یہ درست ہے کہ عورت ایک طویل عرصہ سے مظلوم چلی آ رہی تھی۔ وہ اسلام سے قبل ہر قوم اور ہر خطہ میں مظلوم تھی۔ یونان، مصر، روم، عراق، چین اور ہندوستان و عرب میں ہر جگہ مظلوم تھی۔ ہر جگہ وہ ظلم و ستم کی چکی میں پس رہی تھی۔ بازاروں میں میلوں میں اس کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ اس سے حیوانوں سے بدتر سلوک ہو رہا تھا۔ اہلِ عرب اس کے وجود کو باعثِ ننگ و عار سمجھتے تھے بلکہ بعض شقی القلب لوگ اس کو زندہ درگور کرتے تھے۔ یونان میں عرصہ تک یہ بحث جاری رہی کہ اس کے اندر روح بھی ہے یا نہیں؟ ہندوستان میں یہ اپنے شوہر کے ساتھ چتا پر جل کر راکھ ہو جاتی تھی۔ کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔ کسی کے دل میں اس کے لیے رحم کے جذبات نہیں تھے۔ راہبانہ مذاہب اس کو معصیت اور گناہ کا سرچشمہ سمجھتے تھے۔ اس کا وجود مجسم پاپ اور گناہ سمجھا جاتا تھا۔ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں وہ ذلیل و حقیر سمجھی جاتی تھی۔ اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں تھی۔ اس پر ظلم و ستم کی کوئی دادرسی نہیں ہوتی تھی۔ وہ معاشرہ میں مجبور و مقہور تھی اور اسے فریاد کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ وہ باپ کی، پھر شوہر کی اور اس کے بعد اپنی اولاد کی محکوم اور تابع تھی۔
اسلام نے عورت کو ظلم کے گرداب سے نکالا۔ اس کو معاشرہ میں عزت اور سربلندی عطا کی۔ اس کا احترام سکھایا۔ اس کے ساتھ انصاف کیا۔ اس کی داد رسی کی۔ لیکن مغرب کی جو قومیں اسلام کے سایۂ رحمت میں نہ آ سکیں وہ اسلام کی ان برکات اور ثمرات سے محروم رہیں۔ ان میں عورتوں کے حقوق برابر پامال رہے۔ اور وہ ہر قسم کا ظلم و ستم سہتی رہی۔ موجودہ دور میں جب ان قوموں میں عورت کی آزادی اور مساوات کا تصور ابھرا تو انہوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ صنفی اور نوعی اختلاف کے باوجود عورت مرد سے کم تر اور فرو تر نہیں ہے۔ وہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتا ہے۔ وہ مرد کی طرح ہر عہدہ اور منصب کی اہل ہے۔ لہٰذا مرد کی بالادستی اس پر سے ختم ہونی چاہیے اور اس کو وہ سارے حقوق ملنے چاہئیں جو مرد کو حاصل ہیں اور وہ ہر لحاظ سے آزاد ہے، اس پر کوئی قید نہیں ہے۔
عورت جو صدیوں سے مردوں کے ظلم و ستم سہہ رہی تھی، اس کے لیے آزادی کا یہ تصور بڑا دل خوش کن تھا۔ اس نے فوراً لبیک کہہ کر اس کو قبول کیا۔ جیسے فردوسِ گم گشتہ اسے مل گئی ہو۔ یورپ کے صنعتی انقلاب (Industrial Revolution) نے بھی ایک انگیخت کا کام کیا۔ چنانچہ وہ آہستہ آہستہ معاشی، معاشرتی، سماجی، تہذیبی اور تمدنی امور میں مرد کے شانہ بشانہ شریک بنتی گئی۔ وہ گھر کی چار دیواری سے نکل کر کارخانوں، دفتروں، اسکولوں اور کالجوں میں مرد کے دوش بدوش معاشی جدوجہد کر رہی تھی تو پارکوں، تفریح گاہوں، کلبوں اور کھیل کے میدانوں میں مردوں کے ساتھ کھیل کود اور عیش و تفریح میں بھی برابر حصہ لے رہی تھی۔
اب یہ ہوا کہ اس کا وجود ہر شعبۂ زندگی میں ضروری قرار پایا اور اس کے بغیر ہر شعبۂ حیات میں زندگی بے کیف اور بے لطف تصور کی جانے لگی۔ عورت اس کو ترقی کا نام دے کر اس کی طرف پیشرفت کرتی رہی اور اس تہذیب کے ظاہری حسن پر فریفتہ ہو گئی۔ لیکن اس کے بطن میں جو خرابیاں پنہاں تھیں، اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس تک اس کی نظر نہ گئی، وہ یہ جان نہ سکی کہ جس تہذیب کے زینہ پر وہ چڑھ رہی ہے وہ ؎
چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر ہے
عورت کی اس بے قید آزادی (Unristricted Freedom) نے مغرب کی پوری زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا اور اس کے نہایت گھناؤنے اور خطرناک نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے جس سے اس کی معاشی، معاشرتی اور سماجی زندگی میں عدمِ توازن پیدا ہو گیا۔
سب سے پہلا خطرناک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ زندگی کے ہر گوشہ میں مرد اور عورت کے بے باکانہ اور آزادانہ اختلاط نے پورے معاشرہ میں جنسی آوارگی کا رجحان پیدا کر دیا۔ فحاشی اور بدکاری کا عام چلن ہو گیا اور عورت کی اس آزادی کے بطن سے ایسی ننگی اور بے حیا تہذیب نے جنم لیا کہ اس کی عفونت اور سرانڈ سے شرم و حیا کا دم گھٹنے لگا اور اخلاق کا پھلتا پھولتا چمن اجڑ گیا۔ عورت جب چار دیواری سے نکل کر مجلسوں اور محفلوں کی زینت بنی تو جنسی آوارگی اس طرح پھیلی کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جو گندگی اور عفونت گھر کے بند کمروں میں بھی برداشت نہیں کی جا سکتی تھی وہ بازاروں اور سڑکوں میں سرعام پھیلنے لگی۔ انتہائی قابلِ احترام رشتے بھی اس گندگی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اور پھر جنسیات اور اخلاقی آوارگی کی ایسی ایسی داستانیں لوگوں میں پھیلنے لگیں جن کو سن کر آدمی شرم سے پانی پانی ہو جائے۔ بیواؤں اور رنڈیوں کا نام آرٹسٹ رکھ دیا گیا تاکہ ضمیر کا وہ کانٹا جو برے نام پر اندر خلش پیدا کرتا ہے، اس کو بھی نکال دیا جائے۔ آرٹ اور کلچر کے نام سے جنسی جذبات کی ترجمانی ہونے لگی۔ عریاں تصاویر کھنچنے لگیں اور وہ سر بازار بکنے لگیں تاکہ ان سے لوگوں کے جنسی جذبات کی تسکین ہو سکے۔ رقص اور موسیقی کے نام پر عورت سے لذت حاصل کی گئی۔ افسانہ، ڈرامہ، شاعری اور ادب کے ذریعہ جنسی اعمال و کیفیات کی تشریح ہونے لگی۔ اور عورت کا مقصد صرف اور صرف یہ رہ گیا کہ وہ مرد کے جنسی جذبات کی تکمیل اور تسکین کرے۔ غرضیکہ عورت مرد کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ گئی اور اب وہ واپس گھر کی چار دیوار میں جانے کے قابل نہ رہی۔
اس بے قید آزادی کا دوسرا گھناؤنا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندانی نظام تلپٹ ہو کر رہ گیا۔ خاندانی نظام عورت کی وجہ سے قائم تھا اور وہی اس کے نظم و نسق کو سنبھال رہی تھی۔ لیکن جب وہ گھر سے باہر کارخانوں، دفتروں اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لیے گئی تو اس کی زندگی کی ساری تگ و دو گھر سے باہر ہونے لگی۔ بیرونی مصروفیات سے اس کا گھر عدمِ توجہی کا شکار ہو کر برباد ہو گیا۔ خاندان معاشرہ کا بنیادی پتھر ہوتا ہے، اس کی بربادی پورے سماج کی بربادی ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پورا معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ عورت اور مرد کے درمیان محبت کا رشتہ ختم ہو گیا۔ والدین اور اولاد کی محبت کا رشتہ کمزور پڑ گیا۔ اولاد سے والدین کی محبت کا مرکز چھن گیا اور نرسنگ ہاؤس (Nursing Houses) کے حوالے ہو گئے۔ والدین سے بڑھاپے کا سہارا چھن گیا۔ غرضیکہ وہ سارے رشتے اور تعلقات جو خاندان کی بقا اور مضبوطی کا باعث ہوتے ہیں ایک ایک کر کے ٹوٹ گئے۔ اور انسان اس سکون سے یک قلم محروم ہو گیا جو ایک خاندان ہی اسے فراہم کر سکتا ہے۔
تیسرا نقصان اس آزادی کا یہ ہوا کہ عورت کے حقوق اور ذمہ داریوں میں تناسب اور توازن قائم نہ رہا۔ کیونکہ عورت کی فطرت میں اللہ نے ماں بننا رکھا ہے تاکہ اس کی گود میں نسلِ انسانی پروان چڑھ سکے۔ اس کے لیے جن جذبات و احساسات اور جن صلاحیتوں اور قوتوں کی ضرورت ہے وہ بھی فطرت نے اس میں رکھے ہیں۔ لیکن کارخانوں اور دفتروں کی کارکردگی نے اس کے ان جذبات اور ان صلاحیتوں کو ضائع کر دیا۔ نسلِ انسانی کو آگے بڑھانا کوئی ہنگامی اور وقتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک طویل اور دشوار گزار عمل ہے۔ اس میں حمل، ولادت، رضاعت اور بچہ کی پرورش اور تربیت وغیرہ ایک طویل سلسلہ ہے۔ عورت کی بیرون خانہ مصروفیات کی وجہ سے اس کے پاس اس عمل کے لیے کوئی وقت نہ ہے۔ لہٰذا مغربی ملکوں میں اولاد کا سلسلہ کم ہو گی اور ملکی آبادی خطرناک حد تک گرنے لگی۔ یہاں تک کہ بعض حکومتوں کو بچے پیدا کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب (Incentive) دینا پڑی۔
چوتھا خطرناک نتیجہ اس بے قید آزادی سے یہ برآمد ہوا کہ عورت اور مرد کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا جذبہ، جو ایک فطری جذبہ تھا، حقوق کی اس جنگ اور مادرپدر آزادی نے اس فطری جذبہ کو مجروح بلکہ نیم جان کر دیا۔ اس جذبہ کے فقدان سے عورت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا، اس لیے کہ صرف قانون اس کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ لیکن عملاً مساوات برتی نہیں جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ قانون نے اس کو جو معاشرتی اور سماجی حقوق دیے ہیں ان سے وہ پوری طرح بہرہ یاب نہیں ہو پاتی۔ اور اب حالت یہ ہے کہ عورت برسر بازار بکنے لگی۔ اس کی عزت و آبرو بے دریغ لٹ رہی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ قانونی طور پر یورپ اور امریکہ میں عورت کو بڑا تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب کبھی عورت اور مرد کا جھگڑا ہو کر مقدمہ عدالت میں جاتا ہے تو عدالت مرد کی نصف جائیداد اور دوسرے کئی حقوق کی رقم کی ڈگری عورت کے نام کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرد اس فیصلہ سے سخت پریشان ہو جاتا۔ اب مردوں نے یہ صورت اختیار کی کہ بغیر نکاح کے اس نے عورت کے ساتھ زن و شوئی کے تعلق رکھنے شروع کر دیے۔ اور آج یورپ میں ۸۰ فیصد مرد اور عورت بغیر قانونی نکاح کے شوہر اور بیوی بن کر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اب اگر عورت کا مرد کے ساتھ کوئی تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے تو قانون اس کو کوئی تحفظ نہیں دیتا کیونکہ وہ اس مرد کی داشتہ تھی، قانونی بیوی نہ تھی۔
مختصر یہ کہ عورت کتنے ہی قانونی حقوق کیوں نہ حاصل کر لے، ان سب کا اسے ملنا آسان نہیں۔ عورت مرد سے لڑ کر یہ حقوق حاصل نہیں کر سکتی۔ وہ صرف اس صورت میں اسے مل سکتے ہیں جب مرد اسے دینا چاہے۔ اور مرد اسی صورت میں اسے یہ حقوق دے سکتا ہے جب اس کے دل میں عورت کے بارہ میں ہمدردی اور محبت کا جذبہ ہو، اور وہ عورت کے ساتھ زیادتی کو گناہ اور جرم سمجھے۔
اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جس نے عورت کو وہ سب بنیادی حقوق دیے جن سے وہ عرصہ دراز سے یک قلم محروم چلی آ رہی تھی۔ اور اسلام ان حقوق کو صرف قانون کی زبان بیان کر کے خاموش نہیں ہو جاتا بلکہ وہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ مرد میں اس کی ادائیگی کا زبردست جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ اسلام نے عورت کو دنیا میں پہلی بار سوسائٹی میں ایک اہم درجہ دیا۔ چنانچہ ایک مغربی دانشور مسٹر اینی بسنت (Mr. Annie Besant) نے لکھا ہے:
’’ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانہ تک انگلستان میں اپنائے جا رہے تھے۔ یہ سب سے زیادہ منصفانہ قانون تھا جو دنیا میں پایا جاتا تھا۔ جائیداد، وراثت کے حقوق اور طلاق کے معاملات میں یہ مغرب سے کہیں آگے تھا اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا۔ (لیکن) یک زوجگی اور تعددِ ازدواج کے الفاظ نے لوگوں کو مسحور کر دیا ہے، اور وہ مغرب میں عورت کی اس ذلت پر نظر نہیں ڈالنا چاہتے جسے اس کے اولین محافظ سڑکوں پر صرف اس لیے پھینک دیتے ہیں کہ ان سے ان کا دل بھر جاتا ہے، اور پھر اس کی کوئی مدد نہیں کرتا۔‘‘