وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت بنچ کے ۲۳ دسمبر ۱۹۹۹ء کے فیصلے کے مطابق اسٹیٹ بینک میں ۱۲ رکنی اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا ہے جو موجودہ مالیاتی نظام کو شریعت کے مطابق بنانے کے عمل کو انجام دینے اور اس کی نگرانی کے لیے پوری طرح با اختیار ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر آئی اے حنفی اس کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔ یہ کمیشن معیشت کو سود سے پاک کرنے کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔
سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے ربوٰا کو حرام قرار دینے کا جو فیصلہ دیا ہے وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آیا ہے اور قیامِ پاکستان کے موقع پر ہم نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان تمام دنیا کے لیے مینارۂ نور ثابت ہو گا اور ہم دنیا کو اسلام کے عادلانہ نظام کا نمونہ پیش کریں گے۔ قیامِ پاکستان کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے، اس دوران دینی جماعتوں کی طرف سے سود کے خلاف مہم چلتی رہی اور پاکستان میں سود سے پاک مالی نظام کے قیام کا مطالبہ ہوتا رہا لیکن حکومت نے اس کی طرف توجہ نہ کی۔
اب سپریم کورٹ کے شریعت بنچ نے اپنے ۲۳ دسمبر کے فیصلے میں ربوٰا کی ساری شکلیں غیر اسلامی قرار دی ہیں اور حکومت سے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں غیر سودی مالی نظام قائم کرے۔ اس لحاظ سے حکومت کا یہ فیصلہ بڑا مستحسن ہے کہ اس نے اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے ایک گیارہ رکنی اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا ہے جو معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے اپنی سفارشات پیش کرے گا۔
اس وقت دنیا میں مغرب کا مالیاتی نظام رائج ہے جو سر تا پا سود پر مبنی ہے۔ پاکستان بھی اس مالیاتی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے غیر سودی نظام کا نقشہ پیش کرنا ایک جرأت مندانہ کام ہے اور اس کی توقع انہی لوگوں سے کی جا سکتی ہے جو اسلام کے مالیاتی نظام سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ اس پر پختہ ایمان بھی رکھتے ہوں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس اعلیٰ سطحی کمیشن کے قیام سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کمیشن میں کمٹڈ لوگ شامل کیے جاتے جو سود کو حرام سمجھتے۔ لیکن ایک آدھ کو چھوڑ کر اس کمیشن میں زیادہ تر ایسے لوگ شامل کیے گئے ہیں جو سود کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسٹیٹس کو سے ہٹ کر غیر سودی نظام کا نقشہ پیش کریں گے۔
اس کمیشن کے لیے انقلابی ذہنوں کی ضرورت تھی جو روایتی سودی نظام کو ختم کر کے غیر سودی اسلامی مالیاتی نظام پر یقین رکھتے ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ حکومت اس کمیشن پر نظرثانی کرے گی اور ایسے لوگوں کو سامنے لائے گی جو واقعی کچھ کر کے دکھانا چاہتے ہوں۔ صرف لیپاپوتی کرنے والے نہ ہوں ورنہ حکومتی ارادوں کے بارے میں بھی شک و شبہے کا اظہار شروع ہو جائے گا۔
(ادارتی شذرہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲۵ جنوری ۲۰۰۰ء)