امریکی دباؤ کے خلاف پاکستان کی دینی جماعتوں کا مشترکہ موقف

ادارہ

۲۷ مارچ ۲۰۰۰ء کو منصورہ لاہور میں جماعتِ اسلامی پاکستان کے جناب امیر قاضی حسین احمد کی دعوت پر دینی جماعتوں کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ مولانا شاہ احمد نورانی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس کے شرکاء میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے راہنما مولانا محمد اجمل خان، سپاہ صحابہؓ پاکستان کے راہنما مولانا محمد ضیاء القاسمی اور مولانا محمد احمد لدھیانوی، جمعیت علماء پاکستان (نیازی) کے راہنما انجینئر سلیم اللہ خان اور قاری عبد الحمید قادری، جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے راہنما مولانا شبیر احمد ہاشمی اور سردار محمد خان لغاری، جماعتِ اہلِ حدیث کے راہنما علامہ زبیر احمد ظہیر، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے راہنما مولانا معین الدین لکھوی اور مولانا ضیاء اللہ شاہ بخاری، پاکستان شریعت کونسل کے راہنما مولانا زاہد الراشدی اور مخدوم منظور احمد تونسوی، جمعیت اتحاد العلماء پاکستان کے سربراہ مولانا عبد المالک خان، تحریکِ جعفریہ پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی، سپاہ محمد پاکستان کے سربراہ غلام عباس، جمعیت علماء اسلام (س) کے راہنما مولانا خلیل الرحمٰن حقانی، جماعتِ اسلامی کے مرکزی راہنما لیاقت بلوچ، اور جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے راہنما میاں محمد نعیم بادشاہ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔

اجلاس میں موجودہ ملکی اور عالمی صورت حال کے تناظر میں پاکستان کی دینی جماعتوں کے متفقہ موقف کے طور پر مندرجہ ذیل مشترکہ اعلامیہ کی منظوری دی گئی اور مختلف راہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے تمام دینی جماعتوں کو مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کرنا چاہیے۔



مشترکہ اعلامیہ

جماعتِ اسلامی پاکستان کی دعوت پر پنجاب کی دینی جماعتوں اور مرکزی رہنماؤں کا نمائندہ قومی اجلاس اتفاقِ رائے سے اعلان کرتا ہے کہ

  • قرآن و سنت کی بالادستی اور شریعت کے نفاذ سے ہی ملک بحران سے نکل سکتا ہے۔ اسلام سے حکمرانوں کے منافقانہ رویہ نے ملک و ملت کو تباہی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ فوجی حکومت آئین کی اسلامی دفعات بحال کرے، خصوصاً تحفظِ عقیدہ ختم نبوت اور تحفظِ ناموسِ رسالت ایکٹ کے لیے دوٹوک پالیسی کا اعلان کر کے ملک میں پھیلے شکوک و شبہات کا خاتمہ کرے۔
  • ملک اندرونی و بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔ امریکہ خطہ میں دخل اندازی کے اپنے عزائم رکھتا ہے، پوری ملت عزت و غیرت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق رکھتی ہے۔ قومی سلامتی کے لیے ایٹمی صلاحیت ناگزیر ہے۔ بھارت کے جارحانہ اور غاصبانہ اقدامات کے توڑ کے لیے ایٹمی صلاحیت سدِ جارحیت ہے۔ پاکستان کو اپنے تحفظ اور اپنی بقا کا بندوبست خود کرنا ہو گا۔ فوجی حکومت رائے عامہ کا احترام کرے اور سی ٹی بی ٹی مسترد کر دے۔ سی ٹی بی ٹی پر دستخط امتِ مسلمہ کے مقام و منصب اور تشخص کو ختم کرنے کے مترادف ہو گا۔ سامراجی طاقتوں کے اثر و نفوذ سے نکلنا اور نئے عالمی اسلامی بلاک کی تشکیل وقت کا تقاضا ہے۔
  • ملک میں معاشی اور سماجی انقلاب کی ضرورت ہے۔ سود پر مبنی معیشت ناکام اور ظالمانہ نظام ہے۔ فوجی حکومت لیت و لعل سے کام لینے کی بجائے آئین، وفاقی شرعی عدالت، سپریم ایپلیٹ کورٹ اور اسلامی نظریاتی کونسل کے احکامات و سفارشات کی روشنی میں سود کا خاتمہ کرے اور اسلامی معاشی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کرے۔ قرضوں کی لعنت کا خاتمہ، خود کفالتی نظام، زرعی و صنعتی انقلاب، مزدور اور غریب عوام کے معاشی حقوق کا تحفظ ہی اسلامی معاشی نظام ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کی تنخواہ دار ٹیم ملک کو اسلامی معیشت کی راہ پر نہیں چلا سکتی۔ حکومت علماء اور محبِ دین معاشی ماہرین کو اعتماد میں لے۔
  • جہاد ملتِ اسلامیہ کے لیے عزت و عظمت کا میدان ہے۔ عالمی استعمار کے جانبدار اور متعصب نظام کے مقابلہ میں جہادی زندگی نے مسلمانوں کو وقار سے جینے کا ڈھنگ سکھایا ہے۔ کشمیر، چیچنیا، فلسطین، بوسنیا میں جاری جہاد اور مجاہدین کی حمایت و امداد ہمارا دینی فریضہ ہے۔ فوجی حکومت آگاہ رہے کہ عوام جہاد کے پشتی بان ہیں۔ پاکستانی ملتِ افغانستان میں عالمی استعماری اور دین دشمن قوتوں کے اشاروں پر کسی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے۔
  • فرقہ واریت کا خاتمہ، دہشت گردی اور تخریب کاری سے پاک معاشرہ ،اہلِ بیتؓ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرامؓ کا احترام اور مقام کا تحفظ تمام دینی جماعتوں کا مشن ہے۔ قتل و غارت گری اور عبادت گاہوں پر محلے دشمن کا کھیل ہے۔ تمام دینی جماعتیں محرم الحرام میں امن اور باہمی احترام کو یقینی بنائیں گی۔ حکومت، انتظامیہ اور پولیس بھی نیک نیتی سے مکمل غیر جانبداری کے ساتھ امن و امان کے لیے انتظام کرے۔ سرکاری میڈیا تمام مسالک کے احترام اور توازن کو برقرار رکھے۔
  • امریکی صدر نے اپنے دورہ پاکستان کے موقعہ پر اپنے خطاب میں پاکستانی قوم کو غلامی یا زبردستی کا چیلنج دیا ہے جس کا مقابلہ خودکفالت کے ذریعے کیے جا سکتا ہے۔
  • امریکی صدر بل کلنٹن کا دورہ جنوبی ایشیا میں مسائل کے حل کے لیے کوئی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔ پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔ لیکن امریکی صدر کوئی دوٹوک حکمتِ عملی نہیں دے سکے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی صدر مثبت حل تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ اعلانِ لاہور فرسودہ اور دو قومی نظریہ کے منافی معاہدہ ہے، نیز اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو حقِ رائے شماری دینا اور بھارت کو کشمیر میں مظالم سے روکنا ہی عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ تمام دینی جماعتیں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہیں۔ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں سکھوں کا المناک قتل عالمی ادارے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔
  • ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی، بدتہذیبی اور مادرپدر آزاد معاشرت پر تمام دینی جماعتیں سخت احتجاج کرتی ہیں۔ سرکاری ذرائع ابلاغ فواحشات کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے فروغ کے لیے تمام دینی جماعتیں مشترکہ جدوجہد کریں گے۔ حکومت سرکاری الیکٹرانک میڈیا کا قبلہ درست کرے۔ این جی اوز اور مغرب زدہ خواتین کی سرپرستی کر کے حکومت مسلمانوں کے اخلاقی بگاڑ کا مکروہ کھیل بند کرے۔ قوم فیڈرل شریعت کورٹ اور حدود آرڈیننس کے خلاف این جی اوز حکومت میں شامل کی سازشیں کامیاب نہیں ہونے دے گی۔
  • فوجی حکومت آئین کو نہ چھیڑے۔ احتساب اور مکمل غیر جانبدار کڑے احتساب کا عمل محدود مدت میں تیز رفتاری سے مکمل کرے۔ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کی روشنی میں جمہوریت کی بحالی کے لیے نظامِ انتخاب کی اصلاح کرے۔ بحالی جمہوریت کے لیے حکومت کا اعلانات مبہم، غیر واضح اور تضاد کا شکار ہیں۔
  • تمام دینی جماعتیں انسانی حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر یقین رکھتی ہیں۔ انسانی حقوق کے آڑ میں غیر ملکی تہذیب، مشنری اداروں کا پھیلاؤ، قومی اداروں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کرنا، تعلیمی اداروں کو عیسائی مشنری اداروں کے سپرد کرنا، قادیانیوں کی سرگرمیوں کو کھلی چھٹی دینا، اور تحفظِ ناموسِ رسالت ایکٹ میں کسی نوعیت کی ترمیم اسلامیانِ پاکستان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
  • دینی جماعتوں کا اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جمعہ کی چھٹی بحال کی جائے۔

بعض شرکاء اجلاس کی تجاویز پر مشترکہ اعلامیہ میں مندرجہ ذیل مطالبات کا اضافہ کیا گیا:

  • تمام مسلم حکومتیں افغانستان کی امارتِ اسلامی اور چیچنیا میں مجاہدین کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔
  • جہادی تحریکات اور دینی مدارس کے خلاف کردار کشی کی مہم کی مذمت کرتے ہوئے اعلان کیا گیا کہ جہادی تحریکات اور دینی مدارس کے خلاف کوئی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا۔
  • حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ آئین کے مطابق سپریم کورٹ کا شریعت ایپلٹ بنچ تشکیل دیا جائے۔


حالات و واقعات

(اپریل ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter