آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور پیارے طریقوں کی حفاظت جس طرح اس امتِ مرحومہ نے کی ہے دنیا کی کسی قوم میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح جھوٹی اور غلط بات آپ کی طرف منسوب کرنے کی سختی سے تردید فرمائی ہے وہ اہلِ اسلام کے ہاں اظہر من الشمس ہے اور حدیث ’’من کذب علیّ متعمدا فالیتبوا مقعدہ من النار‘‘ متواتر احادیث میں درجہ اول پر ہے۔
آپ کے الفاظ کی نگرانی مہماتِ شریعت اور اساسی و بنیادی امور کے متعلق تو الگ رہی حتٰی کہ الفاظ کی بھی نگرانی ہوتی تھی۔ چنانچہ اس صحیح حدیث سے ہی بہت کچھ اخذ کیا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براءؓ بن عازبؓ کو سونے کے وقت کی دعا بتلائی جس میں یہ الفاظ بھی تھے ’’ونبیک الذی ارسلت‘‘ (یعنی میں تیرے نبی پر بھی ایمان لایا جس کو تو نے بھیجا ہے)۔ حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ دعائیہ کلمات آپؐ کو سنائے تاکہ ان میں غلطی نہ رہ جائے مگر میں نے یہ الفاظ پڑھ دیے ’’وبرسولک الذی ارسلت‘‘ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’لا، ونبیک الذی ارسلت‘‘ (بخاری ج ۱ ص ۳۸ و ج ۲ ص ۹۳۴)۔ یعنی وہی الفاظ پڑھو جو تمہیں بتلائے گئے ہیں۔ غور فرمائیں کہ جب دعا میں آپؐ نے الفاظ کی پابندی کا یہ سبق دیا ہے تو احکامِ دین اور بنیادی امور کے بارے الفاظ کی پابندی کا خیال کیسے نظرانداز کیا جا سکتا تھا؟
حضراتِ محدثین کرامؒ اور فقہائے عظام نے حدیث کی سند اور معنی کی حفاظت کے لیے تقریباً پینسٹھ علوم ایجاد کیے ہیں جن کی روشنی میں احادیث کی صحت و سقم اور معانی کی درستی اور نادرستی سے بخوبی آگاہی ہو سکتی ہے۔ ہم طلبۂ علم کی معلومات کی خاطر اصولِ حدیث کی چند کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس امتِ مرحومہ نے کس محنت شاقہ سے اپنے محبوب پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیاری باتوں کی حفاظت کی ہے۔
سب سے پہلے فنِ اصطلاحِ حدیث میں قاضی ابو محمد حسنؒ بن عبد الرحمٰنؒ بن خلاد الرامہرمزی (المتوفی۲۶۰ھ) نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ’’المحدث الفاصل بین الراوی والراعی‘‘ ہے۔ اس کے بعد متعدد علماء امت نے نظم و نثر میں اس فن پر طبع آزمائی فرمائی اور عمدہ و نفیس کتابیں لکھ کر عالمِ اسباب میں امتِ پر احسان کیا اور امت کو فائدہ پہنچانے میں ایک دوسرے پر مسابقت کی ہے۔ بعض مشہور کتابوں کے نام مع سنینِ وفاتِ مصنفین درج ذیل ہیں۔
کتب اصولِ حدیث اور شروحِ حدیث
اکثر کتب اصولِ حدیث اور شروحِ حدیث میں ان میں سے بعض مصنفین یا ان کی کتابوں کے نام آتے رہتے ہیں۔ لیکن اگر کتاب کا نام ہوتا ہے تو مصنف کا نام ساتھ نہیں ہوتا، اور اگر مصنف کا نام ہوتا ہے تو کتاب کا نام نہیں ہوتا، اور اگر دونوں کا نام ہو تو سنِ وفات کا ذکر ساتھ نہیں ہوتا اور طلبۂ علم کی تشنگی دور نہیں ہوتی۔ اس لیے بتوفیق اللہ تعالٰی و تائید ہم نے حتی الوسع ان سب باتوں کو ملحوظ رکھا ہے لیکن سنینِ وفات کی ترتیب ایک خاص مجبوری کی وجہ سے نظرانداز کر دی گئی ہے لیکن اس میں بھی اہلِ علم کے لیے انشاء اللہ العزیز خاص فائدہ ہو گا۔
نام کتاب | نام مصنف | تاریخ وفات |
---|---|---|
معرفت علوم الحدیث |
امام ابو عبد اللہ محمدؒ بن عبد اللہ الحاکم |
۴۰۵ |
مدخل | امام ابو عبد اللہ محمدؒ بن عبد اللہ الحاکم | ۴۰۵ |
المستخرج علٰی علوم الحدیث |
حافظ ابو نعیم احمدؒ بن عبد اللہ الاصفہانیؒ |
۴۳۰ |
الکفایۃ | حافظ ابوبکر احمدؒ بن علی الخطیب البغدادیؒ |
۴۶۳ |
الجامع لآداب الشیخ والسامع |
حافظ ابوبکر احمدؒ بن علی الخطیب البغدادیؒ | ۴۶۳ |
مالا یسع المحدث جہلہٗ |
ابوحفص عمرؒ بن عبد المجید قرشیؒ |
۵۸۰ |
الخلاصہ فی معرفۃ الحدیث |
ابو محمد الحسینؒ بن عبد اللہ الطیبیؒ |
۷۴۳ |
مقدمہ فی علم الحدیث |
ابو الخیر محمدؒ بن محمد الجزریؒ |
۸۳۳ |
تذکرۃ العلماء فی اصول الحدیث |
ابو الخیر محمدؒ بن محمد الجزریؒ | ۸۳۳ |
تنقیح الانظار فی علوم الآثار |
سید محمد ابراہیم المعروف بابن الوزیرؒ |
۸۶۰ |
بلغۃ الحثیث فی علوم الحدیث |
یوسفؒ بن الحسنؒ بن عبد الہادی الدمشقیؒ |
۹۰۹ |
المختصر فی مصطلح اہل الاثر |
عبد اللہ الشنشوری الشافعی الفرضیؒ |
۹۰۹ |
خلاصۃ الفکر فی شرح المختصر |
عبد اللہ الشنشوری الشافعی الفرضیؒ | ۹۰۹ |
اشرافات الاصول فی احادیث الرسول |
محمدؒ بن اسحاق القونویؒ |
۶۷۲ |
المختصر الجامع لمعرفۃ علوم الحدیث |
سید شریف علیؒ بن احمد الجرجانیؒ |
۸۱۶ |
ظفر الامانی فی مختصر الجرجانی |
مولانا عبد الحی لکھنویؒ |
۱۳۰۴ |
قصیدۃ الغرامیۃ |
ابو العباس شہاب الدین احمد اللخمی الاشبیلیؒ |
۶۹۹ |
شرح الغرامیۃ |
ابوا العباس احمدؒ بن الحسین لقسمطینیؒ |
۸۱۰ |
شرح الغرامیۃ |
محمدؒ بن ابراہیم الخلیل التتائی المالکیؒ |
۹۲۷ |
شرح الغرامیۃ |
شمس الدین ابو الفضل محمدؒ بن محمدؒ الدسجی العثمانی الشافعیؒ |
۹۴۷ |
شرح الغرامیۃ |
یحیٰیؒ بن عبد الرحمٰن الاصفہانی الشہیر بالقرانی الشافعیؒ |
۹۶۰ |
شرح الغرامیۃ |
محمدؒ بن الامیر الکبیرؒ |
۱۱۸۰ |
شرح الغرامیۃ |
الحافظ القاسمؒ بن قطلوبغا الحنفیؒ |
۸۷۸ |
حاشیہ نزہۃ النظر |
الحافظ القاسمؒ بن قطلوبغا الحنفیؒ | ۸۷۸ |
بیقونیۃ | عمرؒ بن محمدؒ بن فتوح البیقونی الدمشقی الشافعیؒ |
۱۰۸۰ |
شرح البیقونیۃ |
شیخ محمدؒ بن صعدان الشہیر بجاد المولٰی الحاجری الشافعیؒ |
۱۲۲۹ |
شرح البیقونیۃ | عطیۃ الاجہوری الشافعیؒ |
۱۱۹۰ |
شرح البیقونیۃ | محمدؒ بن عبد الباقیؒ بن یوسف الزرقانیؒ |
۱۱۲۲ |
العرجون فی شرح البیقون |
نواب محمد صدیقؒ بن حسن خان القنوجیؒ |
۱۳۰۷ |
البہجۃ الوضیۃ |
علامہ الشیخ محمود نشابہؒ |
۱۳۳۸ |
الاقتراح فی بیان الاصطلاح |
محمدؒ بن علیؒ ابن دقیق العیدؒ |
۷۰۶ |
الخلاصہ فی اصول الاثر |
شرف الدین حسنؒ بن محمد الطیبیؒ |
۸۱۶ |
التقاسیم والانواع |
محمدؒ بن حبانؒ بن احمد الستبیؒ |
۳۵۴ |
الثواب فی الحدیث |
عبد اللہؒ بن محمدؒ بن جعفرؒ بن حیان الاصفہانیؒ |
۔۔۔ |
الاعلام فی استیعاب الروایۃ عن الائمۃ الاعلام |
علیؒ بن ابراہیم الغرناطیؒ |
۵۷۷ |
المغنی فی علم الحدیث |
عمرؒ بن بدرؒ بن سعید الموصلی الحنفیؒ |
۶۲۲ |
جامع الاصول فی الحدیث |
محمدؒ بن اسحاق القونویؒ |
۶۷۲ |
المغیث فی علم الحدیث |
احمدؒ بن محمدؒ بن الصاحبؒ |
۷۸۸ |
المقنع فی علوم الحدیث |
حافظ ابن الملقنؒ |
۸۰۴ |
المنظومۃ فی اصول الحدیث |
احمدؒ بن محمد الشمنی ؒ |
۸۷۲ |
منیع الدر فی علم الاثر |
محمدؒ بن سلیمان الکافیجیؒ |
۹۷۸ |
الروض المکلل والورد المحلل |
امام جلال الدین سیوطیؒ |
۹۱۱ |
تدریب الراوی |
امام جلال الدین سیوطیؒ | ۹۱۱ |
قطر الدر |
امام جلال الدین سیوطیؒ | ۹۱۱ |
مقدمہ ابن الصلاح |
تقی الدین ابو عمرو عثمانؒ بن الصلاحؒ |
۶۴۹ |
مصباح الظلام |
حسینؒ بن علی الحصنی الحصکفیؒ |
۹۱۷ |
الدر فی مصطلح اہل الاثر |
یونس الاثری الرشیدیؒ |
۱۰۲۰ |
بغنیۃ الطالبین بمعرفۃ اصطلاح المحدثین |
عبد الرؤفؒ بن تاج الدین المنادیؒ |
۱۰۳۱ |
اليواقيت والدرر شرح شرح نخبة الفكر |
عبد الرؤفؒ بن تاج الدین المنادیؒ | ۱۰۳۱ |
التیقید والایضاح |
زین الدین عبد الرحیم العراقی ؒ |
۸۰۶ |
فتح المغیث |
زین الدین عبد الرحیم العراقی ؒ | ۸۰۶ |
النیۃ نظم الدر فی علم الاثر |
زین الدین عبد الرحیم العراقی ؒ | ۸۰۶ |
الافصاح بتکمیل النکت علیٰ ابن الصلاح |
حافظ ابو الفضل احمدؒ بن علیؒ بن حجرؒ |
۸۵۲ |
نخبۃ الفکر |
حافظ ابو الفضل احمدؒ بن علیؒ بن حجرؒ | ۸۵۲ |
نزہۃ النظر شرح نخبۃ الفکر |
حافظ ابو الفضل احمدؒ بن علیؒ بن حجرؒ | ۸۵۲ |
الباعث الحثیث |
ابو الفداء عماد الدین اسماعیلؒ بن کثیرؒ |
۷۷۴ |
النہل الروی فی حدیث النبوی |
بدر الدینؒ بن جماعت الکنانیؒ |
۷۳۳ |
زوال السرّح شرح المنظومۃ ابن فرعؒ |
بدر الدینؒ بن جماعت الکنانیؒ | ۷۳۳ |
النہج السومی فی شرح النہل الروی |
عز الدین الکنانیؒ |
۸۱۹ |
محاسن الاصطلاح فی تضمین نکت ابن الصلاح |
سراج الدین ابو حفص عمرؒ بن رسلان البلقینی ؒ |
۸۰۵ |
تقریب الارشاد |
محی الدینؒ بن شرف النوویؒ |
۶۷۶ |
نکت علی ابن الصلاح |
بدر الدین محمد بہادر الزرکشیؒ |
۷۹۴ |
نکت الوفیۃ شرح الالفیۃ |
برہان الدین ابراہیم الینفاعیؒ |
۸۵۵ |
شرح الالفیۃ |
شیخ علیؒ بن احمدؒ بن مکرم الصعیدیؒ |
۱۱۸۹ |
فتح الباقی شرح الفیۃ العراقی |
قاضی ابو یحیٰی زکریاؒبن محمد الانصاری المصری الشافعیؒ |
۹۲۸ |
قضاء الوطر من نزہۃ النظر |
ابو الامداد ابراہیم اللقانی المالکیؒ |
۱۰۴۱ |
شرح نخبۃ الفکر |
علامہ سری الدینؒ بن الصائغ ؒ |
۱۰۶۶ |
نظم النخبۃ |
شہاب الدین احمدؒ بن محمد الطوفیؒ |
۸۹۳ |
شرح نخبۃ الفکر |
کمال الدین الاسکندری المالکیؒ |
۸۲۱ |
لقط الدرر |
عبد اللہؒ بن حسین السمین العددیؒ (سنِ تالیف) |
۱۳۰۹ |
شرح التقریب |
برہان الدین القباقبی الحلبی المقدسیؒ |
۸۵۱ |
مصطلاحات اہل الاثر |
علیؒ بن السلطان الہروی القاری الحنفیؒ |
۱۰۱۴ |
شرح شرح نخبۃ الفکر |
کمال الدین محمدؒ بن محمدؒ ابن ابی الشریف المقدسیؒ |
۹۰۵ |
بہجۃ النظر شرح شرح نخبۃ الفکر |
ابو الحسن محمد صادقؒ بن عبد الہادی السندی الحنفیؒ |
۱۱۳۸ |
العالی الرتبۃ فی شرح نظم النخبۃ |
ابو العباس احمدؒ بن محمد الشمنی الحنفیؒ |
۸۷۲ |
فتح المغیث فی شرح الفیۃ الحدیث |
علامہ شمس الدین محمدؒ بن عبد الرحمٰن السخاویؒ |
۹۰۲ |
سلک الدرر |
محمد رضی الدین ابو الفضل الغزیؒ |
۹۳۵ |
توضیح الافکار |
محمدؒ بن اسماعیل الامیر الیمانیؒ |
۸۴۰ |
عقد الدرر فی نظم نخبۃ الفکر |
شیخ الاسلام ابی محمد عبد القادر القاضیؒ |
۱۱۱۶ |
حاشیۂ شرح الفیۃ |
برہان الدین عمرؒ بن ابراہیم البقاعیؒ |
۸۸۵ |
کتاب التذکرۃ |
سراج الدین عمرؒ بن الملقنؒ |
۸۹۳ |
شرح شرح الفیۃ الحدیث |
زین الدین عبد الرحمٰن بن ابی بکر العینیؒ |
۸۹۳ |
شرح شرح الفیۃ الحدیث |
ابراہیمؒ بن محمد الحلبیؒ |
۹۵۵ |
شرح شرح الفیۃ الحدیث | ابو الفداء اسماعیلؒ بن جماعۃؒ |
۸۶۱ |
کوثر النبی |
عبد العزیز فرہارویؒ صاحب النبراس |
۱۲۳۹ |
قواعد التحدیث |
جمال الدین القاسمیؒ |
۱۳۳۲ |
توجیہ النظر الٰی اصول الاثر |
العلامہ طاہرؒ بن احمد الجزائریؒ (سن تالیف) |
۱۳۲۸ |
ان کے علاوہ محمدؒ بن النفلوطیؒ (المتوفٰی ۷۰۲ھ) اور علامہ ابن الجریریؒ (المتوفٰی ۸۳۳ھ) وغیرہ بے شمار حضرات نے اصولِ حدیث کے سلسلہ میں مختصر اور مطول کتابیں تصنیف کی ہیں جن کا احصار و شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البرؒ (المتوفٰی ۴۶۳ھ)۔ شروط الائمۃ الخمسۃ للحازمیؒ (المتوفٰی۵۸۴ھ)۔ مقدمۂ فتح الباری لحافظ لابن حجرؒ۔ مقدمۂ عمدۃ القاری للعلامہ بدر الدین محمودؒ بن احمد العینی الحنفیؒ (المتوفٰی ۸۵۵ھ)۔ مقدمۂ شرح مسلم للنوویؒ۔ مقدمۂ نصب الرأیہ للعلامہ الزاہد الکوثری الحنفیؒ (المتوفٰی ۱۳۷۲ھ)۔ مقدمۂ فتح الملہم، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ (المتوفٰی ۱۳۶۹ھ)۔ مقدمۂ تحفۃ الاحوذی، مولانا مبارکپوریؒ (المتوفٰی ۱۳۵۳ھ)۔ مقدمۂ اعلاء السنن، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ (المتوفٰی ۱۳۹۴ھ)۔ مقدمہ معارف السنن، مولانا بنوریؒ (المتوفٰی ۱۳۹۷ھ)۔ مقدمہ فی بیان بعض مصطلحات علم الحدیث للشیخ عبد الحق محدث دہلویؒ (المتوفٰی ۱۰۵۲ھ)۔ الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ للنواب صدیق حسن خانؒ۔ عجالۂ نافعہ و بستان المحدثین لشاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ (المتوفٰی ۱۲۳۹ھ)۔ مقدمہ حاشیۂ بخاری، مولانا احمد علی سہارنپوریؒ (المتوفٰی ۱۲۹۷ھ)۔ مقدمۂ بذل الجہود، مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ (المتوفٰی ۱۳۴۶ھ)۔ مقدمہ لامع الدراری، مولانا محمد یحیٰی کاندھلویؒ (المتوفٰی ۱۳۳۴ھ)۔ مقدمۂ اما فی الاحبار، مولانا محمد یوسف صاحبؒ (المتوفٰی ۱۳۸۴ھ)۔ مقدمۂ ترجمان السنۃ، مولانا محمد بدر عالم مدنیؒ (المتوفٰی ۱۳۸۵ھ)۔ مقدمہ انوار الباری شرح البخاری، مولانا سید احمد رضا بجنوری۔ ماتمس الیہ الحاجۃ، مولانا عبد الرشید نعمانی وغیرہ کتابیں اصولِ حدیث، اقسامِ حدیث، عللِ حدیث، اور احوالِ رجال وغیرہا اصولی بحثوں پر خوب روشنی ڈالتی ہیں۔
الغرض اصولِ حدیث کے پیشِ نظر جعل سازوں کے لیے جعلی حدیثیں تراش تراش کر عوام کے سامنے پیش کرنے کا چور دروازہ ہی بالکل بند ہو جاتا ہے اور بفضلہ تعالٰی تمام احادیث کو کتبِ حدیث میں ضبط کر دیا گیا ہے۔ اور حضرت امام بیہقیؒ (الحافظ الجلیل ابوبکر احمدؒ بن الحسینؒ، المتوفٰی ۴۵۸ھ) کا یہ مقولہ ایک خالص حقیقت معلوم ہوتا ہے ’’من جاء الیوم بحدیث لا یوجد عند الجمیع لا یقبل منہ‘‘ (مقدمۂ ابن الصلاح ص ۱۰۰، فتح المغیث ص ۹۶، توجیہ النظر ص ۲۱۹)۔ یعنی جو شخص آج اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے جو محدثین کرامؒ کی کتابوں میں موجود نہیں تو وہ حدیث مقبول نہ ہو گی۔ لیکن صد افسوس ہے کہ منکرینِ حدیث کی طرح جعل سازوں پر احتیاط کے ایسے طرق اور سامانِ ہدایت کی موجودگی میں بھی کچھ اثر نہیں، کوئی نصیحت اور فہمائش ان کو کام نہیں دیتی، کتنا ہی سمجھاؤ پتھر پر جونک نہیں لگتی۔
ضعیف احادیث اور ضعیف روات پر مشتمل کتب
حضرات محدثین کرامؒ نے احادیث کو اصلی شکل میں محفوظ رکھنے کے لیے ضعیف روایات اور ضعیف روات کے بارے میں الگ تصانیف لکھی ہیں تاکہ آنے والی نسلیں ان سے استفادہ کر کے ضعیف احادیث اور ضعیف روات کی روایات سے اجتناب کر سکیں۔ اس سلسلہ کی کتب بھی بے شمار ہیں، چند مشہور یہ ہیں:
نام کتاب | نام مصنف | تاریخ وفات |
---|---|---|
کتاب الضعفاء الکبیر والصغیر |
امام بخاریؒ |
۲۵۶ھ |
کتاب الضعفاء والمتروکین |
امام نسائیؒ |
۳۰۳ھ |
کتاب الضعفاء |
ابو اسحاق الجوزجانیؒ |
۲۵۹ھ |
کتاب الضعفاء | ابو جعفر العقیلیؒ |
۳۲۳ھ |
کتاب الضعفاء | ابو نعیم استرآبادیؒ |
۳۲۳ھ |
کتاب الضعفاء | ابن عدیؒ (بارہ جلدوں میں) |
۳۶۵ھ |
کتاب الضعفاء | ابو عبد اللہ البرقیؒ |
۲۴۹ھ |
کتاب الضعفاء | ابو الفتح محمدؒ بن الحسین الازدیؒ |
۳۷۴ھ |
عللِ حدیث
اسانید اور متونِ حدیث میں بعض روات سے جو اغلاط و اوہام سرزد ہوئے ہیں ان کی نشاندہی کے سلسلہ میں بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ حضرت امام بخاریؒ اور حضرت امام مسلمؒ اور حضرت امام ترمذیؒ کی علل کبیر و صغیر، کتاب العلل للدارقطنیؒ، کتاب العلل لابن ابی حاتمؒ، علل متناہیہ لابن الجوزیؒ وغیرہ کتابیں اس سلسلہ میں کافی مشہور اور علماء فن کے نزدیک معروف ہیں۔
کتبِ موضوعات
حضرات محدثین کرامؒ نے اپنی دانست اور صوابدید کے مطابق جعلی، موضوع اور من گھڑت روایات کو الگ کر کے کتب تصنیف کی ہیں تاکہ ان پر عمل کر کے امت گمراہ نہ ہو جائے، اور سنتِ صحیحہ سے ہٹ اور کٹ کر خودساختہ راستوں پر نہ چل نکلے۔ اس سلسلے کی مشہور کتابیں یہ ہیں:
نام کتاب | نام مصنف | تاریخ وفات |
---|---|---|
موضوعات |
ابن الجوزیؒ |
۵۹۷ھ |
مختصر الموضوعات |
امام سفارینیؒ |
|
رسالتان فی الموضوعات |
رضی الدین صغانیؒ |
۶۵۰ھ |
الفواعد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ |
شیخ ابی عبد اللہ محمد شامیؒ |
|
الفواعد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ | القاضی شوکانیؒ |
۱۲۵۵ھ |
الموضوعات الصریحۃ |
عمرؒ بن بدرؒ |
|
کتاب المغنی |
حافظ ضیاء الدین موصلیؒ |
۶۲۳ھ |
کتاب الاباطیل |
ابو عبد اللہ الحسین ہمدانیؒ |
۵۴۳ھ |
الؤلو المرصوع |
محمدؒ بن خلیل قادقچیؒ |
۱۳۰۵ھ |
الکشف الالہٰی |
محمد سندوسیؒ |
۱۱۷۷ھ |
اللالی المضوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ |
جلال الدین سیوطیؒ |
۹۱۱ھ |
موضوعاتِ کبیرہ |
ملا علی ن القاریؒ |
۱۰۱۴ھ |
الموضوع فی الحدیث الموضوع |
ملا علی ن القاریؒ | ۱۰۱۴ھ |
تذکرۃ الموضوعات |
علامہ محمدؒ بن طاہر الفتنی الحنفیؒ |
۹۸۷ھ |
قانون الموضوعات |
علامہ محمدؒ بن طاہر الفتنی الحنفیؒ | ۹۸۷ھ |
الآثار المرفوعہ فی الاحادیث الموضوعۃ |
مولانا عبد الحی لکھنویؒ |
۱۳۰۴ھ |
کشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث |
برہان الدین ابو الوفاء سبط ابن العجمیؒ |
۸۴۱ھ |
تنزیہ الشریعۃ المرفوعہ عن الاخبار الشنیعۃ الموضوعۃ |
علامہ ابو الحسن علیؒ بن محمدؒ بن عراقؒ |
|
ذخائر المواریث فی الدلالۃ علٰی مواضع الحدیث |
علامہ عبد الغنیؒ بن جماعۃ النابلسیؒ |
۱۱۴۳ھ |
شانِ نزولِ حدیث
کسی بھی عقل مند کو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ہر متکلم کی بات کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا بھی اپنے مقام پر کوئی نہ کوئی سبب ضرور تھا۔ اس سلسلہ میں علامہ ابراہیمؒ بن محمدؒ بن کمال الدین الشہیر بابن حمزۃ الحسینی الحنفیؒ (المتوفٰی ۱۱۳۰ھ) کی کتاب ’’البیان والتعریف فی سبب درود الحدیث‘‘ تین جلدوں میں طبع ہو کر منصۂ شہود پر آ چکی ہے۔ جس میں پہلے حدیث کا ایک حصہ نقل کر کے کتبِ حدیث سے اس کا ماخذ بتاتے ہیں، پھر اس کی تصحیح اور تضعیف کا لحاظ کرتے ہیں، اور پھر اس کا سببِ درود بیان کرتے ہیں۔
بخاری کی احادیث کی تلاش
اہلِ علم کے ہاں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ’’فقہ البخاری فی الابواب والتراجم‘‘ حضرت امام بخاریؒ ایک ایک حدیث کو کلاً یا بعضاً مختلف ابواب میں نقل کرتے ہیں۔ بسا اوقات بخاری کی احادیث کی تلاش میں خاصی دقت پیش آتی ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت مولانا عبد العزیز سہالوی ثم گوجرانوالویؒ (المتوفٰی ۱۳۵۹ھ) نے ’’نبراس الساری فی اطراف البخاری‘‘ لکھ کر امت پر احسان کیا ہے جس سے آسانی کے ساتھ بیک وقت بخاری میں ایک ہی حدیث متعدد ابواب میں مل جاتی ہے۔
معانی الاحادیث
کتبِ حدیث میں بغیر مسند دارمی کے اور کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں بظاہر مختلف اور متضاد قسم کی حدیثیں نہ آتی ہوں۔ ان کی جمع و تطبیق کے سلسلہ میں حضرت امام شافعیؒ کی اختلاف الحدیث، حضرت امام طحاویؒ (امام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامۃؒ) جو الامام العلامۃ اور الحافظ تھے (تذکرہ ج ۳ ص ۲۸) اور وہ علماء کی سیرت اور ان کی اخبار کو سب سے زیادہ جانتے تھے اور حضرات فقہاء کرامؒ کے تمام مذاہب کو جانتے تھے ’’کان عالما مجمیع مذاھب الفقہاء‘‘ (جامع بیان العلم ج ۲ ص ۷۸)، علامہ ابن حزم ابو محمد علیؒ بن احمدؒ (المتوفٰی ۳۲۱ھ) جو الامام العلامۃ الحافظ الفقیہ اور المجتہد تھے، امام طحاویؒ کی کتابوں کو صحت میں بخاری و مسلم وغیرہ کے ہم پلہ مانتے ہیں (تذکرہ ج ۳ ص ۳۲۸) کی شرح معانی الآثار اور مشکل الآثار، امام ابن قتیبہؒ (المتوفٰی ۲۷۶ھ) کی مختلف الحدیث، امام ابن عبد البرؒ کی تمہید اور اس کا ملخص استدکار اور کتبِ شروحِ حدیث اس قدر ہیں کہ ان کا آسانی سے شمار و احصار نہیں کیا جا سکتا۔
الغرض امتِ مرحومہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کی حفاظت اور امت کے لیے ان کی تسہیل و تشریح کے لیے ایسے ایسے طریقے اختیار کیے ہیں جن سے زیادہ محتاط اور معقول طریقے انسان کے بس میں نہیں ہیں۔ اور یہ کوشش اور کاوش محض احادیث کو سندًا و متناً و مرادًا محفوظ رکھنے کے لیے ہے۔ مگر منکرینِ حدیث کو ان حقائق سے کیا واسطہ، وہ تو ان کاوشوں کو بازیچۂ اطفال سے تعبیر کریں گے
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو تو کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
لغات الحدیث
اس فن میں متعدد کتابیں ہیں جن میں النہایہ فی غریب الحدیث لابن الاثیر (مجدد الدین ابی السعادات المبارکؒ بن محمد الجزریؒ المتوفٰی ۶۰۶ھ)۔ الفائق، علامہ جار اللہ محمود بن عمر الزمحشری (المتوفٰی ۵۳۸ھ)۔ المغرب للعلامہ ابی الفتح ناصر الدینؒ بن عبد السید الحنفی الخوارزمیؒ (المتوفٰی ۵۳۵ھ)۔ اور مجمع البحار للعالمۃ محمدؒ بن طاہرؒ وغیرہ معروف و مشہور کتابیں ہیں۔