یورپ میں مسلمانوں کی مذہبی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے

ادارہ

شہر کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب اور پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی برطانیہ کے ڈیڑھ ماہ کے دورہ کے بعد گوجرانوالہ واپس آ گئے ہیں۔ اس دوران انہوں نے لندن، برمنگھم، گلاسگو، مانچسٹر، نوٹنگھم، برنلی، لیسٹر، والسال، کراؤلی، چارلی اور دیگر شہروں میں دو درجن سے زائد دینی اجتماعات سے خطاب کیا۔ مرکزی جمعیت علماء برطانیہ کے زیر اہتمام بیت المقدس کے مسئلہ پر ہڈز فیلڈ میں منعقد ہونے والی ’’القدس کانفرنس‘‘ میں شرکت کی۔ نوٹنگھم کے معروف تعلیمی ادارہ جامعہ الہدیٰ کی تعلیمی کمیٹی کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی، اور ورلڈ اسلامک فورم کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔

ورلڈ اسلامک فورم مولانا نے بھارت سے تعلق رکھنے والے عالم دین اور دانشور مولانا محمد عیسٰی منصوری کے ساتھ مل کر ۱۹۹۲ء میں قائم کیا تھا، اس کا ہیڈکوارٹر لندن میں ہے۔ ابتدائی پانچ سال مولانا زاہد الراشدی اس کے چیئرمین رہے ہیں، اس کے بعد سے مولانا محمد عیسٰی منصوری اس کے چیئرمین ہیں اور ان کے ساتھ مفتی برکت اللہ، بیرسٹر منصور ملک، مولانا رضاء الحق سیاکھوی، حاجی افتخار احمد، مولانا محمد عمران خان جہانگیری، حاجی غلام قادر اور ڈاکٹر نذر الاسلام بوس، فیض اللہ خان، مولانا محمد قاسم رشید، مولانا مشفق الدین، حافظ ذکاء الرحمٰن تاراپوری اور دیگر سرکردہ اہلِ دانش کی ایک ٹیم ہے جو برطانیہ میں مقیم مسلمانوں میں دینی بیداری کو فروغ دینے اور علماء کرام و دینی مراکز کو دعوت و تعلیم کے حوالہ سے آج کے دور کی ضروریات اور تقاضوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہے۔ جبکہ میرپور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے مولانا رضاء الحق سیاکھوی سیکرٹری جنرل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

گوجرانوالہ واپس پہنچنے پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ اس سال معمول سے ہٹ کر دو نئی باتیں سامنے آئی ہیں جن کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو امریکہ میں مسلم کمیونٹی کے ایک ممتاز راہنما ڈاکٹر عبید اللہ غازی سے ملاقات ہے جو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالہ سے برطانیہ کے شہر لیسٹر میں آئے ہوئے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے جامعہ الہدٰی نوٹنگھم میں بھی آئے۔ ڈاکٹر عبید اللہ غازی کا تعلق بھارت کے ممتاز علمی خاندان سے ہے، ان کے پردادا مولانا عبد الرحمٰن انصاری دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی کے داماد تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے پہلے سربراہ تھے۔ ڈاکٹر غازی کے دادا مولانا منصور انصاری کا شمار برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے نامور اور سرگرم رہنماؤں میں ہوتا ہے، وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی کی تحریک کے اہم راہنما تھے اور انہوں نے مفکر انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ساتھ کابل ہجرت کی تھی جہاں وہ مولانا سندھیؒ کے دستِ راست کی حیثیت سے افغانستان کی آزادی کے تحفظ اور متحدہ ہندوستان کی آزادی کے حصول کے لیے سرگرم رہے۔

اپنے حالیہ دورۂ برطانیہ کے حوالہ سے دوسری اہم بات مولانا راشدی نے یہ بتائی کہ برطانیہ اور دیگر یورپی شہروں میں مسلمانوں کی مسلسل دینی بیداری اور مذہبی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے حتیٰ کہ اب یہ بات کھلی بندوں کہی جانے لگی ہے کہ اپنے مذہب اور دینی روایات و ثقافت کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی بے لچک ہے جسے تبدیل یا کمزور نہیں کیا جا سکتا۔

گذشتہ دنوں فرانس کے بارے میں ایک رپورٹ بین الاقوامی پریس میں شائع ہوئی تھی کہ وہاں مسلمان آبادی میں دوسرے نمبر پر ہیں، یعنی سب سے بڑی اقلیت ہیں، لیکن مذہبی سرگرمیوں کے حوالے سے وہ فرانس کی سب سے زیادہ سرگرم کمیونٹی شمار ہوتے ہیں کیونکہ عیسائی اکثریت کو اپنے مذہب اور عبادت سے اتنی دلچسپی نہیں رہی کہ وہ روز مرہ مذہبی سرگرمیاں دکھا سکیں اور اپنے عبادت خانوں کو آباد رکھ سکیں۔ اس کے برعکس مسلمانوں میں نماز، روزہ، عید، قرآن کریم کی تعلیم، مذہبی شعائر کے ساتھ وابستگی اور ان پر عملدرآمد کا رجحان زیادہ ہے۔

اسی طرح کی صورتحال برطانیہ میں بھی ہے جہاں ایک محتاط اندازہ کے مطابق مسلمانوں کی تعداد چار ملین سے اوپر ہے، لیکن مدارس و مساجد کی روز مرہ سرگرمیوں اور مذہبی اقدار و روایات سے عملی وابستگی کے پس منظر میں وہ دیگر تمام مذاہب کے پیروکاروں سے زیادہ متحرک اور نمایاں نظر آتے ہیں اور اس بات کو اعلیٰ سطح پر بھی محسوس کیا جانے لگا ہے۔

چنانچہ گزشتہ ماہ وہاں ’’اسلام کے بارے میں بیداری اور آگہی‘‘ کا ہفتہ منایا گیا اور اس دوران دیگر سرگرمیوں کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کے سرکردہ حضرات نے اسلام کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور برطانوی معاشرہ میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کا مختلف انداز میں تذکرہ کیا۔ اس ہفتہ کا آغاز پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک تقریب سے ہوا جس کا اہتمام ’’اسلامک سوسائٹی آف گریٹ بریٹن نے کیا تھا اور اس میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے نمائندہ کے طور پر ہوم سیکرٹری جیک اسٹرا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مردم شماری میں مذہب کا خانہ رکھا جا رہا ہے جس سے برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی کا صحیح اندازہ ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں غلط تاثر پھیلایا جاتا ہے اور انہیں مسلمان دہشت گرد کہا جاتا ہے لیکن آئرلینڈ میں دہشت گردی کرنے والوں کو کیتھولک دہشت گرد اور پروٹسٹنٹ دہشت گرد نہیں کہا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ۹۹ فیصد مسلمان محنتی اور مخیر ہیں۔

جبکہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر رونا ولیم ہیگ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ ’’ہفتہ آگہی اسلام‘‘ سے مقامی آبادی کو اسلام کے بارے میں بہت سی باتیں سمجھنے میں مدد ملے گی۔ تقریب سے ہاؤس آف لارڈز کے مسلمان ممبر لارڈ نذیر احمد اور دیگر رہنماؤں نے بھی خطاب کیا اور برطانوی معاشرہ میں مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں اظہارِ خیال کیا۔

مولانا راشدی نے بتایا کہ برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف لارڈز اور اسکاٹش پارلیمنٹ میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے مسلمان ممبران کی تعداد نصف درجن تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں پارلیمنٹ کے رکن گلاسگو کے محمد سرور اور ہاؤس آف لارڈز کے رکن رادھرم کے لارڈ نذیر احمد سب سے زیادہ متحرک ہیں۔ ان دونوں کا سابقہ تعلق پاکستان سے ہے اور وہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مسائل کے حوالہ سے متحرک کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں لارڈ نذیر احمد نے دیگر ممبران کے تعاون سے مختلف مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کیا جس میں مذہبی جماعتوں کے اہم رہنماؤں نے شرکت کی۔ یہ اجلاس رؤیتِ ہلال کے سلسلہ میں تھا جس پر برطانیہ میں ہر سال اختلاف ہوتا ہے اور رؤیتِ ہلال کے کسی فارمولا پر مذہبی جماعتوں کے متفق نہ ہونے کی وجہ سے دو دو بلکہ بسا اوقات تین تین عیدیں منائی جاتی ہیں۔ لارڈ نذیر احمد نے اس اجلاس میں کہا کہ اگر علماء کرام کسی متفقہ فارمولے پر آجائیں اور برطانیہ میں متفقہ طور پر ایک روز عید منائی جا سکے تو وہ حکومت اور بی بی سی وغیرہ کو اس پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ عید کے روز مسلمانوں کے لیے باضابطہ چھٹی کا اعلان کیا جائے، اور بی بی سی و دیگر ذرائع ابلاغ سے عید کے اعلان کے ساتھ ساتھ خصوصی پروگرام نشر کی جائیں، جس کے لیے وہ متعلقہ حکام اور اداروں سے ابتدائی بات چیت کر سکتے ہیں۔ اس اجلاس میں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسٰی منصوری نے بھی شرکت کی اور اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے لارڈ نذیر احمد اور دوسرے مسلم ارکانِ پارلیمنٹ کے جذبہ کو سراہتے ہوئے متفقہ عید کے لیے سب حلقوں کے نزدیک قابلِ قبول فارمولا تلاش کرنے کی غرض سے باہمی رابطے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں اگلا اجلاس فروری ۲۰۰۱ء میں متوقع ہے اور قریبی حلقے پر امید ہیں کہ یہ کوششیں ضرور بار آور ہوں گی۔


(روزنامہ نوائے وقت لاہور ۳۰ نومبر ۲۰۰۰ء)

اخبار و آثار

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter