احادیث کی تعداد پر ایک اعتراض

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون میں ہم یہ بات عرض کر دیں کہ حضراتِ محدثین کرامؒ جب یہ فرماتے ہیں کہ فلاں کو دو لاکھ اور فلاں کو چھ لاکھ اور فلاں کو دس لاکھ احادیث یاد تھیں، تو اس سے ان کی کیا مراد ہے؟ کم فہم یا کج بحث آدمی تو اس کو جھوٹ یا مبالغہ ہی تصور کرے گا جیسا کہ چودھری غلام احمد صاحب پرویز نے طنزًا لکھا ہے:’’ایک صاحب بخارا سے آتے ہیں اور انہیں چھ لاکھ حدیثیں مل جاتی ہیں جن میں سے وہ قریباً سات ہزار کو اپنے مجموعہ میں داخل کر لیتے ہیں، ان کے اساتذہ میں سے امام احمد بن حنبلؒ دس لاکھ اور امام یحیٰی بن معینؒ بارہ لاکھ حدیثوں کے مالک تھے ۔۔ الخ‘‘ (مقامِ حدیث جلد دوم ص ۴۱۵)۔ دیکھیئے منکرینِ حدیث کا دورِ حاضر میں لیڈر کس طرح احادیث کا مذاق اڑا رہا ہے؟ لیکن حقیقت شناس اس سے صحیح بات ہی سمجھتا ہے اور سمجھے گا۔ ذیل کے امور کو بغور دیکھیں:

(۱) تدوینِ کتبِ حدیث سے پہلے کا کوئی حوالہ ایسا موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ لاکھ یا اس سے زیادہ حدیثیں کسی کو یاد تھیں۔ کتبِ تاریخ اور کتبِ اسماء الرجال وغیرہا میں آپ صرف یہی پائیں گے کہ تدوینِ کتبِ حدیث کے زمانہ میں یا اس کے بعد ہی لوگوں کو لاکھ یا اس سے بھی زیادہ حدیثیں یاد ہوتی تھیں۔ جن حضرات ائمہ کو لاکھ یا اس سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں مثلاً امام طیالسیؒ، امام عبدانؒ، امام ابن جعابیؒ، امام بخاریؒ، امام ابوزرعہؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ تو ان کا دور تدوینِ حدیث اور اس کے بعد کا دور تھا۔ کتبِ حدیث کی مستقل تدوین اور فقہی ابواب پر ان کی ترتیب کے دور سے قبل اس قسم کا کوئی صریح حوالہ موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ فلاں بزرگ کو لاکھ یا اس سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں، ایسے الفاظ آپ کو بعد کے ادوار کے ہی ملیں گے۔

(۲) امام حاکمؒ صاحبِ مستدرک اپنے مشہور رسالہ مدخل ص ۷ میں لکھتے ہیں کہ اعلیٰ درجہ کی صحیح اور معیاری حدیثوں کے متعلق اگر چھان بین کی جائے تو ان کی تعداد دس ہزار تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ یعنی اگر غیر مکرر صرف مرفوع احادیث کا معیاری اور صحیح اسانید کے ساتھ شمار کیا جائے تو بمشکل تقریباً دس ہزار ہوں گی۔

(۳) مشہور محدث علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ اگر صحیح حدیثوں کے ساتھ ساری بے بنیاد جھوٹی اور گھڑی ہوئی جعلی حدیثوں کو بھی جمع کر لیا جائے جو کتابوں میں مکتوب پائی جاتی ہیں تو وہ پچاس ہزار تک نہیں پہنچ سکتیں (کتاب صید الخواطر فصل ۱۷۵)

(۴) حضرات محدثینِ کرامؒ جب لفظ حدیث بولتے ہیں تو وہ اس سے مرفوع احادیث کے ساتھ حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کے موقوفات اور آثار بھی مراد لیتے ہیں۔ جیسا کہ علامہ بیہقیؒ نے اس کی تصریح کی ہے (تہذیب التہذیب ج ۷ ص ۳۳)۔ اور ہم پہلے باحوالہ یہ عرض کر آئے ہیں کہ حضرات محدثین کرامؒ کو قراءت (تاریخ) وغیرہ سے متعلق بھی روایات مع سند یاد ہوتی تھیں، ان کو بھی وہ حدیث ہی کی مد میں شامل سمجھتے تھے۔

(۵) حضرات محدثین کرامؒ کی یہ جداگانہ اصطلاح ہے کہ اگرچہ متنِ حدیث ایک ہی ہو، جب اس کی سند اور سند کا کوئی ایک راوی بھی بدل جائے تو اس کو وہ اپنی اصطلاح میں الگ اور جداگانہ حدیث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ محدث جعفر بن خاقانؒ کا بیان ہے کہ میں نے مشہور محدث امام ابراہیمؒ بن سعید الجوہری جو الحافظ اور العلامہ تھے (المتوفی ۴۴۱ھ) سے حضرت ابوبکرؓ کی ایک حدیث دریافت کی تو انہوں نے اپنی لونڈی سے فرمایا کہ جا کر حضرت ابوبکرؓ کی حدیثوں کی تئیسویں جلد نکال لاؤ۔ ابن خاقانؒ فرماتے ہیں کہ میں حیران ہو گیا کہ کیونکہ حضرت ابوبکرؓ سے بمشکل پچاس حدیثیں ہی ثابت ہیں تو انہوں نے حضرت ابوبکرؓ کی احادیث کا اتنا مجموعہ کیسے اور کہاں سے تیار کر لیا جن کی تئیس جلدیں بھی تیار کر لی گئیں۔ میں نے حضرت ابراہیمؒ سے پوچھا کہ بات کیا  ہے، حضرت ابوبکرؓ کی اتنی حدیثیں کہاں سے آگئیں جن سے آپ نے تئیس جلدیں مرتب کر لی ہیں؟ حضرت ابراہیمؒ بن سعیدؒ نے جواب دیا کہ ایک ایک حدیث جب تک سو سو طریقوں اور سندوں کے ساتھ مجھے نہیں ملتی تو میں اس حدیث کے متعلق اپنے آپ کو یتیم خیال کرتا ہوں (تذکرہ ج ۲ ص ۸۹)۔ اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ حضرات محدثین کرامؒ جب تک ایک ایک حدیث کئی کئی اسانید اور طرق سے حاصل نہ کر لیتے دم نہ لیتے تھے اور ایسی صورت میں وہ خود  کو یتیم تصور کرتے تھے۔

(۶) امام جلال الدین سیوطیؒ کے اس دعوٰی کی کہ مجھے دو لاکھ حدیثیں یاد ہیں، ایک محقق عالم نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ حضرات محدثین کرامؒ کی اصطلاح کے مطابق امام سیوطیؒ کی کتابوں میں ایک ایک حدیث اسانید کے لحاظ سے چار یا دس یا ساٹھ تک بھی پہنچ جاتی ہے (العلم المشائخ ص ۳۹۹۳)۔

(۷) علامہ ابن جوزیؒ فرماتے ہیں کہ ’’ان المراد بھذا العدد الطرق لا المتون‘‘ احادیث کی تعداد اور گنتی میں اسانید اور طرق مراد ہیں نہ کہ متونِ حدیث۔ یہ حوالہ بھی اپنے مدلول اور مفہوم کے لحاظ سے بالکل واضح ہے۔

قارئینِ کرام! ان مذکورہ بالا اصول اور قواعد کو ذہن نشین کر لینے کے بعد اس کا فیصلہ نہایت ہی سہل ہو جاتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں آپؐ سے حدیث سننے والے حضرات صحابہ کرامؓ تھے اور کوئی غیر صحابی راوی درمیان میں حائل نہیں ہوتا تھا، اس لیے احادیث کی تعداد بھی کم تھی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک سے بعد کی وجہ سے روات اور رجالِ سند کی کثرت سے تعداد بھی بڑھ گئی۔ اور اگر کہیں سند کا ایک راوی بھی بدل گیا تو تعداد کے لحاظ سے وہ حضرات محدثین کرامؒ کی اصطلاح میں الگ اور جدا حدیث بن گئی۔ اور اگر اس کے ساتھ حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے آثار موقوفات و فتاوٰی کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس میں اور توسیع ہو جاتی ہے۔

غرضیکہ جوں جوں سند طویل اور لمبی ہوتی جائے گی روات کی تعداد بڑھتی جائے گی، اور ان کی تعداد کے مطابق احادیث و آثار کی تعداد اور گنتی بھی بڑھ جائے گی۔ حتٰی کہ متنِ حدیث میں کسی لفظ کے بدل جانے، یا کسی صحابی، یا نچلے روات میں سے کسی ایک راوی کے بدل جانے سے متن کے لحاظ سے ایک ہی حدیث ہو گی مگر گنتی کے حساب سے متعدد حدیثیں بن جائیں گی۔ مثلاً اگر کسی ایک محدث کو غیر مکرر ایک ہزار حدیث یاد ہے، اور ہر حدیث کے سو اور ساٹھ طرق اور سند میں نہ سہی اوسطاً دس طرق ہی ثابت ہو، تو حضرات محدثین کرامؒ کی اصطلاح میں گویا دس ہزار حدیثیں ہیں۔ یعنی حافظہ پر تو کُل دس احادیث میں سے ایک حدیث کے یاد کرنے کا بوجھ پڑا۔ باقی نو میں کہیں متن سے صرف ایک لفظ کا، کہیں سند میں کسی ایک راوی کے یاد کرنے کا بار پڑا، اور کہنے کو یہ کہہ لیا کہ دس ہزار حدیثیں ہو گئیں۔

اور اس کے ساتھ یہ بھی نہ بھول جائیے کہ حسبِ تصریح امام سیوطیؒ اکثر احادیث (یعنی کافی مقدار میں) بالمعنی مروی ہیں (الاقتراح ص ۱۶)۔ اور یہی وجہ ہے کہ اکثر نحاۃ الفاظِ حدیث سے قواعدِ نحویہ پر استدلال کو درست نہیں سمجھتے، اور جن لوگوں نے استدلال کیا ہے ان کی تغلیط کی گئی ہے (الاقتراح ص ۱۶)۔ اس نقل بالمعنی کے اصول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اور توسیع ہو جاتی ہے کہ مثلاً کسی محدث نے اگر تشریح اور تفسیر کے طور پر ایک حدیث میں تشریحی الفاظ درج کر دیے جو اکثر آخر میں ہوتے ہیں (شرح نخبۃ الفکر ص ۶۲) تو ان کی اصطلاح میں یہ ایک الگ اور جداگانہ حدیث بن جائے گی جو تعداد اور گنتی میں الگ ہو گی۔

الحاصل جب حضرات محدثین کرامؒ کے نزدیک

  • آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و تقاریر
  • اور حضراتِ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کے موقوفات اور آثار
  • اور علمِ حدیث سے متعلق تاریخی واقعات اور شانِ نزول
  • اور علمِ تجوید و قراءت سے متعلق اقوال اور تشریحات گنتی میں داخل ہیں
  • اور سند میں صحابی اور نچلے کسی بھی راوی کے بدل جانے سے
  • نیز متنِ حدیث میں معمولی تغیر سے جب روایت بدل جاتی ہے
  • اور نقل بالمعنٰی کے پیشِ نظر جو تغیر واقع ہوتا
  • اور تشریح و تفسیر کے طور پر جو الفاظ تفہیم کے لیے بڑھا دیے جاتے ہیں
  • اور مزید برآں جعل سازوں کی بے شمار من گھڑت اور جعلی حدیثیں بھی اگر ان میں شامل کر لی جائیں (جبکہ حضرات محدثین کرامؒ ان کو اس لیے یاد کرتے تھے کہ عامۃ الناس ان پر عمل کر کے راہِ راست سے کہیں بھٹک نہ جائیں)

تو ان اصولوں کو پیش نظر رکھنے کے بعد احادیث کی کثرت پر جو خلجان واقع ہوتا ہے وہ خودبخود زائل ہو جاتا ہے۔ اور حضراتِ محدثین کرامؒ کی طرف نظر بہ ظاہر غلط بیانی یا مبالغہ آمیزی کی جو نسبت واقع ہوتی ہے کہ لاکھوں حدیثیں انہوں نے کہاں سے، کیسے اور کس طرح یاد کر لیں جب کہ نفس الامر میں اتنی حدیثیں ہیں ہی نہیں، تو وہ بالکل رفع ہو جاتی ہے۔ ایسا وہم صرف ان لوگوں کو ہی ہو سکتا ہے جو اصل حقیقت سے شناسا نہیں یا اس پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں اور محدثینؒ پر بلا بیانِ اصلیت تنقید کرتے ہیں اور گویا وہ زبانِ حال و قال سے یہ کہتے ہیں کہ

طولِ شبِ فراق کا افسانہ چھیڑیے
لیکن بیانِ زلفِ پریشان نہ کیجئے

قارئینِ کرام یہ بات بخوبی معلوم کر چکے ہیں کہ متونِ احادیث کی تعداد لاکھوں تک نہیں پہنچتی بلکہ وہ ہزاروں ہی میں منحصر ہے۔ چنانچہ جلیل القدر ائمہ حدیث میں سے حضرت امام سفیان ثوریؒ، امام شعبہؒ بن الحجاجؒ، امام یحیٰی بن سعید ن القطانؒ، امام عبد الرحمٰن بن مہدیؒ، اور امام احمد بن حنبلؒ کا متفقہ فیصلہ ہے:

ان جملۃ الاحادیث المسندۃ عن النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صحیحۃ بلا تکرار اربعۃ الآف و اربعۃ مأۃ حدیث۔ (توضیح الافکار ص ۶۲ طبع مصر الامیر الیمانیؒ)

اس حوالہ سے روز روشن کی طرح یہ بات آشکارا ہو گئی ہے کہ متونِ احادیث مرفوعہ صرف ہزاروں میں بند ہیں۔ ہاں تمام مرفوع اور موقوف آثار وغیرہ کو ملا کر اور حضراتِ محدثین کرامؒ کی اصطلاح کے موافق سند اور روات کو ملحوظ رکھ کر لاکھوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ حضراتِ صحابہ کرامؓ اور حضراتِ تابعینؒ کے زمانہ میں سند مختصر تھی اس لیے تعداد بھی کم تھی، اور فقہی ابواب پر کتبِ حدیث کی تدوین اور اس کے بعد کے دور میں چونکہ اسانید طویل ہو گئیں لہٰذا تعداد بھی زیادہ ہو گئی۔ طلبۂ علم کو یہ نکتہ ذہن سے نہیں نکالنا چاہیئے۔

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(اگست ۱۹۹۰ء)

اگست ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۸

ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمہوریت، قرآن کریم کی روشنی میں
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

احادیث کی تعداد پر ایک اعتراض
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ایک مسلم حکمران کیلئے جناب رسالتمآب ﷺ کی ہدایات
مولانا سید وصی مظہر ندوی

توریت و انجیل وغیرہ کو کیوں پڑھنا چاہیئے؟
سید ناصر الدین محمد ابو المنصورؒ

علامہ عبد اللہ یوسف علی کی تفسیرِ قرآن کا ایک مطالعہ
محمد اسلم رانا

قرآنی آیات کو مسخ کرنے کی گھناؤنی حرکت
ادارہ

شعرِ جاہلی اور خیر القرون میں ارتقائے نعت
پروفیسر غلام رسول عدیم

اختِ ہارون و بنتِ عمران حضرت مریم علیہا السلام
محمد یاسین عابد

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

امراضِ گردہ و مثانہ
حکیم محمد عمران مغل

معاشرتی زندگی کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

حکمران جماعت اور قرآنی پروگرام
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter