پردہ اور بائبل
مسیحی مذہبی راہنماؤں کی توجہ کے لیے

محمد عمار خان ناصر

کلامِ الٰہی قرآن پاک میں ارشاد ہے:

یا ایھا النبی قل لازواجک وبناتک ونساء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن ذٰلک ادنٰی ان یعرفن فلا یؤذین وکان اللہ غفورًا رحیما۔ (الاحزاب ۵۹)

 ترجمہ: ’’اے پیغمبر! اپنی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی بیبیوں سے بھی کہہ دیجیئے کہ (سر سے) نیچے کر لیا کریں اپنے تھوڑی سی اپنی چادریں اس سے جلدی پہچان ہو جایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

مذکورہ آیت میں پردہ کا حکم دیا گیا ہے۔ حاشیہ پر علامہ عثمانیؓ لکھتے ہیں:

’’یعنی بدن ڈھانکنے کے ساتھ چادر کا کچھ حصہ سر سے نیچے چہرے پر بھی لٹکا لیویں۔ روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر مسلمان عورتیں بدن اور چہرہ چھپا کر اس طرح نکلتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ دیکھنے کے لیے کھلی رہتی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فتنہ کے وقت آزاد عورت کو چہرہ بھی چھپا لینا چاہیئے۔ لونڈی یا باندی کو ضرورتِ شدیدہ کی وجہ سے اس کا مکلف نہیں کیا کیونکہ کاروبار میں حرجِ عظیم واقع ہوتا ہے۔‘‘

حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں:

’’یعنی پہچانی پڑیں کہ لونڈی نہیں بی بی ہے، صاحبِ ناموس بدذات نہیں نیک بخت ہے تو بد نیت لوگ اس سے نہ الجھیں۔‘‘

ایک دوسرے مقام میں ارشاد ہے:

وقل للمومنات یغضضن من ابصارھن ویحفظن فروجھن ولا یبدین زینتھن الا ما ظہر منھا ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن۔ (النور ۳۱)

ترجمہ: ’’اور (اسی طرح) مسلمان عورتوں سے (بھی) کہہ دیجیئے کہ (وہ بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کے مواقع کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس (موقع زینت)  میں سے (غالباً) کھلا رہتا ہے (جس کے ہر وقت چھپانے میں ہرج ہے) اور اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہا کریں۔‘‘ (ترجمہ حضرت تھانویؒ)

الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علٰی بعض۔ (النساء)

’’مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘

آیت مذکورہ میں جہاں گھریلو مسائل و معاملات میں مرد کی برتری کا حکم ملتا ہے وہاں سیاسی، قومی اور ملکی معاملات میں بھی صرف مرد کا حکمران ہونا مسلّم قرار پاتا ہے۔ چنانچہ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ’’الرجال قوامون‘‘ کی تفسیر ’’امرا‘‘ کے ساتھ کی ہے (تفسیر ابن جریر الطبریؒ ج ۵)۔ یہاں بھی عورت کو گھر کے اندر اور گھر سے باہر کے معاملات میں اس لیے مرد کے ماتحت رکھا گیا ہے کہ عورت میں کچھ فطری کمزوریاں ہیں۔ آنحضرتؐ نے فرمایا ’’النساء حبالۃ الشیطان‘‘ کہ عورتیں شیطان کا جال ہیں۔ عورت کی یہ صفت اس کے گھر سے باہر کے معاملات مثلاً حکومت و ولایت اور جہاد وغیرہ میں حقدار و مکلف نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

عورت کے لیے پردہ اور مرد کے تابع ہونے کا حکم کتبِ سابقہ میں بھی موجود ہے۔ بائبل سے چند حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

’’پھر اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے دردِ حمل کو بہت بڑھاؤں گا تو درد کے ساتھ بچہ جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔‘‘ (پیدائش ۳ / ۱۶)

’’ہر مرد کا سر مسیح اور عورت کا سر مرد اور مسیح کا سر خدا ہے ۔۔۔ اور جو عورت بے سر ڈھنکے دعا یا نبوت کرتی ہے وہ اپنے سر کو بے حرمت کرتی ہے کیونکہ وہ سرمنڈی کے برابر ہے۔ اگر عورت اوڑھنی نہ اوڑھے تو بال بھی کٹائے۔ اگر عورت کا بال کٹانا یا سر منڈانا شرم کی بات ہے تو اوڑھنی اوڑھے۔‘‘ (اول کرنتھیوں ۱۱ / ۶۰۳)

’’اے بیویو! اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہو جیسے خداوند کی کیونکہ شوہر بیوی کا سر ہے جیسا کہ مسیح کلیسیا کا سر ہے اور وہ خود بدن کا بچانے والا ہے لیکن جیسے کلیسیا مسیح کے تابع ہے ویسے ہی بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہر کی تابع ہوں۔‘‘ (افسیوں ۵ / ۲۲۔۲۴)

’’عورتیں حیادار لباس میں شرم اور پرہیزگاری کے ساتھ اپنے آپ کو سنواریں نہ کہ بال گوندھنے اور سونے اور موتیوں اور قیمتی پوشاک سے ۔۔۔۔ عورت کو چپ چاپ کمال تابعداری سے سیکھنا چاہیئے اور میں اجازت نہیں دیتا کہ عورت سکھائے یا مرد پر حکم چلائے بلکہ چپ چاپ رہے۔‘‘ (۱۔تیمتھیس ۲ / ۹۔۱۲)

’’اور متقی اور پاک دامن اور گھر کا کاروبار کرنے والی اور مہربان ہوں اور اپنے اپنے شوہر کے تابع رہیں۔‘‘ (۔۔۔ ۲ / ۵)

جہاں تک شرائع کا تعلق ہے بائبل عورت کو مکمل طور پر پردے کا پابند اور گھر تک محدود کر دیتی ہے لیکن عیسائیت کا قدیم مسکن مغرب بے پردگی اور آوارگی میں کچھ زیادہ ہی رسیاں تڑا گیا ہے۔ عیسائی مشنریاں عورت اور وہ بھی فحاشی اور عریانی سے مالامال جیسے خطرناک ہتھیار سے لیس ہیں۔ عورتیں ملک کے ہر محکمہ حتٰی کہ مذہبی راہنماؤں کے ساتھ بھی نوجوان سسٹرز اور ماوا میں تبلیغ کے بہانے مصروف العمل ہیں جو بائبل کے صریح فرامین کے خلاف ہے۔ تبلیغ کرنا عورت کو روا نہیں  ہے ۱۔تیمتھیس ۲ / ۱۲۰۹ سے یہ واضح طور پر منصوص ہے۔ اس بات کا مسیحی علماء کو بھی اقرار ہے کہ یورپ کی عورت آزادی میں حد سے بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ پادری آر بسن لکھتے ہیں:

’’یہ قابل افسوس بات ہے کہ مغربی ممالک کی عورتیں جن کو حد سے زیادہ آزادی دی گئی ہے قدرت کے خلاف زندگی بسر کرتی ہیں۔‘‘ (حقوق و فرائض نسواں ۔ مصنفہ ڈاکٹر پادری جے ایچ آربسن ایم ڈی ۔ مطبوعہ ۱۹۲۸ء ص ۳۱)

مزید لکھتے ہیں:

’’مرد عورت سے زیادہ قدآور اور طاقتور ہوتا ہے لہٰذا وہ محنت و مشقت کے کاروبار کرنے کے زیادہ قابل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کی حفاظت کرے اور محنت و مشقت کا کام اپنے ذمہ لے۔ عورت کا کام مرد کے کام کی نسبت زیادہ مشکل اور نازک ہے اور اس کا اثر رگوں اور پٹھوں پر زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ذرا عقل اور سمجھ کو استعمال کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ عورت کے ساتھ نہایت بے انصافی کی گئی ہے کہ جس حال کہ اس کی طاقت کو اس الٰہی مقصد کے لیے محفوظ رکھا جانا چاہیئے تھا کہ جس کے لیے وہ خلق کی گئی اس کو دنیا کے سخت اور کٹھن معاملات میں صرف کیا گیا ہے۔‘‘ (ص ۱۶)

اب یہ مشکل اور کٹھن کام نہیں تو اور کیا ہے کہ مغرب سے عورتوں کو دور دراز کے ممالک میں تبلیغ کے لیے بھیجا جاتا  ہے، انہیں گھر بار سے دور رکھا جاتا ہے اور نجانے کیا کیا بھاری ذمہ داریاں اس نازک وجود پر ڈالی جاتی ہیں۔ مسیحی مذہبی راہنماؤں سے گزارش ہے کہ بائبل کی تبلیغ کے سلسلہ میں کم از کم بائبل کے احکام کا لحاظ تو کر لیا جائے اور عورت کی بے پردگی، فحاشی اور عریانی کے خلاف عَلم جہاد بلند کیا جائے۔


مذاہب عالم

(ستمبر ۱۹۹۰ء)

ستمبر ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۹

خلیج کا آتش فشاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علومِ حدیث کی تدوین — علماء امت کا عظیم کارنامہ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

سرمایہ داری اور اسلامی نظامِ معیشت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

انبیاءؑ کے حق میں ذنب و ضلال کا مفہوم
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

ہمارے دینی مدارس — توقعات، ذمہ داریاں اور مایوسی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موجودہ طریقۂ انتخابات شرعی لحاظ سے اصلاح طلب ہے
ادارہ

پردہ اور بائبل
محمد عمار خان ناصر

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

جریان، احتلام اور سرعتِ انزال کے اسباب اور علاج
حکیم محمد عمران مغل

جہادِ افغانستان کے روس پر اثرات
ادارہ

عیاشانہ زندگی کے خطرناک نتائج
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سوسائٹی کی تشکیلِ نو کی ضرورت
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter