ملت پر پڑے گا۔ اسی طرح جب دنیا میں کھلے عام برائی کا ارتکاب ہوتا ہے اور پھر لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی انجام نہیں دیتے تو پھر پوری قوم اور جماعت مبتلائے سزا ہو جاتی ہے اور اس میں نیک و بد کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔ قتلِ ناحق، زنا، شراب نوشی، شرک اور بدعات ایسی بیماریاں ہیں جن کی سزا پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتی ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ اس فتنہ سے بچ جاؤ جو نہ صرف برائی کے مرتکبین کے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے وبالِ جان بن سکتا ہے۔
ریاست کا فتنہ
مفسرِ قرآن مولانا عبید اللہ سندھیؒ فرماتے ہیں کہ اس آیتِ کریمہ میں جن فتنوں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ان میں ریاست کا فتنہ بھی شامل ہے۔ جب تک مسلمان جہاد کرتے رہے، جماعت درست رہی، مگر جب جہاد کو ترک کر دیا تو ریاست کا فتنہ پیدا ہو گیا۔ حضرت عثمان غنی ؓ کے زمانے میں شروع ہونے والا فتنہ آج تک قائم و دائم ہے۔ یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ جب تک مسلمان عامل بالجہاد رہے ریاست کا نظم و نسق ٹھیک طور سے کام کرتا رہا، مگر جونہی جہاد کا جذبہ کمزور پڑ گیا تو اس کی جگہ حرص و لالچ نے لے لی۔ ہر فرد اور پارٹی دوسری پر غالب آنے کی کوشش میں مصروف ہو گئی اور اس طرح آپس میں قتال شروع ہو گیا جس کی وجہ سے دیگر بے شمار برائیاں قوم میں در آئیں۔ پہلے تو مذہبی فرقے وجود میں آئے اور پھر سیاسی پارٹیاں بن گئیں اور آپس میں سرپھٹول ہونے لگا۔ اس کی مثال خود اپنے ملک میں دیکھ لیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہر جماعت اقتدار کی بھوکی نظر آتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہے، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ساری قوم مشکلات و مصائب کی چکی میں پس رہی ہے۔ نہ سیاسی طور پر سکون ہے نہ معاشی حالت اچھی ہے۔ معاشرہ فتنہ و فساد کا گہوارہ بن چکا ہے۔ قوم روبہ تنزل ہے اور اس سزا میں صرف فتنہ پرداز ہی شامل نہیں بلکہ پوری قوم دینی، معاشرتی اور معاشی لحاظ سے دیوالیہ بن چکی ہے۔
فرمایا ’’واعلموا ان اللہ شدید العقاب‘‘ خوب اچھی طرح سمجھ لو کہ جب کوئی قوم اس قسم کے فتنہ میں مبتلا ہو جاتی ہے تو پھر اللہ کی گرفت بھی آ جاتی ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ سخت گرفت کرنے والا ہے۔