موجودہ طریقۂ انتخابات شرعی لحاظ سے اصلاح طلب ہے
وفاقی شرعی عدالت کا ایک اہم فیصلہ

ادارہ

وفاقی شرعی عدالت میں اوریجنل جیورسڈکشن۔

حاضر

عزت مآب جناب جسٹس گل محمد خان چیف جسٹس۔ عزت مآب جناب جسٹس ڈاکٹر مفتی شجاعت علی قادری۔ عزت مآب جناب جسٹس مفتخر الدین۔ عزت مآب جناب جسٹس عبادت یار خان۔ عزت مآب جناب جسٹس علامہ ڈاکٹر فدا محمد خان۔

شریعت درخواست نمبر ۱۳ ایل آف ۱۹۸۸ء

محمد صلاح الدین بنام حکومتِ پاکستان

شریعت درخواست نمبر ۱۸ آئی آف ۱۹۸۸ء

ملک محمد عثمان بنام حکومتِ پاکستان اور دیگر

شریعت درخواست نمبر ۲۶ آئی آف ۱۹۸۸ء

بیگم یاسمین رضا بنام حکومتِ پاکستان

شریعت درخواست نمبر ۴ کے آف ۱۹۸۸ء

عبد الرب جعفری بنام حکومتِ پاکستان

شریعت درخواست نمبر ۳ ایل آف ۱۹۸۹ء

بشیر احمد نوید بنام حکومتِ پاکستان

وکیل برائے درخواست گزار بسلسلہ شریعت درخواست نمبر ۱۳ ایل آف ۱۹۸۸ء

جناب خالد ایم اسحاق ایڈووکیٹ۔ مسٹر جاوید حسن ایڈووکیٹ

درخواست گزار بسلسلہ ایس پی نمبر ۱۹ آئی آف ۱۹۸۸ء

جناب حبیب الوہاب خیری ایڈووکیٹ

وکیل برائے درخواست بسلسلہ ایس پی نمبر ۳ ایل آف ۱۹۸۸ء

جناب محمد اعظم سلطان پوری ایڈووکیٹ

درخواست گزار

جناب صلاح الدین۔ جناب مجیب الرحمٰن شامی۔ جناب الطاف حسین قریشی۔ ملک محمد عثمان۔ بیگم یاسمین رضا۔ جناب بشیر احمد نوید۔ جناب عبد الرب جعفری۔

برائے وفاقی حکومت

حافظ ایس اے رحمٰن (اسٹینڈنگ کونسل برائے وفاقی حکومت)۔ جناب غلام مصطفٰی اعوان (اسٹینڈنگ کونسل برائے وفاقی حکومت)۔ جناب محمد اسلم جنجوعہ (اسسٹنٹ سیکرٹری شعبہ پارلیمانی امور، اسلام آباد)۔ جناب محمد اکرم (اسسٹنٹ سیکرٹری شعبہ پارلیمانی امور)۔ جناب طارق ایوب خان (سیکشن آفیسر وزارتِ داخلہ، اسلام آباد)

برائے حکومتِ پنجاب

سید افتخار حسین (اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل)۔ جناب نذیر احمد غازی (اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل)۔

برائے حکومتِ بلوچستان

جناب ایم یعقوب یوسف زئی (اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل)۔ جناب ایم شریف رکھسانی (اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل)۔ جناب محمد افضل (ڈپٹی سیکرٹری جنرل بلوچستان اسمبلی)

برائے حکومتِ سندھ

جناب کے ایم ندیم (اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل)۔ جناب عبد الوحید صدیقی (ایڈووکیٹ)

مشیرانِ عدالت اور علماء

مولانا گوہر رحمٰن۔ مولانا محمد طاسین۔ جناب ریاض الحسن نوری۔ مولانا صلاح الدین یوسف۔ ڈاکٹر محمد امین۔ ڈاکٹر احسن الحق۔ مولانا عبد الشہید۔ ڈاکٹر اختر سعید۔ ڈاکٹر نثار احمد۔ علامہ جاوید الغامدی۔

دیگر

جناب رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ۔ جناب جی ایم سلیم ایڈووکیٹ۔ سید احمد حسنین ایڈووکیٹ۔ جناب رشید مرتضٰی قریشی ایڈووکیٹ۔ حاجی محمد معز الدین حبیب اللہ۔ جناب عبد الرشید۔ سید فدائے مہدی شاہ۔ شیخ مشتاق علی ایڈووکیٹ۔ جناب ایم اے شیخ ایڈووکیٹ۔ جناب ایم اے رشید صحافی۔ مولانا وصی مظہر ندوی۔ ڈاکٹر محمد یونس۔ صوفی محمد صدیق۔ ملک ظہور احمد۔ چوہدری محمد اقبال ایڈووکیٹ۔

تواریخ سماعت

لاہور میں ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۸، ۲۹ اور ۳۰ مئی ۱۹۸۹ء۔ کراچی میں ۲۶، ۲۷ اور ۲۸ فروری ۱۹۸۹ء

فیصلہ

(۱) مندرجہ بالا شریعت درخواستیں، دستور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل ۲۰۳ ڈی کے تحت اس سوال پر فیصلہ کے لیے داخل کی گئی ہیں کہ پاکستان کا پورا نظامِ انتخابات غیر اسلامی، خلافِ شریعت اور معاشرے کے اس تصور کے برعکس ہے جو قرآن و سنت میں نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل، انتخابی مہم، لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کنوینگ کا طریقہ، بالغ رائے دہی اور اس تمام عمل کے ذریعے بننے والے قانون ساز ادارے سب کے سب مکمل طور پر غیر اسلامی ہیں۔ لہٰذا اس پورے نظام کو کلیتاً ختم کر کے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کے مطابق ایک نئے نظام سے تبدیل کیا جانا چاہیئے کیونکہ یہی ریاست کا وہ بنیادی پتھر ہے جو بانیانِ پاکستان کے ہاتھوں رکھا گیا تھا۔

یہ درخواستیں نومبر ۱۹۸۸ء کے عام انتخابات کے بعد جلد ہی داخل کر دی گئی تھیں۔ درخواست گزاروں کے مطابق انہوں نے ان خامیوں کے ازالے کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کر کے سڑکوں پر دھول اڑانے اور ملک کی سالمیت کے لیے خطرات پیدا کرنے کے بجائے اس عدالت سے رکوع کرنے کا پُراَمن طریقہ اختیار کیا ہے۔

(۲) عدالت کی جانب سے ان درخواستوں کے حوالے سے اطلاع نامے جاری کر کے عوام کو دعوت دی گئی ہے کہ ان میں سے جو بھی چاہے اس بحث میں حصہ لے اور ان سوالات پر قابل اجازت حدود کے اندر اپنے نظریات کا اظہار کرے جو ان درخواستوں میں شامل ہیں۔ یہ عام نوٹس نہ صرف ملک کے بڑے بڑے اخبارات میں شائع ہوئے بلکہ انفرادی طور پر ملک میں عدلیہ کے مشیروں اور اسلامی اسکالروں کو بھی بھیجے گئے۔ ان نوٹسوں کی تعمیل جوابدہ حکومتوں پر بھی کی گئی۔

(۳) ان کے جواب میں متعدد فضلاء ہمارے سامنے پیش ہوئے، ان میں صرف علماء اور مذہبی اسکالر ہی نہیں بلکہ ملک کے ایسے ممتاز وکلاء بھی شامل تھے جنہیں قانون کے پیشے میں اعتبار و احترام کا مقام حاصل ہے۔ ان کی آراء سے استفادے اور اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں عدالت کے مشیروں کو سننے کے بعد، اب ہمیں آئین میں بیان کردہ اپنے حدود کار کے مطابق ان درخواستوں کا فیصلہ کرنا ہے۔

دورانِ سماعت ہم نے اس بات کو پیشِ نظر رکھا ہے، اس بارے میں محتاط رہے ہیں اور اب پھر اسے دہراتے ہیں کہ کسی قانون یا ایسی رسم یا رواج کو، جو قانون کی طاقت رکھتا ہو، قرآن و اور سنت کی کسوٹی پر پرکھنے کے معاملے میں وفاقی شرعی عدالت کا دائرہ اختیار، آئین کے آرٹیکل ۲۰۳ بی شق سی کے ذریعے محدود کر دیا گیا ہے جس کی بنا پر ’’آئین‘‘ مسلم شخصی قوانین، ایک مالیاتی قانون اور کسی بھی عدالت کے طریقہ کار کا قانون ہماری چھان بین کے حدود سے خارج ہیں۔ ہمارے مقصد کے لیے قانون کی تعریف یوں کی گئی ہے:

’’(سی) ’’قانون‘‘ میں ہر ایسی رسم یا رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو مگر اس میں دستور شامل نہیں ہے۔‘‘

(۴) اس لیے یہ بات واضح ہے کہ ایسے معاملات میں جو آئین میں خاص طور پر نظامِ قانون کے طریقہ کار کے ڈھانچے اور موضوعات سے متعلق  ہوں وہ ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اور ایسے معاملات میں ہم کوئی داد رسی کرنے سے قاصر ہیں۔

(۵) یہ استدلال کیا گیا تھا کہ ’’قرارداد مقاصد‘‘ آئین سے بالاتر ہے اور آئین کے اندر اس کی شمولیت، اوپر سے درج کی جانے والی تعریفی شق میں، اختیار کے استعمال پر عائد کی جانے والی پابندی کو تحلیل کرتی اور آئین سے متعلق امور کو بھی ہمارے سامنے قابلِ فیصلہ بناتی ہے۔ تاہم کیا یہ قرارداد، جو اَب دستور کا ایک حصہ بن چکی ہے، آرٹیکل ۲۰۳ کی شق سی میں عائد کی جانے والی پابندی کو واقعی ختم کرتی ہے؟ یہ بات ابھی غیر یقینی ہے۔ اور یہ بات بھی کیا یہ قرارداد، جو دستور کے تعارفی باب میں شامل ہے، عدالت کے ذریعے کلی طور پر قابلِ نفاذ ہے، بحث طلب ہے۔ مزید یہ کہ یہ دلیل صرف رفیق احمد باجوہ ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل کے دوران اتفاقی طور پر پیش کی تھی۔ چونکہ اس سوال پر کوئی عام نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور اس کو گہرائی کے ساتھ پرکھا نہیں جا سکا، اس لیے اس معاملے کو ہم کھلا چھوڑتے ہیں۔

(۶) آخر میں ہمارے لیے صرف وہ قوانین یا ان کے متعلقات رہ جاتے ہیں جو آئین کا حصہ نہیں بلکہ عام قوانین کے کنبے سے تعلق رکھتے ہیں، اور جنہیں آئین میں بیان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر یہ قوانین قرآن و سنت کے خلاف پائے جائیں تو ہم انہیں ختم کرنے اور آئینی پابندیوں کے خلاف ورزی کیے بغیر ان میں ایسی اصلاحات تجویز کرنے کا اختیار رکھتے ہیں جن کے ذریعے انہیں شریعت کے تصور کے مطابق ڈھالا جا سکے۔

(۷) ان درخواستوں میں ہمارے مقصد سے متعلق قوانین مندرجہ ذیل ہیں:

  • عوامی نمائندگی کا قانون مجریہ ۱۹۷۶ء
  • ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کا (انتخابی) حکم مجریہ ۱۹۷۷ء

(۸) یہ فیصلہ بہرکیف ’’عوامی نمائندگی کے قانون‘‘ ، ‘‘ ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے (انتخابی) حکم‘‘ اور ان کے مختلف حصوں سے بحث کرے گا، جنہیں درخواست گزاروں نے مذکورہ بالا درخواستوں میں چیلنج کیا ہے۔ یہ دونوں قوانین ایک ہی موضوع سے بحث کرتے ہیں اس لیے انہیں ساتھ ساتھ نمٹایا جا سکتا ہے۔

(۹) اب مناسب ہو گا کہ ان طویل مباحث اور دلائل کا خلاصہ یہاں درج کر دیا جائے جو سماعت کے دوران ہمارے سامنے پیش کیے گئے۔

(۱۰) یہ استدلال کیا گیا کہ پوری انتخابی مہم ایک سرکس یا میلے کے انداز میں چلائی جاتی ہے۔ ہر امیدوار کی پہلی ترجیح اپنی ذاتی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اپنے حریف امیدوار کی کردارکشی ہوتی ہے۔ منافقت اور فریب کا لبادہ اوڑھے ہوئے امیدوار ڈینگیں ہانک کر، شیخیاں بگھار کر، لالچ، دھونس، دھمکی اور جھوٹے وعدوں کے ہتھکنڈے استعمال کر کے، اپنی جھولی میں حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ووٹ اکٹھا کرنے کے لیے، ایک ایک دروازے پر پہنچ کر ووٹروں کا تعاقب کرتا ہے۔ وہ تنخواہ یافتہ کارکنوں کی فوج حتٰی کہ بعض اوقات انتخابی مہم کے حربوں میں خصوصی طور پر تربیت یافتہ بیرونی ماہر بھی رکھتا ہے۔ امیدواروں کی بینروں، پوسٹروں اور پلے کارڈوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے۔ مرسیڈیز، پجیرو اور ٹرکوں پر سوار کرائے پر حاصل کیے جانے والے ’’رضاکاروں‘‘ کے جلوس، سڑکوں پر محلے محلے اور گاؤں گاؤں نعرے لگاتے ہوئے گشت کرتے ہیں تاکہ اپنے امیدواروں کے لیے لوگوں کی حمایت حاصل کر سکیں۔ اور یہ سب کچھ امیدوار کی خواہش کے مطابق اس کے اپنے خرچ پر ہوتا ہے۔ حمایت حاصل کرنے کے لیے علاقائی، قبائلی، فرقہ وارانہ اور ایسے ہی دوسرے تعصبات کو استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ووٹ خریدنے کے لیے بڑی بڑی رقوم بھی ادا کی جاتی ہیں۔ بوگس ووٹنگ اور ایک ووٹر کی جگہ کسی دوسرے کا جعلی طور پر ووٹ ڈالنا، انتخابات میں ایک معمول کی بات ہے۔ بالآخر جو سب سے اونچے داؤ لگا کر یہ کھیل کھیلتا ہے وہ جیت جاتا ہے۔ 

شریعت کی رو سے بھلا کس طرح ان چیزوں کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور ایسے آسمان سے سیراب ہونے کے نتیجے میں رونما ہونے والی پیداوار کو آخر کس طرح ’’امیر‘‘ یعنی امتِ مسلمہ کے اعتماد کے اہل اور امین کا مقام دیا جا سکتا ہے؟ (جبکہ قرآن و سنت کے احکام یہ ہیں کہ):

’’اور ازراہ غرور لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا کہ خدا کسی اِترانے والے خودپسند کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (لقمان ۱۸)

’’اور خدا ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ داروں، ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں، سب کے ساتھ احسان کرو کہ خدا (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے) تکبر کرنے اور بڑائی جتانے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ (النساء ۳۶)

’’اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔‘‘ (المائدہ ۸)

’’حضرت ابوموسٰیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور میرے ساتھ میرے دو چچا زاد بھائی تھے۔ ان میں سے ایک بولا یا رسول اللہ! جو ملک اللہ نے آپ کو دیے ہیں ان میں سے کسی ملک کی حکومت ہمیں دے دیجئے، اور دوسرے نے بھی یہی کہا۔ آپؐ نے فرمایا، خدا کی قسم ہم کسی کو اس امر کا حاکم نہیں بناتے جو اس حکومت کی درخواست کرے اور نہ اس کو جو اس کی حرص کرے۔‘‘ (حوالہ صحیح مسلم ج ۳ ص ۲۳)

’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم سب میں زیادہ جھوٹا ہمارے نزدیک وہی ہے جو حکومت طلب کرے۔‘‘ (ابوداؤد ج ۲ ص ۴۵۸)

’’ہم اس کو عامل مقرر نہیں کرتے جو اس کا ارادہ کرے۔‘‘ (کنزل العمال ج ۶ ص ۴۷۔ حدیث نمبر ۱۴۷۵۸ طبع بیروت)

(۱۱) دورانِ بحث کہا گیا کہ یہ قانون عہدے اور منصب کو شکار کرنے اور اسے جائز اور ناجائز ذرائع سے حاصل کرنے کے رجحان کو دبانے کے بجائے اس رویے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے انتخابات پر بھاری رقوم کے خرچ کو ’’انتخابی مصارف‘‘ کا نام دے کر قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ نتیجتاً تجوری اور تشہیر، چور بازاری، منشیات اور بلیک میلنگ کا کاروبار کرنے والوں کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے طاقتور ترین ہتھیار ثابت ہوتے ہیں۔ امانت دار، راست باز اور خدا ترس لوگ ایسے کھیل میں قسمت آزمائی کے لیے شریک نہیں ہو سکتے۔ یہ پورے کا پورا میکانزم اور نظام کلی طور پر اسلام کے احکام کے خلاف ہے۔

(۱۲) ایک سابقہ مقدمے کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں مرحوم جسٹس بی زیڈ کیکاؤس اور دیگر افراد نے اس وقت کی وفاقی شرعی عدالت کے سامنے ایسے ہی اعتراضات اٹھائے تھے اور عدالت کے اس وقت کے سربراہ نے اپنے فیصلے میں اس سلسلے میں بعض سفارشات پیش کی تھیں۔ یہ فیصلہ پی ایل ڈی ۱۹۸۱ء ایف سی ایس (مسٹر بی زیڈ کیکاؤس بنام وفاقی حکومت پاکستان) میں درج ہے۔

(۱۳) یہاں وفاقی شرعی عدالت کے اس وقت کے سربراہ جناب جسٹس صلاح الدین احمد کے فیصلے کا ایک اقتباس پیش کرنا مفید ہو گا۔ فاضل جج نے عوامی نمائندگی کے قانون نمبر ۸۵ کے حوالے سے یہ تبصرہ کیا:

’’اس سوال کا ایک اور پہلو بھی ہے جو غور و خوض کا متقاضی ہے۔ پارلیمنٹ کو آئین کے آرٹیکل ۶۲ ڈی، ۶۳ (۱) (ای) اور ۱۱۳ کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان فرائض اور ذمہ داریوں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیئے جو آئین اور اسلامی احکام کی رو سے اس پر عائد ہوتی ہیں۔ آئین میں دیے گئے یہ امور پارلیمنٹ کو مقننہ کے ارکان کی اہلیت اور نا اہلی کی شرائط میں اضافے کے لیے ایک صوابدیدی اختیار فراہم کرتے ہیں جبکہ ’’ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کا (انتخابی) حکم مجریہ ۱۹۷۳ء‘‘ اور ’’عوامی نمائندگی کا قانون مجریہ ۱۹۷۶ء‘‘ وضع کرتے وقت پارلیمان آئین اور اسلامی احکام کے تحت عائد ہونے والے ان فرائض اور ذمہ داریوں کو یاد رکھنے میں ناکام رہی ہے، جیسا کہ ابھی واضح ہو گا۔

قومی اسمبلی اور سینٹ کا کام قانون سازی ہے۔ آئین، پالیسی سازی کے اصول فراہم کرتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل ۲۹ کی رو سے ریاست کے ہر عضو اور ادارے اور ہر شخص کی، جو ریاست کے کسی عضو یا ادارے کی جانب سے فرائض انجام دے رہا ہو، یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں تک یہ اصول اس کے ادارے کے وظائف سے متعلق ہیں، وہ ان کے مطابق عمل کرے۔ آرٹیکل ۳۰ کے تحت یہ فیصلہ کرنا کسی بھی عضو ریاست یا اس کی جانب سے فرائض انجام دینے والے شخص کی ذمہ داری ہے کہ دونوں میں سے کسی کی طرف سے بھی کیا جانے والا کوئی بھی اقدام آیا پالیسی کے اصولوں کے مطابق ہے؟ آرٹیکل ۳۱ کی رو سے مسلمانانِ پاکستان کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اسلام کے بنیادی اصولوں اور اساسی تصورات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کے قابل بنانے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ اور انہیں ایسی سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں جن کے ذریعے وہ قرآن و سنت کے مطابق زندگی کے مفہوم کو سمجھ سکیں۔‘‘

(۱۴) اس فیصلے کے بعد دستوری ترمیم کی گئی اور آئین کے آرٹیکل ۶۲، ۶۳ اور ۱۱۳، ۱۹۸۵ء کے صدارتی حکم نمبر ۱۴ سے بدل دیے گئے اور اسے ۲ مارچ ۱۹۸۵ء سے مؤثر قرار دیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی قانون ساز اداروں کے ارکان کی اہلیت اور نا اہلی کی شرائط کا تعین ازسرنو کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ اب ان امیدواروں کی شرائطِ اہلیت کے بارے میں واضح طور پر بتاتے ہیں جنہیں ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی قانون ساز اسمبلیوں کے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ (ملاحظہ کیجئے آرٹیکل ۱۱۳ دستورِ اسلامی جمہوریہ پاکستان)

(۱۵) اس مرحلہ پر ان آرٹیکلز کو یہاں بالتفصیل نقل کر دینا مناسب ہو گا:

۶۲۔ کوئی شخص مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر

(الف) وہ پاکستان کا شہری نہ ہو۔

(ب) وہ قومی اسمبلی کی صورت میں پچیس سال سے کم عمر کا ہو اور اس اسمبلی میں کسی مسلم یا غیر مسلم نشست کے لیے، جیسی بھی صورت ہو، انتخاب کے لیے انتخابی فہرست میں ووٹر کی حیثیت سے درج نہ ہو۔

(ج) وہ سینٹ کی صورت میں تیس سال سے کمر عمر کا ہو اور کسی صوبے میں کسی علاقے میں یا جیسی بھی صورت ہو وفاقی دارالحکومت یا وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات میں جہاں سے وہ رکنیت چاہتا ہو بطور ووٹر درج نہ ہو۔

(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکامِ اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔

(د) وہ سمجھدار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔

(ح) اس نے قیامِ پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔ مگر شرط یہ ہے کہ پیرا

(د) اور (ہ) میں مصرحہ نا اہلیتوں کا کسی ایسے شخص پر اطلاق نہیں ہو گا جو غیر مسلم ہو، لیکن ایسا شخص اچھی شہرت کا حامل ہو گا اور

(ط) وہ ایسی دیگر اہلیتوں کا حامل نہ ہو جو مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) کے ایکٹ کے ذریعے مقرر کی گئی ہوں۰

۶۳۔ (۱) کوئی شخص مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے اور رکن رہنے کے لیے نا اہل ہو گا اگر

(الف) وہ فاتر العقل ہو اور کسی مجاز عدالت کی طرف سے ایسا قرار دیا گیا ہو، یا

(ب) وہ غیر برات یافتہ دیوالیہ ہو، یا

(ج) وہ پاکستان کا شہری نہ رہے اور کسی بیرونی ریاست کی شہریت حاصل کرے، یا

(د) وہ پاکستان کی ملازمت میں کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو ما سوائے ایسے عہدے کے جسے قانون کے ذریعے ایسا عہدہ قرار دیا گیا ہو جس پر فائز شخص نا اہل نہیں ہوتا، یا

(ہ) اگر وہ کسی ایسی آئینی ہیئت کی ملازمت میں ہو جو حکومت کی ملکیت یا اس کے زیرنگرانی ہو یا جس میں حکومت تعدیلی حصہ یا مفاد رکھتی ہو، یا

(و) شہریت پاکستان ایکٹ ۱۹۵۱ء (نمبر ۲ بابت ۱۹۵۱ء) کی دفعہ ۱۴ ب کی وجہ سے پاکستان کا شہری ہوتے ہوئے اسے فی الوقت آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کا نااہل قرار دے دیا گیا ہو، یا

(ز) وہ کسی ایسی رائے کی تشہیر کر رہا ہو یا کسی ایسے طریقے پر عمل کر رہا ہو جو نظریہ پاکستان یا پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی، سالمیت یا سلامتی یا اخلاقیات، یا امن عامہ کے قیام یا پاکستان کی عدلیہ کی دیانت داری یا آزادی کے لیے مضر ہو۔ یا جو پاکستان کی مسلح افواج یا عدلیہ کو بدنام کرے یا اس کی تضحیک کا باعث ہو، یا

(ح) اسے کسی ایسے جرم کے لیے سزا یابی پر جس میں چیف الیکشن کمشنر کی رائے میں اخلاقی پستی ملوث ہو، کم از کم دو سال کے لیے قید کی سزا دی گئی ہو، تاوقتیکہ اس کی رہائی کو پانچ سال کی مدت نہ گزر چکی ہو، یا

(ط) اسے پاکستان کی ملازمت سے غلط روی کی بنا پر برطرف کر دیا گیا ہو، تاوقتیکہ اس کی برطرفی کو پانچ سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا

(ی) اسے پاکستان کی ملازمت سے غلط روی کی بنا پر ہٹا دیا گیا ہو یا جبری طور پر فارغ خدمت ہونے کو تین سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا

(ک) وہ پاکستان کی کسی آئینی ہیئت یا کسی ایسی ہیئت کو جو حکومت کی ملکیت یا اس کے زیرنگرانی ہو یا جس میں حکومت تعدیلی حصہ یا مفاد رکھتی ہو، ملازمت میں رہ چکا ہو، تاوقتیکہ اس کی مذکورہ ملازمت ختم ہوئے دو سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا

(ل) اسے فی الوقت نافذ العمل کسی دیگر قانون کے تحت کسی بدعنوانی یا غیر قانونی حرکت کا مجرم قرار دیا جائے، تاوقتیکہ اس تاریخ کو جس پر مذکورہ حکم مؤثر ہوا ہو پانچ سال کا عرصہ نہ گزر گیا ہو، یا

(م) وہ سیاسی جماعتوں کے ایکٹ ۱۹۶۲ء (نمبر ۳ بابت ۱۹۶۲ء) کی دفعہ ۷ کے تحت سزا یاب ہو چکا ہو، تاوقتیکہ مذکورہ سزا یابی کو پانچ سال کی مدت نہ گزر گئی ہو، یا

(ن) وہ، خواہ بذاتِ خود یا اس کے مفاد میں یا اس کے فائدے کے لیے یا اس کے حساب میں یا کسی ہندو غیر منقسم خاندان کے رکن کے طور پر کسی شخص یا اشخاص کی جماعت کے ذریعے کسی معاہدے میں کوئی حصہ یا مفاد رکھتا ہو، جو انجمن امداد باہمی اور حکومت کے درمیان کوئی معاہدہ نہ ہو، جو  حکومت کو مال فراہم کرنے کے لیے اس کے ساتھ کیے ہوئے کسی معاہدے کی تکمیل یا خدمات کی انجام دہی کے لیے ہو۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس پیرے کے تحت نا اہلیت کا اطلاق کسی شخص پر نہیں ہو گا

(اول) جبکہ معاہدے میں حصہ یا مفاد اس کو وراثت یا جانشینی کے ذریعے یا موصی لہ وصی یا مہتمم ترکہ کے طور پر منتقل ہوا ہو، جب تک اس کو اس کے اس طور منتقل ہونے کے بعد چھ ماہ کا عرصہ نہ گزر جائے۔

(دوم) جبکہ معاہدہ کمپنیات آرڈیننس ۱۹۸۴ء (نمبر ۴۷ مجریہ ۱۹۸۴ء) میں تعریف کردہ کسی ایسی کمپنی عامہ نے کیا ہو یا اس کی طرف سے کیا گیا ہو جس کا وہ حصہ دار ہو، لیکن کمپنی کے تحت کسی منفعت بخش عہدے پر فائز مختار انتظامی نہ ہو، یا

(سوم) جبکہ وہ ایک غیر منقسم ہندو خاندان کا فرد ہو اور اس معاہدے میں، جو خاندان کے کسی فرد نے علیحدہ کاروبار کے دوران کیا ہو، کوئی حصہ یا مفاد نہ رکھتا ہو۔ (تشریح) اس آرٹیکل میں ’’مال‘‘ میں زرعی پیداوار یا جنس جو اس نے کاشت یا پیدا کی ہو یا ایسا مال شامل نہیں ہے جسے فراہم کرنا اس پر حکومت کی ہدایت یا فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت فرض یا وہ اس کے لیے پابند ہو۔

(س) وہ پاکستان کی ملازمت میں حسب ذیل عہدوں کے علاوہ کسی منفعت بخش عہدے پر فائز ہو، یعنی

(اول) کسی عہدہ جو ایسا کل وقتی عہدہ نہ ہو جس کا معاوضہ یا و تنخواہ کے ذریعے یا فیس کے ذریعے ملتا ہو

(دوم) نمبردار کا عہدہ خواہ اس نام سے یا کسی دوسرے نام سے موسوم ہو

(چہارم) کوہ عہدہ جس پر فائز شخص مذکورہ عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے کسی فوج کی تشکیل یا قیام کا حکم وضع کرنے والے کسی قانون کے تحت فوجی تربیت یا فوجی ملازمت کے لیے طلب کیے جانے کا مستوجب ہو۔ یا

(ع) اسے فی الوقت نافذ العمل کسی قانون کے تحت مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) یا کسی صوبائی اسمبلی کے رکن کے طور پر منتخب ہونے یا چنے جانے کے لیے نااہل قرار دے دیا گیا ہو۔

۶۳۔ (۲) اگر کوئی سوال اٹھے کہ آیا مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) کا کوئی رکن، رکن رہنے کے لیے نااہل ہو گیا ہے تو سپیکر یا، جیسی بھی صورت ہو، چیئرمین اس سوال کو فیصلہ کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا اور چیف الیکشن کمشنر کی یہ رائے ہو کہ رکن نا اہل ہو گیا ہے تو وہ رکن نہیں رہے گا اور اس کی نشست خالی ہو جائے گی۔

۱۱۳۔ آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ میں مندرج قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے اہلیت اور نا اہلیت کا کسی صوبائی اسمبلی کے لیے بھی اسی طرح اطلاق ہو گا گویا کہ اس میں ’’قومی اسمبلی‘‘ کا حوالہ ’’صوبائی اسمبلی‘‘ کا حوالہ ہو۔

(۱۶) رکنیت کی اہلیت اور عدمِ اہلیت کی یہ شرائط ’’ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے (انتخابی) حکم مجریہ ۱۹۷۷ء‘‘ کے آرٹیکل ۱۰ اور ۱۱، ’’۱۹۷۷ء کے صدارتی حکم نمبر ۵‘‘ اور ’’عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ ۱۹۷۶ء‘‘ کی دفعہ ۹۹ میں بھی دہرائی گئی ہیں۔

(۱۷) درخواست گزاروں کی طرف سے آئین کے آرٹیکل ۶۳ کے ان ابتدائی الفاظ پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ ’’کوئی شخص مجلس شورٰی (پارلیمنٹ) کا رکن منتخب ہونے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہو گا اگر (الف) ۔۔۔ (ب) ۔۔۔ (ج) ۔۔۔

(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکامِ اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔

(د) وہ سمجھدار، پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ ہو۔

(ح) اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہو یا نظریۂ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔

(۱۸) یہ دلیل دی گئی کہ رکن شورٰی میں یہ صفات لازماً موجود ہونی چاہئیں۔ کسی امیدوار کی طرف سے اپنے آپ کو ان صفات کا (اعلٰی یا ادنیٰ درجہ میں) حامل ثابت کرنے میں ناکامی، پہلے ہی قدم پر اسے انتخابی عمل سے الگ کر دے گی اور یہ سوال ہی ختم ہو جائے گا کہ وہ کسی انتخابی نشست کے لیے مقابلہ کرنے کا اہل ہے۔

(۱۹) دلائل کا اصل زور اس پر تھا کہ ’’عوامی نمائندگی کا قانون‘‘ اور ’’ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کا (انتخابی) حکم‘‘ کسی بھی مرحلے پر کوئی ایسا فورم فراہم کرنے میں ناکام ہیں جس کے ذریعے آئین کے آرٹیکل ۶۲،۶۳ اور ۱۱۳ میں دی گئی ہدایات کے تقاضوں کو مؤثر طور پر پورا کیا جا سکے۔ اس ناکامی نے ان آرٹیکلز کو عملاً بے جان بنا دیا ہے اور ناپسندیدہ افراد کے لیے شورٰی میں پہنچنے کا راستہ مہیا کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایسے افراد کا اجتماع وجود میں آتا ہے جو سورہ نساء کی آیت ۵۸ کے بالکل برعکس ہوتے ہیں۔ آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے تقاضوں کو پورا کیے بغیر ’’دارالندوہ‘‘ (مشرکین مکہ کی مجلس مشاورت) جیسی  کوئی چیز تو بن سکتی ہے مگر ’’دار ارقم‘‘ (نبی اکرمؐ اور صحابہؓ کی مشاورت گاہ) جیسی شورٰی جس کا تصور اسلام پیش کرتا ہے وجود میں نہیں آ سکتی۔ شریعت کی مطلوبہ صفات سے، جنہیں بڑی حد تک آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ میں یکجا کر دیا گیا ہے، محروم ارکان جو زندگی کے کسی بھی نظریے کے حامل اور کسی بھی دوسرے نظام کی قدروں کے مداح ہو سکتے ہیں، یقیناً شریعت کے مقرر کردہ معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔ اس پورے قانون کو شروع سے آخر تک پڑھ جائیے، کہیں بھی کوئی ایسی گنجائش نہیں ملے گی جس سے امیدواروں کی چھان پھٹک ممکن ہو سکے۔

(۲۰) دورانِ بحث کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کو عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعہ ۱۴ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تب بھی صورتِ حال میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ درحقیقت ان دونوں قوانین کا موضوعاتی مواد ہی ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتا۔

(۲۱) درخواست گزاروں کی طرف اس دعوے کے ثبوت کے طور پر کہ اعتماد صرف ان لوگوں پر ظاہر کیا جانا چاہیئے جو اس پر پورا اترنے کی اہلیت رکھتے ہوں، اور یہ کہ اقتدار کے بھوکے افراد کو مسترد کر دینا چاہیئے اور صرف ان لوگوں کو چنا جانا چاہیئے جو منصب کے اہل ہوں، مندرجہ ذیل قرآنی آیات اور احادیث نبویؐ پیش کی گئیں:

’’خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے سپرد کر دیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو، خدا تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے، بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘ (النساء ۵۸)

’’کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں، بے علموں کے برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘ (الزمر ۹)

’’جس سے مشورہ لیا  جائے اسے امانت دار ہونا چاہیئے۔‘‘ (سنن ابی داؤد ۔ باب فی المشورہ ج ۲ ص ۳۳۳ ۔ بیروت)

(۲۲) نا اہل لوگوں کو کوئی انتخابی عہدہ سپرد کر دینے کے جو نتائج ہو سکتے ہیں وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں:

’’حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں (ایک دن) نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے اس حالت میں ایک اعرابی آپؐ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا، قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا جب کام نا اہل لوگوں کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔‘‘ (بخاری شریف ۔ جلد اول ص ۱۱۰)

(۲۳) عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعہ ۱۴ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے استدلال کیا گیا کہ یہ قانون اگر کچھ کرتا ہے ہے تو وہ صرف آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے نفاذ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ امیدوار کی اہلیت کے تعین کے سلسلے میں ریٹرننگ افسر کی مدد کے لیے لوگوں کو مدعو کرنے کے لیے بجائے اس آرٹیکل کو ’’اسکروٹنی‘‘ کا عنوان دے کر انہیں ’’شہادتِ حق‘‘ کی ذمہ داری کو ادا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اس چھان بین کے دوران ہونے والی کارروائی کی نوعیت قطعی سرسری ہوتی ہے۔ یہ صرف دفعہ ۱۳ کے تحت زر ضمانت کے سوال اور دفعہ ۱۳ میں دی گئی چند دوسری غیر اہم دفعات تک محدود ہے۔ دفعہ ۱۴ ذیل میں نقل کی جا رہی ہے:

’’۱۴۔ اسکروٹنی ۔۔۔۔

(۱) امیدوار، اس کے الیکشن ایجنٹس، مجوزین اور مویدین اور امیدواروں کی طرف سے اس سلسلے میں اجازت یافتہ ایک اور شخص سمیت یہ تمام لوگ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران حاضر رہ سکتے ہیں اور ریٹرننگ افسر انہیں ان تمام کاغذات نامزدگی کی چھان بین کے لیے مناسب موقع دے سکتا ہے جو دفعہ ۱۳ کے تحت اس کے سپرد کیے گئے ہوں۔

(۲) ان افراد کی موجودگی میں جنہیں ذیلی دفعہ (۱) کے تحت چھان بین کے دوران حاضر رہنے کی اجازت ہے، ریٹرننگ افسر کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال اور کسی نامزدگی پر ایسے کسی شخص کی طرف سے ہونے والے اعتراض کا فیصلہ کرے گا۔

(۳) ریٹرننگ افسر خود اپنی تحریک یا کسی کی نشاندہی پر اس سرسری تفتیش کو جس طرح مناسب سمجھے گا انجام دے سکے گا اور کاغذات نامزدگی کو مسترد کر سکے گا اگر وہ مطمئن ہو کہ

(الف) امیدوار بحیثیت رکن منتخب ہونے کا اہل نہیں ہے۔

(ب) مجوز یا موید کاغذ نامزدگی پر دستخط کرنے کی مطلوبہ شرائط پوری نہیں کرتے (اضافہ بذریعہ حکم ۱۴ مجریہ ۱۹۸۸ء)۔

(ج) دفعہ ۱۲ یا دفعہ ۱۳ کی کوئی شرط پوری نہیں کی گئی ہے، یا

(د) مجوز یا موید کے دستخط اصلی نہیں ہیں (اضافہ بذریعہ حکم ۱۴ مجریہ ۱۹۸۸ء)

۔۔۔ تاہم ۔۔۔

 (۱) ایک کاغذ نامزدگی مسترد کر دیے جانے سے کسی امیدوار کی دوسرے کاغذ نامزدگی کی رو سے جائز قرار پانے والی نامزدگی مسترد نہیں ہو گی۔

(۲) ریٹرننگ افسر کسی کاغذ نامزدگی کو کسی ایسے نقص کے سبب جو بنیادی نوعیت کا نہ ہو، مسترد نہیں کرے گا۔ نام، انتخابی فہرست کے نمبر شمار اور امیدوار (یا مجوز یا موید) کے دوسرے کوائف سمیت ایسے نقائص میں چھوٹ دے سکے گا جو بعد میں درست کیے جا سکتے ہوں (حکم ۱۴، ۱۹۸۸ء)۔

(۳) ریٹرننگ افسر انتخابی فہرست کے مندرجات کے درست اور جائز ہونے کی تحقیق کرے گا لیکن کاغذ نامزدگی کو، انتخابی فہرست میں درج کسی ایسی بات کی بنیاد پر جس میں واضح غلطی یا نقص ہو، مسترد نہیں کرے گا۔

(۴) ریٹرننگ افسر ہر کاغذ نامزدگی پر منظور یا مسترد کرنے سے متعلق اپنا فیصلہ درج کرے گا اور مسترد کرنے کی صورت میں مختصرًا اس کا سبب بھی تحریر کرے گا۔

(۵) ذیلی دفعہ ۴ کے تحت ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف کمشنر کے سامنے جو ہائیکورٹ کا چیف جسٹس ہو گا، اپیل کی جا سکے گی۔ کمشنر کے مشورے سے نامزد کردہ ہائیکورٹ کے جج کے سامنے بھی یہ اپیل کی جا سکے گی (بحوالہ حکم ۱۴، ۱۹۸۸ء)۔ اور کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ وقت کے اندر سرسری سماعت کے بعد فیصلہ کر کے حکم جاری کر دیا جائے گا جو حتمی ہو گا۔

(۶) ایسی اپیل جو ذیلی دفعہ میں بیان کردہ مدت کے دوران نہ نمٹے، مسترد شدہ سمجھی جائے گی۔

(۷) ذیلی دفعہ ۵ کے تحت کسی اپیل کی سماعت کے لیے ریڈیو، ٹیلی ویژن یا اخبارات کے ذریعے کیے جانے والا دن اور وقت کا اعلان، دن اور وقت کے تعین کی اطلاع کے لیے کافی تصور کیا جائے گا۔‘‘

(۲۴) جانچ پڑتال کے مرحلے پر کسی مسلمان کو حاضر ہونے اور شہادت دینے سے روکنا، دراصل اسے ایسے تمام امیدواروں کے بارے میں آزادانہ اظہار رائے کے حق سے محروم کرنا ہے جو پانچ سال کی مدت کے لیے اس کے حلقہ انتخاب کی نمائندگی کے لیے منتخب کیے جا سکتے ہیں۔ کسی مسلمان کے لیے ایسی چھان بین کے دروازے بند کر دینے کا مطلب قرآن اور سنت کے درج ذیل احکام کی خلاف ورزی ہو گا۔

’’اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔‘‘ (المائدہ ۸)

’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو، خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہشِ نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچ دار شہادت دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو جان رکھو کہ خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘ (النساء ۱۳۵)

’’شہادت کو مت چھپانا، جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گناہگار ہو گا اور خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘ (البقرہ ۲۸۳)

(۲۵) ہم یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے کہ عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعہ ۱۴ جو امیدواروں کی اہلیت کو با معنی طور پر جانچنے پرکھنے کے لیے کوئی مناسب بندوبست اور سہولت فراہم نہیں کرتی اور انتخاب کرنے والے یعنی ووٹر کو چھان بین کے اس پورے عمل سے باہر رکھتی ہے، قرآن پاک اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔

(۲۶) آخر میں اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ قانون عام انتخابات کے مرحلے میں، جہاں علاقے کے ووٹروں کے سامنے (جن کی تعداد دو لاکھ یا اس سے زائد ہوتی ہے) صرف یہ چھوٹا سا سوال ہوتا ہے کہ متعدد امیدواروں کے مجموعے میں سے کون کامیاب ہونے کی صورت میں ان کے لیے مفید ثابت ہو گا یا کوئی بھی نہیں ہو گا، نااہل لوگوں کے اوپر آنے کا راستہ صاف کرتا ہے۔ ووٹر جس معاشرے سے تعلق رکھتا ہے اس کے سماجی اور تعلیمی حالات کے پیش نظر اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی اہلیت صرف یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ۱۸ سال یا اس سے زائد عرصہ سے زندگی بسر کر رہا ہے، اپنی ذاتی پسند یا ناپسند کے سوا کسی اور چیز کو اپنے فیصلے کی بنیاد بنائے گا۔ یا اس کی رائے کو متاثر کرنے کے لیے دولت اور پروپیگنڈے کے بل پر جو انتخابی مہم چلائی جاتی ہے اس کی پیدا کردہ کشمکش اور دباؤ کے باوجود وہ کسی دیانت دار امیدوار کا انتخاب کر سکے گا۔ مزید یہ کہ ووٹر کے پاس نہ اتنا وقت ہوتا ہے نہ اسے ایسے ذرائع حاصل ہوتے ہیں جن سے وہ کسی نشست کے لیے مقابلہ کرنے والے تمام امیدواروں کی اہلیت کے بارے میں ضروری متعلقہ معلومات جمع کر سکے۔ یہ کہنا قطعی غیر معقول ہو گا کہ بالغ رائے دہی کے نظام میں ایک ایسے بیمار معاشرے سے تعلق رکھنے والا نوجوان، جہاں مطالعہ کا شوق رکھنے والے خال خال پائے جاتے ہیں اور خواندگی کا تناسب بمشکل ۲۵ فیصد ہے، کسی ایسے انتہائی مہارت کے حامل فورم کا متبادل ہو سکتا ہے جس کا مقصد شورٰی جیسے ادارے کی رکنیت کے امیدواروں کی صفات اور صلاحیتوں سے متعلق پیچیدہ سوالات کی مثبت شواہد اور ثبوت کی بنیاد پر تحقیق کرنا ہو۔

(۲۷) اس سلسلے میں حضرت عمرؓ کا طریقہ، جس پر انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے عمل کیا، پیش کیا گیا۔ اس کی تفصیلات یوں بیان کی گئیں کہ اپنی وفات سے کچھ پہلے خلیفہ نے ایسے چھ اصحابؓ کی ایک فہرست بنائی جو اپنی خدا ترسی اور دیانت و امانت کے حوالے سے انتہائی اچھی شہرت اور امارت کے لیے متعین بنیادی اوصاف کے پوری طرح حامل تھے، خلیفہ کا انتخاب اس فہرست میں سے ہونا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ہدایت کی کہ ان ناموں پر عام لوگوں کے سامنے بات کی جائے اور رائے عامہ کا رجحان معلوم کیا جائے۔ اس طرح سے وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ ان چھ مجوزہ اصحاب میں، جن میں سے کوئی بھی اس منصب کے حوالے سے اپنے اندر کوئی کمی نہیں رکھتا تھا، کون عام لوگوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے؟ اس واقعے کو قدرے تفصیل سے نقل کر دینا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔

حضرت عمرؓ نے اپنے بعد چھ آدمیوں کو خلیفہ ہونے کے لیے نامزد کیا جو یہ تھے: حضرت عثمان بن عفان، حضرت علی بن ابی طالب، حضرت طلحہ بن عبید اللہ، حضرت زبیر بن العوام، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم۔ اور فرمایا ان چھ آدمیوں میں سے ایک کو خلیفہ کے لیے منتخب کیا جائے۔ حضرت عمرؓ کی وفات کے بعد ان چھ آدمیوں میں مشورے ہوتے رہے کہ ان میں سے ایک کو متفقہ طور پر نامزد کر دیا جائے اور باقی اس پر بیعت کر لیں۔ حضرت زبیر بن عوامؓ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت طلحہ بن عبید اللہؓ نے اپنے نام اپنی خوشی سے واپس لے لیے۔ پھر حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، سرداروں کی رائے، مسلمانوں اور ان کے سرداروں کی رائے کو متفرق اور مجتمع طور پر ایک دوکہ اور اجتماعی رنگ میں پوشیدہ اور اعلانیہ طور پر اکٹھا کرنے لگے۔ حتٰی کہ آپ پردہ نشین عورتوں کے پردہ میں ان کے پاس گئے اور مدرسے کے لڑکوں اور مدینہ کی طرف آنے والے سواروں اور بدوؤں سے بھی تین دن و رات کی مدت میں دریافت کیا۔ مگر دو اشخاص نے بھی حضرت عثمانؓ بن عفان کے تقدم میں اختلاف نہ کیا۔

فجر کی نماز کے وقت حضرت عبد الرحمٰنؓ نے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو اپنے پاس بلوایا اور دونوں کے ساتھ مسجد کی طرف چلے گئے، اور حضرت عبد الرحمٰنؓ نے وہ عمامہ پہنا ہوا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنایا تھا اور تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘ کا اعلان کر دیا گیا اور مسجد لوگوں سے بھر گئی حتٰی کہ لوگوں کے لیے جگہ تنگ ہو گئی اور لوگ ایک دوسرے سے پیوستہ ہو گئے اور حضرت عثمانؓ کو لوگوں کے آخر میں بیٹھنے کو جگہ ملی۔ اس کے بعد حضرت عبد الرحمٰنؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر چلے اور طویل قیام کیا اور طویل دعا کی جسے لوگوں نے نہیں سنا۔ پھر آپ نے فرمایا، اے لوگو! میں نے پوشیدہ اور اعلانیہ تمہاری آرزو پوچھی ہے اور میں نے تم کو ان آدمیوں کے برابر کسی کو قرار دیتے نہیں دیکھا۔ یا حضرت علیؓ ہوں یا حضرت عثمانؓ ہوں۔ اے علی! میرے پاس آؤ۔ حضرت عبد الرحمٰنؓ نے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر فرمایا کہ آپ کتاب اللہ اور اس کے نبی کی سنت اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے فعل پر بیعت کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، نہیں، بلکہ میں اپنی جہد و طاقت پر بیعت کرتا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا اے عثمان! میرے پاس آؤ۔ اور ان کا ہاتھ پکڑ کر وہی سوال کیا اور حضرت عثمانؓ نے جواب دیا، ہاں، اس کے بعد انہوں نے حضرت عثمانؓ کی خلافت کا اعلان کر دیا۔ اور حضرت علیؓ سمیت سب نے حضرت عثمانؓ پر بیعت کر لی۔ (خلاصہ تاریخ ابن کثیر ۔ اردو ترجمہ ج ۷ ص ۲۸۹ ۔ مطبوعہ کراچی)

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ ؓ نے اس منصب کے لیے بنیادی اور اساسی صلاحیتوں اور اوصاف کی جانچ پڑتال کا معاملہ عام ووٹروں کی صوابدید پر نہیں چھوڑ دیا تھا۔

(۲۸) مذکورہ بالا قرآنی احکام کی روح، آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ اور اس کے ساتھ خود عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعہ ۹۹ میں بڑی حد تک سمو دی گئی ہے۔

(۲۹) یہ بات بڑے پرزور انداز میں کہی گئی کہ آئین میں قرآنی احکام کی شمولیت، لیکن ان کے نفاذ کے لیے بنائے جانے والے قانون میں ان قرآنی احکام اور آئینی تقاضوں سے صرفِ نظر، امت اور شریعت کے ساتھ ایک ظالمانہ مذاق ہے۔ شورٰی کی تشکیل کا بنیادی فلسفہ امت میں سے بہترین اور سب سے زیادہ متقی شخص کا انتخاب ہے جو اولوالامر کی حیثیت سے کام کر سکے، یا اولوالامر کا مشیر بن سکے۔ لفظ شورٰی کے لغوی معنی شہد کے چھتے سے شہد نکالنے کے ہیں۔ بھلا شہد کے چھتے کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کیڑوں مکوڑوں کے حوالے کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ بنیادی اہمیت کی بات یہ ہے کہ جانچ پڑتال کے مرحلے میں ارکانِ شورٰی کے بارے میں پوری تحقیق کی جاتی ہے اور صرف وہ لوگ ایوانِ مشاورت میں لائے جاتے ہیں جو اس منصب کے لیے پوری طرح موزوں پائے گئے ہوں۔ شورٰی کو ایسے لائق اور باصلاحیت افراد کا مرکز ہونا چاہیئے جن میں سے ہر ایک کو امت کے دو تین لاکھ افراد کی جانب سے قابلِ اعتماد ہونے کی سند مل چکی ہو۔

(۳۰) چونکہ آئین میں پہلے ہی شورٰی کے امیدواروں کی اہلیت کی یہ شرائط موجود ہیں اور ان کے نفاذ کے لیے طریق کار کے تعین کا معاملہ مقننہ پر چھوڑ دیا گیا ہے، لہٰذا آئین کے تقاضوں کی مؤثر طور پر تکمیل کے لیے متعلقہ قانون میں اس طرح ترمیم ہونی چاہیئے کہ یہ با معنی ہو سکے۔ ہر امیدوار کی اہلیت کو جانچنے کی خاطر پہلے کھلی عدالت میں تحقیقات کے لیے اعلٰی عدالتوں کے سابق یا برسرکار ججوں، یونیورسٹیوں کے ماہرینِ تعلیم اور اسلامی اسکالروں سمیت ممتاز افراد اور معززین پر مشتمل اسکریننگ کمیٹی یا ٹربیونل کی تشکیل عمل میں آنی چاہیئے، اور جو کوئی بھی شہادت پیش کر کے ٹربیونل یا اسکریننگ کمیٹی کی مدد کرنا چاہے اسے ایسا کرنے سے روکا نہیں جانا چاہیئے۔

(۳۱) درخواست گزاروں کا دوسرا حملہ ’’عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ ۱۹۷۶ء‘‘ کی دفعہ ۵۲ پر تھا جو اس طرح ہے:

’’۵۲۔ الیکشن پٹیشن ۔۔۔

(۱) کوئی الیکشن اس وقت تک متنازعہ نہیں کہلائے گا جب تک اس کے بارے میں کسی امیدوار کی طرف سے پٹیشن داخل نہ کی جائے۔

(۲) سرکاری گزٹ میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کے نام کی اشاعت کے بعد ساٹھ دن کے اندر اندر الیکشن پٹیشن کمشنر کو درخواست کے مصارف کے لیے ضمانت کے طور پر نیشنل بینک کی کسی بھی شاخ یا ٹریژری میں متعین کھاتے کے تحت کمشنر کے نام ایک ہزار روپیہ جمع کرانے کی رسید کے ساتھ پیش کر دینی چاہیئے۔‘‘

(۳۲) کہا گیا ہے کہ یہاں پھر اسلامی فکر کی اصل روح کو قتل کر کے مغرب کے سیاسی افکار کے تفنس کو ابھارا گیا ہے۔ منتخب امیدوار کو ووٹروں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، ووٹر اس پر اپنے اعتماد کا اظہار کر چکے ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے امین اور معتمد ہونے کی حیثیت سے اسے ہر ایسے شخص کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیئے جس نے اس پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہو۔ لیکن یہ دفعہ اسے صرف اپنے حریف ہی کے مقابل رکھتی ہے کیونکہ صرف وہی اس کے خلاف انتخابی عذرداری داخل کر سکتا ہے۔ آخر ان ووٹروں کے لیے انتخابی نتائج کے تعلق سے کسی کردار کا انکار کیوں کیا جاتا ہے جن کا معتمد ہونے کا یہ امیدوار دعوٰی کرتا ہے اور انہیں اس کے خلاف آواز اٹھانے کے حق سے کیوں محروم کر دیا گیا ہے؟

(۳۳) شروع سے آخر تک اس عمل سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ جیسے یہ دو سیاسی جانوروں کی لڑائی ہو جس میں ووٹروں کے پورے مجمع کا کام محض تماشائی بنے رہنا اور مقابلے کے خاتمے پر صرف اس بات کا اعلان کرنا ہو کہ جیتنے والا کون ہے اور ہارنے والا کون۔ یہ صورت حال اس اصل مقصد ہی کو ختم کر دیتی ہے جس کی خاطر یہ پوری مشق کی جاتی ہے۔ اس طرح امانت اور امین کا معاملہ دو افراد کے درمیان ذاتی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

(۳۴) استدلال کیا گیا کہ سامنے آ کر بددیانت اور ناپسندیدہ امیدوار کو، جو ممکن ہے ناجائز ذرائع اختیار کر کے کامیاب ہو گیا ہو، بے نقاب کرنا ہر ایک کا حق ہونا چاہیئے۔ شاطر اور بارسوخ فاتح کے لیے شکست خوردہ امیدوار کو عدالت جانے سے روکنا اور یوں حلقہ انتخاب کے تین لاکھ ووٹروں کے سر پر سوار رہنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ آخر ایک ایسے شخص کو ان ووٹروں پر مسلط رہنے کی اجازت کیوں دی جائے جو اسے پسند نہیں کرتے۔

(۳۵) اس لیے ضروری ہے کہ ’’عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ ۱۹۷۶ء‘‘ کی دفعہ ۵۲ میں اس طرح ترمیم کی جائے کہ تمام ووٹروں کو (اس امیدوار کے خلاف عدالتی کارروائی کا) بھرپور موقع مل سکے جو ان کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے ایوان میں جا پہنچا ہو۔ کوئی امیدوار الیکشن پر اعتراض کرے یا نہ کرے، وہ انتخابی عذرداری داخل کرے یا نہ کرے، اس بات کو یقینی بنانا بہرحال ووٹر کا حق ہے کہ اس کی نمائندگی ایک دیانتدار آدمی کی جانب سے کی جا رہی ہے جس نے انتخاب بوگس ووٹنگ، ناجائز طریقوں یا اپنے حریفوں کے خلاف سازش کر کے نہیں بلکہ جائز ذرائع سے جیتا ہے۔ ہر ووٹر کو یہ حق مہیا کیے بغیر یہ دفعہ قرآن اور سنت کے خلاف رہے گی۔

(۳۶) اس دلیل کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ارکانِ شورٰی کو، جنہیں ان ووٹروں کا امین ہونے کی حیثیت حاصل ہے جنہوں نے انہیں اوپر بھیجا ہے، مستقل طور پر اپنے رائے دہندگان کی نگرانی میں رہنا اور اپنے ہر اقدام کے لیے ان کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیئے۔ کسی بھی وقت جب کوئی رکن کوئی غلط قدم اٹھائے تو ہر ووٹر کو اسے کھینچ کر اس سے وضاحت طلب کرنے کے قابل ہونا چاہیئے۔ یہ اختیار غیر محتاط اور کھلنڈرے ارکانِ شورٰی کے لیے ایک رکاوٹ اور سب کے لیے ایک انتباہ ہو گا کہ انہیں ہمیشہ ہر قدم ناپ تول کر اٹھانا ہے۔ اس دلیل کی تائید میں خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ کا پہلا خطبہ اور حضرت عمرؓ کے واقعات پیش کیے گئے۔ ان دونوں کا یہاں نقل کر دینا فوری حوالے کے لیے سودمند ہو گا۔

حضرت ابوبکرؓ نے خلیفہ مقرر ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں فرمایا:

’’اے لوگو! میں تمہارے اوپر حکمران مقرر کیا گیا ہوں، میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں غلطی کروں تو تم اس کو درست کر دو، اور اگر میں اچھا کروں تو میری مدد کرو۔ سچائی امانت ہے، جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں سے ضعیف میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ ان شاء اللہ میں اس کا حق دلوا دوں۔ تم میں جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول نہ کر لوں۔ کوئی قوم اللہ کے راستے میں جہاد چھوڑ دیتی ہے تو اللہ ان پر فقر مسلط کر دیتا ہے۔ برائیاں پھیل جاتی ہیں اور مصیبتیں آجاتی ہیں۔ میری اطاعت اس وقت تک کرو جب تک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کروں۔ جب میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت نہیں ہے۔ اب نماز کے لیے کھڑے ہو، اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔‘‘ (مصنف عبد الرزاق ج ۱۱ ص ۳۳۶)

حضرت عمرؓ کی خلافت کے چند واقعات:

(۱) ایک شخص نے آپ سے بھرے مجمع میں کہا کہ عمرؓ خدا سے ڈرو۔ وہ بار بار اس جملہ کو دہرائے چلا گیا تو مجمع میں سے ایک شخص نے اس سے کہا کہ اب بس بھی کرو تم بہت کہہ چکے۔ حضرت عمرؓ نے اسے روکا اور کہا کہ نہیں اسے کہنے دو، اگر یہ ایسی بات نہ کہیں تو سمجھ لو کہ ان میں خیر کا ذرہ تک نہیں رہا، اور اگر ہم اسے نہ سنیں تو سمجھ لو کہ ہم میں خیر کی رمق تک نہیں رہی۔

(۲) ایک دن آپ نے برسر منبر کہا کہ صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم کیا کرو گے؟ ایک شخص کھڑا ہو گیا، تلوار زمام سے نکالی اور کہا کہ ہم تمہارا سر اڑا دیں گے۔ آپ نے اسے آزمانے کے لیے کہا کہ کیا تو میری شان میں یہ بات کہتا ہے؟ اس نے نہایت سکون سے کہا کہ ہاں تمہاری شان میں۔ آپ نے فرمایا کہ الحمد للہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر عمر بھی کج رو ہو جائے تو وہ اس کا سر اڑا دیں۔

اور یہ سر اڑا دینے کی بات تو خود آپ ہی نے انہیں بتائی تھی۔ ایک دفعہ آپ نے کہا کہ اگر خلیفہ ٹھیک ٹھیک چلے تو لوگوں کو چاہیئے کہ اس کی اطاعت کریں لیکن اگر وہ غلط راستہ اختیار کرے تو اسے قتل کر دینا چاہیئے۔ حضرت طلحہؓ پاس بیٹھے تھے انہوں نے کہا کہ آپ نے یہ کیوں نہ کہا کہ اگر خلیفہ ٹھیک نہ چلے تو اسے معزول کر دینا چاہیئے۔ آپ نے فرمایا، نہیں، قتل کر دینا، بعد میں آنے والوں کے لیے زیادہ عبرتناک ہو گا۔

(۳) یمنی چادریں آئیں تو آپ نے سب کو ایک ایک چادر دے دی۔ آپ منبر پر تشریف لائے اور حسبِ معمول مجمع سے کہا کہ ’’اسمعوا واطیعوا‘‘ سنو جو کچھ میں کہتا ہوں اور پھر اس کی اطاعت کرو۔ مجمع سے آواز آئی، ہم نہ تمہاری سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ کہنے والے حضرت سلمان فارسیؓ تھے۔ سربراہ مملکت منبر سے نیچے اتر آئے اور کہا کہ ابو عبد اللہ کیا بات ہے؟ کہا عمر! تم نے دنیا داری برتی ہے۔ تم نے ایک ایک چادر تقسیم کی تھی اور خود دو چادریں پہن کر آئے ہو۔ فرمایا، عبد اللہ بن عمر کہاں ہیں؟ حاضر ہوں امیر المومنین! فرمایا، بتاؤ ان میں سے ایک چادر کس کی ہے؟ عرض کیا، میری ہے امیر المومنین! آپ نے حضرت سلمانؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا ابو عبد اللہ! تم نے جلدی کی جو بات پوچھے بغیر احتجاج کر دیا، میں نے اپنے میلے کپڑے دھوئے تھے، باہر آنے کے لیے ایک چادر کافی نہیں تھی اس لیے میں نے (اپنے بیٹے) عبد اللہ سے چادر مانگ لی تھی۔ حضرت سلمانؓ نے کہا، ہاں اب کہیئے یا امیر المومنین! ہم سنیں گے بھی اور اطاعت بھی کریں گے۔ آپ خود اپنا یہ قول کیسے بھول سکتے تھے؟

(۳۷) ہماری رائے میں یہ انتہائی مناسب اور پسندیدہ بات ہے کہ اسکریننگ کمیٹی یا الیکشن کمیشن کو ایسی کسی بھی شکایت کو نمٹانے کا اختیار دیا جانا چاہیئے جو رکن شورٰی کی کسی بدعنوانی یا غیر اخلاقی رویے کو ریکارڈ پر لانے کے خواہشمند اس کے حلقۂ انتخاب کے کسی ممبر یا کسی دوسرے فرد کی طرف سے کی گئی ہو۔ اگر الزامات درست ثابت ہوں تو کمیٹی کو متعلقہ رکن کو نا اہل قرار دینے اور شورٰی کی نشست سے محروم کر دینے کا اختیار حاصل ہونا چاہیئے۔

(۳۸) اس کے بعد انتخابی مصارف سے متعلق نمائندگی کے قانون کے چھٹے باب کی دفعات ۴۸، ۴۹، ۵۰ اور ۵۱ کے مجموعے اور اسی قانون کی ڈپازٹ سے متعلق دفعہ ۱۳ پر سخت اعتراض کیا گیا۔ اس اعتراض کے دو پہلو تھے:

اولاً یہ استدلال کیا گیا کہ دفعہ ۴۹ کی شق ۲ کہتی ہے کہ ’’امیدوار کے سوا کوئی بھی شخص ایسے امیدواروں کے کسی انتخابی خرچ کا مجاز نہیں ہو گا‘‘۔ اس طرح لوگوں کے کسی گروپ یا سیاسی جماعت کو، جس نے آبادی کے وسیع تر مفاد میں کسی امیدوار کو کھڑا کیا ہو، کسی بھی انتخابی خرچ سے روک دیا گیا ہے۔ شریعت کے نقطۂ نگاہ سے الگ ہٹ کر دیکھا جائے تب بھی سوچ کے اس انداز سے زیادہ مکروہ اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ایک شخص اقتدار کے حصول کے لیے رقم خرچ کرے۔ آخر ایک دیانتدار اور بے غرض آدمی اس مقصد کے لیے کوئی بھی رقم کیوں خرچ کرے؟ ایک خود غرض اور عہدے کا حریص شخص ہی، اگر وہ قومی اسمبلی کی سیٹ کا بھوکا ہے تو ۵ لاکھ روپے اور اگر صوبائی اسمبلی کی نشست پر مطمئن ہے تو تین لاکھ روپے داؤ پر لگائے گا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اقتدار کی طلب رکھنے والا کوئی شخص جو کرسیٔ اقتدار کی شکل میں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے خطیر رقم خرچ کرنے پر تیار ہو، یقیناً بہت سی خودغرضانہ خواہشات رکھتا ہو گا۔ انسانیت کی خدمت اور عوام کی بہتری کے کسی احساس کے مقابلے میں لالچ اور اغراض کے جذبات اس کے دل میں کہیں زیادہ موجزن ہوں گے۔ اپنے انتخاب کے بعد اسے پہلی فکر ان نقصانات کو پورا کرنے کی ہو گی جو انتخابی مہم کے دوران اس نے برداشت کیے ہوں گے۔ یہ بات شریعت کے بالکل خلاف ہے کہ سرکاری منصب کو خدا ترسی اور اخلاص کے بجائے دولت اور وسائل کے بل پر حاصل کرنے کی چھوٹ دے دی جائے۔

(۳۹) اگر ایک امیدوار کو رائے دہندگان کے فیصلے پر پیسے کی قوت سے اثرانداز ہونے اور ان کی بیعت اور حمایت کو دولت سے خریدنے کی چھوٹ دے دی جائے تو ایک غریب آدمی، جو ہو سکتا ہے کہ خلوص اور تقوٰی کے لحاظ سے اس شخص سے ہزاروں گنا بہتر ہو لیکن اپنے حریف کے مقابلے میں ایسے مؤثر وسائل مہیا کرنے کی سکت نہ رکھتا ہو، کبھی بھی شورٰی میں پہنچ کر لوگوں کی خدمت کرنے کے اپنے جذبے اور اپنی آرزو کو پورا نہیں کر سکے گا۔

(۴۰) ہماری رائے میں دفعہ ۴۹ شریعت کے خلاف اور درج ذیل آیات و احادیث سے براہِ راست متصادم ہے:

’’اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑاؤ کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار (کی نعمتوں) کا کفران کرنے والا (یعنی ناشکرا) ہے۔‘‘ (الاسراء ۲۶ و ۲۷)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسٰی اشعریؓ سے فرمایا، خدا کی قسم! ہم اس حکومت کے منصب پر ایسے شخص کو ہرگز مقرر نہیں کریں گے جو اس کا طالب ہو اور نہ کسی ایسے شخص کو جو اس کا حریص ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب الاحکام ص ۱۰۵۸)

’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہم اپنی حکومت کے کسی کام میں ایسے شخص کو استعمال نہیں کرتے جو اس کا ارادہ رکھتا ہو۔‘‘ (صحیح مسلم ج ۳ ص ۲۳ ۔ اردو ترجمہ مطبوعہ کراچی)

’’حضرت ابوبکرؓ سے ماثور ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امارت کے بارے میں دریافت کیا تو حضورؐ نے جواب دیا، اے ابوبکر! وہ اس کے لیے نہیں ہے جو اس پر ٹوٹا پڑتا ہو، وہ اس کے لیے ہے جو اس سے بچنے کی کوشش کرے نہ کہ اس کے لیے جو اس پر جھپٹے۔ وہ اس کے لیے ہے جس سے کہا جائے کہ یہ تیرا حق ہے، نہ کہ اس کے لیے جو خود کہے کہ یہ میرا حق ہے۔‘‘ (قلقشندی صبح الاعشی ج ۱ ص ل ۲۴۰)

(۴۱) ہم یہ سفارش کرنے کی جرأت کر سکتے ہیں کہ جو امیدوار اسکریننگ کے عمل سے گزرنے کے بعد مقررہ معیارِ اہلیت کے مطابق قرار پائیں انہیں رائے دہندگان میں الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اور جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں دوسرے ذرائع سے متعارف کرایا جائے۔ ہر امیدوار کے لیے وقت مختص کیا جانا چاہیئے اور ہر امیدوار کے حامیوں اور مددگاروں کی باہمی گفتگو (پینل ڈسکشن) کے ذریعے امیدواروں کو رائے دہندگان سے متعارف کرایا جانا چاہیئے۔ ہر امیدوار کو ٹی وی سے اور جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں الیکشن کمیشن کے زیراہتمام منعقدہ عوامی اجتماعات کے ذریعے اپنے حلقۂ انتخاب کے ووٹروں سے براہ راست خطاب کا موقع فراہم کیا جانا چاہیئے۔

(۴۲) بعض پابندیوں کے ساتھ امیدوار کے حامیوں کو پوسٹروں کے ذریعے تشہیر کی اجازت بھی دی جا سکتی ہے۔ حامیوں کی جانب سے جاری کردہ پوسٹروں اور اسی نوعیت کی دیگر چیزوں میں صرف اس امیدوار کی خوبیوں اور صفات پر تبصرہ ہونا چاہیئے جسے انہوں نے اسمبلی کے لیے نامزد کیا ہو۔ اس مرحلے پر دوسرے امیدواروں کی کردار کشی کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ وہ سب بھی اسکریننگ کمیٹی کی جانب سے مطلوبہ معیار کے مطابق قرار دیے جا چکے ہوں گے۔ اگر حریف امیدوار کے دامنِ کردار پر کوئی داغ ہو تو اسے اسکریننگ کمیٹی کے سامنے ثابت کیا جانا چاہیئے، پریس میں شائع نہیں کرنا چاہیئے۔

(۴۳) عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعہ ۹۹ کی شق (اے) کی ذیلی شق (کے) کے حوالے سے ایک اور اعتراض ۔۔۔۔ دلیل دی گئی کہ شورٰی کو قوم کے بہتر عنصر پر مشتمل ہونا چاہیئے۔ اہلِ دانش اور پختہ تجربے کے حامل افراد کو معاشرے کے ایک ایک گوشے سے چن کر شورٰی میں لایا جانا چاہیئے، یہ امت کے اہل الرائے ہوتے ہیں۔ لیکن جس چیز کو خوبی اور اہلیت قرار دیا جانا چاہیئے اسے ’’عوامی نمائندگی کے قانون‘‘ کی دفعہ ۹۹ کی شق (اے) کی ذیلی شق (کے) میں یا اسی کے مماثل ’’ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے  حکم مجریہ ۱۹۷۷ء‘‘ کی دفعہ ۱۰ کی شق ۲ کی ذیلی شق ۴ میں نا اہلیت کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ یہ حصہ فوری حوالے کے لیے ذیل میں درج کیا جا رہا ہے:

’’(کے) وہ پاکستان کی، یا آئین کی رو سے تشکیل پانے والے کسی ادارے، یا کسی بھی ایسے ادارے کی جو حکومتِ پاکستان کی ملکیت یا کنٹرول میں ہو، یا جس میں حکومت کا غالب حصہ یا مفاد ہو، ملازمت میں رہا ہو۔ سوائے اس کے کہ اسے ایسی ملازمت کو چھوڑے ہوئے دو سال کا عرصہ گزر چکا ہو۔‘‘

(۴۴) استدلال کیا گیا کہ اعلٰی عدالتوں کے سابق ججوں، جامعات کے پروفیسروں اور دوسرے دیانتدار اور تجربہ کار ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کو، جو دفتر خارجہ یا بیرونی مشن میں خدمات انجام دے چکے ہوں، ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کم از کم دو سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس طرح ایسے افراد کے پاس بحیثیت رکن شورٰی اپنی صلاحیتوں اور مہارت و تجربے کے استعمال کا جو بہترین وقت ہوتا ہے اسے جبری رخصت کی نذر کر کے انہیں گھر کے اندر گوشۂ تنہائی میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے، اور دو سال کے دوران ان کی فہم و فراست کی ساری تیزی زنگ آلود ہو کر کند ہو جاتی ہے۔ ہم ایسے پختہ کار اور مہارت یافتہ افراد کو شورٰی کی رکنیت کے لیے ناموزوں قرار دیے جانے کے اس رویے میں کوئی حکمت و دانش نہیں  پاتے۔ تاہم بدقسمتی سے اس کے خلاف اپنی رائے کے اظہار سے زیادہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ آئین کی دفعہ ۶۳ کی شق (کے) میں بھی اسے نا اہلی کی ایک وجہ کی حیثیت سے شامل رکھا گیا ہے اور آئین ہماری دسترس سے باہر ہے۔

(۴۵) بیلٹ کی رازداری سے متعلق دفعات کے پورے مجموعے خصوصاً دفعہ ۸۸ اور دفعہ ۸۹ کو بھی، جو بیلٹ کی رازداری کی شرط عائد کرتی ہے، قرآن و سنت کے خلاف ہونے کی حیثیت سے چیلنج کیا گیا ہے۔ معترضین کی دلیل یہ تھی کہ کسی شخص کے لیے ووٹ دینا دراصل شہادت دینا ہے اور ایک مسلمان کو اتنا جرأتمند ہونا چاہیئے کہ وہ خوف کے بغیر اور تعلقات سے بلند ہو کر سچی گواہی دے سکے۔ اس سلسلہ میں سورہ نساء کی آیت ۱۳۵ بھی پیش کی گئی:

’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور خدا کے لیے سچی گواہی دو، خواہ اس میں تمہارا یا تمہارے ماں باپ اور رشتہ داروں کا نقصان ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو خدا ان کا خیر خواہ ہے۔ تو تم خواہشِ نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا۔ اگر تم پیچ دار شہادت دو گے یا شہادت سے بچنا چاہو گے تو جان رکھو کہ خدا تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘ (النساء ۱۳۵)

(۴۶) تاہم یہ نوٹ کیا جانا چاہیئے کہ دفعات کا یہ مجموعہ دستور کے آرٹیکل ۲۲۶ میں ظاہر کی جانے والی قانون سازی کی ضرورت کی تکمیل کے لیے ہے۔ دستور کے اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ

آرٹیکل ۲۲۶ ۔۔۔ ’’آئین کے تحت تمام انتخابات خفیہ رائے دہی سے ہوں گے۔‘‘

(۴۷) مزید یہ کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ایک حق سے استفادے کے لیے اختیار کی جانے والی ایک احتیاطی تدبیر کو خود اس حق کو ختم کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہ دفعات رائے دہی کے حق کے استعمال کے طریقے کو بیان کرتی ہیں۔ اس لیے رائے دہی کے اخفا کی دفعات برقرار رکھی جا سکتی ہیں لیکن اس حق کے استعمال کو منضبط کرنے کی شکل یا قاعدے کے ذریعے خود اس حق کو ختم کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ یعنی یہ کہ اگر ایک ووٹر غیر ارادی طور پر رازداری کے سخت قوانین کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو اسے رائے دہی سے محروم نہیں کیا جانا چاہیئے اور اس کا ووٹ غیر درست قرار نہیں دیا جانا چاہیئے۔

(۴۸) اوپر کی تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوامی نمائندگی کے قانون کی دفعات ۱۳، ۱۴، ۴۹، ۵۰ اور ۵۲ قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔ رائے دہی کی رازداری سے متعلق دفعات ۸۸ اور ۸۹ برقرار رکھی جا سکتی ہیں لیکن دفعہ ۳۸ (۴) (سی) (۱۱) جس کے تحت ایک جائز ووٹ محض اس لیے گنتی سے خارج کر دیا جاتا ہے کہ ووٹر رازداری ملحوظ نہیں رکھ سکا، قرآن و سنت سے متصادم ہے (النساء ۱۳۵)۔ ’’عوامی نمائندگی کے قانون مجریہ ۱۹۷۶ء‘‘ اور ’’ایوان ہائے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کے (انتخابی) حکم مجریہ ۱۹۷۷ء‘‘ میں، اس فیصلے کے مطابق، صدرِ پاکستان کی جانب سے ۳۱ دسمبر ۱۹۸۹ء تک ترمیم کر دی جانی چاہیئے۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۸۹ء کے بعد دفعات ۱۳، ۱۴، ۴۹، ۵۰، ۵۲ اور ۳۸ (۴) (سی) (۱۱) غیر مؤثر ہو جائیں گی۔


دستخط

جسٹس عبادت یار خان۔ چیف جسٹس گل محمد خان۔ جسٹس شجاعت علی قادری۔ جسٹس مفتخر الدین۔ جسٹس فدا محمد خان

اسلام آباد ۔ ۱۶ اکتوبر۱۹۸۹ء


نوٹ

وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلہ کو ان ریمارکس کے ساتھ عارضی طور پر معطل کر دیا ہے کہ چونکہ عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور فیصلہ کے بعض پہلو تفصیلی بحث کے متقاضی ہیں جن کا فیصلہ انتخابات سے قبل نہیں ہو سکتا، نیز عدالتِ عظمٰی انتخابات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی، اس لیے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ عارضی طور پر معطل کیا جاتا ہے۔ (مدیر الشریعہ)


پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(ستمبر ۱۹۹۰ء)

ستمبر ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۹

خلیج کا آتش فشاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علومِ حدیث کی تدوین — علماء امت کا عظیم کارنامہ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

سرمایہ داری اور اسلامی نظامِ معیشت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

انبیاءؑ کے حق میں ذنب و ضلال کا مفہوم
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

ہمارے دینی مدارس — توقعات، ذمہ داریاں اور مایوسی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

موجودہ طریقۂ انتخابات شرعی لحاظ سے اصلاح طلب ہے
ادارہ

پردہ اور بائبل
محمد عمار خان ناصر

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

جریان، احتلام اور سرعتِ انزال کے اسباب اور علاج
حکیم محمد عمران مغل

جہادِ افغانستان کے روس پر اثرات
ادارہ

عیاشانہ زندگی کے خطرناک نتائج
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سوسائٹی کی تشکیلِ نو کی ضرورت
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter