خواتین کی عالمی کانفرنسیں اور ان کے مقاصد

راحیل قاضی

چند سال پہلے قاہرہ اور بیجنگ میں منعقد ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنس کے بعد خواتین کے حقوق اور مرد و عورت میں مساوات کے عنوان سے اقوامِ متحدہ کے اداروں اور بین الاقوامی لابیوں کی مہم میں جو تیزی آئی ہے اس کے اثرات خاص طور پر مسلم ممالک میں محسوس کیے جا رہے ہیں جہاں نکاح، طلاق، وراثت اور دیگر معاملات میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو تبدیل کر کے انہیں اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک کے معیار کے مطابق ڈھالنے کے لیے مسلم حکومتوں پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے اور کئی ممالک میں اس دباؤ کے تحت شرعی قوانین میں ردوبدل کا عمل شروع ہو گیا ہے۔

اس پس منظر میں ۵ سے ۷ جون ۲۰۰۰ء کو نیویارک میں منعقد ہونے والی خواتین کی عالمی کانفرنس کے حوالے سے راحیل قاضی کا یہ معلوماتی مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ عالمِ اسلام کے علمی و دینی اداروں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس سلسلہ میں سنجیدہ طرزِ عمل اختیار کریں اور قاہرہ کانفرنس اور بیجنگ کانفرنس کے فیصلوں کو ازسرنو مطالعہ کر کے ان کی روشنی میں نیویارک کانفرنس سے قبل عالمی سطح پر ان مسائل پر ٹھوس علمی و دینی موقف کے اظہار کا اہتمام کریں۔

ادارہ



بیجنگ پلس ۵

یہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اس خصوصی سیکشن کا نام ہے جس میں اقوامِ عالم کے خصوصی نمائندوں کو اس بات پر غور کرنے کے لیے اکٹھا کیا جاتا ہے کہ انہوں نے بیجنگ میں عورت کے لیے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا اس پر اقوامِ عالم نے کتنا عمل کیا ہے اور اس سلسلے میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔

عورت کے بارے میں عالمی کانفرنسیں

عورت کے بارے میں پہلی عالمی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں، دوسری عالمی کانفرنس کوپن ہیگن میں ۱۹۸۰ء میں، تیسری عالمی کانفرنس ۱۹۸۵ء میں نیروبی میں، اور چوتھی عالمی کانفرنس ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں منعقد ہوئی۔

بیجنگ کا پلیٹ فارم فار ایکشن

بیجنگ میں ایک پلیٹ فارم فار ایکشن یعنی آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا جس میں عورت کے حوالے سے ۱۲ میدانِ کار مختص کیے گئے جو مندرجہ ذیل ہیں: (۱) غربت (۲) تعلیم (۳) حفظانِ صحت (۴) عورتوں پر تشدد (۵) مسلح تصادم (۶) معاشی عدمِ مساوات (۷) اداروں کا نظام (۸) عورت کے انسانی حقوق (۹) مواصلاتی نظام خصوصاً ذرائع ابلاغ (۱۰) ماحول اور قدرتی وسائل (۱۱) چھوٹی بچی (۱۲) اختیارات اور فیصلہ سازی۔

کب اور کہاں

اب ۵ سے ۹ جون تک نیویارک میں بیجنگ پلس ۵ جو کہ بیجنگ کانفرنس کے ۵ سال بعد ایک کانفرنس منعقد ہو رہی ہے، اور اس میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ملکوں کے حکومتی وفود کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں کے وفود بھی شریک ہو رہے ہیں۔ اگرچہ یہ اتنے بڑے پیمانے کی کانفرنس نہیں ہے جیسا کہ بیجنگ کانفرنس تھی مگر اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس میں سارے معاہدوں کی توثیق کی جائے گی۔

اس کانفرنس کا عنوان ہے

"Women 2000: Gender Equality, Development and Peace for the Twenty-first Century"

۲۰۰۰ء کی خواتین اور اکیسویں صدی میں صنفی مساوات، امن اور ترقی

کون شرکت کر سکتا ہے؟

چونکہ یہ اقوامِ متحدہ کا ایک خصوصی اجلاس ہے اس لیے اس میں اقوامِ متحدہ کے ممبر ملکوں کے وفود اور وہ غیر سرکاری تنظیمیں جو کہ Ecosoc Status کی اہل ہیں، وہ شرکت کر سکتی ہیں۔ Ecosoc اقوامِ متحدہ کی معاشی اور معاشرتی کونسل ہے جو کہ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ آپ اس کانفرنس میں شریک ہونے  کے اہل ہیں یا نہیں۔

عالمی تیاریاں

اس کانفرنس کے لیے عالمی تیاریاں تو ۱۹۹۵ء کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھیں مگر ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۰ء کے شروع میں اس کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں، جبکہ ہر مہینے اس سلسلے میں کوئی نہ کوئی علاقائی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس سلسلے میں تیاریوں کی کانفرنس یعنی Prep-Com منعقد کی گئیں اور ایک آج کل نیویارک میں ہو رہی ہے۔

  1. پہلی (Prep-Com) ۱۵ سے ۱۹ مارچ ۱۹۹۹ء نیویارک منعقد کی گئی۔
  2. ایشیا پیسیفک میٹنگ ۱۱ سے ۱۲ جون پینانگ میں۔
  3. ساؤتھ ایشیا سب ریجنل NGO میٹنگ ۱۱ سے ۱۴ اگست کھٹمنڈو میں۔
  4. ایشی اپیسیفک NGO سپمپوزیم ۳۱ سے ۴ ستمبر بنکاک میں۔
  5. اور بڑی سطح کی وزارتی کانفرنس ۲۶ سے ۲۹ اکتوبر بنکاک میں۔
  6. Lobbying Training ورکشاپ ۲۸ سے ۲۹ جنوری ۲۰۰۰ء کھٹمنڈو میں۔
  7. اور دوسری (Prep-Com) ۲۷ فروری سے ۱۷ مارچ ۲۰۰۰ء تک نیویارک میں منعقد ہوئی ہے۔

مسلمان عورت کیا کرے؟

اگرچہ ان کانفرنسوں میں بڑی تعداد میں مسلمان عورتوں نے شرکت کی مگر بدقسمتی سے وہ اپنے دین کو اس انداز میں سمجھتی ہیں جیسا کہ مغرب ان کو سمجھانا چاہتا ہے۔ ان میں اکثریت اس بات سے لاعلم ہے کہ ہمیں دامِ فریب میں پھنسایا جا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی خوبصورتی کو اپنی ان لاعلم بہنوں اور ساری دنیا کی سسکتی عورت کے سامنے لایا جائے کہ جن حقوق اور رعایتوں کے لیے آج تم ماری ماری در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہو وہ ۱۴۰۰ سال پہلے محسنِ انسانیت نے تمہاری جھولی میں ڈال دیے تھے۔ تمہیں وہ سارے حقوق بن مانگے ہی عطا کر دیے تھے جن کے لیے آج کشکولِ گدائی لیے پھر رہی ہو۔ مگر یہ زیادہ آسان کام نہیں۔ آج کی مسلمان عورت کو جدید علم کے ہتھیار سے مسلح ہو کر اپنے اسلاف سے رشتہ جوڑتے ہوئے جدید اور قدیم زمانوں کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ پا پر اعتماد سے قدم اٹھانے ہوں گے تاکہ نئی صدی میں شیطان کے چیلنجوں کا مقابلہ کر کے اسے مسلمان عورت کی باوقار صدی بنا سکیں۔

اس سلسلے میں مزید معلومات مندرجہ ذیل ویب سائیٹس سے حاصل کی جا سکتی ہیں:

Official Documents

http://www.un.org/womenwatch

Preview 2000

http://www.gnapc.org/apewomen


حالات و مشاہدات

(اپریل ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter