نائجیریا میں عیسائی مسلم فسادات

ملک احمد اسرار

مسلم اکثریت کے حامل اور آبادی کے لحاظ سے براعظم افریقہ کے سب سے بڑے ملک نائجیریا میں مسلمان عیسائی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلسل قتل ہو رہے ہیں۔ نائجیریا کی آبادی تقریباً ۱۲ کروڑ اور رقبہ ۳۵۶۶۶۷ مربع میل ہے۔ شمالی علاقوں میں مسلمان اور جنوب میں عیسائیوں کی اکثریت ہے۔ مجموعی طور پر مسلمان ۶۵ فیصد سے زیادہ ہیں اس کے باوجود ملک کا کوئی سرکاری مذہب نہیں۔ نائجیریا میں مجموعی طور پر ۲۵۰ قبائل آباد ہیں مگر یوروبا اور باؤسا قبائل سیاسی طور پر زیادہ اہم ہیں۔ یوروبا کی اکثریت عیسائیوں اور باؤسا کی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ نائجیریا کئی دہائیوں سے قبائلی اور لسانی فسادات کی لپیٹ میں ہے اور صرف گزشتہ ۹ ماہ میں ۱۲۰۰ سے زیادہ افراد ان لسانی فسادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

نائجیریا براعظم افریقہ میں ہے مگر حکمران عیسائی ہیں، نائجیریا کے موجودہ صدر الوسی گن اوبسانجو بھی عیسائی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا عیسائی سیاستدانوں اور پادریوں کا بنیادی کام ہے۔ اسی نفرت کے نتیجے میں شمالی نائجیریا کے جن جن علاقوں میں عیسائی اکثریت میں ہیں وہاں ۱۹۸۷ء سے مسلمانوں کا مسلسل قتلِ عام ہو رہا ہے۔ فوج میں اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت ہے مگر جرنیلوں اور دیگر فوجی افسروں میں عیسائی ہی غالب اکثریت رکھتے ہیں۔

صدر اوبسانجو سمیت دیگر عیسائی لیڈر اسلام کو نائجیریا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر نائجیریا میں مسلمان منظم ہو گئے تو افریقہ میں ایک اور سوڈان پیدا ہو جائے گا بلکہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور۔ براعظم افریقہ دنیا کا واحد براعظم ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور صلیبی دنیا اپنی تمام کوششوں کے باوجود اسے عیسائی براعظم بنانے میں ناکام ہو چکی ہے لیکن اس کی سازشیں جاری ہیں۔

چونکہ نائجیریا قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے بھی مالامال ہے، تیل پیدا کرنے والا دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، اس کی اسی اہمیت کے باعث مغربی قوتوں نے اسے مستحکم نہیں ہونے دیا۔ مسلسل بغاوتیں اور لسانی جھگڑے اس ملک کا مقدر بنا دیے گئے ہیں۔ مغربی حکومتوں اور مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یہاں کرپشن کے نفوذ اور تشدد پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اربوں ڈالر کا تیل برآمد کرنے کے باوجود لسانی فسادات اور کرپشن کے باعث یہ ملک ترقی اور خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کر سکا۔ حکمران، جرنیلوں کا ٹولہ اور ان کے ساتھی یہاں کے امیر ترین لوگ ہیں، جبکہ نصف سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نچلی سطح پر زندگی گزار رہی ہے۔ ۱۹۸۰ء میں فی کس آمدنی ۱۰۰۰ ڈالر تھی جو اب ۲۵۰ ڈالر سالانہ سے بھی کم ہو چکی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ کرپٹ جرنیل، جو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حصہ دار بھی ہیں، انتہاپسند عیسائیوں کو اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرتے ہیں، مقصد مسلمانوں کو ہر حالت میں پسماندہ رکھنا ہے۔ مسلم کش پالیسی کے باعث مغربی طاقتوں نے نائجیریا کے حکمرانوں کو ’’سب اچھا‘‘ کا سرٹیفکیٹ دیا ہوا ہے۔

ترکی کے سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان نائجیریا کی سیاسی و معاشی اہمیت سے آگاہ تھے اسی لیے انہوں نے نائجیریا کو ترقی پذیر ممالک کی تنظیم D-8 میں شمولیت کی دعوت دی۔ اس دعوت کا یہاں کے مسلمانوں نے خیرمقدم کیا مگر مغرب کی آلہ کار عیسائی اقلیت نے اسے پسند نہ کیا۔ D-8 کے سربراہی اجلاس میں نائجیریا کے سربراہ کے بجائے دوسرے افراد نے شرکت کی۔ یہاں کی عیسائی اقلیت اسلام کی اس قدر دشمن ہے کہ اسے کسی اسلامی تنظیم میں نائجیریا کا بطور مبصر شامل ہونا بھی پسند نہیں اور وہ اسے بھی ’’اسلامائزیشن‘‘ کے لیے خفیہ سازش سمجھتی ہے۔ یہاں کی مسلم اکثریت نے جب بھی اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے آواز بلند کی اسے بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اپریل ۱۹۹۱ء میں شمالی ریاست کاتسینہ (Katsina) میں اسلامی نظام کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں ۵۰۰ سے زیادہ افراد کو قتل کیا گیا۔ ۷ جنوری ۱۹۹۲ء کو ایک ایسے ہی مظاہرے میں ۴ افراد کو ہلاک ۲۹ کو زخمی اور ۲۶۳ کو گرفتار کر لیا گیا۔ ایک دوسری شمالی ریاست کادونہ سے ۸۰ کلومیٹر دور زاویہ میں اسلامی سنٹر پر عیسائیوں نے حملہ کر کے لاتعداد افراد ہلاک کر دیے۔ کئی دیگر شہر اور قصبے بھی فسادات کی لپیٹ میں آگئے۔ مسلم کش فسادات کا یہ سلسلہ وقفوں وقفوں سے جاری رہا۔

یہ گزشتہ سال ۱۹ ستمبر کی بات ہے کہ ریاست زمفارا کے دارالحکومت گساؤ میں ایک بہت بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ریاست کے ۳۹ سالہ گورنر احمد ثانی نے کہا: ’’اللہ کا حکم ہے کہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ، یہ نہیں کہ بعض باتوں کو مانو اور بعض کو چھوڑ دو۔‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے مجمع سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ اسلامی شریعت کے نفاذ میں میرا ساتھ دیں گے؟ مجمع نے یک زبان ہو کر اعلان کیا کہ ہم ساتھ دیں گے۔ انہوں نے یہ بات ایک بار پھر پوچھی تو انہیں پہلے والا ہی جواب ملا اور پوری فضا ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ ریاست کی اسمبلی نے اکتوبر میں شرعی قوانین کے نفاذ کے بل پاس کر لیے۔ مسلم علاقوں میں شریعت نافذ کرنے کا اعلان مقبولیت حاصل کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ زمفارا کے گورنر کی طرح کئی دیگر ریاستوں نے بھی عوام سے وعدہ کیا کہ وہ بھی شرعی قوانین نافذ کر دیں گے، ان ریاستوں میں نائجیریا، سکوٹو، گامے کادوانہ، کاستینہ وغیرہ شامل ہیں۔

ان اعلانات سے عیسائی اقلیت بھڑک اٹھی۔ عیسائی لیڈروں نے اسے آئین کے منافی اقدام قرار دیا، حالانکہ نائجیریا کے دستور کی دفعہ ۴، ۵ اور ۶ کے تحت ریاستوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی حدود میں عدل و انصاف کے لیے قانون سازی کر سکتی ہیں۔ زمفارا میں عیسائی لیڈر پیٹر ڈیمو نے کہا کہ احمد ثانی جب سے برسراقتدار آیا ہے عیسائیوں میں تشویش بڑھ گئی ہے۔ پادریوں، مقامی عیسائی تنظیموں، عیسائیوں کی عالمی تنظیم کرسچین سالیڈیٹری انٹرنیشنل اور امریکی کانگریس کے بعض اراکین نے ایک طوفان کھڑا کر دیا اور عیسائیوں نے مسلمانوں پر باقاعدہ حملے شروع کر دیے۔

زمفارا میں تو تقریباً ساری آبادی ہی مسلمان ہے اور عیسائی نہ ہونے کے برابر ہیں، جبکہ کادوانہ میں جہاں عیسائی اقلیت قابلِ ذکر تعداد میں ہے، شرعی قوانین کے نفاذ کے خلاف پرتشدد مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ ماہ فروری میں ہونے والے اس قتل عام میں تین سو سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ حملہ آور عیسائی لاٹھیوں، ڈنڈوں اور چھروں اور خودکار ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو نذر آتش کرنے کے لیے وہ پٹرول کے ڈبے بھی ساتھ لائے تھے۔ یہ ایک منصوبہ بند حملہ تھا۔ سی این این کے مطابق وینگارڈ کے علاقہ میں یونیورسٹی کے قریب ۲۱۰ مسلمانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ شہر کی پولیس کے مطابق ۹۰ افراد کی لاشیں شہر کے اردگرد دیہاتوں، مسجدوں اور چرچوں سے برآمد ہوئی ہیں۔ سینکڑوں گھروں اور درجنوں مساجد کو بھی عیسائیوں نے نذر آتش کر دیا۔ شہر میں مسلمانوں کی آبادی عیسائیوں کے برابر ہے، مگر یہ حملہ اچانک تھا اس لیے انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ جب مسلمانوں نے دفاعی حملہ کیا تو سو کے قریب حملہ آور عیسائی جہنم واصل ہو گئے اور چند چرچ بھی مشتعل نوجوانوں کا نشانہ بن گئے۔

۲۹ فروری کی خبروں کے مطابق نائجیریا کے ایک اور شمالی شہر عابہ میں عیسائیوں نے ۴۵۰ سے زیادہ ہاؤسا قبیلہ کے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عیسائی انتہاپسندوں نے مسلمانوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا۔ سفارتی ذرائع اور مبصرین نے اسے ایک قتلِ عام قرار دیا۔ عیسائیوں نے ایک مسجد بھی جلا دی اور سڑکیں بلاک کر کے مسلمان عورتوں، بچوں اور مردوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ عینی شاہدوں کے مطابق گلیاں لاشوں سے بھر گئیں۔

زمفارا میں نافذ کیے گئے شرعی قوانین کی حیثیت مسلمانوں کے پرسنل لاز سے زیادہ نہ تھی اور عیسائیوں پر ان کا اطلاق بھی نہ ہوتا تھا۔ عملاً یہ معاشرتی اصلاح کے قوانین تھے۔ زمفارا کے دارالحکومت گساؤ کے ایک دینی مدرسے کے پرنسپل سالم عثمان محمد کے مطابق شرعی قوانین کے نفاذ سے پہلے ریاست میں فسق و فجور عام تھا، چوریوں، شراب نوشی اور دوسری برائیوں کو روکنے والا کوئی نہ تھا، ان کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں اسلامی شریعت صدیوں نافذ رہی، مگر برطانیہ نے ہمارے معاشرے کو سیکولر بنانے کے لیے برائیوں کو عام کر دیا اور شرعی قوانین ختم کر دیے۔

گورنر احمد ثانی نے جسم فروشی کے خاتمے کی بھی کوشش کی اور پیشہ چھوڑنے والی طوائفوں کے لیے مراعات کا اعلان کیا۔ بیشتر طوائفیں اپنے اڈوں سے غائب ہو گئیں جبکہ ۳۰ نے پیشکش کا فائدہ اٹھایا۔ گورنر نے مخلوط تعلیم کے خاتمہ اور خواتین کے لیے الگ سفری ٹرانسپورٹ کے لیے بھی کئی اقدام کیے۔ مگر صلیبی صدر اوبسانجو کو اسلامی قوانین کا نفاذ کسی طور منظور نہ تھا، اس نے پہلا کام یہ کیا کہ خاموشی سے زمفارا میں عیسائی پولیس کمشنر لگا دیا جس نے آتے ہی یہ اعلان کیا کہ شرعی قوانین سے متعلق اسے کوئی ہدایات نہیں ملیں اور نہ ہی وہ کسی دوسرے کو یہ کام کرنے دے گا۔

صلیبی صدر اوبسانجو نے شرعی قوانین کے نفاذ کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ کسی کو سنگسار کرنا یا اس کے ہاتھ کاٹنا آئین کے خلاف ہے۔ اس نے کہا کہ شریعت کوئی مرتب قانون نہیں بلکہ یہ قرآن مجید اور دیگر کتب کے محض حوالے فراہم کرتی ہے کہ یہ قانون کون سی قسم کا ہے۔ صدر اوبسانجو بذاتِ خود امریکہ گیا اور صدر کلنٹن سے ہدایات لیں کہ شرعی قوانین نافذ کرنے والی ریاستوں سے کیسے نمٹنا ہے۔ مغربی میڈیا نے بھی اوبسانجو کا مکمل ساتھ دیا۔ نائجیریا کے مذہبی عیسائی رہنماؤں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ہسٹریا کے مریض ہوں، انہوں نے اشتعال انگیز تقریروں سے صلیبی اقلیت کو خونخوار بنا دیا۔ اینگلی کن چرچ نے اعلان کیا کہ شرعی قوانین کے نفاذ کو نہ روکا گیا تو نائجیریا ایک ’مسلم بنیاد پرست ریاست‘‘ بن جائے گا۔ پینٹی کوسٹل چرچ، رومن کیتھولک بشپ سب چیخنے لگے کہ شرعی قوانین کا فورًا قلع قمع کر دو، ورنہ یہ عیسائیت کی بقاء کے لیے بہت خطرہ بن جائیں گے۔ یہ بیانات پڑھنے اور تقریریں سننے کے بعد عیسائی خونخوار جنونی بن کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور صرف دو دنوں میں ایک ہزار کے قریب مسلمانوں کو شہید کر دیا، بیسیوں مسجدیں اور کروڑوں کی جائیدادیں جلا دیں۔ شرعی قوانین نافذ کرنے والی ریاستوں پر اس قدر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہو گئیں۔ الجزائر اور ترکی کے بعد صلیبی جمہوریت کا یہ ایک اور خوفناک چہرہ ہے۔ یہ جمہوری دہشت گردی کی بدترین شکل ہے۔ اہل مغرب کو سوچنا چاہیے کہ وہ کب تک ان گھٹیا ہتھکنڈوں، دہشت گردی اور سازشوں سے اللہ کی مخلوق کو اسلام سے دور رکھ سکیں گے۔

(بہ شکریہ روزنامہ پاکستان لاہور)


حالات و واقعات

(اپریل ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter