قازقستان کے مفتی اعظم اور روسی پارلیمنٹ کے رکن مفتی محمد صادق یوسف کے ہمراہ پشاور کے دورے پر آئے ہوئے ممتاز روسی صحافی اور مسئلہ افغانستان پر ’’خفیہ جنگ‘‘ نامی کتاب کے مصنف مسٹر آر ٹی یون بورووک نے کہا ہے کہ افغانستان پر روسی حملہ وہاں کے دیہاتوں اور عوام پر نہیں بلکہ دراصل خود روسی نظریات و اقدار پر تھا، اس سے سوشلزم اور اسٹالن ازم ختم ہو گئے، لوگوں کا ان نظریات پر اب کوئی اعتماد نہیں رہا اور روسیوں نے تیس سال کے بعد دیکھا کہ انہوں نے جس ’’عورت‘‘ سے پہلے محبت کی تھی وہ فی الحقیقت کتنی بدصورت ہے اور اب ہماری یہ خوش فہمی باقی نہیں رہی کہ افغان جنگ ختم ہو گئی ہے کیونکہ یہ ختم ہونے کی بجائے دریائے آمو کو پار کر کے روس کے طول و عرض میں پھیل گئی ہے۔
پشاور سے واپسی پر روسی صحافی نے ’’جنگ‘‘ سے ایک طویل خصوصی انٹرویو میں افغانستان میں روسی مداخلت کے محرکات اور اس کے اثرات پر تفصیلی اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں روس کے کمیشن آف سنٹرل کمیٹی آف سپریم سوویت نے حسبِ روایت بعض ایسے افراد کو اس کارروائی کا ذمہ دار قرار دیا ہے جو اس دنیا میں نہیں ہیں، جن میں سابق سیکرٹری جنرل برزنیف، کے جی بی کے سابق سربراہ مسٹر آندروپوف، سابق وزیر دفاع مسٹر استی نوف، اور سابق وزیر خارجہ مسٹر گورمیکو شامل ہیں۔
مختلف سوالوں کے جواب دیتے ہوئے روسی صحافی نے کہا کہ مسٹر برزنیف انتہائی بوڑھے ہونے کے باعث اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے تھے اور غیر ملکی وفود سے چار پانچ منٹ سے زیادہ مسلسل مذاکرات نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں صرف ماسکو کے گردونواح میں شکار کھیلنے سے دلچسپی تھی اور وہ اسی کو ترجیح دیتے تھے۔ افغانستان پر حملہ کرنے کے فیصلے کے ذمہ دار افراد افغانستان کے بارے میں خود کچھ نہیں جانتے تھے۔ ان کو اپنے نائبین نے گمراہ کیا، اس کے علاوہ دوسرے درجے سے کچھ اوپر کی افسر شاہی بھی اس کی ذمہ دار ہے۔
افغانستان پر حملے میں افغانستان کی پرچم پارٹی کے ببرک کارمل کا کردار بھی انتہائی اہم ہے۔ ببرک کارمل چیکوسلواکیہ میں سفیر تھا اور جیسا کہ اس نے مجھے بتایا کہ کارمل کو حفیظ اللہ امین کی جانب سے ہنگری میں اپنے قتل کیے جانے کا خدشہ تھا۔ اس نے سفارت چھوڑی اور ماسکو چلا گیا جہاں اس نے مسٹر برزنیف کو افغانستان میں فوجیں داخل کرنے پر قائل کیا۔
روسی صحافی مسٹر آر ٹی یون بورووک کے مطابق اس زمانے میں پرچم پارٹی کے بعض افراد نے مسٹر برزنیف سمیت بعض اہم روسی لیڈروں کو تحائف کی شکل میں بھاری رشوتیں دیں، جن میں برزنیف کے داماد اور سابق نائب وزیر داخلہ مسٹر چربانوف کا کیس خاصا مشہور ہوا جب اس کے ذاتی نوادرات میں سونے اور جواہرات کی اشیا ملیں۔ بعد ازاں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد پرچم پارٹی کے یہی افراد برسر اقتدار آئے، لیکن دنیا نے دیکھا کہ بعد میں ترہ کئی کو قتل کرا دیا جس نے برزنیف کو بالکل پاگل کر دیا اور اس موقع پر بعض عینی شاہدوں کے مطابق مسٹر برزنیف نے انتہائی غصے کے عالم میں کہا کہ ہمیں اس کتے کے بچے کو سبق سکھانا چاہیئے۔
افغانستان پر روسی حملے کے محرکات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے روسی صحافی نے مزید بتایا کہ ۱۹۷۸ء سے قبل امریکی بہت ہی دلچسپ طریقے سے ماسکو کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ افغانستان میں اسلامی بنیاد پرستوں کا قبضہ ہے اور اگر یہ لوگ وہاں برسر اقتدار آ گئے تو اس کے اثرات روس اور افغانستان کی سرحد پر واقع دریائے آمو نہیں روک سکے گا۔ اس طرح اسلامی بنیاد پرستی کے اثرات روسی علاقے وسط ایشیا کی معمان ریاستوں تک جا پہنچیں گے۔ روسی صحافی کے مطابق افغانستان میں فوجی مداخلت کا فیصلہ ۱۳ دسمبر ۱۹۷۹ء میں پولٹ بیورو کے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا۔
روسی صحافی نے افغان جنگ کے اثرات کے بارے میں سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ نہ صرف افغانیوں بلکہ روسیوں کے لیے بھی انتہائی خونریز اور نقصان دہ رہی اور گزشتہ دہائی کے آخری سالوں تک ہم اس غلط فہمی میں مبتلا رہے کہ ہمارا معاشرہ دنیا کا بہترین معاشرہ ہے اور سوشلزم جادوئی چھڑی ہے جو مسائل کو چٹکی بجا کر حل کر دے گی۔ لیکن افغانستان میں ہم نے ۱۹۱۷ء کے اس نظام کے پرخچے دیکھے مگر سخت سنسرشپ کے باعث ہم اپنے محسوسات نہیں لکھ سکتے تھے۔ مسٹر گورباچوف کا ’’پریسٹرائیکا‘‘ اس جنگ ہی کی وجہ سے ۱۹۸۵ء میں جنگ کے دوران ہی شروع ہوا۔ ہم افغانستان میں جن قدروں کے ساتھ گئے تھے انہیں ساتھ لے کر واپس نہیں آئے۔ لوگ سوشلزم سے عاجز آ گئے ہیں، اب اس پر یقین نہیں کرتے اور اس نظام کے فیل ہو جانے کے بعد ایک خلا ہے جس میں روس کھو گیا ہے اور نہیں جانتا کہ کس سمت میں حرکت کرے۔
روسی صحافی نے کہا کہ روس میں اب نئی نسل کو جلد از جلد اقتدار میں آجانا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ روس اور دوسرے سوشلسٹ ممالک میں ایسے لوگ موجود ہیں جو مسٹر گورباچوف کے کام کے سلسلے میں مزید تیز رفتار پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں تاہم مسٹر گورباچوف اب بھی روسیوں کی واحد امید ہے۔ ایک سوال کے جواب میں روسی صحافی نے بتایا کہ افغانستان میں تعینات روس کی آدھی سے زائد فوج حشیش کی عادی ہو چکی ہے جو ہمارے لیے ایک المیہ ہے۔
(روزنامہ جنگ لاہور ۔ ۲۹ جولائی ۱۹۹۰ء)