انسانی حقوق کے مغربی تصورات اور سیرتِ طیبہ

مولانا محمد عبد المنتقم سلہٹی

آج کی دنیا میں انسانی حقوق کی زبان سب سے زیادہ توجہ کے ساتھ سنی جاتی ہے، اور انسانی حقوق کے حوالے سے کی جانے والی گفتگو سب سے زیادہ مؤثر گفتگو سمجھی جاتی ہے۔ لیکن عام طور پر انسانی حقوق کا ایک ایسا صاف اور واضح تصور ذہنوں میں موجود نہیں ہے کہ جس سے قابلِ تحفظ حقوق کے تعیّن کی کوئی بنیاد فراہم ہوتی ہو، اور حقوق و فرائض کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنے کی کوئی اساس مہیا ہو سکے۔ اس کھوکھلے پن کا نتیجہ یہ ہے کہ عقلی سوچ اور ذہنی تخیل کی روشنی میں انسانی حقوق کا کوئی خاکہ متعیّن کر لیا جاتا ہے اور اسی کو معیارِ حق قرار دے دیا جاتا ہے، اور پھر اسی خود ساختہ معیار پر ہر چیز کو پرکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

حالانکہ انسانی حقوق کے تعیّن میں اگر عقل کی بالادستی کو تسلیم کر لیا جائے تو حقوق کے تعیّن کی کوئی بنیاد فراہم نہیں ہوتی، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک انسانی حقوق کے بارے میں تصورات بدلتے چلے آئے ہیں۔ ایک دور میں انسان کے لیے کسی حق کو لازمی سمجھا گیا اور دوسرے دور میں اسی حق کو ناحق قرار دیا گیا۔ مثال کے طور پر نبی کریم سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت دنیا میں تشریف لائے اس وقت انسانی حقوق ہی کے حوالے سے یہ تصور پھیلا ہوا تھا کہ جو شخص کسی کا غلام بن گیا تو نہ صرف اس کے جان و مال مملوک ہو گئے بلکہ آقا کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ جس طرح چاہے غلام کو استعمال کرے، چاہے گردن میں طوق پہنچائے، اور چاہے پاؤں میں بیڑیاں ڈالے۔ تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے فاشزم نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ جو طاقتور ہے اس کا ہی بنیادی حق ہے کہ وہ کمزور پر حکومت کرے، اور کمزور کے ذمہ واجب ہے کہ وہ طاقت کے آگے سر جھکائے۔

ذرا غور فرمائیے! غلامی کے جس تصور کو آقا کا بنیادی حق قرار دیا جاتا تھا، اسی کو آج جاہلیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کمزور پر جس حکمرانی کو طاقتور کا یکطرفہ حق سمجھا گیا، اسی کو بعد میں نہ صرف یہ کہ بدترین ظلم کے عنوان سے تعبیر کیا گیا بلکہ فاشزم کا نام خود گالی بن گیا ہے۔

انسانی حقوق کے تصورات کی اس تاریخی حقیقت کے پیشِ نظر یہ سوال بجا طور پر ذہن میں ابھرتا ہے کہ آج جن حقوق کو عقل کے فیصلہ پر انسانی حقوق کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں کیا ضمانت ہے کہ وہ کل بھی تسلیم کیے جائیں گے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی؟ اور وہ کونسی بنیاد ہے جو اس فیصلہ کو حرفِ آخر قرار دے سکے گی؟

یہ وہ نازک سوال ہے جس کا حل پیش کرنے سے عقلِ انسانی عاجز ہے۔ کیونکہ عقل، حواسِ خمسہ کی طرح ایسا ذریعۂ علم ہے جس کا دائرہ کار ایک مخصوص حد میں جا کر ختم ہو جاتا ہے، جیسا کہ حواسِ خمسہ میں سے ہر ایک کی پرواز ایک متعیّن حد میں رک جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک گھر کو آنکھوں سے دیکھ کر یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ لیکن صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چھو کر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس گھر کو کس انسان نے بنایا ہے؟ بلکہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے۔ پھر آگے چل کر جو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گھر کو کس طرح استعمال کرنا چاہیے؟ کس کام میں استعمال کرنے سے فائدہ ہو گا اور کس میں استعمال کرنے سے نقصان ہو گا؟ اس سوال کا حل پیش کرنے سے عقل بھی ناکام ہو جاتی ہے۔

یہ اور اس قسم کے سوالات کا جواب دینے کے لیے جو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے اس کا نام ’’وحی‘‘ ہے۔ وحی انسان کے لیے وہ اعلیٰ ترین ذریعۂ علم ہے جو اسے زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب مہیا کرتا ہے، جو عقل اور حواس کے ذریعہ تو حل نہیں ہو سکتے لیکن ان کا علم حاصل کرنا اس کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے عقل اور مشاہدہ کا محدود دائرۂ اثر ختم ہو جانے کے بعد وحئ الٰہی کے شفاف چشمۂ حیات سے رہنمائی حاصل کرنا ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ ورنہ انسانیت منزلِ مقصود کی راہ سے کوسوں دور چلی جاتی ہے اور ہر وقت مصائب و مشکلات کے صحرا میں بھٹکتی پھرتی ہے، لیکن اپنے سفرِ حیات کا وہ نشانِ راہ اسے نظر نہیں آتا جو منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہو۔

انسانی حقوق کے حوالے سے جو تصورات آج مغرب کی طرف سے پھیلائے جا رہے ہیں، ان کی بنیاد بھی نری عقل پر ہے۔ جس کا نتیجہ آج مغرب میں معاشرتی بگاڑ، جنسی انارکی اور فیملی سسٹم کی تباہی کے جس خوفناک روپ میں ظاہر ہو رہا ہے اس نے خود مغربی دانشوروں کو حیران و ششدر کر دیا ہے۔

ان حقائق کے پس منظر میں اگر انسانی حقوق سے متعلق قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و احکام کو سامنے لایا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی حقوق کے تعیّن اور تحفظ کا جو معیار اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے وحئ الٰہی کے سرچشمۂ فیض سے پیش کیا تھا اور حقوق و فرائض کے درمیان جو خطِ امتیاز انہوں نے قائم فرمایا تھا، انسانی عقل تدریج و ترقی کے تمام مراحل طے کرنے اور مختلف نظام ہائے زندگی کا تجربہ کرنے کے باوجود اس کا متبادل سامنے نہیں لا سکی۔

سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا انسانی حقوق کے سلسلے میں سب سے بڑا کنٹریبیوشن (Contribution) یہ ہے کہ آپ نے قابلِ تحفظ حقوق کے تعیّن کی وہ بنیاد انسانیت کے سامنے پیش کی جو ایک ایسی اتھارٹی کی طرف سے عطا فرمائی گئی ہے جس کا علمِ کامل کائنات کے ایک ایک ذرہ پر محیط ہے، اور جو انسانوں کا بھی خالق و مالک ہے اور ان کی وسیع تر ضروریات کے بارے میں بخوبی وقف ہے۔ اسی قادرِ مطلق ذات نے اپنی حکمتِ بالغہ سے ’’وحی‘‘ کی صورت میں جو خالص اور قطعی علم اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا، وہی علمِ حقیقی انسانی حقوق کے تعیّن کے لیے واحد بنیاد اور منفرد معیار ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن مغرب نے وحئ الٰہی کی جگمگاتی ہوئی روشنی سے (کے ذریعے) راہِ نجات تلاش کرنے کے بجائے انسانی حقوق کے تعیّن و تحفظ کے لیے عقل کو نگران مقرر کیا اور اس پہلو پر غور نہ کیا کہ عقل کی کمزور لگام خواہشات کے منہ زور گھوڑے کو کنٹرول کرنے میں ہمیشہ ناکارہ ثابت ہوئی ہے۔ اور انسانی خواہشات نے صرف اس وقت فطرت کے دائرے میں رہنا قبول کیا جب ان پر وحئ الٰہی کی حکمرانی قائم ہوئی ہے۔ اس تاریخی حقیقت کو نظرانداز کر کے جو خمیازہ مغرب کو بھگتنا پڑ رہا ہے، اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے ہو سکتا ہے۔

مغرب نے اپنی ’’خواہش پرست عقل‘‘ کے فیصلہ پر یہ تصور پیش کیا کہ مرد و عورت جس درجہ کے اختلاط پر باہم رضامند ہوں اس پر کسی تیسرے کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ دیکھیے! یہاں مغرب نے مرد اور عورت کی باہمی رضامندی تو دیکھ لی، مگر پورے معاشرے پر اس اختلاط کے اثرات کو نہ دیکھ سکا، جس کے نتیجے میں ناجائز بچوں کے تناسب میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور خاندانی نظام تباہی کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی بنیاد پر مرد و عورت کی اس باہمی رضامندی کو بھی جرم قرار دیا ہے جو معاشرے کے لیے منفی نتائج کا باعث بن سکتی ہو۔ چنانچہ آپؐ نے مرد و عورت کے باہمی اختلاط کے لیے رشتۂ ازدواج کے فطری اور پُر مسرت تعلق کو جائز رکھا اور باقی ہر قسم کے میل جول سے منع فرما دیا۔

اسی طرح سود کے بارے میں مغرب نے یہ فلسفہ پیش کیا کہ جب سود دینے اور لینے والے آپس میں متفق ہیں تو پھر تیسرے کسی کو حقِ اعتراض حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں بھی مغربی عقل نے اپنی کرشمہ سازی دکھائی اور حقوق کے تعیّن میں صرف دو افراد کی رضامندی کو بنیاد بنایا۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے پر بحیثیت مجموعی سود کے منفی اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حرمت کا اعلان فرمایا۔ آج سودی معیشت کے نتیجے میں جس طرح چند مخصوص گروہوں کی اجارہ داری کے شکنجے میں پوری دنیا کے انسان کسے جا رہے ہیں، اس سے اسلامی تعلیمات کی صداقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مغرب جس طرح انسانی حقوق کے تعیّن میں غلطاں و پیچاں ہے اسی طرح حقوق و فرائض میں توازن قائم کرنے اور ان کے درمیان حدِ فاصل قائم کرنے میں بھی وہ ناکام رہا ہے۔ مغرب نے حقوق و فرائض کو آپس میں ایسا خلط ملط کر دیا کہ ان کے درمیان کوئی خطِ امتیاز قائم نہ رہا، لیکن وہ اپنے اس کھوکھلے فلسفے کا غلط پروپیگنڈا اس زور و شور سے کر رہا ہے کہ آج کا معاشرہ انسانی حقوق کے بارے میں مسلسل ذہنی انتشار اور فکری بے راہ روی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

مثلاً حلال روزگار کے ذریعہ اہلِ خانہ کی کفالت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی رو سے فرائض کا حصہ ہے جو گھر کے سربراہ پر عائد ہوتا ہے۔ مگر مغرب نے روزی کمانے کے فریضے پر ’’حقوق‘‘ کا خوشنما لیبل چسپاں کر دیا اور اس طرح عورت کو مردوں کے شانہ بشانہ ’’مساوی حقوق‘‘ دینے کے لیے ورغلایا۔ اس دلچسپ نعرے سے عورت بیچاری بہت متاثر ہوئی اور یہ سمجھ کر خوش ہو گئی کہ اب میں مساوی حق سے بہرہ ور ہو رہی ہوں۔ لیکن حقوق و فرائض کے اس گڈمڈ فلسفہ نے نتائج و ثمرات کے لحاظ سے آج جو روپ دھار لیا ہے اس نے گوربا چوف جیسے مدبر کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم نے عورت کو گھر سے نکال کر غلطی کی ہے اور اب اسے گھر واپس لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ تعلیمات کی رو سے حکومت و اقتدار ایک نازک ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کی سنگینی اور نزاکت کے بارے میں آپ نے قدم قدم پر خبردار کیا ہے، جس کا ثمرہ حکمرانوں میں احساسِ ذمہ داری اور خوفِ خدا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اور لوگ اقتدار کی دوڑ میں شریک ہونے کے بجائے اس سے بچنے میں عافیت محسوس کرنے لگے۔ مگر مغرب نے اقتدار کو حقوقِ انسانی کی فہرست میں شامل کیا، جس کا منطقی انجام حکمرانوں میں خودغرضی، نفس پروری اور ہوس پرستی کی ہولناک صورت میں سامنے آیا اور لیلائے اقتدار تک پہنچنے کے لیے ہر جائز و ناجائز حربے کو زینہ بنا لیا گیا۔

ان چند مثالوں سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ مغرب نے نہ انسانی حقوق کے تعیّن کی کوئی بنیاد فراہم کی، اور نہ حقوق و فرائض کے درمیان کوئی خطِ امتیاز قائم کیا۔ جس کے نتیجے میں انسانی معاشرہ کو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے تباہی و بربادی کا سامنا ہے۔ جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کی حقیقی بنیاد فراہم کی اور انسانیت کو وحئ الٰہی کے شفاف اور خوش ذائقہ چشمۂ حیات کی طرف رہنمائی فرمائی۔

اسلام اور عصر حاضر

(دسمبر ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter