تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات
اسلامی مملکت کے بنیادی اصول

ادارہ

(یعنی ۲۲ متفقہ نکات) جنہیں پاکستان کے تمام اسلامی مکاتب فکر کے جید اور معتمد علماء کرام نے اپنے اجتماع منعقدہ کراچی بتاریخ ۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵ ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ مطابق ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۴ جنوری زیر صدارت مفکر اسلام مولانا سید سلیمان ندویؒ اتفاقِ رائے سے طے کیا۔)




اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ذیل اصول کی تصریح لازمی ہے:


  1. اصل حاکم تشریعی وتکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
  2. ملک کا قانون کتاب وسنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جا سکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جا سکے گا جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
    (تشریحی نوٹ): اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب وسنت کے خلاف ہوں تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کر دیے جائیں گے۔
  3. مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اصول ومقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطہ حیات ہے۔
  4. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن وسنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرے، منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیا واعلا اور مسلمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کا انتظام کرے۔
  5. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد واخوت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پر نسلی ولسانی، علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کر کے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ واستحکام کا انتظام کرے۔
  6. مملکت بلا امتیاز مذہب ونسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں یا نہ رہے ہوں یا عارضی طو رپر بے روزگاری، بیماری یا دوسرے وجوہ سے فی الحال سعی اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
  7. باشندگان ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کیے ہیں، یعنی حدود قانون کے اندر تحفظ جان ومال وآبرو، آزادیٔ مذہب ومسلک، آزادیٔ عبادت، آزادیٔ ذات، آزادیٔ اظہار رائے، آزادیٔ نقل وحرکت، آزادیٔ اجتماع، آزادیٔ اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
  8. مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند جواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمی موقع صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
  9. مسلمہ اسلامی فرقوں کو حدود قانون کے اندرپوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انھیں اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کر سکیں گے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انھی کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
  10. غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود قانون کے اندر مذہب وعبادت، تہذیب وثقافت اور مذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انھیں اپنے شخصی معاملات کا فیصلہ اپنے مذہبی قانون یا رسم ورواج کے مطابق کرانے کاحق حاصل ہوگا۔
  11. غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدود شرعیہ کے اندر جو معاہدات کیے گئے ہوں، ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کا ذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے، ان میں غیر مسلم باشندگان ملک اور مسلم باشندگان ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
  12. رئیس مملکت کامسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت رائے پر جمہور اور ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
  13. رئیس مملکت ہی نظم مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا، البتہ وہ اپنے اختیارات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کر سکتا ہے۔
  14. رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی، یعنی وہ ارکان حکومت اور منتخب نمائندگان جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
  15. رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کوکلاً یا جزواً معطل کر کے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
  16. جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی، وہی کثرت آرا سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
  17. رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔
  18. ارکان وعمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون وضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
  19. محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت انتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
  20. ایسے افکار ونظریات کی تبلیغ واشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول ومبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
  21. ملک کے مختلف ولایات واقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ ان کی حیثیت نسلی، لسانی یا قبائلی واحدہ جات کی نہیں، محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنھیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا، مگر انھیں مرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
  22. دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(اپریل ۱۹۹۶ء)

اپریل ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۲

دینی حلقے اور قومی سیاست کی دلدل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذ شریعت کی اہمیت اور برکات
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات
ادارہ

خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ اسلام کی راہ روکنے کے لیے امریکی منصوبہ بندی
وائس آف امریکہ

عدالتِ عظمیٰ کی نوازشات
ادارہ

نفاذ شریعت کی جدوجہد اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی ذمہ داریاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ اسلام اور ہمارا نظامِ تعلیم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذ شریعت ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعات
ادارہ

شریعت بل کی دفعہ ۳ کے بارے میں علماء کرام کے ارشادات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں معاون یا رکاوٹ؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علماء اور قومی سیاست
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس
ادارہ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قافلۂ معاد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خربوزہ
حکیم عبد الرشید شاہد

قراردادِ مقاصد
ادارہ

۱۹۷۳ء کے دستور کی اہم اسلامی دفعات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter