عالمی منظر نامہ

ادارہ

پاکستان کو ایک کے بدلے گیارہ ڈالر واپس کرنا پڑتے ہیں

لاہور (نمائندہ جنگ) پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے جو قرضے ملتے ہیں ان کے ایک ڈالر کے گیارہ ڈالر واپس کرنا پڑتے ہیں۔ تمام غریب ممالک میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو قرضے واپس نہ کرنے کے بارے میں بحث زور و شور سے جاری ہے اور عنقریب یہ تحریک کی شکل اختیار کر لے گی۔

یہ باتیں آسٹریلیا کی ڈیموکریٹک سوشل پارٹی کی رہنما مس سوبل اور مزدور رہنما ٹم گڈن نے لاہور پریس کلب کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کیں۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں سے فرسٹ ورلڈ کے ممالک میں امیری اور تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں غربت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا، دنیا سے غربت کے خاتمے کا حل ’’کیپٹل ازم‘‘ کا خاتمہ ہے۔ آسٹریلوی رہنماؤں نے کہا کہ ورلڈ ٹرڈ آرگنائزیشن اور آئی ایم ایف امیر ممالک کو مزید امید بنانے کے ادارے ہیں۔ غریب ممالک کے عوام میں ان اداروں کی بالادستی کے بارے میں شعور بڑھ رہا ہے۔ امیر ممالک اس نئی تحریک سے لرزاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبلیو ٹی او کو اپنے اجلاس کے لیے جگہ نہیں مل رہی۔ مس سوبل اور ٹم گڈن نے کہا کہ پاکستان کے ذمے ۳۳ ارب ڈالر کا قرضہ ہے اور اسے ایک ڈالر کے بدلے میں گیارہ ڈالر ادا کرنا ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف دباؤ ڈال رہا ہے کہ منافع بخش سرکاری ادارے، تیل، گیس، ایئرپورٹس، ٹیلی کمیونیکیشن وغیرہ فروخت کیے جائیں جس سے بے روزگاری پھیلے گی۔ (روزنامہ جنگ، کراچی ۔ ۲۰ نومبر ۲۰۰۰ء)

چرچ آف انگلینڈ کے بارے میں ایک رپورٹ

لندن (جنگ نیوز) ایک بشپ نے کہا ہے کہ چرچ آف انگلینڈ بحیثیت ادارہ نسل پرست ہے اور اس کے نسلی اقلیتی ارکان یکہ و تنہا اور الگ تھلگ ہیں۔ سنڈے انڈیپنڈنٹ کے مطابق آرچ بشپ آف کنٹر بری ڈاکٹر جارج کیری کو اس ہفتے ایک رپورٹ پیش کی جائے گی جو معروف سیاہ فام بشپ آف سٹپنی ڈاکٹر جان سنٹامو نے لکھی ہے۔ سنٹامو اسٹیون لارنس انکوائری کے رکن تھے اور جب اس کی رپورٹ شائع ہوئی تو انہوں نے آرچ بشپ کو بتایا کہ چرچ آف انگلینڈ ابھی تک معاشرتی اعتبار سے یک رنگ ثقافت کے ذریعے باہم مربوط ہے یعنی سفید فام کلچر۔ نئی رپورٹ بڑی تشویش کا سبب ہو گی۔ اس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نسلی اقلیتی برادریوں کی بہت کم تعداد چرچ آف انگلینڈ اٹینڈ کرتی ہے۔ رپورٹ میں چرچ کے طور طریقوں کو منجمد بتایا گیا ہے جہاں سیاہ فاموں کو مخصوص بندھے ٹکے انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ برطانیہ کے بیشتر پیرش گرجاؤں میں اتوار کو فقط ایک فیصد سیاہ فام یا ایشیائی لوگ موجود ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے چرچز خصوصاً ایونجیکل گرجاگھروں میں اقلیتی عبادت گزاروں کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ (روزنامہ جنگ لندن ۔ ۱۳ نومبر ۲۰۰۰ء)

ترکی میں اسلامی اقدار کی پامالی

لندن (سٹاف رپورٹر) سکارف اتارنے سے انکار پر پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کی جانے والی نوجوان ترک خاتون ماروکاروچ نے کہا ہے کہ ترکیہ کی حکومت مذہبی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ خلاف ورزیاں ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب ترکی نے اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں اور وہ یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ہاؤس آف لارڈز (برطانیہ) کے موزز روم میں اپنے اعزاز میں لارڈ احمد کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماروکاروچ نے کہا، حکومت نے مذہب پر عمل کرنے کی پاداش میں ۱۹۹۷ء اور ۲۰۰۰ء کے درمیان ۲۳ ہزار اساتذہ کو ملازمت سے فارغ کر دیا ہے، جبکہ سکارف پہننے پر ۳۳ ہزار سے زیادہ طالبات کو سکول سے خارج کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب جدید مغربی ملک میں، جو خود کو جمہوری کہتا ہے، ہو رہا ہے۔

ماروکاروچ نے کہا کہ مغربی ملک انسانی حقوق کے بارے میں دوہرا معیار اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ افغانستان میں طالبان حکومت کی اس لیے مذمت کرتے ہیں کہ وہاں عورتوں کے حقوق مجروح کیے جا رہے ہیں، لیکن ان کی ناک کے نیچے ترکی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ ماروکاروچ نے سامعین کو اپنے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تفصیلات بھی بتائیں اور کہا کہ وہ مسلمان ہیں، ۱۹۸۶ء میں وہ امریکن سکول میں تھیں اور حجاب پہننے پر سکول سے نکال دی گئیں۔ انہوں نے امریکہ جا کر تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۹۹ء میں ان کی ویلفیئر پارٹی نے انہیں پارلیمانی امیدوار نامزد کیا۔ کل ۱۷ خواتین امیدوار تھیں جن میں بعض سکارف استعمال کرتی اور بعض نہیں کرتی تھیں۔ تین پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوئیں۔ انہوں نے کہ وہ الیکشن کمیشن میں سکارف پہن کر پیش ہوئیں، کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ جب رکن منتخب ہوئیں تو حلف کے لیے بلایا گیا، حلف کے وقت صدر بھی موجود تھے، ان سے سکارف اتارنے کو کہا گیا لیکن انکار پر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع ہو گئیں۔ دہشت گردی میں مدد دینے، ایجنٹ ہونے اور کئی دوسرے کیسز بنائے گئے۔ والدین کو ہراساں کیا گیا اور میڈیا کے چار بڑے مفاد پرست گروپوں کی طرف سے کردار کشی کروائی گئی۔ ترک شہریت ختم کر دی جو انہوں نے شادی کر کے دوبارہ حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ سکارف پہننا ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ آئین میں سکارف نہ پہننے کی کوئی پابندی نہیں۔ انہوں نے مذہبی بنیادوں پر امتیاز کی متعدد دوسری مثالیں بھی دیں اور کہا کہ یہ سب کچھ ایک چھوٹا سا حکمران طبقہ کر رہا ہے جو عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتا، انہوں نے مذہب کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب اور ثقافت کو خطرہ کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے اور ایک روز جیت کر رہیں گی۔ 

لارڈ احمد نے ماروکاروچ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آزادئ اظہارِ رائے اور آزادئ مذہب کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں پرائیویٹ ممبرز بل پیش کر رکھا ہے جسے تمام جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ حجاب کا اشو بنیادی حقوق میں آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں مذہبی حقوق اور عبادت کے حقوق پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حجاب انسانی حقوق کا اشو ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکی میں ۹۸ فیصد مسلمان ہیں، عورتیں سڑکوں پر حجاب استعمال کر سکتی ہیں لیکن پارلیمنٹ یا سرکاری دفتر میں اس کی اجازت نہیں۔ دو فیصد آبادی ۹۸ فیصد کو کس انداز میں کنٹرول کر رہی ہے۔

لارڈ ایوبری نے کہا کہ انسانی حقوق یورپ کنونشن کا حصہ ہے اور اگر ترکی یورپی یونین کا ممبر بننا چاہتا ہے تو اسے انسانی حقوق کی پاسداری کرنا پڑے گی۔ انہوں نے ماروکاروچ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا کیس انٹر پارلیمانی یونین میں اٹھائیں۔ یوکے کے ارکان ان کی جانب سے اس مسئلہ کو آگے بڑھائیں گے۔

بیرونس وتیکر نے کہا کہ یورپی یونین کے حالیہ معاہدہ کے تحت ملازمتوں میں مذہبی یا دوسرے امتیاز غیر قانونی قرار دیے گئے۔ اور وہ اس حق میں ہیں کہ حکومت ایسا قانون پاس کرے جس کے تحت مذہبی بنیادوں پر امتیاز کی پابندی عائد کی جائے۔ (روزنامہ جنگ، لندن ۴ نومبر ۲۰۰۰ء)

امریکہ اور طالبان

واشنگٹن (این این آئی) امریکہ کے نائب وزیرخارجہ ٹامس پکرنگ نے کہا ہے کہ اگر طالبان امریکہ کو لاحق خدشات اور تشویش کا ازالہ کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں تو نہ صرف امریکی بلکہ عالمی برادری بھی ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔ وائس آف کو انٹرویو میں ٹامس پکرنگ نے کہا کہ پاکستان کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ آیا ایسی حکومت کی حمایت کرنی چاہیے جو دہشت گردی کی پشت پناہی اور منشیات کی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہو اور ملکی استحکام اور مذاکرات کی خواہشمند نہ ہو۔

افغانستان میں براہ راست فوجی مداخلت کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمیں اور روس کو اس قسم کی بعض اطلاعات موصول ہوئی ہیں اور ہم نے اس مسئلے کو پاکستان کے سامنے اٹھایا ہے، جبکہ پاکستان نے اس قسم کے دعووں کی سخت تردید کی ہے۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ اطلاعات درست ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے پاکستان کے تعلقات ان کے لیے خود مسئلہ ہیں، لیکن پھر بھی پاکستان میں موجود درسگاہوں میں طالبان کو تربیت دی جاتی ہے اور یہ طالبان پاکستان کے اندر کئی مسائل بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ متعدد اسلامی ملکوں میں رہ چکے ہیں جن میں عوام اس تناظر میں طالبان کی پالیسیوں سے مختلف زندگی بسر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اسلام کا مخالف نہیں ہے اور امریکہ میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اگر ہم اسلام کے خلاف ہوتے تو یہاں اسلام فروغ نہیں پاتا۔ انہوں نے کہا کہ منشیات صرف اسلام میں منع ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ اس کی پیداوار ختم ہونی چاہیے اور اقوام متحدہ سے اس کے متبادل تعاون لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اقوامِ متحدہ سے امداد وصول کی گئی لیکن افیون کی کاشت کو نہیں روکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے امریکہ لویہ جرگہ سمیت ان تمام گروپوں کی حمایت کرتا ہے جو مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ کا حل ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت افغانستان بعض چیزیں درآمد کر رہا ہے جو ضروریات کو پورا نہیں کر رہیں۔ اور یہی چیزیں پاکستان میں اسمگل ہو جاتی ہیں جس سے ان کی معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے تاہم اس کے باوجود پاکستان کی حمایت کر رہا ہے۔ (روزنامہ جنگ لندن ۴ نومبر ۲۰۰۰ء)

جمائما عمران اور یہودی پریس

لندن (جنگ نیوز) تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی اہلیہ جمائما کو اپنے ایک آرٹیکل کے باعث شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں انہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے اسرائیل اور امریکہ پر کڑی تنقید کی تھی۔ برطانوی اخبار سنڈے ٹیلی گراف کے مطابق گولڈ سمتھ کے خاندانی وکیل تک نے جمائما کی نمائندگی کرنے سے انکار کر دیا۔ مسٹر سمپسن نے اپنے خط میں جمائما پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ گولڈ سمتھ کا صحیح مطلب تک سمجھنے سے قاصر ہیں۔

جمائما نے برطانوی اخبار گارجین میں اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ امریکہ میں ذرائع ابلاغ پر اسرائیلی لابی کا قبضہ ہے اور کلنٹن کی انتظامیہ میں بھی تقریباً تمام عہدے ایسے ہی لوگوں کے پاس ہیں، جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں امن اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب امریکہ ایک غیر جانبدارانہ ثالث کا کردار ادا کرے اور ذرائع ابلاغ بھی جانبداری سے گریز کریں۔

مسٹر سمپسن کا موقف ہے کہ یہودی پس منظر رکھنے والے افراد کو ایسے معاملات پر اظہارِ خیال نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جمائما کی وفاداریاں منقسم ہیں لہٰذا انہیں خاموش ہی رہنا چاہیے۔

تاہم جمائما نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میرے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں یہودی مخالف نہیں ہوں کیونکہ میرے خاندان کے بیشتر افراد اس عقیدے سے متعلق ہیں۔ جمائما نے بتایا کہ بی بی سی نے اس آرٹیکل پر ٹاک شو میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم عمران نے مجھے روک دیا۔ (روزنامہ جنگ، لندن ۱۳ نومبر ۲۰۰۰ء)

سندھو دیش کے لیے امریکہ سے مدد کی درخواست

جئے سندھ قومی محاذ سمیت متعدد قوم پرست جماعتوں نے سندھ کی علیحدگی اور سندھو دیش کے قیام کے لیے اقوامِ متحدہ اور امریکہ سے مدد طلب کر لی ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق ایک حساس ادارے نے حکومت کو حالیہ تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں جسقم نے ایک طویل ترین برقیہ میں اقوامِ متحدہ اور امریکہ کو لکھا ہے کہ پاکستان اس وقت کرپشن اور بداَمنی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے تحت صوبے کے عوام کے حقوق غصب کر کے بنیاد پرستوں کی سرپرستی کے ذریعے مسلسل خطرہ ہے۔ علاوہ ازیں سندھ کی علیحدگی کے لیے سندھی عوام میں پوسٹرز اور ہینڈ بل تقسیم کرنے کے لیے تیار کر لیے گئے ہیں۔ امن و امان کو متاثر کرنے کی کوشش جاری ہے جس کی بنیاد پر سندھ میں کسی بڑے بحران اور خانہ جنگی کا خطرہ ہے۔ (ہفت روزہ نوائے وقت اسکاٹ لینڈ ۳ تا ۹ نومبر ۲۰۰۰ء)

۷۲ فیصد امریکی مسلمانوں نے بش کو ووٹ دیا، سروے رپورٹ

واشنگٹن (نمائندہ جنگ) امریکہ میں مسلمانوں کی ۷۲ فیصد تعداد نے ریپبلکن صدارتی امیدوار جارج بش کو ووٹ دیا۔ مسلمان امریکی ووٹروں کے سروے کے نتائج کے مطابق ۷۲ فیصد نے ووٹ دینے کا اقرار کیا۔ یاد رہے کہ امریکی مسلمانوں کی تنظیم نے جارج بش کو ووٹ دینے پر زور دیا تھا۔ ۹۴ فیصد مسلمان ووٹروں نے کہا کہ وہ اس حمایت سے واقف تھے۔ اس سروے میں شامل ووٹروں میں ۶۱ فیصد مرد تھے اور ان کی عمر ۳۹ یا اس سے کم تھی۔ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد ۶ ملین بتائی جاتی ہے۔ (روزنامہ جنگ لندن ۱۹ نومبر ۲۰۰۰ء)

بھارتی مسلمانوں کی صورتحال

نئی دہلی (این این آئی) بھارت کے سرکردہ مسلمان نمائندوں اور بھارت کے سیاسی رہنماؤں و دانشوروں نے مسلمانوں کی ابتر حالت کی ذمہ داری کانگریس اور بی جے پی پر عائد کی ہے۔

بھارتی سیاست میں مسلمانوں کے مستقبل کے موضوع پر نئی دہلی میں منعقدہ سیمینار میں بھارت کے دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں نے کہا، یہ تشویش کی بات ہے اور بھارت میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کی نمائندگی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں کم ہوتی جا رہی ہے۔ انتخابات میں مسلم رائے دہندگان کے ووٹوں کا تناسب بھی تیزی سے کم ہو رہا ہے جو ۳۵ فیصد تک نیچے آ گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان بھارت کے سیاسی نظام پر مکمل عدمِ اعتماد کر رہے ہیں۔

سماج وادی پارٹی کے صدر ملائم سنگھ یادیو نے کانگریس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا، کانگریس نے اپنے طویل دورِ اقتدار میں نام نہاد سیکولرازم پر عمل کیا جس سے بی جے پی جیسی ہندو انتہاپسند جماعت کو فائدہ پہنچا۔

صحافی جاوید اختر نے کہا کہ کانگریس کے دعوے اس کے عملی کردار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کانگریس سمیت کسی بھی جماعت نے مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے پر توجہ نہیں دی بلکہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر ہر شعبہ زندگی میں پیچھے رکھا گیا۔ روزگار، خواندگی، سرکاری و نجی ملازمتوں اور سیاسی نمائندگی کے معاملات میں مسلمانوں کے حقوق غصب کیے گئے۔ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکومتوں کی مخالفانہ کاروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں ۱۹۸۰ء کے گوپال کمیشن کی رپورٹ آج تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی گئی جس میں مسلمانوں کی حالت شودروں (اچھوتوں) جیسی بیان کی گئی ہے۔ سیمینار سے صحافی شاہد صدیقی، مولانا انوار الحق قاسمی، مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما سیتارام جیسوری اور ممتاز صحافی کلدیپ نیر نے بھی خطاب کیا۔ مقررین نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بھارت کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کی شراکت کم ہو رہی ہے اور اس صورتحال سے بھارت میں بسنے والے مسلمان اپنے حقوق کے لیے الگ راستہ اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ بھارتی حکومتوں کو مسلمانوں کے ساتھ مخاصمانہ اور غیر مساویانہ سلوک ترک کر دینا چاہیے اور انہیں تمام شعبوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے نمائندگی اور ملازمتیں دی جانی چاہئیں تاکہ وہ بھارت کی ترقی میں بھرپور حصہ لے سکیں۔ (روزنامہ جنگ لندن ۱۹ نومبر ۲۰۰۰ء)

عائلی قوانین میں ترمیم کے بل پر عیسائی تنظیموں کا احتجاج

نئی دہلی (جنگ نیوز) بھارت کی عیسائی تنظیموں نے بھارتی حکومت کی مرکزی کابینہ کی طرف سے عیسائیوں کے لیے طلاق کے قوانین میں تبدیلی پر شدید تنقید کی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتی کابینہ نے جمعرات کو عیسائی مرد یا خواتین کی طرف سے طلاق حاصل کرنے کے قانون میں ترمیمی بل ۲۰۰۰ء پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا کے ترجمان ڈومینک امپانوئل نے کہا کہ حکومت بھارت کے ۸۷ فیصد عیسائیوں کی ترجمان تنظیم کی منظوری کے بغیر کس طرح ترمیم کا فیصلہ کر سکتی ہے؟ (روزنامہ جنگ لندن ۱۹ نومبر ۲۰۰۰ء)


اخبار و آثار

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter