اگست ۱۹۹۰ء

ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘؟

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ جنگ لاہور ۲۰ جولائی ۱۹۹۰ء کی رپورٹ کے مطابق حکمران پارٹی کی سربراہ بیگم بے نظیر بھٹو نے لاہور ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے شریعت بل کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ: ’’ہم ایسا اسلام چاہتے ہیں جو واقعی اللہ کی ہدایات کے مطابق ہو۔ پوری دنیا اللہ کی ہے۔ عوام اللہ کے نمائندے ہیں۔ منتخب پارلیمنٹ اللہ کی امانت ہوتی ہے۔ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رکھیں گے۔ ہم انسانوں کے کان یا ہاتھ کاٹنے کو مناسب نہیں سمجھتے۔‘‘ قومی اسمبلی میں ’’شریعت بل‘‘ کے زیر بحث آنے سے قبل حکمران پارٹی کی سربراہ کا یہ بیان جہاں حکمران...

جمہوریت، قرآن کریم کی روشنی میں

― شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قلت و کثرت کا مسئلہ اکثر انسانی اذہان میں کھٹکتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حقیقت کو بھی واضح کر دیا ہے۔ ارشاد ہے ’’قل‘‘ اے پیغمبرؐ! آپ کہہ دیجئے ’’لا یستوی الخبیث والطیب‘‘ خبیث اور طیب چیز برابر نہیں ہو سکتی۔ یعنی یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ پاک اور ناپاک چیز یکساں نہیں۔ ’’ولو اعجبک کثرۃ الخبیث‘‘ اگرچہ خبیث کی کثرت تمہیں تعجب میں کیوں نہ ڈالے۔ اگر دنیا میں کفر، شرک، معاصی اور گندے نظام کا غلبہ ہو، دنیا میں ملوکیت اور ڈکٹیٹرشپ کا دور دورہ ہو، تو یہ نہ سمجھ لینا چاہیئے کہ یہ اچھی اور خدا کی پسندیدہ چیزیں ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کلمۂ حق...

احادیث کی تعداد پر ایک اعتراض

― شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مضمون میں ہم یہ بات عرض کر دیں کہ حضراتِ محدثین کرامؒ جب یہ فرماتے ہیں کہ فلاں کو دو لاکھ اور فلاں کو چھ لاکھ اور فلاں کو دس لاکھ احادیث یاد تھیں، تو اس سے ان کی کیا مراد ہے؟ کم فہم یا کج بحث آدمی تو اس کو جھوٹ یا مبالغہ ہی تصور کرے گا جیسا کہ چودھری غلام احمد صاحب پرویز نے طنزًا لکھا ہے ’’ایک صاحب بخارا سے آتے ہیں اور انہیں چھ لاکھ حدیثیں مل جاتی ہیں جن میں سے وہ قریباً سات ہزار کو اپنے مجموعہ میں داخل کر لیتے ہیں، ان کے اساتذہ میں سے امام احمد بن حنبلؒ دس لاکھ اور امام یحیٰی بن معینؒ بارہ لاکھ حدیثوں کے مالک تھے ۔۔ الخ...

ایک مسلم حکمران کیلئے جناب رسالتمآب ﷺ کی ہدایات

― مولانا سید وصی مظہر ندوی

حضرت عمرو ابن حزم انصاری خزرجی ان نوجوان صحابیوں میں سے ہیں جن کے جوہرِ قابل کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوعمری ہی میں بڑی اہم ذمہ داریوں پر مامور فرمایا۔ ان کی عمر ابھی ۱۷ سال تھی کہ ان کو اہم سفارتی ذمہد اریوں پر مقرر کیا گیا۔ چنانچہ نجران کے وہ عیسائی پادری جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مناظرہ کے لیے آئے تھے اور جو اپنے علم پر بڑے نازاں تھے، ان کے علاقہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو ابن حزم کو عامل (حاکم) محصل (ریونیو افسر) اور معلم (مبلغ اور مربی) کی حیثیت سے...

توریت و انجیل وغیرہ کو کیوں پڑھنا چاہیئے؟

― سید ناصر الدین محمد ابو المنصورؒ

امام محمد اسماعیلؒ بخاری نے تحریف کی تفسیر یوں کی ہے کہ تحریف کے معنی ہیں بگاڑ دینے کے اور کوئی شخص نہیں ہے جو بگاڑے اللہ کی کتابوں سے لفظ کسی کتاب کا مگر یہودی اور عیسائی خدا کی کتاب کو اس کے اصلی اور سچے معنوں سے پھیر کر تحریف کرتے تھے، انتہٰی۔ یہ قول اخیر صحیح بخاری میں ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ اپنی کتاب فوز الکبیر میں لکھتے ہیں کہ اہلِ کتاب توریت اور کتبِ مقدسہ کے ترجمہ میں (یعنی تفسیر میں) تحریف کرتے تھے نہ کہ اصل توریت میں اور یہ قول ابن عباس کا ہے، انتہٰی۔ امام فخر الدین رازیؒ اپنی تفسیر کبیر میں سورہ مائدہ آیت ۱۴ کی تفسیر کرتے ہیں کہ تحریف...

علامہ عبد اللہ یوسف علی کی تفسیرِ قرآن کا ایک مطالعہ

― محمد اسلم رانا

انگریزی میں ترجمہ و تفسیر قرآن مجید پر بہت تھوڑا کام ہوا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ پروفیسر علامہ عبد اللہ یوسف علی کے ترجمہ اور مختصر حواشی کا بڑا چرچا ہے۔ یورپی اور امریکی ممالک میں یہی تفسیر مقبول ہے۔ قریباً سبھی اشاعتی اور تبلیغی ادارے بشمولیت مسلم ورلڈ لیگ اسی کو چھاپتے اور شائع کرتے ہیں۔ اندریں حالات اس ترجمہ اور تفسیری حواشی کا مختصر سا مطالعہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ قصہ ہاروت اور ماروت کا۔ بابل کے لوگ سحر اور جادوگری کے فن میں شدید دلچسپی لیتے تھے۔ جب ان علوم کا زور حد سے بڑھ گیا اور عوام کے اذہان میں ادیانِ حق، انبیاء کرام اور اولیاء صالحین...

قرآنی آیات کو مسخ کرنے کی گھناؤنی حرکت

― ادارہ

ایک منظم سازش کے تحت جس طرح مسلمانوں کو ہدفِ ملامت بنایا جا رہا ہے اور مذہبِ اسلام میں طرح طرح کے کیڑے نکالنے کی ناپاک کوشش کی جا رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ان شر پسندوں کی یہی کوشش رہتی ہے کہ جہاں ایک طرف اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کو دور رکھا جائے وہیں دوسری طرف مسلمانوں میں مذہب اسلام سے ایک قسم کی بدظنی پیدا کی جائے اور اشتعال انگیزی پیدا کر کے اپنا الّو سیدھا کیا جائے۔ ابھی حال ہی میں پندرہ روزہ ہندی جریدہ ’’سرتیا‘‘ مئی ۱۹۹۰ء (دوئم) میں سراج الحق نے اپنے مضمون ’’سعودی عرب میں ناری کی دردشا‘‘ میں جس طرح قرآنی آیات کو توڑ مروڑ...

شعرِ جاہلی اور خیر القرون میں ارتقائے نعت

― پروفیسر غلام رسول عدیم

شعر و شاعری عرب معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت تھی۔ قبائل و احزابِ عرب شاعر قبیلے کی آنکھ کا تارا، عزتِ نفس کا پاسبان اور غیرت کا نشان تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ آج جاہلی عرب کے بارے میں جو کچھ معلومات ہمارے پاس موجود ہیں اس کا بیشتر حصہ انہی شعراء کے ملکۂ سخن کا مرہونِ منت ہے۔ بادیہ نشین عرب فطرت کے نہایت قریب تھے اس لیے ان کے اطوار و عادات میں فطری بے ساختہ پن بدرجۂ اتم موجود تھا۔ تکلف، تصنع اور مبالغہ آمیزی ان کی عادت کے خلاف تھی۔ بات میں کھرا پن ضرور مگر کھراپن لہجے کی صداقت ہوتا ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں انہیں حقیقت پسندانہ رویے کا مالک کہنا چاہیے۔...

اختِ ہارون و بنتِ عمران حضرت مریم علیہا السلام

― محمد یاسین عابد

کتبِ تاریخ عالم میں مریم نام کی دو عورتیں سب سے زیادہ مشہور ہوئیں۔ پہلی وہ جو حضرات موسٰیؑ اور ہارونؑ کی بہن تھیں۔ حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ سگے بھائی تھے اور دونوں اللہ کے سچے نبی تھے۔ آپ کے والد محترم کا نام عمران تھا، بائبل میں عمرام درج ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کی اولاد کے مقابلہ میں حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد نے زیادہ فضیلت پائی، چنانچہ بائبل مقدس میں ہے کہ ’’عمرام کے بیٹے ہارون اور موسٰی تھے اور ہارون الگ کیا گیا تاکہ وہ اور اس کے بیٹے ہمیشہ پاک ترین چیزوں کی تقدیس کیا کریں اور سدا خداوند کے آگے نجور جلائیں اور اس کی خدمت کریں...

آپ نے پوچھا

― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سوال: مرجئہ کون تھے؟ ان کے خاص خاص عقیدے کیا تھے؟ کیا یہ فرقہ اب بھی موجود ہے؟ امام ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی مرجئہ فرقہ میں سے تھے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ (چراغ الدین فاروق، کوٹ رنجیت سنگھ، شیخوپورہ)۔ جواب: عہدِ صحابہؓ کے اختتام پر رونما ہونے والے فرقوں میں سے ایک ’’مرجئہ‘‘ بھی تھا جس کے مختلف گروہوں کا ذکر امام محمد بن عبد الکریم الشہرستانی ؒ (المتوفی ۵۴۸ھ) نے اپنی معروف تصنیف ’’الملل والنحل‘‘ میں کیا ہے، اور مرجئہ کی وجہ تسمیہ ایک یہ بیان کی ہے کہ یہ لوگ ایمان کے ساتھ عمل کو ضروری نہیں سمجھتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کبیرہ...

تعارف و تبصرہ

― ادارہ

جمہوریت ایک سیاسی نظام کا نام ہے جو اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک میں رائج ہے اور جس کی حشرسامانیوں نے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے نظریاتی ملک ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کو بھی جولانگاہ بنا رکھا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ چالیس سال کے دوران جمہوریت اور مارشل لاء کی عملی کشمکش اور اسلام، سوشلزم اور جمہوریت کی فکری آویزش نے ذہنی انتشار اور سیاسی انارکی کا جو اکھاڑہ قائم کر دیا ہے اس کے ہاتھوں ہماری مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی اقدار و روایات ملیامیٹ ہو کر رہ گئی ہیں اور ہوسِ زر و اقتدار نے اس افراتفری اور نفسانفسی میں اپنے اقتدار کا خوب سکہ جما...

امراضِ گردہ و مثانہ

― حکیم محمد عمران مغل

ہمارا جسم پانی سے لبریز ہے جس میں کیمیائے حیات کے سبب آلودگی ہوتی رہتی ہے۔ غذا کی تلچھٹ اور خون میں تقریباً چودہ سے زائد نمکیات یا اجزا ہر وقت شامل رہتے ہیں۔ اس تلچھٹ اور نمکیات کی زیادتی کو خون سے جدا کر کے براستہ پیشاب خارج کرنا گردوں کا کام ہے، اس لیے انہیں جسم کی چھلنی بھی کہا جاتا ہے۔ گردے دو چھوٹے چھوٹے اعضاء ہیں جو کمر سے نیچے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں جانب قدرت نے آویزاں کیے ہیں۔ حجم اور قامت میں انڈے سے بڑے تقریباً ساڑھے چار انچ لوبیا کی...

معاشرتی زندگی کے آداب

― حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

انسان کا مدنی الطبع ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی عنایتِ ازلیہ کا کرشمہ ہے۔ اجتماعی زندگی کے بغیر اور ابنائے نوع کے تعاون سے بے نیاز ہو کر وہ اپنی زندگی کی تدبیر، تعمیر اور تحسین نہیں کر سکتا۔ معاشرتی زندگی ایسے آداب کے بغیر بسر ہو نہیں سکتی جو افراد کے آپس میں محبت، تعاون اور تناصر کا رشتہ پیدا کریں اور پھر اس رشتہ کو برقرار اور استوار بھی رکھیں۔ اگر ان پر برے عوامل اثر انداز ہو کر ان میں فساد پیدا کریں تو ان عوامل کا استیصال کرنا چاہیئے اور ایک بار پھر نفرت و دشمنی کی بجائے باہمی الفت و محبت کی طرف لوٹنے کی تدبیر کرنا...

حکمران جماعت اور قرآنی پروگرام

― حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

قانون کی پابندی کا انتظام ایک جماعت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے اور وہ حکومت کرنے والی جماعت ہی ہو سکتی ہے۔ قانون کا انتظام کرنے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ امانت دار ہو اور اپنا فرض ادا کرنے والی ہو۔ صحیح طور پر قانون کی پابندی کرنے والی جماعت کا سب سے پہلا کام یہ ہو گا کہ وہ قانون کی تعلیم عام لوگوں کو اسی طرح دینا شروع کرے جیسے باپ اپنی اولاد کو پڑھاتا ہے۔ پھر قانون کی مخالفت کرنے والوں کو سزا دینا بھی انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ وہ مخالف جماعتیں یا تو اس پارٹی کے اندر شامل ہوں گی یا باہر۔ جو اندر ہوں گی انہیں قانون توڑنے کی سزا دینے کا نام تعزیر...

اگست ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۸

ایک اور ’’دینِ الٰہی‘‘؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جمہوریت، قرآن کریم کی روشنی میں
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

احادیث کی تعداد پر ایک اعتراض
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

ایک مسلم حکمران کیلئے جناب رسالتمآب ﷺ کی ہدایات
مولانا سید وصی مظہر ندوی

توریت و انجیل وغیرہ کو کیوں پڑھنا چاہیئے؟
سید ناصر الدین محمد ابو المنصورؒ

علامہ عبد اللہ یوسف علی کی تفسیرِ قرآن کا ایک مطالعہ
محمد اسلم رانا

قرآنی آیات کو مسخ کرنے کی گھناؤنی حرکت
ادارہ

شعرِ جاہلی اور خیر القرون میں ارتقائے نعت
پروفیسر غلام رسول عدیم

اختِ ہارون و بنتِ عمران حضرت مریم علیہا السلام
محمد یاسین عابد

آپ نے پوچھا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

امراضِ گردہ و مثانہ
حکیم محمد عمران مغل

معاشرتی زندگی کے آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

حکمران جماعت اور قرآنی پروگرام
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter