شریعت درخواست نمبر ۱۱۸ / ایل / ۱۹۹۱ ء درخواست دہندہ محمد اسماعیل قریشی نے وفاقی حکومت پاکستان بذریعہ سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور اسلام آباد کے خلاف ۲۸ نومبر ۱۹۹۱ء کو دائر کی۔
شریعت درخواست نمبر ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء درخواست دہندہ محمد اسماعیل قریشی نے وفاقی حکومت پاکستان بذریعہ سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور اسلام آباد کے خلاف ۲۲ دسمبر ۱۹۹۱ء کو دائر کی۔
علاوہ ازیں شریعت درخواست نمبر ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء منجانب ایم خالد فاروق بخلاف وفاقی حکومت پاکستان ۹ اپریل ۱۹۹۲ ء کو دائر ہوئی اور شریعت درخواست نمبر ۱۵ / ایل / ۱۹۹۲ء منجانب ایم خالد فاروق بخلاف وفاقی حکومت پاکستان ۹ اپریل ۱۹۹۲ء کو دائر ہوئی۔
مندرجہ بالا چاروں شریعت درخواستوں کی سماعت ۱۲ مئی ۱۹۹۲ء کو ہوئی، عدالت نے ان کا فیصلہ ۱۳ مئی ۱۹۹۲ء کو سنایا۔ ان چاروں درخواستوں کو ایک ہی فیصلہ کے ذریعے نمٹایا گیا۔ درخواستوں کی سماعت جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن چیف جسٹس، جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان، اور جسٹس میر ہزار خان کھوسو نے کی اور فیصلہ جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمٰن نے لکھا۔
شریعت درخواست ۱۱۸ / ایل / ۱۹۹۱ء اور ۱۵ / ایل / ۱۹۹۲ء میں نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۲ء کی دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) کو اس بنا پر چیلنج کیا گیا کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔
شریعت درخواست نمبر ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء اور ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء میں نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ کو اس بنا پر چیلنج کیا گیا کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ محمد اسماعیل قریشی نے اپنی درخواست میں کہا کہ اگرچہ نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی مین دفعہ ۳ ذیلی دفعہ (۱) میں شریعت کو اعلیٰ قانون (سپریم لاء) قرار دیا گیا ہے، لیکن دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) نے موجودہ سیاسی نظام بشمول مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں) اور موجودہ حکومتی نظام کو شریعت کے اعلیٰ قانون کے تحت رکھنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ ان کو احکام اسلام سے بالا نہیں رکھا جا سکتا۔ لہٰذا انفرادی اور اجتماعی طور پر اختیار کے استعمال کو اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ کیونکہ صرف اللہ ہی قانون دہندہ ہے اور قانون سازی کا مطلق اختیار اسی کو حاصل ہے۔
درخواست دہندہ نے درج ذیل نکات پر مشتمل وجوہ کی بنا پر دفعہ ۳ (۲) کو چیلنج کیا:
۱۔ قومی یا صوبائی اسمبلیاں یا حکومت آزادانه قانون سازی نہیں کر سکتے، نہ ہی وہ کسی ایسے قانون کو بدل سکتے ہیں، نہ اس میں ترمیم کر سکتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسولوں نے دیے ہیں۔
۲۔ اگر حکومت، قومی یا صوبائی اسمبلیاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو نظر انداز کریں یا اس سے روگردانی کریں تو وہ احکامِ اسلام کی خلاف ورزی کریں گی۔ اس صورت میں ایک سیاسی ایجنٹ کی حیثیت سے اپنی اطاعت کرانے کا استحقاق کھو بیٹھیں گی۔ چونکہ دفعہ ۳ (۲) میں یہی صورت ہے، اس لیے دفعہ ۳ (۱) میں قرآن وسنت کو اعلیٰ قانون قرار دینے کا اعلان محض ایک فراڈ ہے، جو شریعت، دستور اور قانون کے ساتھ کیا گیا ہے اور دستور کی خلاف ورزی ہے۔
۳۔ دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) حکومت، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو مغربی جمہوریت کی طرز پر، جس میں اقتدار اعلیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے، قانون سازی کا لامحدود اختیار دیتی ہے۔
۴۔ نفاذ شریعت ایکٹ دستور کے آرٹیکل ۲ (جس میں اسلام کو پاکستان کا سرکاری مذہب قرار دیا گیا ہے) اور آرٹیکل ۱۲ (جس نے قرارداد مقاصد کو دستور کا جزو اصلی بنا دیا ہے) کے احکام پر حاوی نہیں ہو سکتا۔ -
۵۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے اسلام کی تعریف کی ہے کہ اسلام اللہ کے احکام کی مکمل پابندی ہے۔
۶۔ شاہ ولی اللہؒ نے حجتہ اللہ البالغہ میں کہا کہ برسر اقتدار طاقت کے احکام مومنوں پر واجب الاطاعت نہیں رہیں گے اگر یہ احکام معصیت ہوں۔ یہ اصول رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث پر مبنی ہے۔
۷۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے قرآن کریم کا ایک اور اصول اپنی کتاب ’’اسلامی قانون اور دستور‘‘ میں بیان کیا ہے کہ کوئی شخص، جماعت، یا گروہ، بلکہ ریاست کی پوری آبادی مجموعی طور پر بھی اقتدار اعلیٰ کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ صرف اللہ ہی مقتدر اعلیٰ ہے، باقی سب اس کی رعایا ہیں۔
۸۔ ہارون خان شروانی، ایک سیاسی عالم، نے اپنی کتاب ’’مسلم سیاسی افکار اور نظام و نسق‘‘ میں کہا ہے کہ اللہ کا قانون اعلیٰ اور کائناتی تصور کیا جاتا ہے۔
درخواست دهنده ایم خالد فاروق نے بھی ایک شریعت درخواست ۱۵ / ایل / ۱۹۹۲ء میں نفاذ شریعت ایکٹ کی دفعہ ۳ کی ذیلی دفعہ (۲) کو اس بنا پر چیلنج کیا کہ یہ قرآن وسنت کے احکام کے خلاف ہے۔ درخواست دہندہ نے متعدد آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویؐ کے حوالے دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ذیلی دفعہ اللہ کی حاکمیت کی صاف طور پر نفی کرتی ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ ہدایت ہے اور سیاست کو اسلام کے دائرے سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔
نیز محمد صلاح الدین بنام حکومت پاکستان (پی ایل ڈی ۱۹۹۰ء وفاقی شرعی عدالت ۱) کے فیصلہ میں عدالت ہذا موجودہ سیاسی نظام کے ایک جزو عوامی نمائندگی ایکٹ ۱۹۷۶ء کی دفعات ۱۳، ۱۴، ۳۸ (۴)سی، ۴۹، ۵۰ اور ۵۲ کو خلافِ اسلام ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دے چکی ہے۔ علاوہ ازیں ذیلی دفعہ زیر اعتراض آئین کے آرٹیکل ۲، ۱۲ اور ۲۲۷ (۱) کے منافی ہے۔ اور یہ ذیلی دفعہ اسی دفعہ کی ذیلی دفعہ (۱) کے موثر ہونے کے عمل کو کم کرتی ہے۔
درخواست دہندہ نے متعدد آیاتِ قرآنی اور احادیثِ رسول ﷺ سے اپنے موقف کو مضبوط بنایا۔
درخواست دہندہ مسٹر محمد اسمعٰیل قریشی نے اپنی شریعت درخواست نمبر ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء میں نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ کو اس بنا پر چیلنج کیا کہ یہ دفعہ احکامِ اسلام کے خلاف ہے۔ قرآن وسنت میں سود کو واضح طور پر حرام قرار دیا گیا ہے، جب کہ اس دفعہ میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ درخواست دہندہ نے اپنے موقف کے حق میں متعدد قرآنی آیات اور احادیثِ رسولؐ پیش کیں۔ درخواست دہندہ نے دفعہ ۱۹ کو آئین کے آرٹیکل ۲، ۱۲، اور ۲۲۷ کے خلاف قرار دیا۔
درخواست دہندہ ایم خالد فاروق نے اپنی شریعت درخواست نمبر ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء میں اسی دفعہ ۱۹ کو اس بنا پر چیلنج کیا کہ یہ احکامِ اسلام کے خلاف ہے۔ درخواست دہندہ نے متعدد آیات و احادیث کو اپنے موقف کے حق میں پیش کیا۔ نیز کہا کہ یہ دفعہ (دفعہ ۱۹) آئین کے آرٹیکل ۲، ۱۲ اور ۲۲۷ (۱) کے منافی ہے۔ کیونکہ آئین کے ان آرٹیکلوں میں قرآن وسنت کے اعلیٰ ترین ہونے کی ضمانت دی گئی ہے، جب کہ نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ اس حیثیت کو ختم کرتی ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۳ (۲) آئین سے متصادم ہے، کیونکہ:
(۱) دفعہ ۳ (۲) نے پاکستان میں موجودہ سیاسی نظام کو شریعت کے اطلاق سے مستثنیٰ کر دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و سنت میں موجود احکام اسلام ملک کے سیاسی نظام کو منضبط نہیں کر سکیں گے ، جبکہ آئین نے اس نظام کو یہ استثناء نہیں دیا۔
(۲) آرٹیکل ۲۰۳ بی (سی) کی رو سے قانون کی تعریف میں نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء شامل ہے، اس لیے وفاقی شرعی عدالت اور شریعہ اپیل پنج عدالتِ عظمیٰ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور جو اختیار آئین نے دیا ہو اسے کوئی قانون چھین نہیں سکتا۔
عدالت نے نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۳ (۲) کو قرآن و سنت کے احکام کے خلاف قرار دیا۔ عدالت نے آیاتِ قرآنی المائده ۳، البقره ۸۵، ۲۰۸ پر انحصار کیا اور ان آیات کی تشریح میں علامہ محمد اسد، سید ابو الاعلیٰ مودودی اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی آراء کا حوالہ دیا۔
جہاں تک نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعہ ۱۹ کا تعلق ہے، عدالت نے قرار دیا کہ قرآن و سنت نے معاہدات کی پابندی پر بہت زور دیا ہے اور اس دفعہ میں گزشتہ معاہدات کی پابندی کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن ان معاہدات میں وہ معاہدات شامل نہیں جو احکامِ قرآن وسنت کے خلاف ہوں۔ چونکہ ربا قرآن و سنت کی رو سے حرام ہے، اس لیے ربا سے متعلق معاہدات کی پابندی ناجائز ہو گئی، لہٰذا دفعہ ۱۹ قرآن وسنت کے احکام کے منافی ہے۔ عدالت نے اس کے لیے قرآن وسنت سے متعدد دلائل کے حوالے دیے۔
نتیجتاً شریعت درخواست ہائے نمبر ۱۱۸ / ایل / ۱۹۹۱ء، ۱۲۳ / ایل / ۱۹۹۱ء، ۱۴ / ایل / ۱۹۹۲ء اور ۱۵ / ایل ۱۹۹۲ء منظور کر لی گئیں اور نفاذ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کی دفعات ۳ (۲) اور ۱۹ کو احکامِ اسلام کے خلاف، جیسے کہ وہ قرآن و سنت میں مذکور ہیں، قرار دیا گیا۔
عدالت نے مقننہ کی رہنمائی کے لیے قرآن کریم کی حسب ذیل آیات کا حوالہ دیا:
’’اور کسی مومن یا مومنہ کے لیے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول ﷺ ان کے لیے کوئی فیصلہ کر دے تو اپنی مرضی سے کوئی اور راستہ اختیار کرے۔‘‘ (الاحزاب : ۳۶)
’’اور جو کوئی اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ دے وہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ (المائدہ : ۵۰)
(بشکریہ ’’نوائے قانون‘‘ اسلام آباد)