اسلامی نظام نافذ کیا جائے، CTBT پر دستخط نہ کیے جائیں
مختلف مکاتبِ فکر کے راہنماؤں کے مشترکہ اجلاس کا مطالبہ

ادارہ

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی کی دعوت پر گوجرانوالہ کی مختلف دینی جماعتوں کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس ۲۰ فروری کو مرکزی جامع مسجد میں مولانا احمد سعید ہزاروی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء اسلام (ف)، جمعیۃ علماء اسلام (س)، پاکستان شریعت کونسل، جماعتِ اسلامی، جماعتِ اہلِ سنت، مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت، جمعیۃ اشاعۃ التوحید والسنۃ، اور جمعیت شبانِ اہلِ سنت کے راہنماؤں نے شرکت کی۔

اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ

  • عبوری آئین کے مستقل فرمان کے ذریعے دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات بالخصوص قراردادِ مقاصد اور عقیدہ ختمِ نبوت سے متعلقہ دفعات کو بحال کیا جائے،
  • ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے،
  •  CTBT پر دستخط سے صاف انکار کیا جائے،
  • سود کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے،
  • اور ملک میں فحاشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کنٹرول کیا جائے۔

اجلاس کے شرکاء میں مولانا زاہد الراشدی، علامہ محمد احمد لدھیانوی، مولانا غلام رسول راشدی، ڈاکٹر غلام محمد، مولانا جمیل احمد گجر، جناب امان اللہ بٹ، مولانا حبیب اللہ خان، حافظ محمد ثاقب اور میاں محمد اسماعیل اختر بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

آئین کی اسلامی دفعات اور قادیانی مسئلہ کے بارے میں سرکاری وضاحت

دستورِ پاکستان کے معطل ہونے کے بعد دستور کی اسلامی دفعات بالخصوص قراردادِ مقاصد اور عقیدۂ ختمِ نبوت کے تحفظ کے بارے میں آئینی شقوں کے حوالے سے دینی حلقوں کی طرف سے جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے ان کے جواب میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی اور وزارتِ قانون کے ترجمان نے درج ذیل وضاحت کی ہے۔

اس وضاحت پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ ۱۲ اکتوبر کو چیف ایگزیکٹو نے دستورِ پاکستان کو معطل کرنے کا جو اعلان کیا تھا اس میں قراردادِ مقاصد، عقیدۂ ختمِ نبوت اور دیگر اسلامی دفعات کی کوئی استثناء نہیں تھی۔ اس لیے اصولی طور پر اس حوالے سے دستوری خلا بدستور موجود ہے اور اس خلا کو چیف ایگزیکٹو کے باقاعدہ دستوری فرمان کے ذریعے ہی پُر کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی اور وزارتِ قانون کے ترجمان کی یہ وضاحت خوش آئند ہے لیکن ان کے ارشادات چیف ایگزیکٹو کے دستوری فرمان کا متبادل نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے مذکورہ دستوری ابہام دور ہوتا ہے۔

وزارتِ قانون کی وضاحت

اسلام آباد (ا پ پ) قادیانیوں کے بارے میں آئین کے آرٹیکل ۲۶۰ کی کلاز تھری بدستور نافذ العمل ہے جس کے تحت قادیانی گروپ اور خود کو احمدی کہنے والے لاہوری گروپ کو غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات وزارتِ قانون کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز بتائی۔ ترجمان نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی متعلقہ اسلامی دفعات بشمول آرٹیکل ۲۶۰ کے کلاز تھری کی دفعات، ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے آرڈر، اور عبوری آئینی حکم نمبر ایک، ۱۹۹۹ء سے ہرگز متاثر نہیں بلکہ یہ تمام دفعات اس وقت بھی نافذ العمل ہیں۔

وزارتِ قانون کے ترجمان نے بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے اس تاثر کو قطعی غلط قرار دیا کہ ۱۴ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ہنگامی حالت کے نفاذ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو معطل قرار دینے کے بعد قادیانیوں سے متعلقہ آئینی دفعات نافذ العمل نہیں رہیں۔ ترجمان نے کہا کہ اس بارے میں پھیلائے گئے شکوک و شبہات بلاجواز ہیں۔ ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ۱۹۹۹ء کے عبوری آئینی حکم نمبر ۱ کے آرٹیکل ۲ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعات معطل ہونے کے باوجود پاکستان کو ہر ممکن طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق ہی چلایا جائے گا۔

(روزنامہ نوائے وقت، لاہور ۔ ۲۵ فروری ۲۰۰۰ء)

ڈاکٹر محمود احمد غازی کے ارشادات

لاہور (نمائندہ جنگ) قومی سلامتی کونسل کے رکن ڈاکٹر محمود احمد غازی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت صوبوں کی نئی تقسیم نہیں کر رہی البتہ نیا بلدیاتی نظام لایا جا رہا ہے جس کے تحت لوگوں کے مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کے عمل کو یقینی بنایا گیا ہے۔ نئے بلدیاتی نظام کا اعلان چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف ۲۳ مارچ کو کریں گے۔

وہ گزشتہ روز قائد اعظم لائبریری باغِ جناح میں مولانا امین احسن اصلاحی کی یاد میں پہلے میموریل لیکچر کی تقریب سے خطاب کے بعد اخبار نویسوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کونسل اسلامی عقائد اور قراردادِ مقاصد کو سامنے رکھ کر ہی کوئی کام کرے گی، اس کے علاوہ کسی چیز پر عمل نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دستور میں اسلامی شقیں معطل نہیں ہیں۔ قادیانی غیر مسلم ہیں اور غیر مسلم ہی رہیں گے۔

ڈاکٹر محمود غازی نے کہا کہ پاکستان میں شریعت ہی سپریم لاء ہے، کسی بھی اعلیٰ عدالت نے آج تک شریعت کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ PCO کے تحت آئین کی محض مخصوص دفعات کو معطل کیا گیا ہے، سارا آئین معطل نہیں۔ عدالتیں بدستور کام کر رہی ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم نہیں کیا جا رہا، یہ ساری غلط فہمیاں ہیں، اس کے ممبران کی کم از کم تعداد ۵ موجود ہے، آئندہ چند دنوں میں نئے ارکان کی تقرری بھی کر دی جائے گی، ان کی سمری چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کے پاس ہے۔

ڈاکٹر محمود غازی نے کہا کہ موجودہ حکومت پر قادیانی ازم پھیلانے کا الزام درست نہیں، یہ افواہیں ہیں۔ جن تین اہم شخصیات کے بارے میں قادیانی ہونے کا کہا گیا اس بارے تحقیقات کی گئی تو وہ درست ثابت نہ ہوا۔ انہوں نے مرزا طاہر احمد کی موجودہ حکومت کی تعریف کرنے کے بارے میں سوال پر کہا کہ یہ تو آپ مرزا طاہر سے پوچھیں، وہ اس کا جواب دیں گے۔

ڈاکٹر غازی نے جہادی تنظیموں پر دہشت گردی کے الزام کے حوالے سے سوال پر کہا کہ جہاد کرنا دینی اور شرعی فریضہ ہے، جہادی تنظیمیں اپنا یہ فرض ادا کرتی رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ جہاد کے حوالے سے مغربی میڈیا کا پروپیگنڈا ہے، ہماری تنظیموں کے دہشت گردی کے کوئی ثبوت نہیں ملے، اگر جہادی تنظیمیں دہشت گردی میں ملوث پائی گئیں تو ان کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

ڈاکٹر محمود احمد غازی نے مولانا امین احسن اصلاحی کی دینی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ خالد مسعود نے مولانا امین احسن اصلاحی کی علمی تربیت، فکر و تفسیر، نظامِ قرآن، اصولِ فہمِ حدیث، حکمتِ قرآن، اسلامی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مولانا کی یہ عظیم خدمت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم قرآن پر تدبر کے لیے ان کا دیا ہوا لائحہ عمل اپنائیں۔

(روزنامہ جنگ، لاہور ۔ ۲۸ فروری ۲۰۰۰ء)


اخبار و آثار

(اپریل ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter