خواب ایک صورت ہوتی ہے اور اس میں پنہاں ایک حقیقت ہوتی ہے جس کو تعبیر کہتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بظاہر خواب بڑا خوشنما اور مژدہ افزاء معلوم ہوتا ہے لیکن اس کی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بادی النظر میں خواب نہایت تاریک، اندوہناک اور وحشت انگیز دکھائی دیتا ہے مگر اس کا باطنی پہلو اور تعبیر بہت ہی خوش کن اور خوش آئند ہوتی ہے، اور تعبیر سامنے آ جانے کے بعد خواب دیکھنے والے کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ اس دوسری مد کے خوابوں کے بارے میں اختصارًا چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
(الف) آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و بارک وسلم کی چچی حضرت ام الفضل بنت الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک خواب دیکھا اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ! آج رات میں نے ایک برا خواب دیکھا ہے (حلما منکرا)۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ کیا خواب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ بہت ہی سخت ہے (انہ شدید)۔ آپؐ نے فرمایا کہ بتائیں تو سہی وہ کیا ہے۔ حضرت ام الفضلؓ نے عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا آپؐ کے جسم مبارک سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے (اس کی تعبیر یہ ہے) کہ ان شاء اللہ تعالیٰ میری لخت جگر بیٹی (سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا جو تمہاری گود میں کھیلے گا۔ چنانچہ (سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پیدا ہوئے اور میری گود میں کھیلے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا (مشکوٰۃ ج ۲ ص ۵۷۲ اصح المطابع)
ملاحظہ کیجئے کہ بظاہر کس قدر برا خواب تھا کہ خود حضرت ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس سے گبھرا رہی تھیں اور بتلانے پر بھی آمادہ نہ تھیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکرر استفسار پر انہوں نے آخر بیان کر ہی دیا، اور پھر جب آپؐ نے اس کی تعبیر بیان فرمائی تو وہ کس قدر خوش کن اور خالص خوشخبری تھی۔
(ب) اگر کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں تو وہ یقیناً اس سے گبھرائے گا اور ضرور پریشان ہو گا۔ لیکن سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ
احب القید و اکرہ الغل والقید ثبات فی الدین۔ (بخاری ج ۲ ص ۱۰۳۹ ۔ مسلم ج ۲ ص ۲۴۱، واللفظ لہ ۔ مستدرک ج ۴ ص ۳۹۰)
’’میں بیڑیوں کو پسند کرتا ہوں اور گردن کے طوق کو مکروہ سمجھتا ہوں، بیڑیاں دین کے معاملہ میں ثابت قدمی کی دلیل ہے۔‘‘
(ج) حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اقدس پر پہنچے اور وہاں پہنچ کر مرقد مبارک کو اکھاڑا (العیاذ باللہ تعالیٰ) پس اس پریشان کن اور وحشت انگیز خواب کی اطلاع انہوں نے اپنے استاد کو دی، اور اس زمانہ میں حضرت امام صاحب علیہ الرحمۃ مکتب میں تعلیم پاتے تھے۔ ان کے استاد نے فرمایا، اگر واقعی یہ خواب تمہارا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ تم جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی پیروی کرو گے اور شریعت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف تحیۃ) کی پوری کھود کرید کرو گے۔ پس جس طرح ان کے استاد نے بیان کیا تھا، یہ تعبیر حرف بحرف اسی طرح پوری ہوئی۔ (تعبیر الرویا کشوری ص ۳۷۷)
اور مختلف الفاظ کے ساتھ یہ واقعہ تاریخ بغداد للخطیبؒ ج ۱۳ ص ۳۳۵ طبع مصر، اور الخیرات الحسان ص ۶۴ طبع مصر، کتاب الانساب بمعانی ورق ص ۱۹۶ طبع مصر، و مناقب کروریؒ ج ۱ ص ۳۳ طبع دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن، اور مفتاح السعادۃ ج ۲ ص ۸۲ طبع حیدرآباد دکن میں بھی موجود ہے۔
غور فرمائیں کہ اس خواب کی صورت کیا ہے! اور اس کی تہہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و بارک وسلم کی احادیث کی پیروی اور فقہی رنگ میں علمِ دین کی خدمت جو زریں خدمت کی خوشخبری اور بشارت موجود ہے وہ کیا ہے!
(د) تاریخ کی بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید علیہ الرحمۃ کی بیوی زبیدہ علیہا الرحمۃ نے خواب میں دیکھا کہ کثیر التعداد مخلوق جمع ہو کر سب باری باری اس سے مجامعت کرتی ہے۔ جب آنکھ کھلی تو وہ بے حد پریشان ہوئی، گبھراہٹ کی کوئی انتہا نہ تھی، آخرکار جب اس خواب کی تعبیر بتلائی گئی تو معلوم ہوا کہ ان سے کوئی ایسا کام ہو گا جس سے بے شمار مخلوق فیضیاب ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس نے نہر زبیدہ کھدوائی جو عراق عرب کے ایک بہت بڑے حصہ کو سیراب کرتی ہے اور ایامِ حج میں مشرق و مغرب کے مسلمان اس سے فیضیاب ہوتے ہیں، جو اسی خواب کی تعبیر ہے۔ (محصلہ رشار الاخیا ص ۵۱ طبع جید برقی پریس ریلی)
(ہ) امام الحسینؓ بن بوجر الباوریؒ فرماتے ہیں کہ میں شہر الحان میں تھا کہ ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و بارک وسلم کی وفات ہو گئی ہے۔ تو میں نے اس کے جواب میں کہا کہ اگر تیرا خواب سچا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ کوئی ایسا امام فوت ہو گا کہ اس زمانہ میں اس کی نظیر نہ ہو گی۔ اور ایسے ہی خواب حضرت امام شافعی، حضرت امام ثوری اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کی وفات کے وقت دیکھے گئے تھے۔ چنانچہ شام سے پہلے ہی یہ خبر آ گئی کہ شیخ الاسلام الحافظ ابو موسٰی المدینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی ۵۸۱ھ) وفات پا چکے ہیں۔ تذکرۃ الحفاظ ج ۴ ص ۱۲۵ و ۱۲۶ للذہبیؒ)
یہ چند خواب ہم نے با حوالہ اس لیے نقل کیے ہیں تاکہ یہ بات آشکارا ہو جائے کہ بسا اوقات خواب کا ظاہر کچھ اور ہوتا ہے اور باطن کچھ اور ہوتا ہے۔ اور اس کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے علم و بصیرت کے ساتھ ساتھ فنِ تعبیر کی باریکیوں اور مضمر نکات حل کرنے کی توفیق سے نوازا ہوتا ہے، ہر کہ دمہ کی یہاں بات نہیں چلتی۔
؏ نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند