وثائقِ یہودیت (پروٹوکولز) کا مختصر تعارف

عبد الرشید ارشد

(ہمارے فاضل دوست اور ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن آف پاکستان کے وائس چیئرمین جناب عبد الرشید ارشد نے شہرہ آفاق وثائقِ یہودیت (پروٹوکولز) کا اردو ترجمہ کر کے اسے شائع کیا ہے جو عالمی نظام کے بارے میں یہودی عزائم کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک اہم قومی خدمت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا تعارفی حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے، اس گزارش کے ساتھ کہ اس کا مطالعہ علماء کرام اور دینی کارکنوں کو بطور خاص پورے اہتمام کے ساتھ کرنا چاہیے، یہ کتابچہ جناب عبد الرشید ارشد سے جوہر پریس بلڈنگ جوہر آباد ضلع خوشاب کے ایڈریس سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ ادارہ)



وثائق (پروٹوکولز) کا تعارف

یہ شاہکار دستاویز روسی قدامت پسند چرچ کے پادری پروفیسر سرگ پی اے نیلس کی وساطت سے پہلی بار دنیا کے سامنے آئی جس نے ۱۹۰۵ء میں اسے روسی زبان میں شائع کیا۔ اس کے تعارف میں اس نے کہا کہ عبرانی سے یہ اصل ترجمہ مجھے ایک دوست کی وساطت سے ملا جس نے بتایا کہ یہ فری میسن کی ایک بہت با اثر راہنما خاتون نے فرانس میں، جو یہودی سازشوں کا گڑھ تسلیم کیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی اجلاس کے اختتام پر چرایا تھا۔ (اس کے بعد فری میسن میں عورتوں کی ممبرشپ ممنوع قرار دی گئی، ما سوائے لاج کی سماجی نوعیت کی سرگرمیوں میں خواتین کی شمولیت کے، جو بہت کم ہوتی ہیں)۔

پروفیسر نیلس کا کہنا ہے کہ یہ پروٹوکولز، ہوبہو اجلاسوں کی کاروائیاں نہیں ہیں بلکہ یہ فری میسن کے کسی با اثر فرد کی مرتب کردہ رپورٹ ہے جس کے بعض حصے غائب محسوس ہوتے ہیں۔ جنوری ۱۹۱۷ء میں اس نے ایک اور ایڈیشن تیار کیا مگر پروٹوکولز کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی زار روس کی حکومت کا کرنکسی حکومت نے تختہ الٹ دیا جس نے یہود نوازی کے سبب تمام کتب بازار سے اٹھوا کر ضائع کرا دیں تاکہ حکومت کے خلاف سازش سامنے نہ آ جائے۔ پروفیسر نیلس گرفتار ہوئے، بالشویکوں نے جیل میں ان پر تشدد کیا۔ بعد ازاں اسے ملک بدر کر دیا گیا اور وہ ۱۳ جنوری ۱۹۲۹ء کو ولادیمیر میں وفات پا گیا۔

کتاب اس قدر مقبول ہوئی کہ اسی سال ۱۹۱۷ء میں اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ بڑے وثوق سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ۱۹۱۷ء میں ہی اس کا چوتھا ایڈیشن طبع ہوا اور ان طبع شدہ اشاعتوں کے ساتھ ساتھ ٹائپ شدہ نقول بھی عوام میں پھیلتی رہیں۔ رائس پیپر پر ٹائپ شدہ نقول سب سے زیادہ سائبیریا میں پھیلیں جہاں سے کسی نہ کسی طرح اگست ۱۹۱۹ء میں ولاڈی واسٹک کی بندرگاہ کے راستے امریکہ لے جائی گئیں اور اس کی طباعت عمل میں آئی۔ امریکی ایڈیشنوں میں گراں قدر ضمیمے بھی شامل ہیں۔ پروفیسر نیلس کے تیار کردہ ۱۹۰۵ء کے مسودہ کی ایک نقل ۱۰ اگست ۱۹۰۶ء کو برٹش میوزیم لائبریری میں موصول ہوئی جس کے ٹائٹل کے اندرونی صفحہ پر مہر کے ساتھ یہ بھی موجود ہے ’’۲۸ ستمبر ۱۹۰۵ء کو ماسکو میں سنسر نے پاس کیا‘‘۔

پروٹوکولز کو روسی زبان سے انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام ’’مارننگ پوسٹ‘‘ کے روس میں متعین برطانوی نامہ نگار مسٹر وکٹر ای مارسیڈن نے کیا۔ وہ عرصہ دراز تک روس میں مقیم رہا تھا اور اس نے ایک روسی دوشیزہ سے شادی کر رکھی تھی۔ نڈر نقاد ہونے کے ناطے وکٹر ای مارسیڈن نے ۱۹۱۷ء کے انقلاب کے اَن کہے حقائق سے پردہ اٹھایا تو اسے گرفتار کر کے پیٹرپال جیل میں ڈالا گیا۔ دو سال بعد جب اسے رہا کر کے وطن جانے کی اجازت ملی تو اس کی صحت تباہ ہو چکی تھی اور پھر جونہی اس کی توانائی بحال ہوئی اس نے برٹش میوزیم لائبریری میں بیٹھ کر پروٹوکولز کے ترجمہ پر اپنا وقت صرف کیا مگر بالشویک جیل سے جو بیماری وہ ساتھ لایا تھا اس نے اسے لمبی مہلت نہ دی اور وہ جلد ہی وفات پا گیا۔

نیلس کے پروٹوکولز کی کتابی شکل میں اشاعت سے قبل ہی یہ روسی اخبارات ’’نمجا‘‘ (SNAMJA) اور ’’موسکوز کی جی ویڈو موستی‘‘ (Moskowskiji Wiedomosti) میں (۱۹۰۲ء اور ۱۹۰۳ء) طبع ہو کر بے شمار لوگوں تک پہنچ چکے تھے۔

عیسائیت کے تمدن کے خلاف یہود کی خون منجمد کر دینے والی اس گھناؤنی سنگدلانہ سازش کو (پروٹوکولز میں) پڑھنے سے نیلس کو سخت صدمہ ہوا۔ اگرچہ یہ مسلّمہ امر ہے کہ صہیونی یہودی سازش ہر تہذیب و تمدن، خصوصاً اسلام کے نظریۂ حیات کے خلاف ایک مستقل جارحیت ہے، مگر وہ (نیلس) بالخصوص اس سازش سے عیسائیت کو بچانے کے لیے دلچسپی لے رہا تھا، حالانکہ یہودیت کی ہمہ جہت یورش کا عیسائیت کے حوالے سے یہ صرف ایک پہلو تھا۔

وثائقِ یہودیت (پروٹوکولز) تو دراصل پوری دنیا کو یہودی ’’پولیس اسٹیٹ‘‘ بنانے کے عملی پروگرام کا محض ضمیمہ ہیں، خاکہ ہیں، جس کی تکمیل کے لیے وہ زیرزمین عالمی سماج میں ’’بھائی چارہ‘‘ (فری میسن کی اصطلاح) منظم کرنے کی خاطر ہر وقت کوشاں ہیں۔

وثائقِ یہودیت میں بیان کردہ ’’پیش گوئیاں‘‘ اور روسی بالشویک انقلاب میں حیرت انگیز مماثلت اس قدر چونکا دینے والی تھی کہ عرصہ دراز تک انہیں نظرانداز کیے جانے کے باوجود پوری دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ یہ وثائق ’’مشہور‘‘ (بدنام) ہوئے۔

وثائقِ یہودیت میں بالشویک ازم کے مقاصد کی تفصیلات اور موثر طریقہ نفاذ بیان کیا گیا ہے۔ ۱۹۰۱ء میں جب نیلس کی ان وثائق تک رسائی ہوئی، یہ طریقے استعمال کیے جا رہے تھے، مگر اس وقت یہ صرف مارکس کے کمیونزم کی حد تک تھے اور ابھی پوری سنگدلانہ قوت سے پولیس یا فوج کے ذریعے عملی نفاذ کا وقت نہ آیا تھا۔

گزرتا وقت اس بات کی شہادت فراہم کر رہا ہے کہ ۳۳ویں ڈگری (یہودی فری میسن کونسل میں بڑا رتبہ) کے یہودی راہنماؤں میں سے وثائق (پروٹوکولز) کے ’’نادیدہ مصنفین‘‘ نے جو کچھ لکھا، بین الاقوامی حالات و واقعات کی عملاً رونمائی نے کم و بیش انہیں درست ثابت کیا ہے۔ جنگیں، بحران، انقلابات، ضروریاتِ زندگی کی گرانی، مسلسل غیر مستحکم و متزلزل معیشت اور بداَمنی، دراصل چور دروازے سے دنیا پر فاتح بن کر چھا جانے کے یہودی حربے ہیں۔

بالشویک روس میں ان وثائقِ یہودیت کو اپنے قبضہ میں رکھنے کی سزا موت تھی، جو نہ صرف روس میں بلکہ روسی زیر تسلط ریاستوں میں آج بھی ہے۔ یہود کے زیراثر جنوبی افریقہ میں قانوناً وثائقِ یہودیت اپنے پاس رکھنا ممنوع ہے اور روس کی نسبت سزا بھی کم سخت ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر روس اور دنیا کے یہود ان وثائق کی عام اشاعت سے خوفزدہ کیوں ہیں؟

برسوں پر پھیلے لمبے عرصہ میں یہود کے بڑوں کے اجلاسوں میں طے کی گئی منصوبہ بندی کے ملخص کا نام دراصل وثائق (پروٹوکولز) ہے جن کی تعداد ۲۴ ہے۔ ان وثائق کو عام کتاب کے انداز میں پڑھنا بے فائدہ رہے گا۔ ان کے مندرجات دراصل بصیرت کے ساتھ تجزیہ اور کھوج لگا کر تہہ تک پہنچنے کا تقاضہ کرتے ہیں۔ ان میں بہت سی چیزیں عام قاری کو تضاد میں الجھا کر گمراہ کرنے والی بھی ہیں۔ ان وثائق کے مطالعہ کے دوران یہ بات ہر لمحہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ ان وثائق کے مخاطب وہ اعلیٰ رتبے والے یہودی ہیں جو حقیقی منصوبہ بندی کی جزیات تک سے با خبر ہیں اور جن کی راہنمائی کے لیے یہ ملخص مرتب کیا گیا ہے، اور جو اس اختصار کو تفصیل میں ڈھالنا جانتے ہیں۔ جبکہ دوسروں کے لیے یہ معمہ سے کم نہیں ہے۔ اس مقام پر ایک غیر یہودی قاری مشکل سے دوچار ہو جاتا ہے۔ یہ امر بھی واقع ہے کہ سبھی یہودی بھی ان وثائق سے مکمل طور پر آگہی نہیں رکھتے۔ یہ وثائق تو فی الواقع اونچے درجہ کی ایک ایسی دستاویز کے طور پر مرتب کیے گئے ہیں کہ یہ قوم (یہود) کے اندر جوش و جذبہ اور راہنمائی کا کام دیں کہ یہود کا عملی کام موثر انداز میں خوش اسلوبی سے آگے بڑھے تو قوم کو فکری غذا فراہم کرے گا۔

یہ وثائق پڑھنے والے سے سنجیدہ اور فکری مطالعے کا تقاضا کرتے ہیں۔ یہ بار بار پڑھی جانے والی دستاویز ہیں کہ ہر بار کا مطالعہ کئی اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ یہودیت کے ’’علامتی سانپ‘‘ پر لکھے گئے نوٹ سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ عیسائیت تو پہلے ہی یہود کی سنگدلانہ اور غیر انسانی زنجیر میں پھنس کر مغلوب ہو چکی ہے اور اب یہودیت اسلام کی جانب اپنا (مکروہ اور سازشی) سفر شروع کر چکی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ یہود اپنے تمام مکر و فریب اور ہر ’’ہتھیار‘‘ سے مسلح (اسلام کے خلاف) پہلے ہی میدان میں موجود ہیں اور ان کے مقابلے میں ذرا سی غفلت و کوتاہی ملتِ مسلمہ کی آزادی و خودمختاری کے لیے کریہہ موت ہو گی۔ مسلمان یہود کا آخری (اہم) نشانہ ہیں مگر عقل و دانش اور مستعدی سے یہ ان کے مذموم خوابوں کی تعبیر کا شیرازہ بکھیر سکتے ہیں۔ اس راہ کی مشکلات اگرچہ مسلّمہ ہیں مگر یہ کام ہے ضروری۔ خطرہ جس قدر زیادہ ہے چیلنج بھی اسی قدر بڑا ہے۔ یقیناً اللہ کی مدد و نصرت سے یہ صہیونیت کے مکر و دجل کے مقابلے میں کامران رہیں گے۔ بلا شک و شبہ یہ بہت بڑا اعزاز ہے، سعادت کا موقعہ ہے کہ عالمی صہیونیت کے خلاف دامے درمے اور سخنے اس جہاد میں حصہ لیا جائے۔


عالم اسلام اور مغرب

(اپریل ۲۰۰۰ء)

تلاش

Flag Counter