انسان کا مدنی الطبع ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی عنایتِ ازلیہ کا کرشمہ ہے۔ اجتماعی زندگی کے بغیر اور ابنائے نوع کے تعاون سے بے نیاز ہو کر وہ اپنی زندگی کی تدبیر، تعمیر اور تحسین نہیں کر سکتا۔
معاشرتی زندگی ایسے آداب کے بغیر بسر ہو نہیں سکتی جو افراد کے آپس میں محبت، تعاون اور تناصر کا رشتہ پیدا کریں اور پھر اس رشتہ کو برقرار اور استوار بھی رکھیں۔ اگر ان پر برے عوامل اثر انداز ہو کر ان میں فساد پیدا کریں تو ان عوامل کا استیصال کرنا چاہیئے اور ایک بار پھر نفرت و دشمنی کی بجائے باہمی الفت و محبت کی طرف لوٹنے کی تدبیر کرنا چاہیئے۔ اس لیے کہ باہم میل جول کے مفید نتائج تب ہی ہاتھ آتے ہیں جب آپس میں محبت اور الفت کا رشتہ قائم ہو۔
معاشرتی زندگی میں انسان کا جن لوگوں سے زیادہ قریبی تعلق رہتا ہے وہ اس کے ذوی الارحام (قریبی رشتہ دار)، پڑوسی اور دیگر دوست، آشنا اور متعلقین ہوتے ہیں۔ مثلاً ہم درس، ہم پیشہ اور ایک ہی حلقۂ خدمت و ارادت کے ہم نشین وغیرہ وغیرہ۔ ان کو چاہیئے کہ
- آپس میں ملاقات کا سلسلہ جاری رکھیں،
- مناسب موقعوں پر ایک دوسرے کو ہدیہ اور پیشکش دیا کریں،
- ایک دوسرے سے دوری کے وقت خط و کتابت کے ذریعے حال و احوال معلوم کیا کریں،
- امورِ معاش میں ایک دوسرے کی حتی المقدور اعانت و امداد کریں،
- مصیبت کے وقت ہمدردی سے دریغ نہ کریں،
- گفتگو میں خوش طبعی اور شیریں زبانی کو ملحوظ رکھیں،
- اور تکالیف و شدائد میں ایک دوسرے کی غم گساری کریں۔
انہی باتوں سے الت بڑھتی اور محبت زیادہ ہوتی ہے اور انہی پر عمران و تمدن کی بقاء کا دارومدار ہے۔
(البدور البازغۃ مترجم ص ۱۴۶)