کیا حضرت عمرؓ نے احادیث بیان کرنے سے منع فرمایا تھا؟
سوال: منکرینِ حدیث کا کہنا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں احادیث کی روایت سے منع فرمایا تھا، اس کی کیا حقیقت ہے؟ (عبد الکریم، کوئٹہ)
جواب: یہ بات درست نہیں ہے اور جو روایات ایسی منقول ہیں ان کا مطلب ہرگز وہ نہیں ہے جو منکرینِ حدیث بیان کرتے ہیں، بلکہ اصل روایات کو ملاحظہ کیا جائے تو مطلقاً منع کرنے کا حکم ہمیں نہیں ملتا بلکہ اس میں روایات کو بکثرت بیان کرنے سے روکا گیا ہے۔ چنانچہ عراق کی طرف روانہ کردہ وفد کو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ
’’فلا تصدوھم بالاحادیث فتشغلوھم جودوا القراٰن واقلوا الروایۃ عن رسول اللہ‘‘ (تذکرۃ الحفاظ للامام ذہبیؒ ج ۱ ص ۴)
ترجمہ: ’’انہیں (اہل عراق کو) احادیث کے ذریعے (قرآن سے) نہ روک دینا کہ تم انہیں (احادیث کے ساتھ ہی) مشغول کر دو۔ قرآن کو اچھا کر کے (پڑھو) اور (احادیث) بیان کرنا کم کر دو۔‘‘
اس کی وجہ حافظ ذہبیؒ یہ بیان کرتے ہیں کہ
وقد کان عمر من وجلہ ان یخطیٔ الصاحب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یامرھم ان یقلوا الروایۃ عن نبیھم ولئلا یتشاغل الناس بالاحادیث عن حفظ القراٰن۔
ترجمہ: ’’عمرؓ نے اس خوف سے کہ رسول اللہ کی طرف بہتان منسوب ہو جائے گا، اصحابؓ کو حکم دیا کہ احادیث کی روایت کو کم کر دیں اور تاکہ لوگ قرآن کو چھوڑ کر احادیث کے ساتھ مشغول نہ ہو جائیں۔‘‘
علاوہ ازیں اگر حضرت عمرؓ کی مراد روایت حدیث سے مطلقاً منع کرنا ہوتی تو لازماً آپ خود بھی احادیث کی روایت نہ کرتے حالانکہ ایک قول کے مطابق حضرت عمرؓ سے ۵۳۷ احادیث مروی ہیں (تاریخ عمرؓ بن الخطاب للامام ابو الفرج جمال الدین ابن الجوزیؒ ص ۱۷۳)۔ پھر حضرت عمرؓ ایک عام راوی نہیں بلکہ پختہ کار محدث تھے۔ حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:
وھو الذی من للمحدثین التثبت فی النقل۔ (تذکرہ ص ۶ ج ۱)
ترجمہ: ’’حضرت عمرؓ نے ہی محدثین کو نقلِ حدیث میں ثابت قدمی کی راہ بتلائی۔‘‘
حافظ ذہبیؒ نے چند واقعات نقل کیے ہیں جو منکرینِ حدیث کے دعوے کے ابطال پر حجتِ قاطعہ ہیں۔ یہاں پر ان میں سے ایک نقل کیا جاتا ہے: ابو موسٰی الاشعریؓ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے گھر آئے اور باہر کھڑے ہو کر تین دفعہ سلام کیا لیکن جواب نہ ملنے پر واپس ہو گئے۔ حضرت عمرؓ نے آدمی بھیج کر آپ کو بلوایا اور پوچھا کہ آپ واپس کیوں لوٹ گئے تھے؟ ابو موسٰیؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تین دفعہ سلام کرنے پر بھی جواب نہ ملے تو واپس لوٹ آیا کرو۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ایک اور گواہ لاؤ ورنہ میں سزا دوں گا۔ تو ابو موسٰیؓ نے صحابہ میں سے ایک آدمی کو بطور گواہ کے پیش کر دیا یعنی حضرت عمرؓ نے ایک راوی کے ہوتے ہوئے (جو ثقہ بھی تھے) گواہ طلب کیا اور اس کے بعد انہیں اطمینان ہوا۔ الغرض منکرینِ حدیث کا مذکورہ دعوٰی بدلائل قاطعہ و براہین ساطعہ باطل ہے۔
امام ابن حجرؒ کون تھے؟
سوال: علمِ حدیث کے حوالہ سے ابن حجرؒ کا نام اکثر سننے اور پڑھنے میں آتا ہے۔ یہ بزرگ کون ہیں اور ان کا تعارف کیا ہے؟ (محمد احمد، گوجرانوالہ)
جواب: امام ابن حجرؒ کا نام احمد بن علی ہے اور آٹھویں، نویں صدی ہجری کے محدث ہیں۔ ۷۷۳ھ میں کنانۃ (عسقلان) کے مقام پر پیدا ہوئے پھر مصر چلے گئے۔ مسلکاً شافعی ہیں، تمام علوم و فنون خصاصاً علمِ حدیث میں مہارتِ تامّہ رکھتے تھے۔
برع فی الحدیث و تقدم فی جمیع فنونہ (لحظ الالحاظ بذیل تذکرۃ الحفاظ ص ۳۸۱)
’’حدیث کے فن میں کامل اور دوسرے تمام فنون میں سب سے بڑھ کر تھے۔‘‘
وقد غلق بعدہ الباب و ختم بہ ھذا الشان (ص ۳۸۲)
’’آپ کے بعد اس پایہ کا کوئی محدث پیدا نہیں ہوا۔‘‘
ابن حجرؒ کی زیادہ تر تصنیفات علمِ حدیث اور اسماء الرجال پر ہیں۔ علمِ حدیث میں صحیح بخاری کی شرح ’’فتح الباری‘‘ ہر دور میں متداول اور متقدمین و متاخرین کا ماخذ رہی ہے۔ جبکہ علمِ رجال میں تہذیب التہذیب، تقریب التہذیب، لسان المیزان، الاصابۃ الدرر الکامنۃ اور دیگر کتب دوسری تمام کتبِ رجال سے بے نیاز کر دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں تعلیقات و تخریجات سو (۱۰۰) سے بڑھ کر ہیں (ص ۳۸۱)۔ قریباً ایک ہزار مجالس میں املاء کروایا، متعدد مقامات پر تدریس کی اور بالآخر ذی الحجہ ۸۵۲ھ میں وفات پا گئے۔ ابن حجرؒ کے جنازہ کے موقع پر بارش ہو گئی تو کسی عقیدت مند نے کہا
قد کمبت السحب علی قاضی القضاۃ بالمطر
وانہدم الرکن الذی کان مشیدًا من حجر
’’قاضی القضاۃ کی وفات پر بادل بارش کے ساتھ روئے اور پتھر جیسا مضبوط عالم گر گیا۔‘‘
جاحظیہ کون تھے؟
سوال: جاحظیہ کون تھے اور ان کے عقائد کیا تھے؟ (محمد عبد اللہ، وہاڑی)
جواب: جاحظیہ، معتزلہ کی ایک شاخ ہیں۔ یہ لوگ عمرو بن بحرین الجاحظ کے پیروکار تھے جو معتصم باللہ اور متوکل علی اللہ عباسی خلفاء کے دور (دوسری صدی ہجری کے نصف اول) میں ایک بڑا عالم تھا۔ ان کے چند ایک عقائد کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے جو جمہور معتزلہ سے جدا ہیں:
(۱) عقائد (علمِ الٰہی) بالکلیۃ ضروری ہیں اور ہر انسان ان کو طبعی طور پر جانتا ہے حتٰی کہ خدا اور نبی کا مفہوم بھی جانتا ہے۔
(۲) اہلِ جہنم کو جسمانی سزا نہیں ملے گی بلکہ آگ ان کو اپنے اندر جذب کر لے گی اور وہ آگ ہی بن جائیں گے۔
(۳) تمام صفاتِ باری تعالٰی (علم، حیات، ارادہ، قدرت، سمع، بصر وغیرہ) کے اصلاً منکر ہیں۔
(۴) خلقِ قرآن کے بارے میں اس حد تک معتقد تھے کہ ان کے نزدیک قرآن مرد اور عورت کی شکل بھی اختیار کر سکتا ہے۔
(الملل والنحل للامام الشہرستانیؒ ج ۱ ص ۹۱ ۔ ۹۴)
لفظ ’’فارقلیط‘‘ کیا ہے؟
سوال: فارقلیط کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا معنی کیا ہے؟ (عبد الحفیظ، وزیر آباد)
جواب: فارقلیط یونانی لفظ ’’پیرکلوتوس‘‘ سے مقرب ہے اور اس کا معنی تعریف کیا ہوا یعنی ’’احمد‘‘ ہے۔ یہ لفظ انجیل یوحنا ۱۶ : ۷ ۔ ۱۵ میں بار بار استعمال ہوا ہے اور حضرت عیسٰیؑ نے آنحضرت کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ قرآن پاک میں بھی (الصف ۶) حضرت عیسٰی کی اس بشارت کو نقل کیا گیا ہے۔ عیسائی حضرات جہاں ان بشارات کے آنحضرتؐ پر اطلاق سے انکار کرتے ہیں اور ان کو روح القدس (اقنوم ثالث‘‘ کے لیے ماننے پر اصرار کرتے ہیں، اسی طرح اس لفظ کی تاویل میں کہتے ہیں کہ یہ یونانی زبان کے لفظ ’’پراکلی توس‘‘ سے مقرب ہے نہ کہ ’’پیرکلوتوس‘‘ سے اور ’’پراکلی توس‘‘ کا معنی ’’احمد‘‘ نہیں ہے۔ (فارقلیط از پادری وکلف اے سنگھ ص ۱۱ ۔ شائع کردہ مسیحی اشاعت خانہ لاہور)۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے ’’فارقلیط کون ہے؟‘‘ از مولانا بشیر الحسینی، شائع کردہ اسلامی کتب خانہ، علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی نمبر ۵۔