حضور علیہ السلام نے اسلام کی دعوت پر ہرقل قیصرِ روم کو بھی خط لکھا تھا۔ جب یہ خط قیصر کو پیش ہوا تو اس نے حکم دیا کہ اگر عرب کا کوئی شخص مل جائے تو حاضر کیا جائے۔ ان دنوں غزہ میں ابوسفیان کی قیادت میں قریشِ مکہ کا ایک تجارتی قافلہ مقیم تھا۔ چنانچہ ابوسفیان کو ہرقل کے سامنے پیش کیا گیا اور ہرقل نے ان سے حضور علیہ السلام کے متعلق مختلف سوال کیے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ جس مدعی نبوت کا خط مجھے پہنچا ہے اس کے اولین متبعین کمزور لوگ ہیں یا با اثر شخصیتیں؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ نادار اور کمزور لوگ ہیں۔ اس پر ہرقل پکار اٹھا کہ ابتدا میں نبیوں کے پیروکار ضعیف لوگ ہی ہوتے ہیں، بڑے لوگ اس وقت ایمان لاتے ہیں جب ان کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا۔ ہرقل کا یہ مقولہ سابقہ کتابوں کی تعلیم سے بھی معلوم ہوتا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے یہاں پر یہ بات سمجھا دی ہے کہ مال و دولت یا جاہ و منصب پر اترانا غلط بات، اصل میں مدارِ عزت ایمان ہے نہ کہ جاہ و حشمت، اللہ کے ہاں باعزت وہ شخص ہے جو زیادہ متقی ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں، نیکی اور پرہیزگاری جس کا شیوہ ہے۔ اور یہ صفات ان غربا و مساکین میں پائی جاتی ہیں مگر مالدار اور چوہدری قسم کے لوگ ان کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ فرمایا، اگر آپ ان کو اپنے سے دور کر دیں گے تو ناانصافوں میں شامل ہو جائیں گے۔
فرمایا ’’وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ‘‘ اور اسی طرح ہم نے آزمایا ہے بعض کو بعض سے۔ یعنی بعض آدمیوں کو ہم نے مال و دولت یا جاہ و حکومت دے کر آزمایا کہ یہ اپنے ماتحتوں یا کمتر لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ ان کو حقیر سمجھ کر حقارت آمیز سلوک کرتے ہیں یا ان کا احترام کرتے ہیں اور خوشدلی سے پیش آتے ہیں۔
اسی طرح مساکین کو عسرت میں مبتلا کر کے آزمایا ہے۔ سورہ فرقان میں موجود ہے ’’وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً‘‘ ہم نے تمہارے بعض کو بعض کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہے ’’اَتَصْبِرُوْنَ‘‘ کیا تم صبر کرتے ہو؟ مقصد یہ ہے کہ غرباء کو غربت میں مبتلا کر کے آزمایا ہے کہ آیا یہ امراء کی امارت دیکھنے کے باوجود صبر کرتے ہیں؟ ’’وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا‘‘ تیرا رب تو ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
وہ امیر کو دولت دے کر آزماتا ہے کہ یہ مساکین کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے، اور غریب کو غربت دے کر آزماتا ہے کہ یہ کس حد تک صبر کرتا ہے۔ مگر مقامِ افسوس ہے کہ اس آزمائش میں دونوں طبقے ناکام رہے ہیں، نہ تو دولت مند غرباء کا خیال رکھتے ہیں اور نہ مساکین صبر سے کام لیتے ہیں۔
روس میں ۱۹۱۷ء کا انقلاب اسی امیر غریب کے سوال پر ہی آیا تھا جس کی بھینٹ تین کروڑ آدمی چڑھ گئے۔ امراء نے غرباء پر مظالم توڑے، ان کے حقوق ادا نہیں کیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غریبوں نے تحریک چلائی۔ دونوں گروہ بے دین تھے۔ غریبوں نے امیروں کو مردار کتوں کی طرح گھسیٹا۔ یہ غریبوں کو حقیر سمجھنے کا شاخسانہ تھا۔ نہ امیروں نے حقوق ادا کیے نہ غریبوں نے صبر کیا۔ جس کا نتیجہ کشت و خون کی صورت میں نکلا۔ شیخ سعدیؒ نے گلستان میں ایک ایسا عمدہ فقرہ کہا ہے جس کے متعلق لوگوں نے کہا کہ ہماری ساری کتابوں کے بدلے یہ ایک فقرہ ہمیں دے دیں۔ کہتے ہیں:
’’خواہندۂ مغربی در صف بزازان حلب میگفت اے خداوندِ نعمت اگر شمارا انصاف بود و مارا قناعت رسم سوال از جہاں برخاستے۔‘‘
’’ملک کے مغرب میں ایک محتاج نے بزازوں کی صف میں کھڑے ہو کر کہا، اے دولت کے مالکو! اگر تم میں انصاف اور ہم میں قناعت ہوتی تو دنیا میں کوئی بھی سوال نہ کرتا یعنی سوال کی رسم ہی برخواست ہو جاتی۔‘‘
ہم دونوں مجرم ہیں، تم میں سخاوت نہیں ہے اور ہم قناعت سے محروم ہیں، دولت کے ہوتے ہوئے تم مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے اور ہم صبر سے عاری ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا مصائب کا شکار بنی ہوئی ہے۔
یاد رکھنا چاہیئے کہ اسلام نے اعتدال اور میانہ روی کی تعلیم دی ہے۔ اسلام نے اس دولت کو لعنت کے برابر کہا ہے جس میں سے غریبوں کے حقوق نہ ادا کیے جائیں۔ ایسی دولت مندی باعثِ وبال ہے۔ ہاں اگر اپنے مال سے تمام فرضی، واجبی حقوق ادا کرتا ہے تو پھر یہ دولت جائز ہے۔ اگر حلت و حرمت کا امتیاز ختم ہو چکا ہے تو پھر یہ سرمایہ داری (Capitalism) ہے، اس کا حامی سرمایہ پرست ہے۔
اور دوسری طرف نفرت اور عداوت کا جذبہ پایا جاتا ہے کہ سرمایہ داروں کے پاس سرمایہ کیوں ہے؟ خواہ اس نے جائز ذرائع سے ہی کیوں نہ حاصل کیا ہو اور وہ تمام حقوق بھی کیوں نہ ادا کرتا ہو، مگر محض صاحبِ مال و دولت ہونا ہی گردن زدنی سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ بھی غلط ہے۔ یہ لوگ نہ صرف سرمایہ داری کے خلاف ہوتے ہیں بلکہ آگے چل کر مذہب کے بھی خلاف ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سرمایہ داروں نے لوگوں کو الو بنانے کے لیے مذہب کی آڑ لے رکھی ہے۔
سوشلسٹ ملکوں میں یہی کچھ ہوا ہے۔ پہلے سرمایہ داروں کے خلاف آواز اٹھائی اور پھر آہستہ آہستہ مذہب کو ہی خیرباد کہہ دیا۔ ان کی بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ اکثر و بیشتر اقتدار پسندوں، سرمایہ داروں اور ملوک نے مذہب کو غلط استعمال کیا ہے۔ البتہ کچھ اللہ والے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اورنگزیب عالمگیرؒ بھی تو بادشاہ تھے، سلطان ناصر الدین التمشؒ بھی اسی سرزمین پر مسندِ اقتدار پر رہا ہے۔ اس کے پاس کابل سے لے کر برما تک حکومت تھی مگر دل میں خوفِ خدا رکھتے تھے۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جیسے بلند پایہ لوگ بھی تو ہوئے ہیں جن پر اقتدار کا نشہ غالب نہیں آیا اور جنہوں نے مستحقین کے حقوق ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ لیکن یہ مذہب کا غلط استعمال تھا جس کی وجہ سے ملحدوں کو مذہب کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا موقع ملا۔ غرضیکہ یہ دونوں گروہ لعنتی ہیں۔
اسلام ہی وہ مذہب ہے جو اعتدال کا راستہ دکھاتا ہے۔ اگر ملک میں صرف حلال و حرام کی پابندی پوری طرح نافذ کر دی جائے تو لوگوں کو سکون حاصل ہو جائے۔ جو مال حرام ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے اس کا مصرف بھی حرام اور من مانے طریقے پر کیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ دولت حاصل کیسے کی اور اسے خرچ کس چیز پر کر رہے ہو۔ فضول خرچی قطعاً حرام اور تباہی کا باعث ہے۔ اس لیے سرمایہ داری اور اشتراکی نظامِ معیشت دونوں ملعون ہیں۔ صرف اسلام کا نظام ہی درست ہے جو دولت مندی کی حوصلہ افزائی اس وقت کرتا جب وہ جائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو اور اس میں سے تمام حقوق ادا کیے گئے ہوں۔ اگر جائز و ناجائز کی تمیز روا نہیں رکھی تو یہی سرمایہ داری ہے جو ملعون ہے۔