قراردادِ مقاصد ۱۹۷۳ء کے دستور میں دیباچہ کے طور پر شامل کی گئی تھی جسے صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ۸۵ء میں آئین میں ترمیم کے صدارتی آرڈر کے ذریعہ آئین کا قابلِ عمل حصہ قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ ۲ میں اسلام کو پاکستان کا ریاستی مذہب قرار دیا گیا ہے۔
دفعہ ۳۱ کے تحت اس امر کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کرے جن سے پاکستان کے مسلمان انفرادی و اجتماعی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں۔ انہیں قرآن و سنت کی تعلیمات اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی پابندی اور اسلامی اتحاد کا اہتمام کیا جائے۔ زکوٰۃ و عشر، اوقاف اور مساجد کی مناسب تنظیم و انتظام کیا جائے اور قرآن کریم کی صحیح اشاعت کا تحفظ مہیا کیا جائے۔
۱۹۷۴ء میں ہونے والی آئینی ترمیم کے ذریعہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے اور مسلمان کی آئینی تعریف متعین کی گئی ہے۔
وفعہ ۴۱ کے تحت صدر کے لیے مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ہے۔
دفعہ ۲۲۷ کے تحت ضمانت دی گئی ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں بنایا جائے گا، اور موجودہ تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق بنا دیا جائے گا۔
دفعہ ۲۲۸ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا کام قوانین پر نظر ثانی کر کے ان کے خلافِ اسلام حصوں کی نشاندہی کرنا اور حکومت کو رپورٹ پیش کرتا ہے۔ کونسل ہر سال عبوری رپورٹ پیش کرے گی اور اپنی تشکیل کے بعد سات سال کے اندر تمام قوانین کے بارے میں حتمی رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ کونسل کی رپورٹ متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کر کے اس کے مطابق قانون سازی کی جائے گی۔
۷۹ ء اور ۸۰ء میں صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے دو صدارتی احکامات کے ذریعہ آئین کی دفعہ ۲۰۳ میں ترمیم کر کے ’’وفاقی شرعی عدالت‘‘ تشکیل دی، جسے اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی قانون کو قرآن و سنت کے منافی قرار دے کر حکومت کو اس میں ضروری ترمیم کے لیے کہہ سکتی ہے۔ مگر وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے آئین، عائلی قوانین، دستوری پروسیجر اور دس سال کے لیے مالیاتی قوانین کو مستثنٰی قرار دے دیا گیا۔