الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس ۱۴ مارچ ۹۶ء بروز جمعرات مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں انعقاد پذیر ہوئی۔ کانفرنس کی پہلی نشست کی صدارت الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر جنرل مولانا زاہد الراشدی نے کی اور بزرگ عالم دین شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے خطاب کیا، جبکہ دوسری نشست کی صدارت مولانا مفتی محمد عیسی خان گورمانی نے کی اور سپریم کورٹ کے سابق حج جسٹس محمد رفیق تارڑ بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے، اور ان کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی، پروفیسر غلام رسول عدیم، جناب شکور طاہر، پروفیسر عطاء الرحمن عتیق اور الحاج محمد اسلم رانا نے اس نشست سے خطاب کیا۔ کانفرنس میں شہر اور ضلع کے مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور گورنمنٹ ظفر علی خان ڈگری کالج وزیر آباد کے پروفیسر حافظ منیر احمد نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔
کانفرنس کی پہلی نشست کا آغاز قاری احمد علی شاہد نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور اس کے بعد الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر نے معزز مہمانوں اور شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ قومی مقاصد اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے حوالہ سے مروجہ تعلیمی نظاموں کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ریاستی نظامِ تعلیم اور دینی تعلیم دونوں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کر رہے، اور ان کی ترجیحات میں انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ دینی و عصری تعلیم کو یکجا کرنا وقت کا سب سے اہم تقاضا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ملک کے مختلف حصوں میں تجربات کرنے والے اداروں اور شخصیات کو چاہیے کہ وہ اپنے تجربات اور جدوجہد کو مشاورت کے ایک مربوط نظام کے ساتھ منسلک کریں تاکہ اس جدوجہد کو ایک قومی تحریک کی شکل دی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس‘‘ کے اہتمام کا مقصد بھی اسی احساس کو اجاگر کرنا ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری دنیا میں مادی ترقی اور بدن کی آسائش کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے اور سائنسی علوم و فنون اس مقصد کے لیے وقف ہو کر رہ گئے ہیں، مگر روحانی سکون اور موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اسباب و وسائل کی فراوانی اور سائنسی ترقی کے عروج کے باوجود انسانی معاشرہ اطمینان اور سکون سے محروم ہے اور انسان قلبی اطمینان اور ذہنی سکون کے لیے مصنوعی سہارے تلاش کرنے پر مجبور ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نظام کے بنیاد بدن اور روح دونوں کی ضروریات پر رکھی جائے اور ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسولؐ کی تعلیمات کی طرف رجوع کیا جائے۔
انہوں نے دینی خدمات کے حوالہ سے دینی مدارس کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس نے اسلامی علوم کی حفاظت و ترویج میں مجاہدانہ خدمات سرانجام دی ہیں لیکن اب چونکہ بین الاقوامی رابطوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا سمٹ رہی ہے اس لیے علماء کرام کو انگریزی اور دیگر بین الاقوامی زبانوں سے بھی واقف ہونا چاہے تاکہ وہ اسلام کی تعلیم و تبلیغ کا فریضہ زیادہ بہتر اور مؤثر طور پر سر انجام دے سکیں۔ انہوں نے اپنے جنوبی افریقہ اور برطانیہ کے اسفار کا حوالہ دیا اور کہا کہ ان اسفار میں انہوں نے محسوس کیا ہے کہ اگر وہ انگریزی زبان سے بھی واقف ہوتے تو وہاں کے لوگوں کو زیادہ بہتر طریقے سے اپنی بات سمجھا سکتے تھے اور مافی الضمیر کا زیادہ مؤثر اظہار کر سکتے تھے۔
انہوں نے علماء کرام کو تلقین کی کہ وہ گفتگو اور خطاب میں لوگوں کی ذہنی سطح اور ان کی کمزوریوں کا لحاظ رکھیں کیونکہ سختی کے ساتھ بات کرنا اور طنز و تشنیع کا انداز اختیار کرنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون جیسے باغی اور سرکش کے پاس حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ جیسے جلیل القدر پیغمبروں کو بھیجا تو انہیں یہ ہدایت کی کہ اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت قبول کر لے۔
کانفرنس کی دوسری نشست نماز ظہر کے بعد قاری ملک عبد الواحد کی تلاوت کلام پاک سے شروع ہوئی اور ماہنامہ المذاہب لاہور کے ایڈیٹر الحاج محمد اسلم رانا نے مسیحی مشنری تعلیمی اداروں کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ مسیحی تعلیمی ادارے بہتر معیار اور اچھے برتاؤ کے ذریعے ہمارے معاشرہ میں اثر و نفوذ بڑھا رہے ہیں اور اچھے اچھے گھرانے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے مشنری اداروں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جبکہ یہ مشنری ادارے مسلمان بچوں کو مسیحیت کی طرف راغب کرنے یا کم از کم اپنے مذہب سے بے گانہ کر دینے کو اپنا مشنری ہدف بنائے ہوئے ہیں، اور اس مقصد کے لیے وہ بظاہر غیر محسوس انداز میں مختلف طریقوں سے کام لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان خاندانوں کو اس صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے منظم جدوجہد کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے اچھے اور معیاری تعلیمی ادارے بھی وسیع پیمانے پر قائم کیے جائیں تاکہ مسلمان خاندان اپنے بچوں کو مشنری اداروں میں بھیجنے کی ضرورت محسوس نہ کریں۔
گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے پروفیسر غلام رسول عدیم نے ’’پاکستان میں خواندگی کی شرح اور دینی مراکزژژ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا جس میں بین الاقوامی رپورٹوں کے حوالہ سے پاکستان میں خواندگی کے تناسب کا ذکر کرتے ہوئے دینی مدارس اور مراکز پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بھی خواندگی کی شرح میں اضافہ کو اپنی ترجیحات میں مناسب جگہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب رسول اللہ پر نازل ہونے والی وحی کا آغاز ہی ’’اقرا‘‘ کے لفظ سے ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کا نقطۂ آغاز تعلیم ہے اور معاشرہ میں تعلیم اور خواندگی کا فروغ ہماری دینی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح افسوسناک حد تک ہے جس کا ایک سبب یہ ہے کہ جس رفتار سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی مناسبت سے تعلیمی اداروں کی تعداد نہیں بڑھ رہی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قومی بجٹ میں تعلیم کے لیے جتنی رقم مختص ہونی چاہیے ، وہ نہیں ہو پاتی۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ مروجہ تعلیمی نظام میں نا اہلی، کرپشن اور کام چوری نے راہ پالی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ جتنا کام اس نظام سے لیا جا سکتا ہے وہ بھی پورا نہیں ہو رہا۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے دینی مدارس و مکاتب لکھنے پڑھنے کی استعداد کی حد تک خواندگی کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں دینی شامل کر لیں اور گرد و پیش کے مختلف طبقات کے لوگوں کو اپنے ہاں یہ سہولت فراہم کریں تو اس سے نہ صرف یہ کہ خواندگی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا بلکہ دینی مدارس کا حلقہ اثر بھی وسیع ہوگا اور وہ زیادہ لوگوں تک دین کا پیغام اور تعلیمات پہنچا سکیں گے۔
گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے پروفیسر عطاء الرحمٰن عتیق نے ’’اکیسویں صدی کے تعلیمی تقاضے‘‘ کے موضوع پر مقالہ پیش کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے عقلی علوم، دینی تعلیمات اور روحانی تربیت کے مراکز کو الگ الگ کر کے اسکول، مدرسہ اور خانقاہ کی تثلیث قائم کر رکھی ہے جو ہمارے مسائل کی اصل جڑ ہے۔ جبکہ ایک انسان کو صحیح معنوں میں انسان بنانے کے لیے ان تینوں تعلیمات کی یکساں ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں ترقی کے ذرائع، مادی وسائل اور علوم و فنون کی فراوانی کے باوجود مار دھاڑ، افراتفری اور اضطراب و بے چینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اصل ضرورت انسان کو انسان بنانے کی ہے اور صحیح انسانی اخلاق و کردار سے آراستہ ہو کر ہی علوم، ترقی اور وسائل سے مثبت استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم اسے صحیح انسان فراہم کریں، اور صحیح انسان فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسکول، دینی مدرسہ اور خانقاہ کی تثلیث کو ختم کر کے ان تینوں نظاموں کا یکجا کیا جائے اور ان کی خامیوں کو دور کر کے ان سے نئی نسل کی صحیح تعلیم و تربیت کا کام لیا جائے۔
پاکستان ٹیلی وژن اکیڈیمی اسلام آباد کے جناب شکور طاہر نے ’’فروغِ تعلیم میں الیکٹرانک میڈیا کا کردار‘‘ کے موضوع پر معلوماتی اور پرمغز مقالہ پیش کیا جسے مہمان خصوصی اور شرکاء نے بے حد سراہا۔ انہوں نے ریڈیو، ٹیلی وژن، آڈیو کیسٹ، ویڈیو کیسٹ، سیٹلائیٹ چینل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، ای میل، فیکس اور فوٹو اسٹیٹ مشین کے کردار اور طریق کار پر تفصیلی روشنی ڈالی اور شرکاء کانفرنس کو بتایا کہ الیکٹرانک میڈیا کے ان مختلف شعبوں کا دائرہ اثر کیا ہے اور وہ کس طریقہ سے لوگوں کے ذہنوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں یہ بات بالکل درست کی جاتی ہے کہ یہ میڈیا کا دور ہے اور کوئی گروہ، ادارہ یا قوم میڈیا کے ان ذرائع تک رسائی کے بغیر دنیا کے لوگوں تک اپنا پیغام اور پروگرام پہنچانے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ان ذرائع کا ایک بڑا حصہ فحاشی کے فروغ اور دیگر غلط اور منفی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ذرائع بہت بڑے دائرہ میں تعلیمی مقاصد کے لیے بھی کام میں لائے جا رہے ہیں، بالخصوص ترقی یافتہ ممالک نے ان ذرائع کی مدد سے اپنے تعلیمی نظاموں کو بہت زیادہ مؤثر، آسان اور ہمہ گیر بنا لیا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تعلیمی پروگراموں میں ان ذرائع سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ان مؤثر ترین ذرائع کے منفی استعمال کی روک تھام کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ان کے مثبت استعمال کو فروغ دیا جائے اور نئی نسل کی صحیح تعلیم و تربیت کے لیے انہیں مؤثر طور پر کام میں لایا جائے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد جب فرنگی حکمرانوں نے اس وقت کے مروجہ تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تہہ و بالا کر دیا تھا تو دینی علوم کی حفاظت کے لیے دیوبند اور نئی تعلیم سے مسلمانوں کو آراستہ کرنے کے لیے علی گڑھ نے اس کردار کو ادا کیا تھا۔ اور علماء کرام نے مسلمانوں کے عقائد و اعمال اور دین و اخلاق کے تحفظ کے لیے دینی مدارس کا جال پھیلا دیا تھا جس کی وجہ سے فرنگی حکمران یہاں دینی علوم کو ختم کرنے کے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
جبکہ آج اسی طرز پر ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یونیسیف اور دیگر بین الاقوامی ادارے اس بات کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں کہ پاکستان کے ریاستی نظام تعلیم میں اسلامی تعلیمات کے موجودہ حصے کو بے اثر بنا دیا جائے اور دینی مدارس کے نظام کی کردار کشی اور ان پر ریاستی تسلط کی راہ ہموار کر کے اسے مکمل طور پر سبوتاژ کر دیا جائے، جس کا علامتی آغاز بلوچستان کے پرائمری اسکولوں کے نصاب سے حمد باری کو خارج کرنے کے اقدام سے ہو چکا ہے۔ اور پاکستان میں امریکہ اور بین الاقوامی اداروں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف مزاحمتی قوتیں جس تیزی سے پسپا ہو رہی ہیں، اس کے پیش نظر استعماری قوتوں کا خیال یہ ہے کہ وہ ۱۸۵۷ء کی طرح اب بھی پاکستان میں دینی تعلیم کے نظام کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی۔
انہوں نے دینی مدارس پر زور دیا کہ وہ اس صورت حال پر گہری نظر رکھیں اور آنے والے وقت میں نئی ذمہ داریوں کے لیے تیار رہیں کیونکہ استعماری قوتوں کے ان مذموم عزائم کی خدانخواستہ کامیابی کی صورت میں قوم کو دینی تعلیم کا متبادل نظام فراہم کرنے کا فریضہ مسجد کی چٹائی کو ہی سر انجام دینا ہو گا۔
مہمان خصوصی جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد رسوائے زمانہ میکالے نے ایک شیطانی نظام تعلیم مرتب کر کے دعویٰ کیا کہ اس سے ایسا طبقہ پیدا ہو گا جو خون اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی مگر خیالات و تمدن میں انگریز ہو گا۔ اس نظام تعلیم کے نفاذ سے دو مقاصد کا حصول اس کے پیش نظر تھا (۱) دفتروں کے لیے کلرک پیدا کرنا اور (۲) مسلمانوں کو ان کے دین سے بیگانہ کر کے دینی اقدار محروم کرنا۔
چنانچہ نوآبادیاتی دور کے ڈیڑھ صدیوں پر محیط لمبے دورانیے میں فرنگی نے مسلمانوں میں اپنے کاسہ لیس وطن فروش ٹوڈیوں کے خاندانوں کی اس طرح تربیت کی کہ وہ اپنی چال ڈھال، نشست و برخواست اور بودوباش میں آج تک مغربی معاشرہ کی نقل مطابق اصل ہیں، اور وطن عزیز میں قیادت کا تاج گزشتہ پچاس برس سے انہیں خاندانوں کے افراد کے سروں پر سجتا چلا آ رہا ہے۔ ٹوڈیوں کی اس نسل کے ذریعے ایک طرف تو عصری نظام تعلیم کو بد سے بد تر شکل میں ڈھالا جا رہا ہے، اور دوسری طرف نیو ورلڈ آرڈر کے سب سے بڑے ہدف دینی مدارس پر یلغار اور مار دھاڑ کے ارادے بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نظام تعلیم کی حامل اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل لوگ اس وقت اس بدقسمت ملک پر حکمران ہیں اور ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالہ سے ان کی کارکردگی کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں بلکہ اسے بھگت رہے ہیں۔ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مرتب کردہ نیو ورلڈ آرڈر کو آگے بڑھانے کی شرط پر اپنے اپنے عہدوں پر قائم ہیں۔ ان سے یا انہی جیسے دوسرے تعلیم یافتہ لوگوں سے نفاذ اسلام کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے تھوہر کے پودے سے انگور کے خوشوں کی آرزو کرنا۔
انہوں نے معاشرہ میں دینی مدارس کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دینی اداروں کی وجہ سے عام طاغوتی سازشوں اور کوششوں کے باوجود اب بھی ملک کی بڑی بھاری اکثریت دینی اقدار سے جذباتی وابستگی رکھتی ہے اور وقت آنے پر جان تک کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔ اس لحاظ سے دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں جن سے ہدایت کی روشنی پھیلتی اور ظلمت دم توڑتی ہے۔ دینی مدرسوں کا یہ کردار ابلیسی قوتوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور وہ عالم اسلام میں اپنے گماشتوں کے ذریعے انہیں ختم کرنے کے درپے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آنے والا دور اسلام کا دور ہے اور اسلامی انقلاب بہرحال آئے گا جسے کوئی نہیں روک سکتا اور ان شاء اللہ یہی دینی مدارس اس کا ہر اول دستہ ہوں گے۔ جسٹس تارڑ نے اس بات پر زور دیا کہ دینی و عصری تعلیم کی یکجائی کو فروغ دیا جائے اور اس مقصد کے لیے کام کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔