ملک کی عظیم دینی درسگاہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
اصحابِ خیر خصوصی توجہ فرمائیں

مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی

آپ حضرات کو بخوبی معلوم ہے کہ دینی مدارس اس وقت اسلام کے مضبوط قلعے اور مسلمانوں کے دینی تشخص کو برقرار رکھنے کا واحد مؤثر ذریعہ اور آخری پناہ گاہیں ہیں۔ آج پوری دنیا کی اسلام مخالف قوتیں دینی مدارس کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ حالانکہ ان مدارس میں قرآن و سنت اور دیگر علومِ اسلامیہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم کو اللہ تعالیٰ نے جہادِ کبیر سے تعبیر کیا ہے، اس سے کفر و شرک، بدعات و خرافات اور تمام برائیوں کے خلاف ہر وقت جہاد کیا جاتا ہے۔ گویا کہ اس کی تعلیم حاصل کرنا اور پھر اسے آگے دوسروں تک پھیلانا جہادِ اکبر ہے جو اِن دینی مدارس کے ذریعہ جاری و ساری ہے ۔

مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے دینی مدارس کی اہمیت کے متعلق فرمایا:

’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ مُلا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔‘‘

ان ہی دینی مدارس میں سے آپ کا مدرسہ نصرۃ العلوم بھی ہے جسے ۹۵۲ء میں ایک مردِ قلندر مفسرِ قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی مدظلہ العالی فاضل دارالعلوم دیوبند نے نہایت بے سروسامانی کی حالت میں اللہ رب العزت کی ذات پر توکل کرتے ہوئے موہن سنگھ نامی جوہڑ پر قائم فرمایا۔ آج پچاس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اہلیانِ گوجرانوالہ بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ پچاس برسوں میں مدرسہ نصرۃ العلوم نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، معاونین اور خیر خواہوں کی پُرخلوص دعاؤں اور تعاون سے اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق دینی خدمات سرانجام دی ہیں۔ جس کی بدولت اس وقت آپ کا یہ مدرسہ پاکستان کے درجہ اول کے مدارس کی صف میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے تعلیم یافتہ نہ صرف گوجرانوالہ اور پاکستان کے ہر علاقہ میں بلکہ دنیا کے کئی مختلف ممالک میں کتاب اللہ، سنتِ رسول اللہ اور دینی تعلیمات سے بنی نوع انسان کے قلوب کو منور کر رہے ہیں۔ جو یقیناً ایک صدقہ جاریہ ہے جس میں عامۃ المسلمین اور خصوصاً اہلیانِ گوجرانوالہ کا بھرپور حصہ ہے اور اس کا اجر و ثواب ان کو اخروی زندگی میں حاصل ہو گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اسی مناسبت سے رمضان المبارک کے موقع پر ہم ہر سال مدرسہ نصرۃ العلوم کے معاونین اور خیرخواہوں کی خدمت میں گزارش کیا کرتے ہیں کہ وہ اپنی حلال طیب کمائی میں سے مدرسہ کو فراموش نہ کریں اور حسبِ معمول اپنے پُرخلوص تعاون سے اس دینی کام کو رواں دواں رکھیں۔ اس کو مصر کے قومی شاعر احمد شوقی نے اس طرح کہا ہے ؎

فانصر بھمتک العلوم واھلھا
ان العلوم قلیلۃ الانصار

’’اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق علم اور اہلِ علم کی مدد کرو کیونکہ علوم کے مددگار لوگ دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں۔‘‘

حضرت مجدد الف ثانیؒ کا قول بھی ہے:

’’دینی تعلیم میں پیسہ خرچ کرنا دیگر امور میں خرچ کرنے کی بنسبت دوہرا اجر پاتا ہے۔‘‘

اس لیے کہ ایک تو پیسہ مستحقین تک پہنچتا ہے اور دوسرا دینی تعلیم میں معاونت کا علیحدہ اجر و ثواب بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس وقت وطنِ عزیز پاکستان شدید ترین معاشی، اقتصادی اور سیاسی زبوں حالی کا شکار ہے جس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ بجلی اور سوئی گیس کے بھاری بھر کم بلز اور روزہ مرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ہوشربا زیادتی سے جہاں ایک عام آدمی متاثر ہوا ہے وہاں دینی مدارس کے بجٹ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسے حالات میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو جاری رکھنا جہاد ہی تو ہے، اور اس میں حصہ لینے والے خوش نصیب ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی نیکی کی توفیق دیتا ہے۔

مدرسہ نصرۃ العلوم میں اس وقت

  • ۸۰ سے زائد عملہ تعلیمی اور انتظامی ذمہ داریاں بحسن و خوبی سرانجام دے رہا ہے۔
  • اور ۱۲۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات مختلف شعبہ جات مثلاً مکمل درسِ نظامی، حفظ و ناظرہ، تجوید و قراءت اور مڈل تک عصری تعلیم سے روشناس ہو رہے ہیں، جن کا باقاعدہ سرکاری بورڈ اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے ہر سال امتحان دلایا جاتا ہے۔
  • مدرسہ کے دارالاقامہ میں تین سو سے زائد مسافر طلباء رہائش پذیر ہیں جنہیں مدرسہ سے دو وقت کا کھانا، کتب، علاج، معالجہ، چارپائی، لباس اور ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔
  • مدرسہ کے تحت ادارہ نشر و اشاعت کے شعبہ میں پچاس سے زائد علمی و تحقیقی کتب شائع ہو چکی ہیں اور دارالافتاء سے قریباً دس ہزار فتاویٰ جاری ہو چکے ہیں۔
  • مدرسہ کا ماہانہ رسالہ ’’نصرۃ العلوم‘‘ بھی ۱۹۹۵ء سے جاری ہے اور شعبہ کمپیوٹر بھی احسن طریقہ سے چل رہا ہے۔

لیکن فی الحال کئی اہم شعبہ جات وسائل کی کمی کے باعث التوا میں پڑے ہوئے ہیں جن کی اشد ضرورت ہے۔ مدرسہ نصرۃ العلوم چونکہ سرکاری گرانٹ حاصل نہیں کرتا اور اس کے بجٹ کا سارا دارومدار عوام الناس کے چندوں پر ہی منحصر ہے، اس لحاظ سے مدرسہ کا ماہانہ خرچ تقریباً چار لاکھ روپے ہے جو محض اللہ تعالیٰ کے کرم اور آپ حضرات کے پُرخلوص تعاون سے اب تک پورا ہوتا رہا ہے۔ لیکن چند ماہ قبل مدرسہ کی گاڑی کو حادثہ پیش آ جانے کی وجہ سے دو جانوں کے ضیاع کے ساتھ خاصا مالی نقصان بھی ہوا ہے جس کی وجہ سے مدرسہ زیربار ہے۔ اس لیے آپ حضرات سے پُرزور اپیل کی جاتی ہے کہ اپنے اموال زکوٰۃ و عشر، صدقات و خیرات، عطیہ، ہدیہ اور ماہانہ و سالانہ چندہ جات کی صورت میں مدرسہ کے ساتھ بھرپور تعاون فرمائیں اور کسی وقت فرصت نکال کر خود مدرسہ تشریف لا کر کام کا جائزہ لیں اور ضروریات دیکھیں۔ آپ کے تعاون سے صدقہ جاریہ کی صورت میں یہ دینی سلسلہ تا قیامِ قیامت جاری رہے گا اور ہم سب اس کے معاون و مددگار بن کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے جان و مال اور عزت و آبرو میں برکت نصیب فرمائے، آمین یا الٰہ العالمین۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter