(۱۵ جنوری ۱۹۹۴ء کو ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست جامع مسجد صدیقیہ سیٹلائیٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں جمعیت اہل سنت کے زیراہتمام منعقد ہوئی جس میں مولانا زاہد الراشدی نے مندرجہ ذیل خطاب کیا۔ مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ ادارہ الشریعہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج کی نشست کے لیے گفتگو کا عنوان طے ہوا ہے ’’خلافتِ اسلامیہ کا احیا اور اس کا طریق کار‘‘۔ اس لیے خلافت کے مفہوم اور تعریف کے ذکر کے بعد تین امور پر گفتگو ہوگی:
- خلافت کا اعتقادی اور شرعی پہلو کہ ہمارے عقیدہ میں خلافت کی اہمیت اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟
- خلافت کا تاریخی پہلو کہ اس کا آغاز کب ہوا تھا اور خاتمہ کب اور کیسے ہوا؟
- اور یہ سوال کہ آج کے دور میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا کے لیے کون سا طریق کار قابل عمل ہے۔
خلافت کا مفہوم
سب سے پہلے یہ دیکھیں گے کہ خلافت کا مفہوم کیا ہے اور جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟ خلافت کا لفظی معنی ہے نیابت، یعنی کسی کا نائب ہونا۔
قرآن کریم نے خلافت کا لفظ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے حوالہ سے نسل انسانی کے لیے استعمال کیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ (البقرہ)۔ یہاں خلیفہ سے مراد حضرت آدمؑ اور ان کی نسل ہے۔ یعنی اس کائنات ارضی کا نظام اللہ رب العزت نے نسل انسانی کے سپرد فرمایا ہے اور وہ اس نظام کو چلانے میں اللہ تعالیٰ کی نائب ہے۔ خلیفہ کا لفظ قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں بھی بولا گیا ہے جو بنی اسرائیل کے پیغمبر اور بادشاہ تھے۔ چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں ’’اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، پس لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلے کیا کر اور خواہش کی پیروی نہ کرنا‘‘ (ص)۔ بہرحال خلافت کا معنی نیابت ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ نسل انسانی اس کائنات ارضی میں خودمختار اور آزاد نہیں بلکہ نائب ہے جو اپنے دائرہ کار اور اختیارات میں مقرر کردہ حدود کا پابند ہوتا ہے۔
قرآن کریم نے اس مفہوم کو ایک اور انداز سے بھی بیان کیا ہے۔ جب حضرت آدمؑ اور حضرت حوا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم دونوں زمین پر اتر جاؤ، پس ہماری طرف سے تمہارے پاس ہدایات آئیں گی، جس نے ان کی پیروی کی وہ غم اور خوف سے نجات پائے گا اور جس نے انکار کر دیا وہ آگ کا ایندھن بنیں گے‘‘ (البقرہ)۔ یہ بھی خلافت ہی کی ایک تعبیر ہے کہ نسل انسانی دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے مطلقاً آزاد و خودمختار نہیں بلکہ آسمانی ہدایات کی پابند ہے جو حضرات انبیاء کرامؑ کے ذریعے سے نازل ہوتی رہی ہیں اور جو وحی کی صورت میں حضرت آدمؑ سے شروع ہو کر حضرت محمدؐ پر مکمل ہو گئی ہیں۔
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد ارشادات میں خلافت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق اس کا پورا سسٹم یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت انبیاء کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں تھی، جب ایک نبی دنیا سے چلا جاتا تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا۔ اور میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے‘‘۔ اس ارشاد گرامی میں جناب رسول اکرمؐ نے خلافت کو سیاسی قیادت اور حکمرانی کے معنی میں بیان فرمایا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ میرے بعد یہ سیاسی قیادت اور حکمرانی خلفاء کے ہاتھ میں ہوگی۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ نے اپنی معروف کتاب ازالۃ الخفاء میں خلافت کی جو تعریف کی ہے اس میں خلافت کو جناب نبی اکرمؐ کی نیابت سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’خلافت اس اقتدارِ عمومی کا نام ہے جو معاشرہ میں اقامتِ دین کا اہتمام کرے، امن و امان کا بندوبست کرے، لوگوں کو انصاف فراہم کرے، احکامِ اسلام کے نفاذ کی ذمہ داری قبول کرے اور فریضۂ جہاد کی ادائیگی کا اہتمام کرے‘‘۔ اسی کے ساتھ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں کہ نیابتاً علی النبی کہ یہ اقتدارِ عمومی جناب نبی اکرمؐ کی نیابت کے طور پر ہوگا۔ گویا ہمارے ہاں خلافت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی سیاست، قیادت اور حکمرانی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کے طور پر کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ کہا جاتا تھا جبکہ امیر المؤمنین کی اصطلاح ان کے بعد حضرت عمرؓ کے دور میں اختیار کی گئی۔
تاریخی کشمکش
اس موقع پر مناسب ہوگا کہ اس تاریخی کشمکش پر ایک نظر ڈال لی جائے جو نسل انسانی کے آغاز سے ہی خلافت اور انسانی ذہن کی کاوشوں کے درمیان شروع ہو گئی تھی اور اب تک پورے شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ نسل انسانی کے آغاز سے اب تک انسانی معاشرہ پر جن قوانین اور ضابطوں کی حکمرانی رہی ہے وہ بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:
- ایک طرف وہ نظام ہائے حیات ہیں جنہیں خود انسانی ذہن نے تشکیل دیا اور مختلف صورتوں میں انسانی معاشرہ پر ان کی حکمرانی رہی۔ ان میں خاندانی بادشاہت بھی ہے اور شخصی ڈکٹیٹرشپ بھی، جماعتی آمریت بھی ہے اور طبقاتی بالادستی بھی۔ اسی طرح بعض قوموں کا خود کو حکمرانی کے لیے مختص کر لینا بھی اس میں شامل ہے۔ یہ سب نظام انسانی ذہن کی پیداوار ہیں، کہیں شخصی ذہن کارفرما ہے، کہیں اجتماعی ذہن دخل انداز ہے اور کہیں گروہی اور طبقاتی ذہن نے بالادستی قائم کر رکھی ہے۔ اور ان تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اب انسانی ذہن مغربی جمہوریت اور سولائزیشن کی صورت میں اپنے نقطۂ عروج سے ہمکنار ہو چکا ہے جو ان تمام مرحلہ وار نظاموں کی ترقی یافتہ اور آخری شکل ہے۔ اور خود مغربی مفکرین کے بقول اب اس کے بعد انسانی ذہن سے اس سے بہتر کسی اور نظام کی توقع نہیں کی جا سکتی، جسے وہ ’’اینڈ آف ہسٹری‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
- دوسری طرف وحی الٰہی پر مبنی نظام ہے جس کا آغاز حضرت آدمؑ سے ہوا اور حضرت محمدؐ پر نازل ہونے والی وحی کی صورت میں وہ نظام مکمل ہوگیا اور اس کی عملی تعبیر خلافتِ راشدہ ہے۔
یہ دونوں نظام مکمل ہو چکے ہیں، اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں اور اب ان دونوں کے درمیان آخری راؤنڈ ہونے والا ہے، فائنل مقابلہ ہونے والا ہے، ان میں سے جو جیتے گا وہی انسانی معاشرہ پر حکمرانی کرے گا۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے، تاریخ کا عمل ہے جسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ ہمارا ایمان ہے کہ اس مقابلہ میں جیت اسلام کی ہوگی، خلافت کے نظام کی ہوگی، وحی الٰہی کی ہوگی اور جناب نبی اکرمؐ کے ارشاد کے مطابق اس مقابلہ کے بعد اسلام کا غلبہ ہوگا اور ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب روئے زمین پر لا الہ الا اللہ پڑھنے والوں کے سوا کوئی موجود نہیں ہوگا۔ یہ بہرحال ہوگا اور جناب نبی کریمؐ کا ارشاد پورا ہو کر رہے گا لیکن اس سے قبل طویل کشمکش اور تاریخی ٹکراؤ کا آخری اور فیصلہ کن مرحلہ آنے والا ہے جس سے گزر کر ہم خلافت کے دو رمیں داخل ہوں گے۔
خلافت کا شرعی حکم
خلافت کے مفہوم اور تاریخی کشمکش کے تذکرہ کے بعد اب ہم اس کے شرعی حکم کی طرف آتے ہیں جسے فقہاء کرام نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، بالخصوص امام ولی اللہ دہلویؒ نے اس پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ فقہاء کرام نے خلافت کے قیام کو واجب قرار دیا ہے اور امام ابن حجر مکیؒ نے اپنی کتاب ’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں اسے ’’اہم الواجبات‘‘ فرمایا ہے یعنی تمام واجبات سے زیادہ واجب۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ کے نزدیک یہ واجب اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ انہوں نے اسے جناب رسول اللہؐ کی تجہیز و تکفین سے بھی مقدم سمجھا اور حضورؐ کے وصال کے بعد پہلے خلیفہ کا انتخاب کیا پھر آنحضرتؐ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہوئے۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ازالۃ الخفاء میں اسے قیامت تک کے مسلمانوں کے لیے فرض کفایہ قرار دیا ہے، یعنی اگر دنیا کے کسی بھی حصہ میں خلافت کا نظام موجود نہ ہو تو دنیا بھر کے مسلمان گنہ گار قرار پائیں گے۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ شرعاً خلافت کے قیام کے واجب ہونے پر تین دلائل پیش کرتے ہیں:
- پہلی دلیل یہ کہ جناب نبی اکرمؐ کی وفات کے بعد صحابہ کرامؓ کا سب سے پہلا اجماع خلافت کے قیام پر ہوا تھا اور انہوں نے جناب رسالت مآب کی تجہیز و تکفین سے بھی پہلے اس فریضہ کی ادائیگی کا اہتمام کیا۔
- دوسری دلیل کے طور پر وہ جناب نبی اکرمؐ کے اس ارشاد گرامی کو پیش کرتے ہیں کہ ’’جو شخص اس حالت میں مر گیا کہ اس کی گردن میں بیعت نہیں تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے‘‘۔ حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ یہاں بیعت سے مراد خلافت کی بیعت لیتے ہیں اور اسے ہر مسلمان کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔
- اور ان کی پیش کردہ تیسری دلیل یہ ہے کہ جو کام کسی فرض کی ادائیگی کے لیے ضروری ہو وہ خود بھی فرض ہو جاتا ہے۔ مثلاً وضو بذات خود فرض نہیں ہے لیکن چونکہ نماز اس کے بغیر نہیں ہوتی اس لیے نماز کے لیے وضو کرنا بھی فرض ہے۔ اسی طرح مسلم معاشرہ میں ارکان اسلام کا قیام، جہاد کا اہتمام، قضا کے نظام کا قیام، امن قائم کرنا اور علوم اسلامیہ کا احیا سب فرائض ہیں اور ان فرائض کی ادائیگی خلافت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے خلافت کا قیام بھی ان مقاصد کے لیے اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز کے لیے وضو فرض ہے۔
خلافت کی سیاسی اہمیت
خلافت کے شرعی حکم کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی اہمیت کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے اور اس سلسلہ میں ایک واقعہ پیش خدمت کرنا چاہتا ہوں جو میں نے اپنے بعض اساتذہ سے سنا ہے۔ وہ یہ کہ جن دنوں تحریک آزادی کے عظیم راہنما شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ مالٹا جزیرے میں نظر بند تھے، ان کے ساتھ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی بھی گرفتار تھے ، جبکہ ایک انگریز فوجی افسر بھی کسی جرم میں وہاں سزا کاٹ رہا تھا۔ یہ دور وہ تھا جب ترکی کی خلافت عثمانیہ جس نے کم و بیش پانچ سو سال تک عالم اسلام کی خدمت کی ہے آخری دموں پر تھی اور برطانیہ، فرانس اور اٹلی سمیت پورا یورپ اس خلافت کے خاتمہ کے لیے سازشوں میں مصروف تھا۔ ایک روز ملاقات میں مولانا مدنی نے اس انگریز فوجی افسر سے پوچھا کہ آپ لوگ ایک کمزور اور برائے نام سی حکومت کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور خلافتِ عثمانیہ سے آخر آپ کو خطرہ کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ بات اتنی آسان نہیں ہے جتنی آپ کہہ رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ خلافتِ عثمانیہ اس وقت ایک کمزور سی حکومت ہے جس کا رعب و دبدبہ اور قوت و شوکت قصہ پارینہ ہو چکی ہے لیکن ایک قوت اس کے پاس اب بھی باقی ہے اور وہ خلافت کا لفظ ہے اور امیر المؤمنین کی اصطلاح ہے۔ کیونکہ خلیفہ کے لفظ میں آج بھی اتنی طاقت ہے کہ اگر خلیفہ کی طرف سے دنیا کے کسی خطہ میں کسی کافر قوم کے خلاف جہاد کا اعلان ہو جائے تو دنیا بھر کے مسلمان نوجوانوں میں ہلچل مچ جاتی ہے اور ایک جذباتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم اس قوت سے خائف ہیں اور اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ انگریز خلافتِ عثمانیہ کے خلاف سازش کر کے اسی قوت کو توڑنا چاہتے تھے اور اسے انہوں نے توڑ دیا جس کے بعد مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کا کوئی عنوان باقی نہیں رہا اور ہم انتشار و افتراق کا شکار ہوگئے۔
خلافت کا تاریخی پہلو
خلافتِ اسلامیہ کا ایک تاریخی پہلو بھی ہے جسے سامنے رکھنا ضروری ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تیس سال خلافتِ راشدہ کا دور رہا جو خلافت کا مثالی دور ہے، اس کے بعد خلافتِ عامہ کا دور شروع ہوگیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا کہنا ہے کہ خلافت راشدہ کا دور تیس سال تک ہی چل سکتا تھا کیونکہ اس کے بعد ان کڑی شرائط کے حامل لوگ موجود نہیں رہے تھے۔ اس کے بعد خلافتِ عامہ کا دور ہے جس پر خلافتِ راشدہ کا اطلاق نہیں کیا گیا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ خلافتیں غیر اسلامی تھیں بلکہ یہ خلافتیں بھی اسلامی تھیں جنہیں علماء امت نے ہر دور میں تسلیم کیا ہے، ان میں:
- بنو امیہ کی خلافت ہے جو حضرت معاویہؓ سے شروع ہوئی اور ۹۰ سال تک قائم رہی۔
- اس کے بعد اموی خلیفہ مروان ثانی سے عباسیوں نے خلافت چھین لی۔ اور اموی خاندان ہسپانیہ منتقل ہوگیا جہاں اس نے کم و بیش آٹھ سو سال تک خلافت کا پرچم لہرائے رکھا۔ جبکہ عباسیوں کی خلافت کا آغاز سفاح سے ہوا اور تقریباً پانچ سو برس تک اس کا تسلسل قائم رہا۔ حتیٰ کہ معتصم باللہ کے دور میں ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بنو عباس کی خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔
- اس کے بعد بنو عثمان نے خلافت کا پرچم اٹھایا، یہ ترک تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے چن لیا تھا۔ سلطان عثمان اولؒ نے خلافت کے قیام کا اعلان کیا اور انہی کے نام سے یہ خلافتِ عثمانیہ کہلائی۔ خلافت کا یہ دور بھی کم و بیش پانچ سو سال کو محیط ہے اور اس سلسلہ کے آخری خلیفہ سلطان عبد الحمید مرحوم ہیں جنہیں ۱۹۲۴ء میں جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے جلاوطن کر کے خلافت کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔
جس زمانے میں یورپ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے بے چین تھا اور اس کی سازشیں منظر عام پر آرہی تھیں، ہمارے ہاں برصغیر پاک و ہند میں خلافت کی حمایت کے لیے ایک پرجوش تحریک اٹھی جو تحریک خلافت کے نام سے تاریخ کا یادگار حصہ ہے، لیکن مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں خلافت کے خاتمہ کے بعد یہ تحریک خلافت بھی ٹھنڈی پڑ گئی۔ خلافتِ عثمانیہ کے خلاف یورپ کی سازشیں اب ایک ایک کر کے بے نقاب ہو رہی ہیں اور اس پر لٹریچر آرہا ہے کہ یورپ نے کس طرح خلافت عثمانیہ کے سقوط کی راہ ہموار کی، ترکی جیسے عالم اسلام کے بازوئے شمشیر زن کو سیکولر ازم کی طرف مائل کیا اور مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کا خاتمہ کر دیا۔
الغرض خلافت راشدہ کے تیس سالہ دور کے بعد حضرت معاویہؓ سے شروع ہونے والی خلافتِ عامہ ۳ مارچ ۱۹۲۴ء تک قائم رہی۔ اس دوران اچھے حکمران بھی آئے اور برے حکمران دیکھنا بھی عالمِ اسلام کو نصیب ہوئے لیکن مجموعی طور پر خلافت کا تسلسل بہرحال قائم رہا۔ بالخصوص بعض ادوار کی تمام تر خرابیوں کے باوجود خلافتِ عامہ کے اس تیرہ سو سالہ طویل دور میں عدالتی نظام کا ریکارڈ شاندار رہا ہے اور عدالتوں میں قرآن و سنت کے احکام پر عملدرآمد کا سلسلہ بلاخوف لومۃ لائم چلتا رہا ہے۔ اسی طرح جہاد کا تسلسل بھی ہر دور میں قائم رہا ہے جو دنیا میں مسلمانوں کے رعب و دبدبہ کا ذریعہ بنا رہا۔ اس دوران خلافت راشدہ کا دارالحکومت مدینہ منورہ اور کچھ عرصہ کے لیے کوفہ تھا۔ بنو امیہ کا دارالخلافہ دمشق رہا، بنو عباس نے بغداد کو دارالخلافہ بنایا، اور بنو عثمان کا دارالخلافہ قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اسی تاریخی شہر میں ۱۹۲۴ء تک قائم رہا۔
خلافت کے احیا کی ضرورت
حضرات محترم! اب ہم اس نکتہ کی طرف آتے ہیں کہ آج کے دور میں خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت کیا ہے اور اس کے لیے عملی طریق کار کیا ہو سکتا ہے؟ خلافت کے احیا کی پہلی صورت تو یہ ہے کہ یہ ہمارا اجتماعی شرعی فریضہ ہے جس کی ادائیگی کے بغیر ہم دنیا بھر کے تمام مسلمان گناہ گار ہیں اور شرعی فرض کے تارک ہیں۔ پھر صرف اس ایک فرض کے تارک نہیں بلکہ خلافت کے ذریعے احکام اسلامی کے نفاذ، اقامت دین، جہاد اور شرعی قضا کے جو فرائض بجا لائے جا سکتے ہیں ہم ان کے بھی تارک ہیں اور ان سب فرائض کو نظر انداز کرنے کا بوجھ ہم پر ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں سیاسی وحدت اور مرکزیت کے قیام کا واحد ذریعہ صرف اور صرف خلافت ہے اور گزشتہ صدی کے تجربات نے واضح کر دیا ہے کہ سیاسی وحدت اور مرکزیت کے بغیر عالم اسلام تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے باوجود اپنا ایک مسئلہ بھی حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے آج عالم اسلام کا سب سے بڑا اور سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ خلافت کے احیا و قیام کی کوئی عملی صورت پیدا کی جائے۔
عملی طریق کار
خلافت کے انعقاد و قیام کی جو صورتیں فقہاء اسلام نے بیان کی ہیں وہ بنیادی طور پر پانچ ہیں:
- عام مسلمانوں کی رائے سے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب ہوا تھا۔
- خلیفۂ وقت کسی اہل شخص کو اپنا جانشین نامزد کر دے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو نامزد کیا تھا۔
- خلیفۂ وقت کی نامزد کردہ خصوصی کمیٹی خلیفہ کا انتخاب کرے، جس طرح حضرت عثمان غنیؓ کا انتخاب عمل میں لایا گیا تھا۔
- مجلسِ شورٰی خلیفہ کو چنے، جیسے حضرت علیؓ چنے گئے تھے۔
- کوئی اہل شخص اقتدار پر بزور قوت قبضہ کر لے اور امت اسے قبول کر لے، جیسے حضرت حسنؓ کی بیعت کے بعد حضرت معاویہؓ کی خلافت پر امت کا اجماع ہوگیا تھا۔
آج کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان میں سے دوسرا، تیسرا اور چوتھا طریقہ تو سرِدست قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس وقت کوئی شرعی خلیفہ موجود نہیں ہے جو کسی کو نامزد کر سکے، خصوصی کمیٹی بنا سکے یا مجلس شورٰی قائم کر سکے۔ اس کے بعد پہلا اور پانچواں طریق کار ہی قابل عمل رہ جاتا ہے اور اس کی عملی صورت یہ ہوگی کہ کسی مسلمان ملک کی منتخب پارلیمنٹ اپنے ملک کے دستور پر نظرثانی کر کے شرعی بنیادوں پر خلافت کے احیا کا اعلان کرے اور عام آدمیوں کی رائے سے خلیفہ وقت کا انتخاب کیا جائے۔ یا کوئی طاقتور گروہ طاقت کے زور سے اقتدار پر قبضہ کر لے اور ان میں سے خلافت کے اہل شخص کو خلیفہ کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ اس کے علاوہ فقہاء اسلام کی بیان کردہ صورتوں میں سے خلافت اسلامیہ کے احیا اور قیام کی کوئی اور صورت موجودہ حالات میں قابل عمل نہیں ہے۔
ایک اہم قابل توجہ نکتہ
اس مرحلہ میں ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ۱۹۲۴ء تک خلافت کے جیسے کیسے تسلسل کو قبول کرنے کے باوجود ہمیں خلافت کے نظام کی تشکیل و تدوین میں خلافتِ راشدہ ہی کو معیار بنانا ہوگا۔ بعد کے خلافتی نظام اس بارے میں ہماری راہنمائی نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی خلافت راشدہ کے اصولوں کی طرف براہ راست رجوع کیے بغیر ہم مغربی جمہوریت اور ویسٹرن سولائزیشن کا مقابلہ کر سکیں گے۔ حکومت کی تشکیل میں عام آدمی کا حصہ، حاکمِ وقت پر تنقید کا حق، آزادیٔ رائے اور خلیفہ وقت سے اپنا حق کھلے بندوں طلب کرنے کا جو معیار خلافت راشدہ کے دور میں قائم ہوا وہ آپ کو بعد کے ادوار میں نہیں ملے گا اور یہی معیار ہے جسے عملاً سامنے لا کر مغربی جمہوریت کے کھوکھلے پن کو ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص دو معاملات میں خلافت راشدہ کے طرزعمل کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا:
- ایک حکومت کی تشکیل اور خلیفہ کے انتخاب میں عام آدمی کی رائے کی اہمیت، جسے حضرت عمرؓ نے بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق یوں بیان فرمایا کہ ’’خبردار! لوگوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ کی بیعت کا نام نہ لینا اور جس نے ایسا کیا اس کی بات کو قبول نہ کرنا‘‘۔
- اور دوسرا نظمِ مملکت چلانے میں لوگوں کے ساتھ مشاورت کا نظام، جس کا اہتمام خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ کی سنت مبارکہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں لوگوں کو مشاورت میں شریک کیا کرتے تھے، جیسا کہ بدر، احد اور احزاب کے غزوات کے حوالہ سے احادیث موجود ہیں۔ حتیٰ کہ غزوہ حنین کے قیدیوں کی واپسی کے سلسلہ میں مشاورت کے موقع پر لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث عرفاء یعنی لوگوں کے نمائندوں کے ذریعے سے ان کی رائے معلوم کر کے آنحضرتؐ نے فیصلہ فرمایا۔
اس لیے خلافت کا سیاسی نظام طے کرتے وقت ہمیں خلافت راشدہ کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا، اسی صورت میں ہم آج کی دنیا کو مغربی جمہوریت سے بہتر نظام دے سکتے ہیں اور وقت کے چیلنج کا سامنا کر سکتے ہیں۔
حضراتِ محترم! میں آخر میں اس فکری نشست کے انعقاد پر جمعیت اہل سنت کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ سب دوستوں سے اس دعا کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں کہ اللہ رب العزت عالمِ اسلام کو خلافت کے حقیقی نظام سے ایک بار پھر بہرہ ور فرمائیں اور ہمیں اس کے لیے مؤثر اور نتیجہ خیز محنت کی توفیق دیں، آمین یا الہ العالمین۔