حیوانات کی پیدائش کے ساتھ ہی قدرت نے بقائے نسل کے لیے توالد و تناسل کا سلسلہ قائم کیا ہے۔ اس میں ارزل ترین مخلوق سے اشرف المخلوق انسان تک سب مشترک ہیں۔ ہر جنس اپنی جسمانی ساخت، رسم و رواج، آب و ہوا، حالات، گرد و پیش کے تحت اس وظیفۂ حیات کو انجام دینے پر فطرتاً مجبور ہے۔ بعض ممالک میں جدید نسل کی رہنمائی کے لیے اسے تعلیم سے منسلک کیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں تمام جنسی کتب صرف ذہنی عیاشی تک ہی محدود ہیں ؎
اک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی بھی صورت کو بگاڑ
آج سے ایک دہائی پہلے لاہور سے جناب پروفیسر مظہر علی ادیب صاحب نے سکول کالج کی درسی کتب پر عالمانہ تنقید قوم کے سامنے پیش کی تھی۔ اندازہ لگایا گیا کہ بعض اسباق میں آدھے سے زیادہ مواد صرف عاشقی معشوقی پر تحریر کیا ہے جسے منسوخ کیا گیا۔ یعنی ہماری بے حسی کہ نئی پود کے ہاتھوں میں کیا مواد ہے ہمیں پتہ تک نہیں۔ نظامِ تعلیم کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک عام معمولی نوجوان سے بھی پوچھیں تو وہ بی پی فلم کے متعلق اس تفصیل سے بتائے گا جیسے اس نے یہی کام کرنا ہے۔
قدرت نے ان مقاصد کے حصول کے لیے توالد و تناسل میں ایک لذت کی کیفیت پنہاں رکھی ہے تاکہ ہر ذی روح اور خصوصاً حیوان انسان برضا و رغبت متوجہ رہیں۔ اسی لذت کے متوالے زنا اور دیگر فواحشات کے دلادہ ہو کر اس کے عواقب و نتائج سے بالکل بے خبر اپنی زندگی کا چراغ وقت سے پہلے گل کر لیتے ہیں اور اکثریت غیر طبعی موت مرتی ہے۔ آسمانِ طب کے ماہتاب جناب جالینوس کا ارشاد ہے کہ انسان ایک چراغ ہے اور منی اس کا تیل ہے۔ جونہی یہ تیل ختم، زندگی کا کھیل بھی ختم۔ تیل کے اس چشمہ کو اپنے ہاتھوں خشک کرنے کے بعد انسان مصنوعی اشیاء اور وسائل کی جستجو میں لگ جاتا ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ یہی وہ منحوس وقت ہوتا ہے جب میاں بیوی کی آپس میں توتکار ہوتی ہے جس کا بھیانک انجام اخبارات کے ذریعے خاندان میں جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔ اب بیوی مغلوب ہو گی نہ مرعوب ؎
صحت نہ ہو تو سیم و زر بیکار ہے
خوب رو بیوی پری پیکر بھی ہو تو خار ہے
آج کل جنسی حمام میں ہمارا معاشرہ اکثر ننگا نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ ایک اخبار میں نوجوانوں نے خطوط لکھے کہ ہم جریان، احتلام کی بیماری میں اپنی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں، ہماری مدد کریں۔ اس وقت ۹۸ فیصد نوجوان مبتلا تھے مگر آج ؎
شیاطیں نے چکر چلائے ہوئے ہیں
بڑے سے بڑے ورغلائے ہوئے ہیں
اللہ تعالیٰ نے جسمِ انسانی میں بہت سی قوتیں پیدا کر کے پھر ان کے لیے الگ الگ اعضا بھی پیدا کیے ہیں جن میں پوشیدہ اعظا انتہائی حساس ہیں۔ اگر یہ قوتیں ان اعضا سے مل کر اپنا اپنا فعل ادا کرتی رہیں تو انسان اپنی طبعی عمر سے لطف اندوز ہو سکتا ہے بشرطیکہ ان اعضا سے کوئی غیر فطری کام نہ لیا گیا ہو۔ اگر غیر فطری طریقہ سے ان میں کوئی نقص واقع ہو گیا تو پھر ارادے پست ہمت سست ہو کر نخلِ زندگی مرجھانے لگتا ہے۔ اور وہ قوت جو انسان کے مرنے کے بعد اس کا قائم مقام چھوڑنے کا باعث بنتی ہے جو انسان کو حیاتِ جاوید بخشتی ہے، اس کی زندگی کی یادگار قائم رکھتی ہے، اپنے ہاتھوں اس یادگار کے خوشنما پھولوں میں عاقبت نااندیشی کے کانٹے بو کر پھر نخلِ مردانگی کو قطع کرنے والے تبشوں یعنی جریان، احتلام وغیرہ سے تازیست خطرہ لگا رہتا ہے۔
اطباء متقدمین نے فرمایا ہے کہ ایک دفعہ کے انزال سے تین سے چھ ماشہ تک مادہ خارج ہوتا ہے۔ ہر وقت شہوت کے گھوڑے پر سوار رہنے والے سوچیں کہ کس قسم کی موت سے ان کا سامنا پڑے گا۔ آج کا لکھا پڑھا طبقہ درکنار ایک بالغ اَن پڑھ بھی ان اسباب سے خوب واقف ہے، اس لیے کہ جنسی بے راہ روی کے تمام لوازمات صرف چند پیسوں کے عوض پورے ملک میں دستیاب ہیں۔ طاؤس و رباب کی محفلوں کا سامان سب کے سامنے ہے، عیاں را چہ بیاں۔
جریان کے اسباب
آیوروید علماء نے اس کی بیس اقسام بیان فرمائی ہیں۔ پیشاب کرنے سے پہلے یا بعد میں منی کے قطرات خارج ہوتے ہیں۔
(۱) گرم اشیاء کا استعمال، منی کا پتلا ہونا، بلغمی رطوبت کی زیادتی، قوت ماسکہ اور قوت جاذبہ کا کمزور ہونا۔
(۲) دماغ، حرام مغز اور اعصاب میں فتور واقع ہو جائے تو بھی جریان وغیرہ کا عارضہ ہو گا جو بمشکل ٹھیک ہوا کرتا ہے۔
(۳) یہ اسباب خود تو جریان کا باعث نہیں بنتے لیکن جریان شروع ہونے کے بعد اس میں بہت ہی اضافہ کا باعث بنتے ہیں جیسے چائے قہوہ کی زیادتی کہ اس سے اعصاب اور گردے خشکی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ شراب نوشی، تمباکو نوشی، ان سے اعضا وقت سے پہلے اپنی افادیت کھو دیتے ہیں۔ کسی قسم کا بھی نشہ کرنے سے اعضا وقت سے پہلے کمزور ہو جاتے ہیں۔ اوندھے منہ سونا، مسلسل گندہ رہنا، دماغی محنت لگاتار ایک مدت تک کرنا، اور مقوی خوراک کا نہ ملنا، پیٹ میں کیڑوں کا ہونا، بدن کے فضلات کا اخراج نہ کرنا، ورزش یا سیر نہ کرنا۔
احتلام کے اسباب
عام آدمی کو ایک ماہ میں دو دفعہ احتلام ہو تو بالکل بجا ہے۔ اسی طرح بعض مزاجوں میں گرمی زیادہ ہوتی ہے اور وہ لوگ خوراک بھی نہایت قیمتی کھاتے ہیں، ایسے مزاجوں کو ہفتہ میں ایک دفعہ ہو جائے تو یہ کیفیت طبعی سی کہلائے گی۔ مگر متوسط طبقہ ایک ماہ میں دو دفعہ ہی شمار کرے۔ جریان کے تمام اسباب بھی احتلام کا باعث بنتے ہیں، البتہ بعض حالات میں معدہ اور دماغ اس کا خاص محور ہیں۔
دنیاوی زندگی میں جن خیالات اور حالات سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے یا جو سوچ آپ رکھتے ہیں، نیند کی حالت میں بھی بالکل اسی طرح کے حالات سے دوچار ہوں گے۔ وجہ یہ ہے کہ نیند کی حالت میں دماغی قوتیں بالکل بیداری کی طرح کام کرتی رہتی ہیں۔ یہی قوت ہمیں خواب کے مزے سے آشنا کرتی ہے۔ یہ قوت عام حالات کو حسی جامہ پہنا کر حس مشترک کے سامنے پیش کرتی ہے اور بیداری میں شہوت کے دلدادہ نیند میں بھی شہوت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ اب قوتِ ممیزہ خواب کی حالت میں یہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ یہ صورت اصلی ہے یا نقلی، پس اس کے ساتھ ہی قوتِ شہوانی متحرک ہو کر انزال کا باعث بن جاتی ہے۔ عشقیہ ناول، غزلیں گانے، ماحول، عریاں تصاویر، مرد عورت کے ملاپ کا تصور ذہن میں رکھنا، آتشک یا سوزاک کی بیماری کا ہونا، یا مثانہ پیشاب سے پر ہونا اور سو جانا، اعضا تناسل کی کمزوری، نرم و نازک بستر کا استعمال، غدہ قدامیہ کی سوزش، رات کا کھانا دیر سے کھا کر فورًا سو جانا، اس کے اسباب ہوا کرتے ہیں۔
علاج اور پرہیز
تمام بادی اور میدہ کی اشیاء سے قطعاً پرہیز رکھیں۔ قبض کا خاص خیال رکھیں۔ رات کو پینے والی کوئی چیز نہ پیئں۔
(۱) کمرکس، اجوائن خراسانی، بیج بند۔ ایک ایک تولہ باریک کر کے ایک چنے کے برابر گولی یا سفوف صبح شام دودھ سے کھائیں۔
(۲) معجون آروخرما بازار سے خرید لیں۔ ایک تولہ میں ایک رتی کشتہ قلعی ملا کر چھ چھ ماشے صبح شام دودھ سے کھائیں۔
(۳) موچرس ایک تولہ، کشتہ صدف صادق چھ ماشہ۔ پہلے موچرس باریک کر کے بعد میں کشتہ ملا کر دو ماشہ سفوف صبح شام مکھن سے کھائیں۔
ان میں سے کوئی بھی نسخہ کھائیں ان شاء اللہ جریان، احتلام، سرعت انزال بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔
طلا
تخم مولی ایک تولہ کو پانچ تولہ سرسوں کے تیل میں ۲۴ گھنٹہ کھرل کر کے رات کو خشفہ چھوڑ کر مل لیا کریں۔ صبح نیم گرم پانی سے دھو دیں۔ تمام نقائص ایک ماہ میں ختم۔