امریکی عورت کا المیہ

منو بھائی

نیویارک سے ہیوسٹن تک امریکہ کے چار بڑے شہروں میں ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصہ قیام کے دوران سینکڑوں دوستوں، ہزاروں پاکستانیوں، ہندوستانیوں اور دیگر ایشیائی ملکوں کے محنت کشوں اور کاروباری لوگوں سے انفرادی اور اجتماعی ملاقاتوں، کم از کم ایک درجن بڑے جلسوں، ادبی محفلوں، مذاکروں میں شرکت، تین ٹیلی ویژن پروگراموں اور تین ریڈیو انٹرویوز میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کرنے اور یہاں کی شان و شوکت، گہماگہی اور رونق دیکھنے کے علاوہ میں نے امریکی معاشرے کے بعض انتہائی گھناؤنے پہلو بھی دیکھے ہیں۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎

یاد ہے سیر چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں

مگر میں نے یہاں جو کچھ بھی دیکھا ہے اس میں سب سے نمایاں یہاں کی عورت کی حالتِ زار ہے اور مجھے سب سے زیادہ ترس بھی یہاں کی عورت پر ہی آیا ہے۔ میرے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام اور منڈی کی معیشت یعنی معیشت بازار میں سب سے زیادہ اور سب سے سستے داموں فروخت ہونے والا ’’مال‘‘ عورت ہے اور سب سے زیادہ استحصال کا نشانہ بننے والی بھی عورت ہے۔

میرے اس خیال سے یہاں کے صوفی مشتاق، جوہر میر، منظور اعجاز اور افتخار نسیم جیسے دانشور دوستوں کو بھی اتفاق ہے کہ امریکہ میں کتوں اور بلیوں کا عورتوں سے زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ موٹر کاروں کے پہیوں اور انجنوں پر عورتوں سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ میرے ان دانشوروں کا یہ خیال بھی صحیح معلوم ہوتا ہے کہ بازاری معیشت کا نظامِ سرمایہ داری اگر اسٹاک مارکیٹ کے کریش کر جانے کے صدمے سے بچ بھی گیا تو عورت کی بے حرمتی کے ہاتھوں مارا جائے گا۔

یہ وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ میں کوئی نیکوکار نہیں اور اخلاقیات کا علمبردار بننا بھی مجھے زیب نہیں دیتا، مگر انسان اور حیوان میں تمیز رکھتا ہوں اور یہاں امریکہ کے بڑے شہروں میں یعنی بڑی منڈیوں اور بازاروں میں، سڑکوں، پارکوں، ٹیوب اسٹیشنوں، دفتروں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں کے کمروں، لابیوں اور گھروں میں اچھے بھلے انسانوں کو حیوانوں میں تبدیل ہوتے دیکھ کر دکھی ہوتا ہوں۔ اور یہ سن کر بھی تکلیف ہوتی ہے کہ عورتوں کے لیے وہی الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو کتوں اور بلیوں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

دنیا کی پندرہ بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنیں محض عورتوں کی آرائش و زیبائش کا سامان تیار کر کے اربوں ڈالر کماتی ہیں، مگر ان کی مصنوعات سے عورتوں کی صحت پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔ یہ تمام مصنوعات لباس سے زیبائش اور میک اپ تک مردوں کے دل لبھانے کے لیے ہوتی ہیں، عورتوں کو دیدہ زیب بنانے اور انہیں بازار میں بٹھانے کے لیے ہوتی ہیں۔

یہ لکھتے وقت محسوس ہوتا ہے کہ بہت سی نیک دل خواتین کو میری یہ باتیں اچھی نہیں لگ رہی ہوں گی لیکن اگر انہوں نے نیویارک، واشنگٹن، لاس ویگاس اور ہیوسٹن کے نائٹ کلبوں میں، اسکولوں اور کالجوں کی طالبات اور دیگر ضرورتمند لڑکیوں کو تمام کپڑے اتار کر ناچتے تھرکتے اور بازی گری کے انتہائی بے ہودہ مظاہرے کرتے اور انتہائی مکروہ قسم کے لوگوں کی آغوشوں میں لوٹ پوٹ ہو کر بیلیں وصول کرتے دیکھا ہو تو ان کی آنکھیں بھیگ جائیں گی، یا پومیائی کا زلزلہ یاد آ جائے گا، یا طوفانِ نوح کا سبب بنے والی بارش امڈتی دکھائی دے گی۔ 

امریکی معاشرے میں مردانگی کا مضحکہ خیز گھمنڈ یورپ کے معاشروں سے بھی زیادہ ہے اور یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔ امریکی آئین، قوانین اور اقدار میں انسانی حقوق کی پاسداری کے بہت تذکرے ہیں مگر یہ تذکرے امریکی معیشت کی طرح کھوکھلے، بے جان اور بے روح ہیں۔ امریکہ میں عورت کی بے حرمتی کی وجہ سے خاندانوں کی طرح ازدواجی زندگی بھی وفات پا چکی ہے۔ بازاری معیشت نے یہاں کی اخلاقی قدروں کا بھی دیوالیہ نکال دیا ہے۔ اخلاقی افلاس سے جو قحط جنم لیتا ہے وہ تمام قحطوں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے، امریکہ اس قحط سے دوچار ہو چکا ہے۔

(بشکریہ جنگ)


حالات و مشاہدات

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter