سنت نبویؐ کی جامعیت و اہمیت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

وحی غیر متلو اور حدیث

ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو وحئ خفی یا وحئ غیر متلو اور حدیث کہا جاتا ہے۔ اور جس کی رہبری میں اور جس کے سانچے میں ڈھل کر آنحضرت ﷺ کی زندگی، جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں اور تمام شعبوں کی جامع ہے، ہر ایک کی رہبری کے لیے بہترین نمونہ اور عمدہ سامانِ ہدایت بن گئی ہے، اور اسی کو سنتِ رسولؐ کہا جاتا ہے۔ اور اس وحئ خفی کے ذریعہ دی ہوئی تعلیم کا نام قرآن مجید میں حکمت لیا گیا ہے ’’وانزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ‘‘۔ جس میں قرآن مجید کے علاوہ اور بھی بہت سی باتوں اور اعمال کی خدا تعالیٰ نے اپنی مصلحت کے موافق تعلیم فرمائی ہے۔

جس طرح احکامِ خداوندی سے بے نیازی نہیں ہو سکتی، اسی طرح اسوۂ رسولؐ اور سنتِ رسول اللہ سے بے پروائی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ سنتِ رسول اللہ کی اطاعت بھی ایسی ہی ضروری ہے جیسی کتاب اللہ کی۔ اس لیے کہ دونوں کی پیروی حکمِ الٰہی کی پیروی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول اللہ کی اطاعت دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ تو جس طرح قرآن مجید کی اطاعت خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اسی طرح جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی خود خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے۔

ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ (پ ۵ النساء رکوع ۱۱)

’’اور جو رسول اللہ کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘

یہ معلوم اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ثواب اور عذاب، نیکی اور بدی کا تعیّن، اور اس کا صحیح امتیاز، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا۔ جس چیز کو آپ نے گناہ اور جرم قرار دیا ہو، دنیا میں کوئی شخص اس کی خوبی ثابت نہیں کر سکتا۔ اور جس چیز کو آپ نے نیکی قرار دیا ہو، دنیا کی کوئی طاقت اس کی برائی ثابت نہیں کر سکتی۔ تمام وہ اخلاقِ حسنہ جو اقوامِ عالم اور نسلِ انسانی میں مستحسن اور پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں، وہ سب الہاماتِ الٰہیہ اور تعلیماتِ انبیاءؑ اور خصوصاً جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا نتیجہ ہیں۔ کیا خوب کہا گیا ہے ؎

چمکتی ہے جو ریگ اکثر، نشاں ہے مہ جبینوں کا
جسے ہم روندتے پھرتے ہیں، یہ سب خاکِ انساں ہے

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہنچائی ہوئی اور بتائی ہوئی ہر ایک تعلیم خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہوتی ہے۔ رسول کا کام صرف دین ِحق کی تبلیغ کرنا ہے، دین کا بنانا نہیں۔ اور اسی لیے وہ مطاع ہوتا ہے اور اس کی اطاعت ہر شخص پر فرض ہوتی ہے۔ اور اس کی پیش کردہ تعلیم کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ رسول کے سوا کسی دوسرے شخص کو اور اس کی پیش کردہ تعلیم کو ہرگز ہرگز یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم عین فطرتِ انسانی کے موافق اور متوازی ہے، اور انسانی فطرت کے دبے اور چھپے ہوئے جملہ تقاضوں کی ترجمانی ہے، اور اس کی خلاف ورزی فطرت سے بغاوت ہے۔ ہادئ برحق، راہبرِ کامل، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت اور آئین جس توجہ کا مستحق ہے، اگر ویسی ہی توجہ اس کی طرف کی جائے تو آج بھی مسلمان وہی جوشِ ایمانی اور وہی مبہوت کن کارنامے دنیا کو پھر دکھا سکتا ہے جو حضراتِ صحابہ کرامؓ نے دکھائے تھے۔ مذہبِ اسلام اور سنتِ رسول اللہ ہی کے ذریعہ دنیا میں کامل اتحاد، صحیح عدل اور مکمل امن و امان قائم ہو سکتا ہے۔ نہ تو آپ جیسا رہبرِ کامل دنیا میں پیدا ہوا، اور نہ تا قیامت پیدا ہو گا، اور نہ کوئی نظام اور آئین ہی ایسا موجود ہے ؎

شراب خوشگوارم ہست و یار مہرباں ساقی
ندارد ہیچ کس یارے چنیں یارے کہ من دارم

ولادت سے لے کر وفات تک، خوشی سے لے کر غمی تک، زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبہ میں اس کی اصلاح کے لیے ہم کو صرف سنتِ رسول اللہ اور شریعتِ اسلامی کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا، جو ہر طرح سے محفوظ و موجود ہے۔ کسی دوسری شریعت، کسی دوسرے ہادی، کسی اور آئین، اور کسی رسم و رواج کی طرف نہ تو ہمیں نگاہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔ بھلا جس کے گھر میں شمع کافوری روشن ہو اس کو فقیر کی جھونپڑی سے اس کا ٹمٹماتا ہوا چراغ چرانے کی کیا ضرورت اور حاجت ہے؟ ہاں اگر کوئی خوش نصیب اس کی طرف ہاتھ بھی بڑھائے، کوتاہ دست اور بدقسمت کو سنتِ رسول اللہ کے آبِ حیات سے کیا فائدہ؟

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter