آج کل مغربی میڈیا اسلام کو سب سے زیادہ نشانہ انسانی حقوق کے حوالہ سے بنا رہا ہے۔ مغرب دنیا پر اپنی سیاسی، عسکری، علمی، فکری اور تمدنی بالادستی اور ذرائع ابلاغ پر مکمل تسلط کی بدولت بزعمِ خود انسانی حقوق کا چیمپئن بن بیٹھا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے کسی طرح اسلام کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔ ہم اس مضمون میں انسانی حقوق کے صرف ایک چھوٹے سے پہلو یعنی جنگی حالات میں انسانی حقوق کے حوالے سے علمی و تاریخی طور پر معروضی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں گے۔
اسلام نے جنگ کے متعلق جو اصلاحی و انقلابی نظریہ پیش کیا ہے اور حالتِ جنگ میں بنی نوع انسان کے حقوق کی جس طرح پاسداری و تحفظ کیا، اس کا ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ نزولِ قرآن کے وقت پوری دنیا میں جنگ کا جو تصور، طریقہ کار اور عملی صورتحال تھی اس پر ایک نظر ڈالیں، کیونکہ اس کے بغیر اسلام کی دور رس انقلابی اصلاحات کی اہمیت کماحقہ نہیں سمجھی جا سکتی۔
نزولِ قرآن کے وقت عرب کی حالت
اسلام سے پہلے عربوں کے نزدیک لڑائی سے زیادہ پسندیدہ اور مرغوب کوئی چیز نہیں تھی۔ عرب میدانِ جنگ کے علاوہ کہیں اور مرنے کو اپنے لیے عار اور ذلت سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک جنگوں کا مقصد قتل و غارت گری، لوٹ مار، اموال پر قبضہ، غلام باندی بنانے کا شوق، حسین لڑکیوں کا حصول، زرخیز علاقوں، باغات، چراگاہوں اور پانی کے چشموں پر قبضہ کرنا ہوتا تھا۔ اسلام سے پہلے عرب میں جتنی بھی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں وہ عموماً اپنے تفاخر، غرور اور بڑائی کے اظہار سے شروع ہوئیں۔
عرب کی مشہور لڑائی حرب بسوس جو بنی تغلب اور بنی بکر بنی وائل کے درمیان چالیس برس تک جاری رہی صرف اس بات سے شروع ہوئی تھی کہ بنی تغلب کے سردار کلیب بن ربیعہ کی چراگاہ میں بنی بکر بنی وائل کے ایک مہمان کی اونٹنی گھس گئی تھی۔ جب تک دونوں قبائل پوری طرح تباہ نہیں ہو گئے ان کی تلواریں میان میں نہیں گئیں۔
دوسری بڑی لڑائی جو حرب داحس کے نام سے مشہور ہے محض اس بات سے شروع ہوئی تھی کہ بنی عبس کے سردار قیس بن زہیر کے دو تیز رفتار گھوڑے دوڑ کے مقابلہ میں بنی بدر کے سردار حذیفہ بن بدر سے آگے نکل رہے تھے۔ یہ جنگ بھی تقریباً نصف صدی تک جاری رہی، اس وقت تک نہیں رکی جب تک دونوں قبیلوں کے گھوڑوں اور اونٹوں کی نسل منقطع ہونے کے قریب نہیں پہنچ گئی۔
اسی طرح مدینہ منورہ کے دو بڑے قبیلوں اوس اور خزرج کی مشہور لڑائی جس کا سلسلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ پہنچنے تک تقریباً ایک صدی جاری رہا، اس بات پر شروع ہوئی تھی کہ بنی قینقاع کے بازار میں ایک قبیلہ نے تعلی اور فخر سے اعلان کر دیا کہ میرا حلیف قبیلہ زیادہ اشرف و افضل ہے۔
اسی طرح پہلی حرب فجار عکاظ کے میدان میں بنی کنانہ کے ایک شخص کے فخر و مباہات کے بڑے بول سے ہوئی جس سے نہ صرف کنانہ و ہوازن بلکہ دونوں کے حلیف قبائل عرصہ دراز تک لڑتے لڑتے بدحال ہو گئے۔
ایران اور روم کا طریقِ جنگ
جنگوں کے حوالے سے یہ تو جاہل وحشی عربوں کا حال تھا۔ اس وقت دنیا میں دو سپر طاقتیں تھیں جو اپنی تہذیب و تمدن پر نازاں تھیں۔ دونوں نے دنیا کے بڑے حصہ کی بندر بانٹ کر رکی تھی۔ ایک پرشین امپائر، دوسری رومن امپائر۔ دنیا کی اکثر اقوام (عرب، مشرقِ وسطیٰ، شمال بھارت، یورپ) ان دونوں میں سے کسی کے زیر اثر تھیں۔ ان کا حال بھی عربوں سے مختلف نہ تھا۔
شہنشاہِ ایران قباد (۵۰۱ء، ۵۳۱ء) کے زمانہ میں جب حکومتِ ایران کے ایما پر حیرہ کے بادشاہ منذر نے شام پر چڑھائی کی تو انطاکیہ میں چار سو راہبات (عیسائی مبلغہ) کو پکڑ کر اپنے بت عزیٰ پر ذبح کر دیا۔ اور جب خسرو پرویز نے سلطنتِ روم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تو اپنی تمام مملکت میں مسیحی رعایا کے کلیسا مسمار کرا دیے اور مسیحیوں کو آتش پرستی پر مجبور کر دیا۔ سینٹ ہلینا اور قسطنطین کے عظیم الشان گرجاگروں کو آگ لگا کر خاکستر کر دیا۔ نوے ہزار عیسائیوں کو قتل و قید کیا۔ خود ایران میں جب مانی نے اپنے نظریات کا پرچار کیا تو شاہِ ایران بہرام نے ایسی شدید کاروائی کی کہ اس کے ایک ایک ماننے والے کو ڈھونڈھ ڈھونڈ کر قتل کیا اور خود مانی کو گرفتار کر کے اس کی کھال کھنچوا کر اس میں بھس بھروا کر جنڈی سابور کے دروازے پر لٹکا دیا۔ جب رومن شہنشاہ ہرقل کے سفیر صلح کا پیغام لے کر خسرو پرویز کے دربار میں پہنچے تو خسرو نے ان کے رئیس کی کھال کھنچوا ڈالی اور باقی سفیروں کو قید کر دیا۔ ہر قل کے نام جو خط لکھا وہ اس طرح شروع ہوتا ہے:
’’خداوند بزرگ و فرمانروائے عالم کی جانب سے اس کے احمق و کمینہ غلام ہرقل کے نام‘‘۔
اسی طرح عادل کہلانے والے ایرانی شہنشاہ نوشیرواں نے ۵۷۲ء میں جب شام پر حملہ کیا تو تقریباً ۳ لاکھ شامیوں کو پکڑ کر ایران بھیج دیا، اور ملک کی حسین لڑکیاں گرفتار کر کے ایلخان اتراک کے پاس بھیج دیں تاکہ وہ رومیوں سے اتحاد ختم کرے۔
دوسری جانب ۵۷۱ء میں جب رومی شہنشاہ ٹینوس نے بیت المقدس فتح کیا تو پورے علاقہ کی حسین لڑکیاں اس کے لیے چن لی گئیں، اور تمام بالغ لڑکے اور مرد پکڑ کر مصری کانوں میں مشقت کے لیے روانہ کر دیے گئے، اہرام ایسے عجائبات کے نیچے ایسے ہی ہزارہا بدقسمت غلاموں کی لاشیں دبی ہیں، اور ایمی تھیٹروں اور کلو رسیموں میں نمائش بینوں کے آگے جنگلی درندوں سے پھڑوانے اور شمشیر زنوں سے کٹوانے کے لیے بھیج دیے گئے۔ ستانوے ہزار قیدیوں میں سے گیارہ ہزار صرف اس وجہ سے مر گئے کہ نگہبانوں نے انہیں کھانے کو نہیں دیا۔ صرف بیت المقدس کے شہر میں جو لوگ قتلِ عام کی بھینٹ چڑھے ان کی تعداد ایک لاکھ پینتیس ہزار سات سو انچاس ہے۔ اس کے علاوہ دمشق، انطاکیہ، حلب وغیرہ دوسرے شہروں میں بھی انسانیت کا یہی حشر ہوا۔
قیصرِ روم قیصر جسٹنین نے جب افریقہ کے وانڈالوں پر چڑھائی کی تو پوری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار نبرد آزما مردوں کے علاوہ کسی عورت، بچے، بوڑھے کو زندہ نہ چھوڑا۔ جب روک و ہیومن سیاح نے اس ملک میں قدم رکھا تو آبادی کی کثرت، تجارت، زراعت، خوشحالی دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا۔ اس کے بیس سال بعد قیصرِ روم نے ۵۰۸ء میں اس خوشحال ملک کی آبادی کو اس طرح فنا کے گھاٹ اتارا کہ یورپ کا مشہور مؤرخ گبن لکھتا ہے:
’’سارا ملک اس طرح تباہ ہوا کہ ایک سیاح سارا دن گھومتا مگر کسی آدم زاد کی شکل دکھائی نہ دیتی۔‘‘
خود یورپ میں گاتھوں کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا۔ ان کی آبادی کو موت کے گھاٹ اتار کر ان کے بادشاہ ٹوٹیلا کو قتل کر کے اس کے تخت و تاج کے ساتھ بدن کے کپڑے تک اتار کر قیصرِ روم جسٹنین کے پاس بھیج دیے گئے۔
نزولِ قرآن تک بدقسمت مفتوح قوموں کے گرفتار شدہ مردوں (غلاموں) کا ایک مصرف فاتح اقوام کو کھیل و تفریح بہم پہنچانا بھی ہوتا تھا۔ رومیوں کے یہ تفریحی کھیل اتنے بڑے پیمانے پر منعقد ہوتے کہ ہزارہا آدمیوں کو بیک وقت تلواروں سے قتل ہونے کا تماشا دکھانا پڑتا۔ ڈیوس جسے مغرب میں نسلِ انسانی کا لاڈلا کہا جاتا ہے (Darling of the human race) نے ایک بار پچاس ہزار درندوں کو پکڑوا کر تفریح طبع کے لیے کئی ہزار یہودیوں کے ساتھ ایک احاطہ میں چھوڑ دیا۔ اسی طرح یورپ کے ٹراجان کے کھیلوں میں گیارہ ہزار درندے اور دس ہزار آدمی ایک ساتھ لڑائے جاتے تھے۔ یہ کھیل آخری شخص کے باقی رہنے تک جاری رہتے۔
اس دور میں شکست کھانے والی بدقسمت قوموں کے لیے قتل ہو جانا سب سے باعزت اور بہتر راستہ تھا۔ دوسرا راستہ غلامی کا تھا جو بقول فیرا وہ ذلت کے بچپن، مشقت کی جوانی اور بے رحمانہ غفلت کے بڑھاپے میں پیدائش سے موت تک کے مراحل طے کرتے۔ رومیوں کی فتوحات جب وسیع ہوئیں تو کروڑوں مقتولوں کے علاوہ غلاموں کی تعداد چھ کروڑ تک پہنچ گئی۔ رومی و یونانی اپنے علاوہ سب قوموں کو وحوش و برابرہ کہتے۔ ان قوموں کے لیے ان کے پاس قتل یا غلامی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ارسطو جیسا معلم اخلاق بے تکلف لکھتا ہے کہ قدرت نے برابرہ (غیر یونانی) اقوام کو محض غلامی کے لیے پیدا کیا۔ دوسرے مقام پر حصولِ دولت و ثروت کے جائز و معزز طریقے گناتے ہوئے کہتا ہے، ان اقوام (غیر یونانیوں) کو غلام بنانا بھی ان میں شامل ہے۔
اسلام سے پہلے جنگوں کا مقصد
اسلام سے پہلے مختلف قوموں، ملکوں یا مذاہب میں جو لڑائیاں ہوتی تھیں ان میں حکام و سلاطین کے سامنے جنگ کا کوئی مقصد یا اخلاقی نصب العین نہیں ہوتا تھا۔ محض اقتدار کو وسعت دینا اور اپنی برتری جتانا مقصود ہوتا۔ جنگ کے مواقع پر عام باشندوں کا جو انبوہِ عظیم ساتھ ہو جاتا، ان کا مقصد عیش و عشرت کے لیے مال و دولت، لونڈی غلام اور شہوت رانی کے لیے خوبصورت لڑکیاں حاصل کرنا ہوتا۔ اس لیے جب فوجیں کسی ملک پر حملہ آور ہوتیں تو بچے، بوڑھے، عورتیں، جانور، درخت، عبادت گاہیں، کوئی چیز ان کے دستِ ستم سے نہیں بچتی تھی۔ جو لوٹا جا سکتا تھا لوٹ لیا جاتا تھا، اور جو نہ لوٹا جا سکتا اسے توڑ پھوڑ اور جلا کر خاک کر دیا جاتا۔
یہودی اور ہندو مذہب میں جنگ کا مقصد اور طریق
اسلام سے پہلے دنیا میں جو بڑے مذاہب موجود تھے، ان میں عیسائیت اور بدھ مذہب میں تو سرے سے کسی بھی حالت میں جنگ کا تصور ہی نہیں۔ ان مذاہب میں انسان کی نجات نفس کشی اور رہبانیت یعنی کاروبارِ دنیا سے فرار اور کنارہ کشی اختیار کرنے میں رہی۔ یہ مذاہب شر و فساد، ظلم و طغیان کو ختم کرنے کی کوشش کے بجائے انسان کو اس سے فرار اختیار کرنے اور پہاڑوں، جنگلات میں بھاگ جانے کی تعلیم دیتے ہیں۔
البتہ یہودی اور ہندو مذہب میں نہ صرف جنگ کا تصور موجود ہے بلکہ ان کی بیشتر مذہبی کتابیں درحقیقت جنگوں کی رزمیہ داستانیں ہی ہیں۔
موجودہ توراۃ میں کثرت سے لڑائیوں کا ذکر آیا ہے اور جگہ جگہ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ توراۃ میں بہت سی جگہوں پر ہر مرد کو قتل کرنے، عورتوں، لڑکوں، مویشی اور دیگر مال و اسباب کو لوٹ لینے، ہر سانس لیتی چیز (جاندار) کو قتل کرنے، باغوں کو کاٹ دینے، عمارتوں، مندروں، معبدوں اور بتوں کو توڑ ڈالنے کا حکم ملتا ہے۔ کنواری لڑکیوں کے علاوہ سب کو موت کے گھاٹ اتار دینے، یا زیادہ سے زیادہ رحم کر کے غلام بنا لینے کا حکم ہے۔
اسی طرح ہندو مذہب کے بنیادی مآخذ (چاروں وید، بھاگوت، گیتا، منو، سمرتی) میں بکثرت دشمنوں کو جلا ڈالنے، برباد کرنے، ان کے مویشی خاص طور پر خوبصورت گھوڑوں اور گائیوں کے حصول، مال و خزانے کے حاصل ہونے کی دعائیں، اور دشمنوں (غیر آریہ) کے لیے بد دعاؤں کے سینکڑوں کلمات ملتے ہیں۔ یہی نہیں، دشمن کو ہلاک کر کے سر قلم کرنے، اس کی کھال کھینچ لینے، ہڈیوں کو توڑنے، کچلنے، ان کے جسم کی بوٹی بوٹی کرنے کی دعائیں ہیں۔
بھاگوت گیتا جو جنگ کے فلسفہ کا سب سے بڑا گرنتھ ہے، اس میں سری کرشن کے بھاشن (خطاب) کے ذریعہ لڑنے، قتل و غارت گری، خونریزی پر ابھارنے کی نہایت مؤثر و بلیغ الفاظ میں تعلیم و تلقین ہے۔ گیتا کے فلسفۂ جنگ کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی انسان کے قتل کرنے کو گناہ و جرم سمجھنا اور اس پر رنج کرنا محض جہالت اور دھرم کی حقیقت سے ناواقفیت ہے۔ کیونکہ روح کے لیے جسم کی حیثیت وہی ہے جو جسم کے لیے کپڑے کی، کسی انسان کا قتل کرنا ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کپڑے پھاڑ دینا، جب انسان کو ایک دن مرنا ہی ہے تو اسے قتل کرنے میں کیا برائی ہے۔ نیک و بد کا امتیاز صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو گیانی (عارف) نہیں۔ گیان (عرفان) حاصل ہو جانے پر بد سے بدتر فعل (قتل خونریزی) انسان کے لیے گناہ نہیں رہتا۔
ایک طرف گیتا پوری طرح انسان کو قتل و خونریزی پر اکساتی ہے، دوسری طرف گیتا کے ابواب میں کسی ایک جگہ بھی نہ جنگ کا کوئی بہتر نصب العین و مقصد بتاتی ہے، اور نہ جنگ کے آداب و حدود، نہ کوئی اعلیٰ اخلاقی ہدایت۔ گیتا سے زیادہ سے زیادہ جنگ کا جو مقصد معلوم ہوتا ہے وہ ہے حکومت و سلطنت، مال و دولت، ناموری و شہرت کا حصول، اور شکست کی بدنامی و ذلت کا خوف۔ یہی حال یہودیوں کی توراۃ کا ہے، وہ بھی جنگ کے کسی اعلیٰ مقصد اور اخلاقی ہدایات سے یکسر خالی ہے۔
موجودہ دور میں بھارت زور و شور سے خود کو اہنسا (عدمِ تشدد و امن) کا پیامبر و معلم ظاہر کر رہا ہے اور جنگ کے حوالے سے الزام تراشی میں (اسلام پر) مغربی میڈیا کا ہمنوا ہے، جبکہ وید دھرم میں اہنسا کی تعلیم کہیں موجود نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے اہنسا کا تصور بدھ مذہب سے لیا ہے جو ایک زمانہ میں بھارت کی اکثریت کا مذہب تھا۔ مگر ساتویں صدی عیسوی میں ہندو مت کے پیروکاروں نے بدھ مذہب کے پیروکاروں کا قتل عام کر کے انہیں بہت معمولی اقلیت میں تبدیل کر دیا۔ بھارت کی تاریخ بتاتی ہے کہ مہاتما بدھ سے لے کر مہاتما گاندھی تک امن و اہنسا کی بات کرنے والے ہر شخص کو مار دیا گیا۔ ہندو مذہب کے جتنے بھی ہیروز ہیں وہ سب ہی جنگ کے ہیرو ہیں۔
اسلام میں جنگ کا مقصد اور نصب العین
ہم تفصیل سے ذکر کر آئے ہیں کہ اسلام سے پہلے دنیا میں ہر قوم و ملک و مذہب کے نزدیک جنگ کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ طاقتور کی خواہشِ زن و زمین و زر اور اقتدار کے حصول کے لیے وحشت و بربریت، شقاوت و سنگدلی، قتل و خونریزی اور لوٹ کھسوٹ کا وسیع سلسلہ شروع کر کے کمزور اقوام کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے یا انہیں غلام بنا لیا جائے۔ یہ تھی اس دور میں جنگ کی حقیقت۔
ایسے حالات میں اسلام نے جنگ کے نظریہ و مقصد، قوانین و ضوابط میں اعلیٰ و ارفع اصلاحات کا عَلم بلند کیا۔ جنگ کے متعلق اسلام کے نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ بغیر کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے جنگ و قتال ایک معصیت اور گناہِ عظیم ہے۔ ہاں جب دنیا میں ظلم و طغیاں پھیل جائے اور خدا کے نا فرمان و سرکش لوگ خلقِ خدا کا جینا دوبھر کر دیں، ان کا امن و راحت چھین لیں تو محض دفعِ مضرت کے لیے جنگ کرنے کی اجازت بلکہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس مقصد کو ایران کے سپہ سالار رستم کے دربار میں صحابئ رسولؐ ربیع بن عامرؓ نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’ہمارا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی بندگی میں، اور مذاہب کے ظلم و ستم سے اسلام کے عدل میں، دنیا کی تنگیوں سے نکال کر اس وسعت و فراخی میں داخل کریں۔‘‘
اس نظریہ کے مطابق جنگ کا مقصد چونکہ حریف و مقابل کو ختم کرنا یا تباہ کرنا نہیں، بلکہ محض اس کے ظلم و طغیان، شر و فساد اور نافرمانی کی طاقت کو ختم کر کے اس کے شر و ظلم کو دفع کرنا ہے، اس لیے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ جنگ میں صرف اتنی ہی طاقت استعمال کرنی چاہیے جتنی دفعِ شر و طغیان کے لیے ناگزیر ہو۔ اس لیے جنگ اور اس کے ہنگامۂ کارزار کو ان لوگوں تک متجاوز نہیں کرنا چاہیے جن کا جنگی طاقت اور ظلم و طغیان کے بقاء سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے بے ضرر طبقات کو جنگ کے اثرات و تباہ کاریوں سے حتی الامکان محفوظ رکھنا چاہیے۔
جنگ کے اس مقصد اور اعلیٰ تصور کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنے کی خاطر اسلام نے جنگ و لڑائی کے تمام رائج الوقت الفاظ کو چھوڑ کر جنگ کے لیے ایک ایسی اصطلاح پیش کی جو کہ اس کو وحشیانہ جنگ کے تصور سے بالکل الگ کر دیتی ہے، اور اسلام کے اعلیٰ و ارفع تصورِ جنگ پر ٹھیک ٹھیک دلالت کرتی ہے۔ وہ ہے ’’جہاد‘‘ یعنی کسی مقصد کے حصول کے لیے انتہائی کوشش صَرف کرنا۔ مگر کوشش کا لفظ بھی انسانی خیرخواہی و بہبودی کے پورے مفہوم کو ظاہر نہیں کرتا، کیونکہ کوشش نیکی اور بدی دونوں جہت میں ہو سکتی ہے۔ اس لیے اسلام نے جنگ کا اعلیٰ تصور و مقصد ہر وقت پیشِ نظر رکھنے کے لیے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید لگا دی۔
اب ہر وہ لڑائی جو کسی ملک و قوم کی تسخیر، اقتدار کی ہوس، مال و دولت، یا کسی عورت کے حصول، ذاتی عداوت و دشمنی، یا شہرت و ناموری کی خاطر ہو، وہ جہاد سے خارج ہو گی، اسلام کے نزدیک جہاد نہیں کہلائے گی۔ جہاد صرف وہ جنگ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے ہو، ظلم و شرک کو دفع کرنے کے لیے ہو، جس میں کوئی سی غرض یا خواہش کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔
اسلام کا تصورِ جنگ و جہاد
جنگ کے اس ارفع اور پاکیزہ تصور کے تحت اسلام نے جنگ کا ایک مکمل ضابطہ اور قوانین وضع کیے۔ جس میں جنگ کے آداب، اخلاقی حدود، محاربین جنگ کا ایک مکمل ضابطہ اور قوانین و فرائض، مقاتلین و غیر مقاتلین کا امتیاز، قیدیوں کے حقوق، مفتوح قوموں کے حقوق، نہ صرف تفصیل سے بتائے بلکہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء راشدینؓ نے اپنے عمل سے برت کر اعلیٰ نمونے بھی قائم کر کے ہر دور کے لیے عملی نظائر اور مثال قائم فرما دی۔
بہت سی صحیح احادیث میں بتایا گیا کہ اگر کوئی شخص مالِ غنیمت کے حصول، فرمانروائی کی خواہش، شہرت و ناموری، اپنی شجاعت کے اظہار، حمیتِ قومی و ملکی، یا جوشِ انتقام میں لڑتا ہے تو وہ اسلام کے نزدیک ہرگز جہاد نہیں، بلکہ وہ شخص خدا کا بدتر نافرمان قرار پائے گا۔ اسلام نے جنگ کی اصلاح و تطہیر کے سلسلہ میں سب سے پہلی اصلاح یہ کی کہ دشمن کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا۔ اہلِ قتال اور غیر اہلِ قتال۔
- ایک وہ جو جنگ میں عملاً حصہ دار بنتے ہیں یا حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں جیسے جوان تندرست مرد۔
- دوسرے وہ جو عرفاً و عقلاً عملی جنگ میں حصہ نہیں لیتے یا عام طور پر حصہ نہیں لیا کرتے۔ جیسے عورتیں، بچے، بیمار، زخمی، اپاہج، اندھے، عبادتگاہوں کے مجاور، کاروبارِ دنیا سے یکسو رہبان، اور ایسے ہی دیگر بے ضرر لوگ۔
اسلام نے جنگ میں صرف اول الذکر طبقہ کو قتل کرنے کی اجازت دی۔ اور ثانی الذکر طبقات کے قتل کرنے کو سختی سے منع کر دیا۔ غرض جو لوگ عادۃً معذور کے حکم میں ہیں یا لڑتے نہیں، جنگ میں ان سے تعرض نہ کیا جائے گا۔ البتہ اگر یہ لوگ عملاً اہلِ قتال بن جاتے ہیں، مثلاً بیمار یا زخمی کمانڈر جنگی چالیں بتا رہا ہو، یا عورت جاسوسی یا تخریب کاری کر رہی ہو، تو اس وقت وہ بھی اہلِ قتال کے حکم میں شامل ہو جائیں گے۔
پھر اہلِ قتال جن سے جنگ کرنا اور ان پر تلوار اٹھانا جائز ہے، ان پر بھی غیرمحدود حق حاصل نہیں ہے، بلکہ اسلام نے اس کے بھی حدود و آداب کا تعین کیا ہے جن کی پابندی لازمی ہے۔ نہایت اختصار کے ساتھ ہم انہیں ذکر کرتے ہیں۔
اسلام میں طریقۂ جنگ کی تطہیر و اصلاحات
(۱) اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ رات کو جب لوگ بے خبر سو جاتے، اچانک قتل و غارت گری شروع کر دیا کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وحشیانہ طرز کی اصلاح فرمائی۔ آپ جب کسی دشمن پر رات کے وقت پہنچ جاتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی حملہ نہیں فرماتے ’’اذا جاء قوماً بلیل لم یغر علیہم حتیٰ یصبح‘‘۔
(۲) عربوں اور دیگر اقوام میں عام طور پر شدتِ انتقام میں دشمن کو زندہ جلانے کا رواج تھا۔ آنحضرتؐ نے اس وحشیانہ حرکت کو قطعاً ممنوع قرار دیا اور حکماً زندہ جلانے کی ممانعت فرما دی۔ ’’لا تعذبوا بعذاب اللہ لا یعذب بالنار الا رب النار‘‘ آگ میں جلانا صرف خدا کا حق قرار دیا۔
(۳) دشمن کو باندھ کر قتل کرنا بھی معمول تھا۔ پیغمبرِ اسلامؐ نے دشمن کو باندھ کر تکلیفیں دے دے کر یا تڑپا تڑپا کر مارنے سے منع فرما دیا۔ ایک صحابی عبد الرحمٰن بن خالدؓ نے لاعلمی میں چار دشمنوں کو باندھ کر قتل کر دیا۔ جب انہیں اسلام کے حکم کا علم ہوا تو اپنی غلطی کے کفارے کے طور پر چار غلام آزاد کیے اور سخت نادم ہوئے۔
(۴) میدانِ جنگ کے علاوہ لوٹ مار سے منع کر دیا۔ فتحِ خیبر کے وقت کچھ مسلمانوں نے مفتوح قوم کے ساتھ زیادتی شروع کر دی۔ آنحضرتؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے اسی وقت سب کو جمع فرما کر اسلام کا حکم پہنچاتے ہوئے فرمایا، فتح کے بعد تمہارے لیے ہرگز جائز نہیں کہ بلاوجہ ان کے گھروں میں گھس جاؤ یا خواتین پر ہاتھ اٹھاؤ یا ان کے پھل کھا جاؤ۔ آپؐ نے اس حکم کو قرآن کی طرح بلکہ اس سے زیادہ واجب العمل قرار دیا۔
(۵) دشمن کے مویشی چھین لینے سے اسلام نے روک دیا۔ ایک جنگی سفر کے موقع پر اسلامی لشکر نے کچھ بکریاں چھین کر ان کا گوشت پکا لیا۔ جب پیغمبر اسلامؐ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے آ کر پکے ہوئے گوشت کی دیگچیاں الٹ دیں اور فرمایا ’’النہبہ لیست باحل من المیت‘‘ چھینا ہوا مال مردار کی طرح بدترین حرام ہے۔
(۶) اس دور کا عام دستور تھا کہ جب فوجیں نکلتیں تو ساری منزل اور راستوں میں پھیل جاتیں اور راہ گیروں کے لیے راستے تنگ یا بند ہو جاتے۔ پیغمبر اسلامؐ نے منادی کر ادی ’’من ضیق منزلاً او قطع طریقاً فلا جہاد لہ‘‘ یعنی جو کوئی منزل و راستوں کو تنگ کرے گا اور راہ گیروں کو لوٹے گا اس کا جہاد نہیں۔
فوجوں کو اخلاقی ہدایات کا رواج
انسانی تاریخ میں فوجوں اور لشکروں کو اخلاقی ہدایات دینے کا دستور آپؐ نے قائم فرمایا۔ جب آپ کسی لشکر کو روانہ فرماتے تو لشکر کو تقویٰ اور خدا کا خوف اختیار کرنے کی نصیحت کے بعد فرماتے ’’اغزوا بسم اللہ فی سبیل اللہ قاتلوا من کفر باللہ اغزوا ولا تغدروا ولا تغلوا ولا تمثلوا و لا تقتلوا ولیداً‘‘ جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو خدا سے کفر کرتے ہیں، جنگ میں کسی سے بدعہدی نہ کرنا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا، مثلہ (اعضا کاٹنا) نہ کرنا، اور کسی بچہ کو قتل نہ کرنا۔
اسی طرح خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دست ہدایات دیں جن کو تمام مؤرخین و محدثین نے نقل کیا ہے۔ وہ ہدایات یہ ہیں:
- عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں۔
- مثلہ نہ کیا جائے (یعنی جسم کے اعضاء نہ کاٹے جائیں)۔
- راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں۔
- کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے، نہ کھیتیاں جلائی جائیں۔
- آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔
- جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔
- بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔
- جو لوگ اطاعت کریں ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان و مال کا ہے۔
- اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔
- جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔
ان احکامات کے ذریعے اسلام نے جنگ کو تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال سے پاک کر دیا۔ اور جنگ کو ایک ایسی مقدس جدوجہد میں بدل دیا جس کے ذریعے ایک نیک شریف اور بہادر آدمی کم سے کم ممکن نقصان پہنچا کر دشمن کے شر و فساد کو دفع کر کے امن قائم کر سکے۔
جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کی تلقین
اس دور میں حالتِ جنگ میں دشمن قیدیوں کے قتل عام، عمارتوں کی توڑ پھوڑ، آتش زنی کے ساتھ ساتھ فصلوں اور کھیتوں کو برباد کر دینا بھی جنگ کی عام روایت تھی۔ قرآن نے فصلوں اور نسلوں کی بربادی و قتل کو فساد قرار دے کر اس کو ممنوع و حرام قرار دیا (دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲۰۵)۔ البتہ جنگی ضرورت کے تحت درختوں کو کاٹنے کی اجازت ہے، جیسا کہ بنی نضیر کے محاصرہ کے وقت کیا گیا۔ اس وقت بھی قرآن کی تصریح کے مطابق صرف ایک قسم کے کھجور کے درخت جنہیں لیتہ کہا جاتا تھا کاٹے گئے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ بنی نضیر کھجوروں میں عجوہ و برنی بطور غذا استعمال کرتے تھے، لیتہ ان کی غذا نہیں تھی۔ یہ کاٹنا بھی محاصرہ کو مضبوط بنانے کے لیے جنگی ضرورت کے تحت تھا، لہٰذا شرعاً ناگزیر حالات میں جنگی ضرورت کے لیے درخت کاٹے جا سکتے ہیں، محض دشمن کا نقصان کرنے یا تخریب و غارت گری کے لیے نہیں۔
اسی طرح عرب کا یہ دستور بھی تھا کہ دشمن کے قتل پر اکتفا نہیں کیا جاتا بلکہ جوشِ غضب میں اس کا مثلہ کیا جاتا یعنی کان ناک اور دیگر اعضاء کاٹے جاتے۔ اسلام نے مثلہ کی سختی سے ممانعت کر دی اور دشمن کا صرف سر قلم کرنے پر اکتفا کرنے کا حکم دیا۔
اسی طرح قیدیوں کے متعلق قرآن نے صرف دو طرح کے سلوک کی اجازت دی’’اما مناً بعد واما فداءً‘‘ یا تو احسان کا برتاؤ کر کے بلامعاوضہ رہا کر دو، یا فدیہ (مالی معاوضہ) لے کر رہا کرو۔ البتہ قیدیوں میں جو شر و فساد کے ائمہ اور فتنہ عظیم اور قتل و غارت گری کے اصل ذمہ دار ہیں انہیں قتل کرنے کی اجازت ہے۔
اس دور میں سفیروں اور قاصدوں تک کو بے دریغ قتل کر دیا جاتا تھا خواہ وہ قاصد خود بادشاہ و وزیر ہی کیوں نہ ہو۔ اسلام نے مطلقاً قاصد کے قتل کو ممنوع قرار دیا۔ مسیلمہ کذاب کا قاصد عبادۃ بن حارث جس نے پیغمبر اسلامؐ کی خدمتِ اقدس میں نہایت گستاخانہ پیغام دیا تو آپ نے فرمایا ’’لو لا ان الرسل لا تقتل لضربت عنقل‘‘ اگر قاصدوں کا قتل (اسلام میں) ممنوع نہ ہوتا تو میں اسی وقت تیری گردن مار دیتا۔
فتح مکہ کے موقع پر جب اسلامی لشکر مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہا تھا (جہاں رسول اللہؐ اور آپ کے ساتھیوں کو تیرہ سال تک شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا) آپؐ کا حکم تھا ’’لا تجہزن علی جریح ولا یتبعن مدبر و لا یقتلن اسیراً من اغلق بابہ فہو امن‘‘ کسی زخمی پر حملہ نہ کیا جائے، کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے، اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امن میں ہے۔
اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے اثرات
جنگ کے متعلق اسلام کی اس اصلاحی اور اعلیٰ تعلیم نے عرب کی جاہل، وحشی اور خونخوار قوم، جو کسی قانون یا اخلاقی ضابطہ کی قائل نہیں تھی، ایسا زبردست ذہنی انقلاب پیدا کر دیا جس کی مثال پوری انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ جو وحشی لٹیرے تھے، اب دنیا میں بنی نوع انسان کی جان و مال، عزت و آبرو کے محافظ بن گئے۔ اس کا سب سے بڑا نمونہ خود فتح مکہ ہے۔ ایک ایسا شہر جس نے پیغمبر اسلامؐ اور آپ کے خاندان اور جانثار ساتھیوں پر اذیت رسانی، تکلیف دہی اور وحشیانہ ظلم و جور کے وہ تمام طریقے آزما لیے تھے جو انسانی بس میں ہو سکتے ہیں۔ مگر ان پر قابو پانے کے بعد نہ قتلِ عام کیا جاتا ہے، نہ لوٹ مار ہوتی ہے، نہ کسی کے مال و عزت سے تعرض ہوتا ہے۔ پورے شہر کی تسخیر و فتح میں صرف وہی ۲۴ آدمی مارے جاتے ہیں جو خود پیش قدمی کر کے حملہ آور ہوتے ہیں۔ ہبار بن اسود جس نے پیغمبر اسلامؐ کی بے قصور جواں بیٹی کو بے رحمی سے شہید کیا۔ وحشی بن حرب جس نے آپؐ کے محبوب چچا کو قتل کیا۔ ہندہ بنت عتبہ جس نے پیغمبر اسلامؐ کے چچا کے کان ناک کاٹے، کلیجہ نکال کر چبایا۔ سب سے بڑے دشمن ابو جہل کا بیٹا عکرمہ عبد اللہ بن سراح اور کعب بن زبیر جیسے پیغمبرؐ کے جانی دشمن تک کے قصور یکلخت معاف کر دیے جاتے ہیں۔
کیا اس کا ہزارواں حصہ بھی آج کی تہذیب کی علمبردار اور انسانی حقوق کی ٹھیکیدار مغربی اقوام پیش کر سکتی ہیں؟ یوں تو جنیوا کنونشن اور اقوامِ متحدہ نے حالتِ جنگ کے متعلق بڑے اچھے اچھے قوانین اور چارٹ بنا رکھے ہیں، لیکن اچھے اچھے الفاظ کا لکھ لینا اور چیز ہے اور عمل کارِ دیگر۔ کسی نے سچ کہا ہے ’’اخلاق کہنے کی نہیں کرنے کی چیز ہے‘‘۔
حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کی چند مثالیں
اسلام نے حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جو اصلاحات کیں، پیغمبر اسلامؐ نے کٹھن سے کٹھن حالات میں بھی ان پر عمل کرنے کی درخشاں روایت قائم رکھی۔ اختصار کی خاطر صرف تین مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
اسلام کی پہلی فیصلہ کن جنگِ بدر کے موقع پر کفارِ مکہ کے گیارہ سو کا لشکرِ جرار (جو جنگی ہتھیاروں سے پوری طرح مسلح تھا) کا مقابلہ محض تین سو تیرہ بے سروسامان اور نہتے مسلمانوں سے تھا۔ اس وقت ایک ایک شخص کی ضرورت و اہمیت تھی۔ ایسی حالت میں حضرت حذیفہ بن یمانؓ اپنے والد کے ساتھ میدانِ جنگ میں پہنچتے ہیں اور بتاتے ہیں ہمیں راستے میں دشمنوں کے لشکر نے روک لیا تھا، مجبورًا ہمیں یہ وعدہ کرنا پڑا کہ ہم آپؐ کے ساتھ مل کر ان کے خلاف نہیں لڑیں گے، آپؐ ہمیں ایسے اہم اور فضیلت کے موقع پر جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دیں۔ مگر پیغمبر اسلامؐ نے اجازت نہیں دی اور ابوجہل جیسے سخت دشمنِ اسلام سے مجبوری کے عالم میں کیے ہوئے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا۔
اسی طرح جنگِ خیبر کے موقع پر جب دشمنوں (یہود) کا سخت محاصرہ کے دوران قلعہ سے ایک چرواہا ان کی بکریاں چرانے کے لیے نکلتا ہے اور آنحضرتؐ سے سوال و جواب کے بعد مسلمان ہو جاتا ہے تو آنحضرتؐ اسے پہلا حکم یہ دیتے ہیں کہ اہلِ خیبر کی بکریاں واپس کر کے آؤ۔
اور آگے بڑھیے، حضرت معاویہؓ جو آپؐ کے صحابیؓ اور تمام مسلمانوں کے خلیفہ ہیں، بلادِ روم یعنی اہلِ یورپ سے معاہدہ کرتے ہیں۔ آپ صلح کی مدت ختم ہوتے ہی اچانک حملہ کرنے کے لیے اسلامی فوجوں کو اپنی سرحدوں پر جمع کرنا چاہتے ہیں تو ایک صحابی حضرت عمرو بن عبسہؓ اس کو بدعہدی سے تعبیر کرتے ہوئے پکار کر کہتے ہیں ’’اللہ اکبر وفاء لا غدرًا‘‘ فرماتے ہیں، ہمیں رسول اللہ نے حکم دیا ہے کہ جس کسی قوم (دشمن) سے معاہدہ ہو اس میں اتنی سی بھی خیانت نہ کی جائے (کہ دشمن سمجھے کہ اگر حملہ ہوا تو مسلمانوں کا لشکر مرکز سے چل کر اتنے دنوں میں سرحد تک پہنچے گا، اس لیے اسے پہلے معاہدہ کے ختم کرنے کا نوٹس دیا جائے)۔ اس پر حضرت معاویہؓ لشکر سرحد سے واپس بلا لیتے ہیں۔
کیا دنیا کی کوئی قوم بشمول مغرب کے حالتِ جنگ میں عہد کی پاسداری کی ایسی ایک مثال بھی پیش کر سکتی ہے؟ کیا مغرب کی مہذب کہلانے والی اقوام حالتِ جنگ میں دشمن کے ساتھ ایسے اخلاقی برتاؤ کا تصور بھی کر سکتی ہے؟ ان انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کا یہ حال ہے کہ حالت ِجنگ میں نہیں (سرد جنگ میں) لیبیا و ایران کے مسافر بردار طیاروں کو مار گراتی ہے۔ عراق، ایران، لیبیا کے کھربوں ڈالر کے بینک اثاثوں کو فریز کر کے بے دھڑک ہضم کر جاتی ہے اور ان کا ضمیر ذرہ برابر شرم و حیا محسوس نہیں کرتا۔
انسانی حقوق کی پاسداری میں مغربی اقوام اور مسلمانوں کا موازنہ
مسلمانوں کا حالتِ جنگ میں انسانی حقوق کی پاسداری کا ریکارڈ اتنا شاندار ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے تربیت یافتہ جماعت سینکڑوں جنگیں کرتی ہے، نصف سے زیادہ دنیا فتح کرتی ہے مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا ان عظیم الشان فتوحات اور مسلسل جنگوں میں کبھی کسی عورت، بچے یا بوڑھے پر ہاتھ اٹھایا ہو۔ اس کے برخلاف اس صدی میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں تہذیب و تمدن کی دعویدار مغربی اقوام نے، جو خود کو انسانی حقوق کی چیمپئن کہتی ہیں، ایک دوسرے کے ملک میں گھس کر جو تباہیاں پھیلائیں اور کروڑوں بے قصور شہریوں کو جن بھیانک طریقوں سے ہلاک کیا، دشمن (جرمنی و جاپان) کے ہتھیار ڈالنے کی موثق اطلاعات کے باوجود محض اپنی ہیبت و طاقت کے مظاہرہ کے لیے (ہیروشیما پر ایٹم بم ڈال کر) جنگ کے اختتام کا وحشیانہ طریقہ اختیار کیا، اس سے کون ناواقف ہے؟ حال ہی میں بوسنیا اور کوسووا میں مغرب کے سرب درندوں ہی نے نہیں، بلکہ اقوامِ متحدہ کے محافظ دستوں میں شامل امریکہ یورپ کے فوجیوں نے ہزارہا مسلمان خواتین کے ساتھ جو کچھ کیا وہ طشت از بام ہو چکا ہے۔
جنگ میں اسلام کے اصلاحی اقدامات کے ثمرات و نتائج
جنگ میں انسانی حقوق کے متعلق اسلام کی عطا کردہ اعلیٰ اخلاقی تعلیمات کا نتیجہ اور اس کی برکت تھی کہ چند ہی سالوں میں نہ صرف جزیرۃ العرب و مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بلکہ ایشیا، افریقہ کا بڑا حصہ اسلام کے سایۂ عاطفت میں پناہ گزین ہو گیا۔ یہ اقوام اتنی سرعت سے اسلام کی طرف آئیں کہ مؤرخین محوِ حیرت ہیں۔ ہم نہایت اختصار سے سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں۔
عہدِ نبوی میں کل لڑائیوں (غزوات و سرایا) کی مقدار ۸۲ ہے جس کے نتیجہ میں تقریباً ۱۰ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح ہوا۔ اور اس میں ایسا امن و امان قائم ہوا کہ مملکت کے آخری کنارے حیرہ (یمن) سے ایک حسین عورت سونے کے زیورات سے لدی نکلتی ہے اور بیت اللہ کا طواف کر کے واپس آجاتی ہے، ہزارہا میل کے طویل سفر میں کوئی متنفس اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس قدر عظیم اخلاقی و ذہنی انقلاب کے لیے طرفین کا جو جانی نقصان ہوا وہ یہ ہے۔ کل مسلمان شہید ہوئے ۲۵۹ اور کل غیر مسلم قتل ہوئے ۷۵۹۔ دس سالہ جنگوں میں کام آنے والے مسلم و غیر مسلم کا کل میزان ۱۰۱۸ بنتا ہے۔ آج اتنے انسان تو معمولی جھڑپوں میں ہلاک کر دیے جاتے ہیں۔
اور آگے بڑھیے۔ دورِ فاروقیؓ میں ۲۲ لاکھ مربع میل، دورِ عثمانیؓ میں ۴۴ لاکھ مربع میل اور دورِ معاویہؓ میں تقریباً ۶۵ لاکھ مربع میل کا علاقہ۔ یعنی اس دور کی معلوم دنیا (ایشیا، افریقہ و یورپ) کے بڑے حصہ پر اسلام کی عملداری قائم ہو جاتی ہے۔ اس میں صرف ۳۰ سال کا عرصہ لگتا ہے اور آدھی سے زیادہ دنیا کو فتح کرنے میں جانی نقصان اس قدر کم ہوتا ہے کہ اس پر آج تک مؤرخین محوِ حیرت ہیں۔ اس کے برعکس انسانی حقوق کی علمبردار مغربی اقوام نے گزشتہ نصف صدی میں جس قدر انسانوں کو قتل کیا اس پر بھی ایک نظر ڈالیں۔ الجزائر میں فرانس نے تقریباً دس لاکھ، صرف ویتنام میں امریکہ نے ۱۴ لاکھ، لیبیا میں اٹلی نے تقریباً ساڑھے تین لاکھ، افغانستان میں روس نے تقریباً ۱۵ لاکھ، دونوں جنگِ عظیم میں مغربی اقوام نے تقریباً ڈیڑھ کروڑ، روس اور چین کے کمیونسٹ انقلاب میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں کوئی بڑی جنگ نہ ہونے کے سبب اسے سرد جنگ یا امن کا دور کہا جاتا ہے۔ مگر اس سرد جنگ کے دوران گزشتہ ساٹھ سالوں میں جنگوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ ہے، اور تقریباً اتنی ہی تعداد وطن سے ہجرت پر مجبور ہونے والوں کی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق جنگوں میں مرنے اور ہجرت کرنے والوں میں تقریباً نصف کے قریب مسلمان ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں ۴۵ ملین (ساڑھے چار کروڑ) مہاجرین ہیں جن میں ۳۲ ملین (تین کروڑ بیس لاکھ) مسلمان ہیں۔ یعنی گزشتہ ساڑھے تیرہ سو سالوں میں اتنے مسلمان قتل نہیں ہوئے جتنے مغرب کے عطا کردہ امن کے ساٹھ سالوں میں۔ کہیں یہ فریضۂ جہاد کو چھوڑنے کی سزا تو نہیں؟
دنیا سے جنگوں کے خاتمہ اور انسانی حقوق کی بحالی کا واحد طریقہ
نزولِ قرآن کے وقت دنیا کو امن کی جس قدر ضرورت تھی آج پھر دنیا کو امن کی اس سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ پوری دنیا تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا سے جنگیں اور فساد کبھی اخلاقی وعظ و نصیحت سے ختم نہیں ہوا۔ سقراط سے ایک بار پوچھا گیا، انسان کو جنگوں سے نجات مل سکے گی؟ اس کا جواب تھا جنگیں اس وقت تک ناگزیر رہیں گی جب تک انسان دیوانگی میں مبتلا رہے گا۔ اس پر لوگوں نے سوال کیا، اور انسان کب تک دیوانگی میں مبتلا رہے گا؟ سقراط کا جواب تھا ’’ہمیشہ‘‘۔ امن کے شہزادے (حضرت عیسٰیؑ) کا اعلان تھا ’’وہ دنیا کو امن نہیں تلوار دینے آیا ہے‘‘۔ فنلے (Finly) لکھتا ہے ’’عیسائیت نے اہنسا کا خوشنما مژدہ ضرور سنایا مگر اس پر کبھی کسی رومی شہنشاہ نے عمل کیا نہ مذہبی پادریوں اور پوپ نے‘‘۔
آج بھی مسیحی دنیا کی ذہنی صلاحیت اور مادی وسائل کا بڑا حصہ دنیا کی تباہی و ہلاکت کے ذرائع کی ایجاد میں صرف ہو رہا ہے۔ یہی حال اہنسا کے علمبردار بھارت کا ہے۔ اہنسا کا تصور ہمیشہ ناقابلِ عمل رہا ہے۔ مشہور آسٹریلوی مدبر آرجی کیسے (R.G. Case) مسٹر گاندھی کے نظریۂ عدمِ تشدد پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’یہ تو میری سمجھ میں آتا ہے کہ میں دوسروں کے خلاف تشدد نہ کروں، لیکن میں دوسروں کو اپنے خلاف تشدد سے کیسے باز رکھ سکتا ہوں؟‘‘
اسلام نے دنیا سے ظلم اور جنگوں کو ختم کرنے کے لیے ہی تلوار اٹھانے کا حکم دیا ہے، جیسے کوئی ماہرِ جراحت سرجن نشتر لے کر آپریشن روم میں جاتا ہے۔ اسلام کا فلسفۂ امن یہ ہے کہ طاقت اور ہتھیار نفس و خواہش پرست جنگ کے دلدادہ لوگوں کے بجائے انسانی حقوق کے پاسبان و محافظ جہاد کا تصور رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہو۔ انسانی تاریخ شاہد ہے، دنیا میں امن صرف اسی وقت قائم ہو سکا جب تلوار خوفِ خدا رکھنے والوں کے ہاتھوں میں تھی۔ ماضی کی طرح مستقبل میں جب بھی دنیا میں صحیح معنٰی میں امن قائم ہو گا وہ اسلام کے ارفع فلسفۂ امن یعنی جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ ہی ہو گا۔