لباس کے چند ضروری مسائل

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قرآن و حدیث میں لباس کے متعلق بہت سے احکام وارد ہوئے ہیں۔ محدثین نے اپنی کتابوں میں ’’کتاب اللباس‘‘ کے نام سے باب باندھے ہیں جن میں اللہ اور اس کے رسول اکرمؐ کے احکام متعلقہ لباس بیان کیے ہیں۔ ویسے بھی عربی کا مقولہ ہے ’’الناس باللباس‘‘ لوگ لباس کے ساتھ ہی متمدن نظر آتے ہیں۔ انسان کی حیثیت، وقار اور شان و شوکت لباس ہی سے وابستہ ہوتی ہے۔ محدثین کرام فرماتے ہیں کہ جس لباس سے اعضائے مستورہ کی پردہ پوشی کی جاتی ہے وہ فرض ہے اور باقی لباس سنت ہے۔ چنانچہ عبادت کے لیے صاف ستھرا لباس ہونا چاہیے، خاص طور پر جمعہ اور عیدین کی نماز کے لیے۔ اگر نیا لباس میسر نہیں تو کم از کم دھلا ہوا تو ہونا چاہیے۔ خصوصاً صاحبِ ثروت آدمی کو اچھا لباس زیب تبن کرنا چاہیے، اگر پھٹا پرانا لباس پہنے گا تو ناشکرگزاری کا مرتکب ہو گا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کو میلے کچیلے کپڑے پہنے دیکھا، فرمایا، کیا تیرے پاس مال ہے؟ عرض کیا، ہاں، میرے پاس بھیڑ، بکریاں، گائے، بیل، اونٹ اور لونڈی غلام ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:

فلیریٰ اثر نعمۃ اللہ علیک و کرامتہ (احمد و نسائی)

’’تو پھر اللہ کے انعام و احسان اور اس کے فضل کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے۔‘‘

(یعنی) پھٹا پرانا لباس تو مجبور آدمی پہنتا ہے، تو اچھا لباس پہنا کرو۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے:

کل ما شئت و والبس ما شئت ما اخطاتک اثنتان سرف و مخیلۃ۔

’’جو جی چاہے کھاؤ اور پہنو جب تک کہ دو چیزیں نہ ہوں یعنی اسراف اور تکبر۔‘‘

یہ دونوں چیزیں مکروہ تحریمی میں داخل ہیں۔ کھانا پینا اور پہننا مباح ہے مگر ان دو شرائط کے ساتھ۔ شاہ عبد القادر محدث دہلویؒ اپنے ترجمۂ قرآن میں اس مقام پر حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ دشمن نے تم سے جنت کے کپڑے اتروا لیے، پھر ہم نے تمہیں دنیا میں لباس کی تدبیر سکھائی کہ لباس اس طرح بنا کر پہنو، چنانچہ اب وہی لباس پہننا چاہیے جس میں پرہیزگاری ہو۔

مرد کے لیے اس دنیا میں ریشمی لباس حرام ہے، البتہ جنت میں ’’ولباسھم فیھا حریر‘‘ (الحج) ان کے لیے ریشمی لباس ہو گا۔ اسی طرح اس دنیا میں شراب حرام ہے مگر جنت میں شرابِ طہور نصیب ہو گی۔ اس طرح اس جہان میں مرد صرف چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے، اس کے علاوہ سونا اور چاندی حرام ہے، مگر جنت میں اسے سونے اور چاندی کے زیورات پہنائے جائیں گے۔

لباس کے متعلق بعض اور بھی احکام ہیں۔ مثلاً مرد ریشمی لباس نہ پہنیں اور دامن دراز نہ کریں۔ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا مکروہ ِتحریمی ہے۔ شلوار، تہبند، پتلون یا چادر ہو، مرد کے لیے ٹخنے ننگے ہونے چاہئیں وگرنہ نماز بھی مکروہ ہو گی۔ البتہ عورت کو اجازت ہے۔ صحیحین کی روایت میں ہے:

من جرثویہ خیلآء لم ینظر اللہ الیہ یوم القیامۃ۔

’’جو کوئی فخر کے طور پر اپنا کپڑا نیچے کرے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔‘‘

حضور علیہ السلام نے عورت کو باریک کپڑے پہننے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت اسماءؓ کو باریک دوپٹہ اوڑھے پہنے ہوئے دیکھا جس سے چھن کر بال نظر آ رہے تھے، آپؐ ناراض ہو گئے اور فرمایا، جب عورت بالغ ہو جاتی ہے تو اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آنا چاہیے۔

اور جوان عورت بلا وجہ چہرہ بھی نہ کھولے، تاہم یہ ستر میں داخل نہیں، ضرورت کے وقت منہ ننگا کر سکتی ہے۔ ایسی وضع قطع کا لباس پہننا جس سے جسم کے بعض حصے نظر آئیں، یہ بھی بے حیائی کی بات ہے۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ عورت بہت باریک لباس نہ پہنے۔ نیز سورۃ نور کے احکام ’’ولا یبدین زینتھن‘‘ کے مطابق اپنی زینت کا اظہار نہ کرے سوائے خاوند یا دیگر محرم مردوں کے سامنے۔

بہرحال لباس فرض بھی ہے، سنت بھی ہے، حرام بھی ہے، مکروہ بھی ہے، اور مباح بھی ہے۔ فخر و تکبر والا لباس جائز نہیں۔ اسی طرح میلا کچیلا لباس مکروہ ہے۔ لباس کے معاملہ میں اسراف بھی نہیں ہونا چاہیے۔ باقی سب لباس مباح ہیں۔ ہر ملک کے باشندے مقامی وضع قطع، یا آب و ہوا، گرمی سردی کی مناسبت سے لباس پہن سکتے ہیں۔

دین و حکمت

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter