کراچی (نیشن نیوز) پاکستان کے ذمہ یکم جون ۲۰۰۰ء کو غیر ملکی قرضے کا بوجھ ۳۷.۳۰۴ بلین ڈالر (۳۷ ارب ۳۰ کروڑ ۴۰ لاکھ ڈالر) تھا۔ یہ بات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کی ۱۴ کروڑ آبادی کا ہر بالغ فرد اوسطاً ۲۶۶ ڈالر سے زائد غیر ملکی رقم کا مقروض ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی حکومت پر اندرون ملک قرضے کا بوجھ بھی ۱۵۵۸.۸ بلین روپے (تقریباً ۵۵۹ ارب روپے) ہے جو پاکستان کے ہر فرد پر ۱۱۱۳۴ روپے کے قرضہ کے مساوی ہے۔
اسی طرح قرضوں کا بوجھ پاکستان کی مجموعی سالانہ پیداوار کے ۹۷.۵ فیصد کے برابر ہے جو کسی بھی آزاد ملک کے لیے باعثِ افتخار نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملکی قرضے مجموعی قومی پیداوار کا ۴۹.۱ فیصد اور غیر ملکی قرضے ۴۸.۴ فیصد کے مساوی ہے۔
رواں سال میں پاکستان کے روپے کی قیمت بتدریج اور مسلسل کمی کے سبب پاکستان پر غیر ملکی قرضے کا بوجھ بڑھتا گیا ہے جبکہ ملکی قرضے میں بھی رپورٹ کے مطابق غیر صحتمندانہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو ان بھاری قرضوں پر سود کی بھی بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں۔
چنانچہ ۳۰ جون کو ختم ہونے والے سال میں اس مد میں ۳۳۸.۲ بلین روپے ادا کیے گئے جو پاکستان کی آبادی کے اعتبار سے اوسطاً فی کس ۲۴۱۶ روپے کے مساوی ہے۔ ان میں سے ۱۴۸.۱ بلین روپے غیر ملکی مد میں اور ۱۸۹.۶ بلین روپے ملکی قرضوں کی مد میں ادا کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق غیر ممالک میں مقیم پاکستانی وطن کو جو رقوم بھیجتے ہیں ان میں گزشتہ پانچ سال سے مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اب یہ مجموعی طور پر صرف ۹۱۳.۵ ملین ڈالر (۹۱ کروڑ) رہ گئی۔ ۱۹۹۶ء میں یہ رقم ۱۲۲۷.۵ ملین ڈالر (۱۲۳ کروڑ) تھی۔
اس دوران پاکستان کو سعودی عرب سے جو تعاون حاصل ہوا تو اس کی وجہ سے پاکستان کو ۸۰۰ ملین ڈالر کی قوم ادا کرنے میں بچت ہوئی۔ سعودی عرب کے تعاون کی شکل یہ تھی کہ اس نے تیل کی قیمت کی وصولی مؤخر کر دی تھی۔
ایک اور تشویشناک بات امریکہ اور برطانیہ میں موجود اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلِ زر میں کمی کا رجحان ہے۔ ان ممالک میں ہنڈی سسٹم متوازی طور پر ترسیلِ زر کا کام کر رہا ہے۔ مگر ان ممالک میں ہنڈی سسٹم چلانے والوں کو دیے جانے والے کی شرح خلیجی ممالک سے کہیں کم ہے۔
(ہفت روزہ نیشن، لندن ۔ ۱۰ تا ۱۷ نومبر ۲۰۰۰ء)