ورلڈ اسلامک فورم کا سالانہ اجلاس

ادارہ

ورلڈ اسلامک فورم کی مرکزی کونسل کا سالانہ اجلاس ۸ نومبر ۲۰۰۰ء کو جامعہ الہدیٰ نوٹنگھم برطانیہ میں مولانا محمد عیسیٰ منصوری کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں دیگر ارکان کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں کو ازسرنو منظم اور تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور آئندہ دو سال کے لیے فورم کے مندرجہ ذیل تنظیمی ڈھانچے کی منظوری دی گئی:

چیئرمین: مولانا محمد عیسٰی منصوری، لندن

ڈپٹی چیئرمین: مولانا مفتی برکت اللہ، لندن

سیکرٹری جنرل: مولانا رضاء الحق سیاکھوی، نوٹنگھم

رابطہ سیکرٹری: بیرسٹر منصور ملک، لندن

ارکان مرکزی کونسل: (۱) مولانا زاہد الراشدی، پاکستان (۲) ڈاکٹر اختر الزمان غوری، برمنگھم (۳) مولانا محمد قاسم رشید، کرائیڈن (۴) حاجی افتخار احمد، لندن (۵) مولانا محمد قاسم، برمنگھم (۶) مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری، لندن (۷) مولانا مشفق الدین، لندن (۸) حافظ حفظ الرحمٰن تاراپوری، لندن (۹) ڈاکٹر نذر الاسلام بوسی، لندن (۱۰) فیض اللہ خان، لندن (۱۱) حاجی غلام قادر، لندن۔

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکات سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اسلام اور مغرب کی موجودہ تہذیبی کشمکش کے پس منظر میں اسلامی ثقافت کے تحفظ اور دعوتِ اسلام کے فروغ کے لیے باہمی رابطہ و مفاہمت کو فروغ دیں اور اسلام کو درپیش جدید فکری و علمی چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے نئی نسل کو ان کے مقابلہ کے لیے تیار کریں۔

ایک اور قرارداد میں بیت المقدس پر اسرائیل کے مسلسل قبضہ اور فلسطینی عوام پر روز افزوں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے دوحہ کی مسلم سربراہ کانفرنس کے اعلانات کا خیرمقدم کیا گیا ہے اور مسلمان حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بیت المقدس کی بازیابی اور فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی بحالی کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کریں اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کی جائے۔

ایک قرارداد میں افغانستان کی طالبان حکومت کے خلاف عالمی پابندیوں کو ناروا قرار دیتے ہوئے دنیا بھر کی مسلمان حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کریں اور افغانستان کی تعمیر نو کے لیے طالبان حکومت کی بھرپور امداد کی جائے۔

ایک قرارداد میں اقوام متحدہ کے موجودہ کردار کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے مسلمان حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ مسلم ممالک کے متحدہ بلاک کی تشکیل کے لیے پیشرفت کریں۔ اور اقوام متحدہ کے ارکان مسلم ممالک مشترکہ دباؤ کے ذریعہ اقوام متحدہ میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں، اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو اقوام متحدہ سے علیحدگی اختیار کر کے مسلم ممالک کی الگ اقوامِ متحدہ تشکیل دی جائے۔


اخبار و آثار

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter