بادشاہوں اور امیروں کی اس طرح عیاشانہ زندگی بسر کرنے سے بہت سے خطرناک امراض پیدا ہو گئے جو حیاتِ معاشری کے ہر شعبے میں داخل ہو گئے، اور یہ حالت ایسی ہمہ گیر ہو گئی کہ وبا کی طرح ساری مملکت میں سرایت کر گئی، اور اس سے نہ بازاری بچا اور نہ دیہاتی، نہ امیر محفوظ رہا نہ غریب، یہاں تک کہ ہر شخص اس کی خرابیاں دیکھ کر مگر علاج نہ پا کر عاجز آ گیا اور بے حد و نہایت مالی مصائب میں مبتلا ہوگیا۔
اس ہمہ گیر مالی مصیبت کا سبب یہ تھا کہ یہ سامانِ عیش کثیر دولت صرف کیے بغیر حاصل نہ ہو سکتا تھا، اور مالِ خطیر تاجروں وغیرہ پر نئے ٹیکس لگانے اور پہلے کے لگے ہوئے ٹیکس بڑھانے کے سوا حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ پھر ان لوگوں کو طرح طرح سے تنگ کر کے ٹیکس وصول کیے جاتے تھے اور اگر ٹیکس دینے سے انکار کرتے تو ان کے خلاف فوجی کارروائی کی جاتی اور انہیں گرفتار کر کے طرح طرح سے عذاب دیا جاتا تھا۔ اور اگر وہ اطاعت شعاری کے ساتھ ٹیکس ادا کرتے رہتے تو ان سے ٹیکس وصول کرتے کرتے ان کو گدھوں اور بیلوں کے درجے پر پہنچا دیا جاتا جن سے آب پاشی، فصل کاٹنے اور گاھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اور جن کو صرف اس لیے زندہ رکھا جاتا ہے کہ ان سے حاجت براری کی جاتی ہے۔
اس تنگ حالی اور بے سروسامانی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ عوام ٹیکس ادا کرنے اور اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کمانے کے سوا اور کوئی کام کر ہی نہیں سکتے۔ چہ جائیکہ سعادتِ اخروی کے متعلق کچھ سوچ سکیں اور رفتہ رفتہ ان میں اس طرح فکر کرنے اور سوچنے کا مادہ ہی فنا ہو جاتا ہے۔ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ملک میں ایک شخص بھی ایسا نہیں رہتا کہ وہ مادی اسباب کے حصول سے اوپر نظر اٹھا کر غیر مادی کائنات کے اصولِ حیات کے مطابق بھی کوئی حرکت کر سکے۔
(حجۃ اللہ البالغۃ)