۷ مارچ ۱۹۴۹ء کو پاکستان کے سب سے پہلے وزیر اعظم قائد ملت جناب لیاقت علی خان مرحوم نے ملک کی مجلس دستور ساز میں حسب ذیل قرارداد پیش کی۔ ۱۲ مارچ کو یہ قرارداد منظور کی گئی۔ یہ تاریخی قرارداد ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کے نام سے مشہور ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کُل کائنات کا بلا شرکتِ غیر حاکمِ مطلق ہے، اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکتِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے، لہٰذا جمہورِ پاکستان کی نمائندہ یہ مجلسِ دستور ساز فیصلہ کرتی ہے کہ آزاد و خودمختار مملکتِ پاکستان کے لیے دستور مرتب کیا جائے:
- جس کی رو سے مملکت کے جملہ حقوق و اختیاراتِ حکمرانی جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے سے استعمال کرے۔ جس میں اصولِ جمہوریت و حریت و مساوات و رواداری اور عدلِ عمرانی کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
- جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و متقضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعیّن ہیں، ترتیب دے سکیں۔
- جس کی رو سے وہ علاقے جو فی الحال پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاقیہ بنائیں، جس کے ارکان مقررہ حدودِ اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خودمختار ہوں۔
- جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے۔ اور ان حقوق و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساواتِ حیثیت و مواقع؛ قانون کی نظر سے برابری؛ عمرانی، اقتصادی اور سیاسی عدل؛ خیال، اظہار، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔
- جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا وافی انتظام کیا جائے۔
- جس کی رو سے نظامِ عدل کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔
- جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی صیانت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا، جن میں اس کے بر و بحر اور فضائیہ پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔
تاکہ اہلِ پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں، اقوامِ عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امنِ عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی و بہبودی میں کماحقہٗ اضافہ کر سکیں۔